عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 106
ہمارا ادھورا فسانہ
غزل غزل، کراچی، پاکستان
یہ جو سہیلیاں اور محلے والیاں ھماری قسمت پر رشک کیا کرتی ہیں ناں اور جل جل کر، بھُن بھُن کر راکھ ہوئی جاتی ہیں اللہ ان کو غارت کرے اور ہمیں ان کی نظر بد سے بچائے آپ کہیں گے کہ ایسا کیوں ؟؟ تو صاحب ہر ‘کیوں’ کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوتی ہے ناں تو ہم اس کیوں کی وجہ بھی آپ کو بتاۓ دیتے ہیں۔ وجہ ذرا انہونی سی ہے لیکن اگر کسی کو اس پر یقین نہ آئے تو بھائی وہ دو روٹی اگلی کھائے۔
ہوا یوں کہ ہم نے جیسے ہی سولہویں میں قدم رکھا ہماری تو واہ واہ ھو گئی اللہ جانے؟ خاندان میں تو کوئی ایسا حسین نہ تھا لیکن سنا تھا کہ دادی بے حد حسین تھیں مگر اماں کو وہ ہمیشہ ڈائن اور چڑیل نظر آئیں تو دادی کے بارے میں ہمارا امپریشن بھی بس سو سو تھا مگر ہمیں تو لوگ باگ پیٹھ پیچھے اور منہ پر بھی کہتے تھے کہ یہ تو اپنی دادی سے بھی زیادہ حسین نکلی۔۔۔۔۔ سو اس حسن اور خوبصورتی کے ڈنکے بجنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے بڑے اونچے اور خوشحال گھرانوں سے رشتے آئے جن میں ایک رشتہ ایسا تھا جو اپنی دولت و حشمت کے باعث ہمارے گھر والوں کے دل کو ایسا بھایا کہ ہم شادی ہو کر پیا دیس سدھارے۔
سہاگ رات کو ہی اپنے سیّاں جی کی کافی خوبیاں ہم پر کھلیں۔ پتہ چلا کہ حضرت کافی شوقین مزاج واقع ہوئے ہیں۔ ہم سے شادی کی وجہ بھی ہمارا حسن تھی اور حسن ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور مزید یہ کہ ہم ان پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی لگانے کی کبھی غلطی نہ کریں ایک رٹٌو طوطے کی طرح ہم نے اس سبق کو رٹ لیا۔ ہماری خوبصورتی کو بھی انہوں نے کافی سراہا لیکن منہ کا مزہ خراب ہونے سے جیسے چائے کا مزہ نہ آئے بالکل ان کا سراہا جانا ایسا ہی لگا ہمیں کیونکہ موصوف پیسے والے تھے تو خاصے بے وفا بھی ثابت ہو سکتے ہیں یہ کھٹکا اور بھی ہمارے دل کو کھا گیا۔ اس انڈا بٹا سنّاٹے میں بس رومانس کی بجائے فرض نبھائے گئے۔
شروع کے کچھ دن گھومنے اور عیش کرنے میں گزرے۔ گھر میں دو ہی تو جنے تھے ایک وہ ایک ہم اور ہاں تیسرا ان کا کتا جس سے وہ بہت پیار کرتے تھے بقول ان کے اگر موتی انسان ھوتا تو وہ شادی اور عشق اسی سے فرماتے اور ہم سر پر ہاتھ رکھ کر سوچتے کہ موئے موتی تو انسان کیوں نہ ہوا ہماری بچت ہی ہو جاتی۔ ایک دن ہمیں اپنے بھائی کے گھر جانا تھا حضرت نے صاف منع کردیا کہ میرا اتوار کا قیمتی دن تمہارے میکے والوں کے لیے نہیں ہے سارا ضایع کر دینا چاہتی ہو؟ ہم نے منہ بسورا مگر اب ہمارے حسن کا نشہ کچھ پھیکا پڑ چکا تھا تو ان پر کچھ خاص فرق نہ پڑا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے سودے سلف کی لسٹ ان کو پکڑائی اور کہا کہ آپ ذرا بازار کا چکر لگا لیں، سامان بھی لے آئیں اور موتی کی سیر بھی ہو جائے گی تب تک ہم اپنے بھائی کو مل آتے ہیں۔ انہوں نے قہر آلود نظروں سے ہمیں گھورا مگر موتی کی سیر کی وجہ سے راضی ہو گئے۔
انہوں نے اخبار رکھا، منہ کا سگار بجھایا، موتی کو پچکارا اور موتی نے وفاداری اور محبت سے دم ہلائی، گلے کا مفلر ٹھیک کرتے ہوئے وہ اور موتی بازار کی طرف روانہ ہوئے اور ہم اپنے بھیا کے گھر سدھارے۔ سڑک کراس کرتے ہوئے دونوں کو کسی گاڑی نے جو ٹکر ماری تو دونوں بے ہوش ہو کر دور جا گرے۔ انہی دنوں ڈاکٹروں نے رضاکارانہ طور پر ایک موبائل سروس شروع کی تھی جس میں تمام طبی امداد ھوتی تھی اور ہر قسم کے ڈاکٹر بھی موجود ہوتے تھے۔ کسی نے اس سروس کو طلب کر لیا اور وہیں کے وہیں میڈیکل ٹریٹمنٹ شروع ہو گیا، کمپاونڈر کو کہا گیا کہ موتی کو اور ہمارے میاں کو ڈرپ لگا دی جاۓ کیونکہ خون بہنے سے ریڈ سیل کم ہو گئے ہیں تو کتے کو کتے والی اور انسان کو انسان والی ٹریٹمنٹ دی جائے۔ کمپاونڈر زیادہ تجربہ کار نہیں تھا اس نے ہمارے میاں کو کتے والی اور موتی کتے کو انسان والی ڈرپ لگادی وہ دونوں ہوش میں بھی آ گئے اور ایک ٹیکسی میں گھر پہنچ گئے۔
