عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 7
ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
امین صدرالدین بھایانی
اٹلانٹا، جارجیا، امریکا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔”جانتے ہوں ناصر۔ ۔ ۔، غریب آدمی کیسے خوشیوں کو تلاشتا ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔! جیسے کسی بھرے میلے میں ایک ننھا بچہ اپنی کھوئی ماں کو تلاش کر رہا ہو۔ ۔ ۔ ۔ !!!”۔
۔”آزر۔ ۔ ۔ ۔! آزر۔ ۔ ۔ ۔! آزر۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!، بالکل مزا نہیں آ رہا۔ تم اپنی ڈائیلاگ ڈیلیوری میں کچھ اور جان ڈالو۔ فلمبینوں کو تمھاری آواز میں محرومی سنائی دینی چاہیئے۔ اُنہیں تمھاری آواز میں وہ شکوہ سنائی دینا چاہیئے جو وہ خُود اِس دنیا، اِس زمانے سے کرنا تو چاہتے ہیں۔ لیکن چاہتے ہوئے بھی کر نہیں پاتے۔ آزر تمھارا یہ ڈائیلاگ اِس طرح سے سنیما ہال میں گونجنا چاہیئے کہ اِس کی گونج اُنہیں اپنے بے آواز شکووں کا مداوا محسوس ہونے لگے”۔ میں نے آزر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
آزر نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا۔ “ادیب الحسن صاحب، ویسے بھی پانچ بج چکے ہیں، اگر اجارت ہو تو اب چلوں گا۔ ریہرسل کا سلسلہ کل یہیں سے دوبارہ شروع کریں گے”۔
یہ ستر کی دھائی کے اواخر کے اُن دنوں کی بات ہے جب پاکستانی فلمی صعنت گاہے بہ گاہے اپنے زندہ ہونے کے ثبوت فراہم کرتی رہتی تھی۔ ایسے میں ایک روز فلمی صعنت کے ایک بہت ہی بلند پایہ اور نامور ہدایتکار پرویز السلام فاضل نے مجھ سے کراچی میں فون پر رابطہ کر کے اپنی نئی فلم کا اسکرپٹ لکھنے کی استدعا کی۔ پہلے تو میں نے دو ٹوک لہجے میں یہ کہہ کر صاف انکار ہی کردیا۔ “میں ٹہرا خالص ادبی نوعیت کا ادیب۔ یہ سچ ہے کہ میرے لکھے افسانے اور ناول اِس وقت شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں۔ لیکن میں نے آج تک فلم تو کیا کبھی ٹی وی ڈرامے کا اسکرپٹ بھی نہیں لکھا اور نا ہی لکھنے کی کوئی خواہش ہی ہے”۔ اتنا کہہ کر میں نے فون پٹخ دیا۔
اُس وقت تک مجھے ادبی دنیا میں وارد ہوئے کچھ دس بارہ برس کا عرصہ ہی گزرا تھا اور خوش نصیبی سے میرے متعدد افسانوں کے مجموعے اور ناول شائع ہو کر فروخت کے ریکارڈ قائم کرچکے تھے۔ اب اِس کا کچھ نا کچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔ لہٰذا میں کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتا تھا۔
لیکن صاحب، پرویز السلام فاضل بھی اپنی دھن کا پکا آدمی تھا۔ مسلسل فون پر فون کرتا رہا۔ جب میں نے ہار نا مانی تو ایک روز لاہور سے پہلی فلائٹ پکڑ کر کراچی پہنچا اور سیدھا میرے گھر آن دھمکا۔ اب گھر آئے دشمن کی بھی عزت و تکریم لازم ہے اور وہ تو پرویز السلام فاضل تھا۔ اُس وقت کی پاکستانی فلمی صعنت کا سب سے کامیاب اور سنیئر ترین ہدایتکار۔ جہاں اُس کے کریڈٹ پر بےشمار کامیاب ترین فلمیں تھیں وہیں لوگ اُسے اپنے فن میں یکتا و پختہ مانتے تھے۔ اُس کا شمار فلمی صعنت کے اُن معدودے چند ہدایتکاران میں ہوتا تھا جو کہ تعیلم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تکنیکی شبعے کی بھی کماحقہ سُوج بُوجھ رکھتے تھے۔ بعدازاں مجھے اُس کی ہی زبانی پتہ چلا کہ وہ قیامِ پاکستان سے دو تین سال قبل ہی کلکتہ کی فلمی صعنت کے ایک کہنہ مشق فلم ایڈیڑ سے فلم ایڈٹنگ، پھر ایک پرانے اور نامور سنیماٹوگرافر سے فلمی عکاسی کے اسرار و رمُوز سیکھ کر بنگالی فلموں کے ایک بڑے ہدایتکار روبن پارتو کو اسسٹ بھی کرنے لگا تھا۔ تقسیم کے بعد اپنے خاندان کے بڑوں کے اصرار پر پاکستان آ گیا اور 1960ء میں اُس نے اپنی پہلی فلم “پیاس” کی خود مختارانہ ہدایت دی۔ اُس دن کے بعد سے کامیابی مسلسل اُس کے قدم چُوم رہی تھی۔
اب وہی پرویز السلام فاضل میرے سامنے بیٹھا تھا۔
چھوٹے چھوٹے نیلے خانوں والی انتہائی نفیس سی سفید بُو شرٹ، جس کا دامن اعلیٰ تراش کی گہری نیلی پتلون سے باہر، گلے میں گہرا سرخ مفلر اور پیروں میں سیاہ چمکدار جوتے۔ دبلے پتلے سے جسم پر اُسی مناست کا سر اور ہلکے سے تیل لگے بالوں میں بائیں ہاتھ کی جانب سے نکالی گئی مانگ۔ نفاست سے قدرے چھوٹے کٹے انتہائی سلیقے سے سنوارے گئے سیاہ بال جن میں کہیں کہیں جھلکتے سفید تار۔ تنگ پیشانی، صاف رنگت والے کلین شیو چہرے پر سنجیدگی اور متانت ۔ آنکھوں پر لگے موٹے شیشوں والے چوکور چشموں سے جھانکتی ہوئی بڑی بڑی مگر گہریں اور ذہین آنکھیں۔ ستواں ناک۔ اُن کے عین نیچے پتلے پتلے ہونٹ جو غالباً کثرتِ سگریٹ نوشی کے سبب گہرے سانولے ہو رہے تھے۔ چھوٹی سی گول ٹھوری جس میں باتیں کرتے وقت ہلکا سا گڑھا پڑتا تھا۔
۔”دیکھیں ادیب الحسن صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، آپ جیسے دانشور لوگ ہی پھر شور مچاتے ہیں کہ پاکستانی فلموں میں شامل کہانیوں کا کوئی ادبی معیار نہیں ہوتا۔ میں نے اِس بار عزم ِمصمم کیا ہے کہ میں اپنی اگلی فلم کے لیئے ایک ایسی اچھوتی کہانی لکھواؤں گا جو نا صرف ادب کے معیار پر بھی پوری اترے اور اسے دیکھ کر فلمبینوں کی شعوری و لاشعوری دونوں طرح سے اصلاح بھی ہو”۔
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا اور اپنی انگلیوں میں دبے سگریٹ کو اُس نے انگوٹھے اور شہادت کے عین بعد والی انگلیوں سے پکڑ لیا اور جلتے ہوئے سِرے پر جمع ہوئی ہلکی باریک سی راکھ کو شہادت کی انگلی سے دھیرے دھیرے کریدنے لگا۔ شاید یہ اُس کی مستقل عادت تھی کیونکہ اُس انگلی کے سرے پر خال کی رنگت بقیہ حصے کی نسبت قدرے سیاہ ہو رہی تھی۔
پہلے تو میں کافی دیر تک اپنے سرد و تلخ لہجے سے کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح سے اُسے ٹال دوں۔ اُسے آئے ہوئے اب کچھ آدھ گھنٹہ ہو چلا تھا لیکن میں نے مروتاً بھی چائے یا پانی تک کو نہیں پُوچھا۔
۔”اچھا ایسا کرتے ہیں کہ میرے کئی ادیب دوست ایسے بھی ہیں جو بڑے اچھے قلمکار ہیں۔ میرے کہنے پر وہ خوشی خوشی آپ کی فلم کا اسکرپٹ لکھنے پر راضی ہوجائیں گے”۔ میں نے تنگ آ کر بلا اپنے سر سے اتارنا چاہی۔
میری بات سن کر پرویز السلام فاضل بولا تو کچھ بھی نہیں البتہ ایک بڑی ہی معنی خیز سی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر مچلی اور ساتھ ساتھ انکھیں بھی چمک اُٹھیں۔
گو کہ میں اُس گہری مسکراہٹ کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ رہا تھا، پھر بھی انجان بنتے ہوئے اندھیرے میں تیر چلایا۔ “تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کو میری تجویز پسند آئی”۔
پرویز السلام فاضل نے بڑے ہی اطمینان کے ساتھ دھیرے مگر انہتائی پختہ لہجے میں وہی جواب دیا جس کی میں توقع کر رہا تھا۔ “ادیب الحسن صاحب، اگر کسی اور سے ہی کہانی لکھوانا ہوتی تو میں لاہور سے چل کر یہاں کراچی آتا ہی کیوں؟ وہیں لاہور ہی میں یہ کام کرسکتا تھا۔ انگنت ادبی پائے کے مصنفین ایک اشارہِ ابرو کے منتظر ہیں کہ میں ان سے کب کہوں اور وہ کب میرے لیئے اسکرپٹ لکھیں”۔
اتنا کہہ کر اُس نے اپنی انگلیوں میں دبا سگریٹ ایش ٹرے میں مسلسل دیا۔ پھر بڑی ہی آہستگی اور نفاست کے ساتھ دونوں ہاتھوں کو دھیرے دھیرے جھاڑتا ہوا میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ “اگر میری فلم کی کہانی کسی نے لکھنی ہے تو وہ آپ ہی لکھیں گے ورنہ میں فلم ہی نہیں بناوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!”۔
۔”لیکن کیا آپ جانتے بھی ہیں کہ میرے تمام تر افسانے، کہانیوں اور ناولوں کے مضوعات عموماً انسانی نفسیات، شعور و لاشعور کی الجھی گھتیوں کو سلجھاتے اور ماضی میں پیوستہ اُن کی جڑوں کی تلاش کے اردگرد گھومتے ہیں۔ آپ کے لیئے انہین فلمانا کچھ نا ممکن سا ہی ہوگا”۔ میں نے اپنے چہرے پر ایک گہری طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔
۔”جی ہاں مجھے بخوبی اندازہ ہے۔ میں نے گذشتہ دس برس کے دوران شائع ہونے والے آپ کے سارے ناول اور افسانوں کے مجموعے پڑھ رکھے ہیں”۔ پرویز السلام فاضل کا یہ جواب میرے لیئے ایک اور نیاء دھچکا تھا۔