ادھر ہم ساری صورتحال سے بے خبر اپنے بھیّا کے گھر سے جو لوٹے تو کیا دیکھتے ہیں کہ موتی سگار منہ میں دبائے گلے میں مفلر لپیٹے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اخبار پڑھ رہا ھے اور ہمارے میاں اس کے قدموں میں لوٹ رہے ہیں حیرت کے مارے ہمارا تو سانس قابو میں ہی نہ آتا تھا ہر طرح سے سمجھایا۔ غصہ دکھایا۔ پیار بھی جتایا مگر ہمارے میاں کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ رات کو موتی ہمارے کمبل میں اور ہمارے میاں دروازے پر سوتے۔
تنگ آ کر ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اصل صورتحال پتہ لگی۔ موتی دن رات مالک بنا رہتا، ٹیبل پر کھانا کھاتا، اخبار پڑھتا، وقت بے وقت چائے کی فرمائش کرتا اور سب سے کٹھن وقت وہ ہوتا جب وہ ہم سے رومانس کرنے کی کوشش کرتا۔ ہمارے میاں کتے کے برتن میں کھانا کھاتے اور دن رات بھونکتے۔ رفتہ رفتہ ہمیں اس تمام روٹین کی عادت سی ہو گئی اس میں ہمیں فائدہ نظر آنے لگا مگر ایک نقصان دہ بات یہ تھی کہ ہمارا ملنا جلنا، باہر آنا جانا قریب قریب ختم ہی ہو گیا۔ ہم نے یہ نوٹ کیا کہ موتی انتہائی وفادار خاوند ثابت ہو رہا ہے۔ نہ تو وہ پڑوسنوں سے اچھا اخلاق دکھاتا، نہ راستہ چلتے کسی لڑکی کو دیکھ کر دو قدم پیچھے ہوتا اور نہ ہی فون پر ہماری سہیلیوں سے ہنسی مزاق اور گپیں مارتا۔ یہ ساری باتیں ہمارے دل میں موتی کے لیے جگہ بناتی چلی گئیں۔
ایک دن ہمارے بہت قریبی عزیزوں میں شادی تھی۔ جانا ضروری تھا۔ ہم نے اب کے سے موتی کو ساری ہدایات دیں کیونکہ شوہر کا رول تو وہ ہی پہلے کر رہا تھا۔ اپنے میاں کے گلے کی زنجیر اچھی طرح چیک کی اور شادی میں چلے گئے۔ اب ہوا یوں کہ موتی کو باہر سیر کرنے کی خواہش محسوس ہوئی اس نے ہمارے میاں کی زنجیر پکڑی، اپنا گلے کا مفلر درست کیا منہ کا سگار بجھایا اور دونوں سڑک کے کنارے کنارے سیر کو جا نکلے۔ ایک بار پھر گاڑی کی ٹکر، دونوں بے ہوش اور رضاکار ٹیم حاضر لیکن اب کے سے جو ڈرپ چڑھی وہ کتے کو کتے کی اور انسان کو انسان کی تھی۔ جب ہم شادی سے لوٹے تو حیرت اور خوشی سے ہماری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہمارے میاں ڈائینگ ٹیبل پر موجود سگار منہ میں دبائے اخبار میں گم اور موتی ان کے قدموں میں لوٹیں لگا رہا تھا، دم ہلا رھا تھا۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر! ہم نے آنکھوں میں آنسو بھر کر اپنے میاں کی طرف دیکھا انہوں نے حسب معمول ہمیں کوئی لفٹ ہی نہ دی۔ خیر جب ہم صبح کو اٹٌھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت چھت پر کھڑے برابر والی ماسی کی کمر کے زیر و بم ملاحضہ فرما رہے تھے اور ماسی بد بخت کو تو جیسے کسی انڈین فلم میں کام مل گیا تھا اور وہ لچک لچک کر، مٹک مٹک کر کام تمام کئے جاتی تھی اپنا بھی اور ان کا بھی۔ شام کو کسی رانگ نمبر پر گھنٹوں باتیں بھی ہوئیں اور تو اور ڈھیروں پرفیوم انڈیل کر رات کو واپس نہ آنے کا عندیہ دے کر ہمارے میاں ہماری سات پشتوں پر احسان کرکے یہ جا وہ جا۔
پھر ہم نے اپنی آنکھوں میں جمے آنسو پونچھے اپنے دل کو مضبوط کیا اور بغیر وقت ضائع کئے ڈاکٹر کی موبائل سروس کو دوسرے دن بلا بھیجا تاکہ وہ چار گنا پیسے لے کر ہمارے میاں کو کتے کی اور کتے کو انسان کی ڈرپ لگا دے۔