۔”اور پھر میں آپ کی انڈسٹری میں بنے والی فلموں کی طرح سے رواتی پیار و محبت، مار دھاڑ، کشت و خُون سے لبریز گنڈٰاسوں والی کہانیاں نہیں لکھ سکتا”۔ میں نے مذید جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
۔”آپ بے فکر رہیں میرا آپ سے اس قسم کی کہانی لکھوانے کا قطعاْ کوئی ارادہ بھی نہیں”۔
میں نے ایک نیاء پینترا بدلا۔ “دیکھیں، میں فری لانس کام کرنے کا عادی ہوں۔ کبھی کسی کے لیئے اور کسی کے کہنے پر آج تک کوئی تحریر نہیں لکھی۔ اپنی اسٹڈی میں دنوں اور مہینوں بند ہو کر جو کچھ لکھتا ہوں اُس کا مسودہ پبلیشر خُود میرے گھر سے پیشگی معاوضہ دیکر لے جاتا ہے اور ہر چھے ماہ میں میری سابقہ کتب کی رائیلٹی کا چیک مجھے بذریعہ ڈاک مل جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔ اور تو اور میں شہر میں منعقدہ سو کالڈ ادبی محافل اور نشستوں میں بھی شرکت نہیں کرتا۔ ویسے بھی میرے بارے میں ادبی حلقوں میں کچھ اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ ادبی لوگ مجھے منہ پھٹ، جھکی، بد مزاج اور شارٹ ٹیمپرڈ کہہ کر پکارتے ہیں۔ مجھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدید غصہ آ جاتا ہے اور میں اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہوں۔ معمولی معمولی سی باتوں پر ہتھے سے اکھڑ جاتا ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ میرے ساتھ کام کر سکیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، اب میں مذید اور کچھ نہیں کہنا چاہتا، بہتر ہوگا کہ اب آپ تشریف لے جائیں۔ ۔ ۔ ۔ !!!”۔ میں نے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ثبت کر کے اپنے ہاتھ جھٹک کر اُسے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
۔”اور آپ میرے بارے میں نہیں جانتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!”۔ پرویز السلام فاضل ایک مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ بڑے ہی پرُسکون لہجے میں بولا۔ “میرے بارے میں ساری فلمی صعنت میں یہ مشہور ہے کہ مجھے اپنے تیس سالہ کیریئر میں کبھی ایک بار بھی غصہ نہیں آیا۔ میرے خیال میں فلمی صعنت کا وہ واحد ہدایتکار ہوں جس کے ساتھ آپ باآسانی کام کرسکتے ہیں”۔
میری جنجھلاہٹ بڑھتی جارہی تھی۔ میں تھا کہ اُس سے جان چُھڑانے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ تھا کہ ہار مان کے نہیں دے رہا تھا۔ ویسے میں نے اپنے بارے میں کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں کہا تھا۔
میرا گذشتہ دس بارہ سالوں پر محیط ادبی سفر کوئی بہت ذیادہ پُرپیچ نہیں تھا۔ دورانِ تعلیم ہی میں نے ملک کے بہت ہی بڑے اور نامور ادبی جریدے میں افسانہ نگاری کا آغاز کر دیا۔ خوُش قسمتی سے میرے اولین افسانے کے ساتھ ہی مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا۔ جریدے کے ہر ماہ شائع ہونے والے شمارے میں میرے افسانے کی شمولیت ایک لازمی امر ٹھری۔ یہ سلسلہ یونہی دو تین سالوں تک چلتا رہا۔ پھر ایک روز جریدے کے مدیر ریاض جیپوری صاحب نے مجھ سے گذشتہ دو تین برسوں کے دوران شائع شدہ افسانوں میں سے منتخب افسانوں کا مجموعہ اپنے ادارے کے تحت شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ بھلا مجھے کیا اعتراض ہوسکتا تھا اور جب کتاب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ بہت ذیادہ نا سہی کچھ تھوڑا بہت معاوضہ بھی ہاتھ آرہا ہو تو پھر انکار کی گنجائش ہی کہاں رہتی تھی۔ میری خوش نصیبی رہی کہ جہاں میرا پہلا ہی مجموعہ اچھی تعدار میں فروخت ہوا وہیں اُسے ناقدین کی جانب سے بھی سراہا گیا۔ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے جیپوری صاحب نے میرے بقیہ افسانوں کو بھی ایک اور مجموعے کی صُورت میں شائع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ مجموعہ تو اُن کے ادارے سے شائع شدہ دیگر تمام کتب کی فروخت کے سابقہ ریکارڈ توڑ گیا۔ ان دو کامیاب مجموعوں نے ادبی دنیا میں میرے قدم جما دیئے اور ملک کے نامور ترین اشاعتی ادارے مجھ سے رابطہ کرنے لگے ۔ اگلے چھ ماہ میں ہی میرا اولین ناول “پیاس کا سمندر” کامیابی کی نئی داستان رقم کر رہا تھا اور پھر یکے بعد دیگرے ایسی متعدد داستانیں رقم ہوتی چلی گئیں۔ میری شہرت میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ میرے افسانوں اور ناولوں کی خاص بات اس کے مرکزی کردار تھے جو کہ عموماً بے حد زندہ دل، زندگی کی جانب مثبت سوچ و عمل کے حامل اور سب سے بڑھ کر گفتار و کردار کے غازی۔ ان کرداروں نے قارئین پر میری تصانیف کے ساتھ ساتھ میری شخصیت کے حوالے سے بھی ایک مثبت تاثر قائم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
خُود سر تو میں پہلے ہی سے تھا۔ ان کامیابیوں نے مجھے خُود پسند بھی بنا دیا۔
میرا اپنے بارے میں یہ خیال پختہ ہو چلا تھا کہ بھلا مجھ سے بہتر انسانی نفسیات و فطرت، کشمکشِ قلب و خرد، شعور و لاشعور کی پیچیدہ گتھیوں، اسرار و رموزِ حیات و موت اور کون جان اور سمجھ سکتا ہے۔ میرے ذہن نے اپنے سواء دیگر تمام لوگوں کو حقیر، سوچ و سمجھ اور عقل و خرد سے عاری ایک مخلوق قرار دے دیا تھا۔
ویسے بھی شروع ہی سے میں کچھ گوشہ نشین طبیعت کا حامل تو تھا ہی، اب اُن پے در پے کامیابیوں کے بعد حاصل ہونے والے گرانقدر ادبی منصوبوں کی تکیمل کے لیئے کل وقتی ادیب کی حیثت سے اپنی اسٹڈی میں قلم اور کاغذ سے اپنا ایک اٹوٹ رشتہ استوار کرلیا۔ باالفاظِ دیگر یوں کہہ لیں کہ میری اسٹڈی میرے لیئے ایک کمفرٹ زون یا گوشہِ عافیت بن گئی تھی۔
تو یہ تھی اُس دور میں میری شخصیت کی کچھ جھلکیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ اُس وقت تک میں نے جو کچھ بھی کیا تھا اپنی زات کے خُول میں مقید ہو کر ہی کیا تھا۔ ٹیم ورک کیا ہوتا ہے میں اُس سے قطعاً نا آشنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
۔” اچھا چلیں آپ ایسا کریں کہ میرے کسی بھی افسانے یا ناول کو فلما لیں”۔ میں نے یہ سوچ کر کہا کہ اِس ہٹ دھرم سے بھی جان چھوٹے گی اور بطورِخاض کچھ لکھنا بھی نا پڑیگا۔
۔”نہیں بالکل نہیں، ادیب الحسن صاحب، میں آپ سے اپنے ایک برسوں پرانے آئیڈیا پر کہانی لکھوانا چاہتا ہوں۔ جسے میں نے اُس وقت سوچا تھا جب میں کلکتے میں ہدایتکار روبن پارتو کو اسسٹ کر رہا تھا۔ لیکن مجھے فلمی صعنت میں کوئی ایک بھی ایسا ادیب نظر نہیں آتا جو اس کہانی کے ساتھ آپ سے بڑھ کر انصاف کرسکے “۔ پرویز السلام فاضل کی آنکھوں کی چمک پہلے سے کہیں ذیادہ گہری ہوتی چلی گئی۔ اُس کی اندرونی قلبی کیفیات و جذبات اُس کے چہرے پر موحزن تھے۔ “ادیب صاحب، آپ کے افسانوں اور ناولوں میں پائے جانے والا مخصوص رومانچک ماحول، اُن کے کردار اور ان کی خاص نفسیات جو کہ زندگی سے انتہائی قریب تر ہوتے ہوئے بھی پراسراریت کی ایک دبیز چادر میں لپٹے رہتے ہیں۔ دلوں کو چھُو لینے والی کہانیاں، جو کہ پڑھنے والوں کے دل سے لے کر احساس تک کو گرما اور آنکھوں سے لے کر روح تک کو بھگو دیا کرتی ہیں۔ مجھے بھی اپنی فلم کے لیئے ایک ایسی ہی حساس کہانی اور ایسے ہی زندہ و جاوید کرداروں کی تلاش ہے”۔ پرویزالسلام فاضل ایسے بول رہا تھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ اُس کی نظریں مسلسل دوُر خلاوں میں کہیں گھور رہی تھیں۔
اب میں نے اپنا سب سے مہلک و کاری ہتھیار آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ ۔”اسلام صاحب، لگتا ہے آپ ہار ماننے والوں میں سے ہرگز نہیں۔ چلیئے میں آپ کی کہانی تو لکھ دوں گا لیکن میرا معاوضہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روپے ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!!”۔
میں نے اب تک کی اپنی آخری شائع شدہ کتاب جو کہ مارکیٹ میں بیسٹ سیلر ثابت ہوئی تھی سے بھی کوئی دس گنا ذیادہ معاوضہ بتا دیا اور پھر طنزیہ انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پرویز السلام فاضل کا چہرہ ویسا ہی کسی خاموش سی جھیل کی طرح پُرسکون اور اُس پر وہی دھمیی دھمیی سی مسکراہٹ موجود تھی جو اس ساری گفتگو کے دروان موجور رہی۔ محض چند ہی لمحات کے توقف کے بعد اُس نے فقظ اتنا کہا۔ “مجھے منظور ہے”۔
پھر اپنے بریف کیس میں سے چیک بک نکالی اور اپنی بوشرٹ کی جیب میں لگا پین نکل کر جلدی جلدی ایک چیک لکھا۔ دستخط کیئے اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔ “یہ آپ کا نصف معاوضہ ہے اور بقیہ کا چیک میں آپ کی خدمت میں اُس وقت پیش کروں گا جب آپ مجھے مکمل اسکرپٹ دینگے”۔
شاید اِسے ہی تو کہتے ہیں، خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔
چیک میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے وہ مذید بولا۔ “ساری گفتگو کے دوران قسم لے لیں جو اگر آپ ایک بار بھی مسکرائیں ہوں۔ چلیں اب میری درخواست پر ایک بار مسکرا دیں، آپ کا مسکرانا ہماری فلم کے لیئے مبارک ثابت ہوگا”۔
پہلے تو میرا جی چاہا کہ اُسے خوب کھری کھری سناؤں لیکن پھر یہ سوچ کر رہ گیا کہ وہ میرے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے بادل نخواستہ مسکراتے ہوئے چیک وصول کرلیا۔
مجھے آج تک یاد ہے کے اُس روز میں نے اُسے چائے حتیٰ کہ پانی تک پوچھے بغیر ہی اپنے گھر سے چلتا کردیا۔ حالانکہ دورانِ گفتگو دو ایک بار بیگم نے چھوٹے صاحبزادے کو چائے پانی کا دریافت کرنے بھیجا بھی تھا۔ لیکن میں نے بد تہذیبی کی انتہا کرتے ہوئے اُسے پرویز اسلام فاضل کے سامنے ہی دانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا۔
پرویز السلام فاضل نے مجھے اُسی روز فلم کی کہانی کا مرکزی خیال جسے فلمی زبان مین ون لائن اسٹوری کہا جاتا ہے سنایا۔
یہ ایک ایسے نوجوان شاعر و ادیب کی کہانی تھی جو اپنی تحریروں میں معاشرتی ناہمواری اور ناانصافی کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا اور معاشرے کے رستے ناسوروں اور تلخ حقائق کو منظرِعام پر لانے کی تگ ودو میں لگا رہتا۔ لیکن اِس کوشش کی پاداش میں اس کا روزگار اس کی محبت اور حتٰی کہ اُس سے جینے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
پرویزالسلام فاضل جہاں ایک زہین ہدایتکار تھا وہیں اُسے کہانی اور اُس سے مربوط واقعات کی بُنت کا بھی بڑی حد تک اندازہ تھا۔ گو کہ اُس نے مجھے کہانی کا مرکزی خیال تو بڑا مختصر سا ہی سنایا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ کہانی کے حوالے سے متعدد واقعات اور مناظر ڈسکس کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اُنہیں وہ کس طرح سے پردہِ سیمیں پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ دراصل کہانی کا تانا بانا وہ اپنے ذہن میں گذشتہ تیس سالوں سے بن رہا تھا۔ اب مجھے مرکزی خیال، واقعات اور مناظر کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک مکمل کہانی کو پروان چڑھانا تھا۔ چونکہ میں کہانی لکھنے کی حامی تو بھر ہی چکا تھا اور پھر اُسے لکھنے کے سلسلے میں پرویز السلام فاضل کے ساتھ ہونے والی نشستیں کافی بارآور ثابت ہوئیں۔ نا چاہتے ہوئے بھی میری اُس میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہوتی چلی گئی جس کے نتیجہ میں ایک بڑا ہی بھرپور اور مربوط اسکرپٹ معرضِ وجود میں آیا۔
چونکہ یہ ایک نیم کمرشل، رومانوی اور سماجی نوعیت کی فلم تھی لہٰذا اس میں گانوں کی بھرپور گنجائش تھی۔ مجھے پرویز السلام فاضل کی یہ بات بھی بہت ہی اچھی لگی کہ اُس نے دیگر فلموں کی طرح محض فلم کی لمبائی بڑھانے اور فلموں کی روایت کو قائم رکھنے کی خاظر بھرتی کے گیتوں کی شمولیت کی بجائے مجھ سے گیتوں کے لیئے ایک سے بڑھ کر ایک سچویشنز لکھوائیں جس سے تمام تر نغمات فلم میں اِس طرح سے فٹ ہوتے چلے گئے جیسے انگوٹھی میں متعدد نگینے فنکارانہ مہارت سے جڑ دیئے گئے ہوں۔ مزے کی بات تو یہ تھی کہ یہ سارے کے سارے نغمات فلم کی کہانی کو آگے بڑھاتے چلے جاتے تھے۔
ایک روز وہ میرے پاس پھر آن دھمکا۔ وہ اپنے ساتھ ایک کیسٹ لایا تھا۔ اس نے وہ کیسٹ ڈرائینگ روم میں رکھے کسیٹ پلیئر میں لگا کر چلا دیا۔ اسپیکرز سے ابھرنے والی آواز کو سُن کر میں حیرت میں پڑ گیا۔ فریدہ خانم اطہر نفیس کی غزل گا رہی تھیں۔
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اُس کا حال سنائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں اب سچا شعر سنائیں کیا
دراصل مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ فریدہ خانم وہ غزل گا تو اُسی روایتی دھن میں رہی تھیں۔ البتہ اُسے ایک مکمل اور بھرپور آرکسٹرا کے ساتھ ریریکارڈ کر کے اُس کی خُوبصورتی کو دوچند کر دیا گیا تھا۔ غزل مکمل ہوتے ہی پرویز السلام فاضل میری طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔ میں نے اُس کی اُن داد طلب نظروں کی قطعاً پروا نہ نا کرتے ہوئے بڑے ہی درشت لہجے میں سوال داغ دیا۔ “یہ کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟”۔
۔”یہ ہماری فلم کا تھیم سانگ یا یوں کہہ لیں کہ تھیم غزل ہے، جو وقتاً وفوتاً فلم کے متعدد مناظر کے تاثر کو دوچند کرنے کے لیئے پسِ منظر میں چلائی جائے گی۔ کیونکہ ہماری فلم کا مرکزی کردار ایک ناکام ادیب و شاعر ہے اس لحاظ سے اطہر نفیس کی یہ غزل ہماری فلم کے مزاج کو بہت سوٹ کرے گی۔ اس کی دھن وہی رکھی گئی ہے جس میں یہ پہلے ہی سے شہرت پا چکی ہے۔ البتہ اِسے چالیس سازندوں پر مشتمل آرکسڑا کے ساتھ ریکارڈ کر کے مذید سنوار کر پیش کیا گیا ہے جسے نے اس شاہکار غزل کے امپیکٹ کو دوآتشہ کردیا ہے”۔
ایک مرحلہ پر آکر میرا پرویز السلام فاضل سے کسی حد تک اختلاف ہوگیا۔
کہانی کا مرکزی خیال تو بحرحال اُسی کا تھا۔ البتہ صفحہِ قرطاس پر میرے قلم ہی نے حقیقت کا روپ دیا تھا۔ اسکرپٹ لکھتے لکھتے یہ مرکزی کردار میرے دل و دماغ میں رچ بس سا گیا۔ میں نے اپنے دل ہی دل میں اِس کردار کے لیئے موزوں ترین اداکار کی تلاش شروع کردی۔ میرے ذہن میں کردار، اِس کی نفسیات، نشست و برخاست اور شخضیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستانی فلمی صعنت کے ایک ہی اداکار کا نام بار بار ابھر کر آ رہا تھا۔ جب میں نے پرویز السلام فاضل کو اس کردار کے لیئے اپنے تجویز کردہ اداکار کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیا تو حسبِ سابق اُس کے چہرے پر وہی ٹریڈ مارکہ دھیمی دھیمی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ اپنے مخضوص پرُسکون لہجے میں گویا ہوا۔ “یہ درست ہے کہ ندیم ہمارے ملک کا بہت بڑا اور باصلاحیت اداکار ہے۔ میری بیشتر سابقہ فلموں میں اُسی نے مرکزی کردار ادا کئے ہیں۔ مجھے اس امر سے بھی انکار نہیں کہ وہ اس کردار کو اپنی بھرپور کردارنگاری سے زندہ و جاوید بنا سکتا ہے۔ لیکن میں اپنی اس فلم کے زریعہ پاکستانی فلمی صعنت کو ایک نیاء اداکار دینا چاہتا ہوں۔ میرے ذہن میں اس کردار کے لیئے ایک بالکل نیاء چہرہ ہے۔ میں نے گذشتہ دنوں اِس کردار کے مکمل گیٹ اپ میں اُس کا اسکرین ٹیسٹ اور فوٹو شوٹ بھی کروایا جس کا میری توقع کے عین مطابق بے حد متاثرکن رزلٹ آیا ہے”۔
اتنا کہہ کر اُس نے اپنا بریف کیس کھول کر ایک لفافہ نکلا اور اُس میں سے ڈھیر ساری تصاویر نکال کر میری طرف بڑھا دیں۔ وہ نیا چہرہ آزر تھا جو کہ اُس وقت ٹی وی ڈراموں کا ایک ابھرتا ہوا اداکار تھا۔ مذکورہ فوٹو شوٹ میں فلم کے کردار سے مطابقت رکھتے ہوئے گیٹ اپ میں بلاشبہ ہو بہو میری کہانی کا کردار ہی معلوم ہو رہا تھا۔ اس وقت مجھے وہ کہاوت یاد آئی۔ جسکا کام اُسی کو ساجھے۔
اسکرپٹ تمام تر پہلووں سے مکمل ہو جانے کے بعد پرویز السلام فاضل نے فلم کے دیگر پری پروڈکشن شبعوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کردی۔ اعلیٰ ادبی پائے کے شعراء سے فلم کے گیت لکھوائے گئے اور پھر فلمی صعنت کے ایک بڑے ہی کامیاب اور زبانِ ذدِعام نغمات کے تخلیقکار ماسڑ اسد اللہ کو موسیقی کا شبعہ پہلے ہی تضویض کیا جا چکا تھا۔
فلم کی شوٹنگ کے لیئے پرویزالسلام فاضل نے کراچی کا انتخاب کیا۔ اپنے دو معاون ہدایتکاران کے ہمراہ وہ مسلسل لوکیشنز مارک کرنے کے لیئے ریکی کرنے لگا۔ مجھ سے اس نے بطورِخاص فلم کے مکالموں کے درست تلفظ کی ادائیگی کے لیئے فلم کے مرکزی اداکار آزر کو ریہرسل کروانے کی درخواست کی اور اِس کام کے لیئے علحیدہ سے معاوضے کی پیشکش بھی کی جسے میں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد اِس شرط کے ساتھ منظور کرلیا کہ تمام تر ریہرسلز کے لیئے آزر روز میرے گھر آیا کرے گا۔
پھر ایک روز وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ اُس روز پرویز السلام فاضل اسکرپٹ لے کر میرے پاس آیا اور فلم کے چند ڈائیلاگز تبدیل کرنے کو کہا۔ بس صاحب میں یہ سنتے ہی حسبِ عادت آپے سے ہاہر ہوگیا۔ “چند کامیاب فلمیں بنا کر تم نے یہ سمجھ لیا کہ تم اب اِس قابل ہو گئے ہو کہ مجھ جیسے کامیاب اور ادبی سمجھ بوجھ رکھنے والے ادیب کے لکھے مکالموں میں کیڑے نکل سکو۔ اسی لیئے میں فلم والوں کے لیئے لکھنے ہی کے خلاف تھا۔ کان کھول کر سُن لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! میرا لکھا پتھر پر لکیر ہے اور میں اِسے ہرگز تبدیل نہیں کروں گا”۔
اتنا کچھ سننے کے بعد بھی اُس کا چہرے ویسا ہی پر سکون تھا جیسے عموماً ہوا کرتا تھا۔ وہ بناء کچھ کہے بس خاموش بیٹھا رہا۔ غصے کی شدت سے میرا بلڈ پریشر ہائی ہوجانے کے باعث میں بھی کچھ دیر کے لیئے خاموش اپنی کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ کچھ پندرہ بیس منٹ ماحول یونہی خاموش اور ساکت سا رہا۔ ماحول کو قدرے ٹھنڈا پا کر پرویز السلام فاضل بولا۔ “ادیب صاحب، میں یہاں اِس فلم جو کہ محض میری ہی نہیں ہم سب ہی کی فلم ہے کی بہتری کے لیئے حاضر ہوا ہوں۔ میرے خیال میں اگر اس کے چند مناظر میں شامل مکالموں کو زرا سا تبدیل کرلیا جائے تو اس سے نا صرف ان مناظر کا تاثر ابھر کر سامنے آئے گا بلکہ بحیثیتِ مجموعی فلم پر بھی بہت ہی اچھا اثر پڑیگا”۔ میں اپنی بات پر اڑا رہا۔ کافی دیر مجھے سمجھنے کی سعیِ لاحاصل کے بعد وہ چلا گیا۔
اگلے روز جب میرا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا تو میں نے اسکرپٹ کو پرویز السلام فاضل کے آئیڈیا اور ان مناظر جن کے مکالمے وہ تبدیل کرنا چاہتا تھا کو ذہن میں رکھ کردوبارہ پڑھنا شروع کیا تو مجھے اُس کی بات ٹھیک لگی اور اُسی مناسبت سے مکالموں کی میرے ذہن میں آمد ہوتی چلی گئی جو خود مجھے بھی پہلے سے کہیں بہتر محسوس ہوئے۔
اُسی شام پرویز السلام فاضل پھر میرے گھر آن دھمکا۔ حالانکہ میں سمجھ رہا تھا کہ میرے گذستہ روز کے برتاؤ کے بعد وہ مجھ سے ناراض ہوگا۔ وہ ڈرائنگ روم میں میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو اس کا وہی پُرسکون چہرہ اور مدھم سی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے تعجب ہوا۔ میں نے کچھ اور کہے بناء اسکرپٹ اُس کے ہاتھ پر دھر دیا۔ کچھ دیر سر جھکائے اسکرپٹ دیکھتا رہا اور پھر جب اُس نے سر اٹھایا تو اُس کی مدھم سی مسکراہٹ ایک گہرے معنیٰ خیز تبسم میں ڈھل چکی تھی۔ ۔”میں جانتا تھا، ایسے پُراثر اور جکڑ لینے والے مکالمے صرف آپ ہی تخلیق کرسکتے ہیں”۔
پرویز السلام فاضل تو اسکرپٹ لے کر چل دیا لیکن جاتے جاتے وہ مجھے سوچ کے ایک گہرے بھنور میں دھکیل گیا۔ اُس روز میں نے سوچا کہ ایک تخلیق کار میں ہوں جو اسٹڈی کے دروازے کے پیچھے اپنے کمفرٹ زون میں بند اپنی ذات کے ویرانوں میں گم ہو کر ایک فن پارہ تخلیق کرتا ہے۔ اُس زیرِتخلیق افسانے یا ناول کی کہانی، پلاٹ، واقعات، کردار، اُن کے رویے، نفسیات، گفتگو، نشست و برخاست، اُن کی سوچ اور جذبات سب ہی کچھ تو میرے قلم کے تابع ہوتے ہیں۔ میں جب اور جیسے چاہوں ان کو استعمال کروں۔ اُن میں سے کوئی بھی میرے سامنے چُوں و چراں کرنے کی ہمت تک نہیں کر سکتا۔
پرویز السلام فاضل بھی تو ایک تخلیقکار ہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! لیکن اُسے اپنی تخلیق کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے تخلیقکاروں کی ایک مکمل ٹیم مرتب کرنا پڑتی ہے۔ اُس ٹیم کا ہر رکن جو کہ میرے افسانوں اور ناولوں کے کرداروں کے برعکس گوشت پوشت سے بنا، جذبات و احساسات رکھتا جیتا جاگتا انسان اور اپنی ذات میں خود ایک مکمل تخلیقکار ہوتا ہے سے اپنی تخلیق کے ایک مخصوص گوشے کو سنوارنے کا کام اپنی مرضی کے عین مطابق ایسے لینا ہوتا ہے کہ ان تمام تخلیقکاروں کے کام میں ایک مکمل ہم آھنگی پیدا ہوجائے اور وجود میں آنے والی تخلیق ایک ایسی کثیر جہتی پینٹنگ کی شکل اختیار کر لے جس کا ہر زوایہ نا صرف نا صرف خُود اپنے اندر ایک تخلیق کا درجہ رکھتا ہو بلکہ ایک دوسرے کی شان بڑھائے اور بحیثتِ مجموعی ایک مکمل و اعلیٰ فن پارے کا بھرپور تاثر بھی فراہم کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔
پرویز السلام فاضل کے ساتھ اپنے رویہ کی بدصُورتی کا درست اندازہ مجھے فلم “آئینہِ ذندگی” کے پریمئیر شو والے دن ہوا۔ جی ہاں یہ ہی نام تھا اُس فلم کا۔
کسی حد تک فلم کے معیاری ہونے کی امید تو میں نے شروع دن سے ہی لگا رکھی تھی۔ اُس روز سنیما کے اندھیرے ہال میں مسلسل تین گھنٹے میں نے پرویز السلام فاضل کے فن کا مظاہرہ دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں کوئی فلم نہیں بلکہ پردہِ سیمیں پر اپنا ہی کوئی بھولا بسرا سُہانا سپنا دیکھ رہا ہوں جو میں کبھی بہت پہلے دیکھ کر بھُول گیا تھا۔ مگر اُس کے چند دھندلے دھندلے حسین مناظر ہیولوں کی شکل میں اب بھی اکثر میرے ذہن کے نہاں خانوں سے ابھر ابھر کر مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کرتے ہوں اور پرویز السلام فاضل نے کمال فنکارانہ مہارت کے ساتھ اس حسین و دلربا سپنے کو سیلو لائیڈ کے فیتے پر منتقل کر دیا تھا۔
ٹیم ورک کے معجزے پر میرا ایمان اس روز کامل ہوا جب فلم “آئینہِ ذندگی” کو کل سات نیشنل فلم ایوارڈز جس میں بہترین فلم، بہترین ہدایتکار، بہترین اداکار، بہترین موسیقار، بہترین سنیماٹوگرافر کے علاوہ مجھے بہترین مصنف اور مکالمہ نگار کے دو ایوارڈوں سے نوازا گیا۔
اس فلم کی فقید المثال کامیابی کے بعد میں اور پرویز السلام فاضل ایک ٹیم کی شکل اخیتار کر گئے۔ پھر یہ رفاقت انتہائی گہرے دوستانے پر منتج ہوئی۔ اُس کی اگلی تمام فلموں، جن کی کُل تعداد چار بنتی ہیں کی کہانیاں اور مکالمے میں نے ہی لکھے۔ بلاآخر یہ ٹیم اور دوستی ٹھیک گیارہ سال بعد ہدایتکار پرویز السلام فاضل کے اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر جانے سے ٹوٹ گئی۔
آج پرویز السلام فاضل کو ہمارا ساتھ چھوڑے ہوئے بیس سال کا عرصہ گز چکا ہے لیکن مجھے یہ کہنے میں قطعاً کوئی عار نہیں ہے کہ اسلام صاحب کے جانے کے بعد اُس جیسا کوئی اور خوابوں کا صُورت گر ہماری فلمی صعنت کو میسر ہی نا آ سکا۔
اِس حقیقت کے باوجود کہ وہ مجھ سے عمر میں بڑا تھا، اس نے کبھی میرے طرزِ عمل کے بارے میں مجھ سے کوئی بات تک نا کی اور محض اپنے عمل اور کردار سے میرے رول ماڈل بنا۔
میری دعا ہے کے اللہ پرویز السلام فاضل مرحوم کی معغفرت کرے اور اس کے درجات بلند کرے، آمین۔
یہ آخری کلمات ادا کر کے میں نے ڈائس پر بکھرے کاغذات سمیٹے اور اسٹیج سے اتر کر سُست قدم اٹھاتا ہوا اپنی نشست کی جانب چل دیا۔ کراچی آرٹس کونسل کے کھچا کھچ بھرے ہوئے آڈیٹوریم میں محض چند ساعتوں کی مکمل خاموشی کے بعد اچانک چھت شگاف تالیوں کا ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو تمام حاضرین اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر والہانہ انداز میں تالیاں پیٹ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ تالیاں پرویز السلام فاضل کی برسی پر لکھے گئے میرے مقالے کی پسندیدگی کے لیئے تھیں یا خود پرویز السلام فاضل مرحوم کے لیئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Urdu short stories and writers