عالمی افسانہ میلہ 2021
دوسری نشست
افسانہ نمبر 43
گھنشام سنگھ
ناصر صدیقی . کراچی ، پاکستان
پانچ برسوں کے بعداپنی یونیورسٹی فیلو، رادھیکا سے اسی کی رہائش گاہ پر یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔رادھیکا سے کالج، یونیورسٹی کے دنوں میں میری بڑی بے تکلفی تھی۔اکثر اسکے ساتھ ہو رہی میری یک طرفہ محبت کا اچھے انداز میں تمسخر اڑایا کرتی تھی۔
چائے پانی اور چند رسمی باتیں ہو گئیں تو میں نے پوچھا:’’تمہاری شادی ہو گئی نا؟‘‘
’’جی،گھنشام سنگھ سے۔‘‘یہ کہہ کر اپنا پتی دکھانے وہ صوفے سے اٹھی۔
گھنشام سنگھ!میں سوچنے لگا،یقینا اسکی داڑھی اور گھنی مونچھیں ہوں گی۔ہٹا کٹا اور لمبا تڑنگا بھی ہوگا کہ سکھ ہے۔پگڑی کس رنگ کی ہوگی ؟یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ممکن ہے پگڑی پہنا ہوا نہ ہوکہ آج کل کچھ سکھ حضرات اپنے مذہب سے اتنے چمٹے ہوئے نہیں ہیں۔
’’یہ ہیں میرے پتی۔‘‘
’’یہ ہے گھنشام سنگھ !!!؟‘‘میں حیرت سے اچھل پڑا۔
لاغر ،پستہ قد،داڑھی مونچھیں صاف،بال گرے ہوئے۔حیرت یہ کہ کاجل ، بندیا اور لپ اسٹک لگا کر عورت کے انداز میں کھڑا تھا۔اگر وگ پہنتا تو پوری عورت بن جاتا۔
’’جی !یہی میرے دلبر اور پتی پرمیشور ہیں۔‘‘
’’لیکن یہ تو۔۔۔معاف کرو پلیز!۔۔ہیجڑا لگتا ہے۔‘‘میں مسکرایا تو وہ ہنسنے لگی،وہی سابقہ شوق و چنچل والی ہنسی۔
’’کیا میری اتنے برسوں کی ایک اچھے جیون ساتھی کی تلاش کا صلہ ایک ہیجڑے کی صورت میں ملنا تھا؟نہیں!ہیجڑا نہیں ہیں،کئی خوبیوں کے مالک ہیں میرے گھنشام جی۔یہ تو انھیں اداکاری کا بھی شوق ہے۔تو میرے کپڑے پہنے،میک اپ بھی کیا۔‘‘
’’ میں اس سے متاثر نہیں۔مجھے اپنا پتی بناتی تو کیا مزا آتا!‘‘میں نے قہقہہ لگا کر کہا،’’خیر! جو بھی ہے،اب اپنے پتی کو واپس الماری میں رکھ دو۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے گھنشام کی تصویر اسے واپس پکڑا دی۔
اس پر وہ صرف ہنس دی اور الماری کی بجائے تصویر اپنے دل کے قریب، چولی میں ٹھونس کر اور چائے لانے، کچن کی طرف چلنے لگی۔
چائے کے ساتھ واپس آئی تو ہم روز مرہ کی باتیں کرنے لگے۔موضوع گھومتے گھومتے ایک بار پھر گھنشام پر آگیا:
’’یہ نمونہ تمہیں کیسے اور کہاں ملا؟ کس طرح پسند کیا؟ تم تو اچھے اچھوں کو گھاس نہیں ڈالتی تھی۔‘‘
’’یہ نمونہ نہیں مثال ہے۔‘‘پہلی بار وہ سنجیدہ ہو کر بولی،’’ ایک ثبوت ہے کہ معاشرے میں چہرے مہرے سے کسی کی صلاحیت کو پرکھا نہ جائے۔پتہ ہے ابھی کہاں ہیں؟محلہ کے تمام ایسے بچوں کو بلا معاوضہ پڑھانے گئے ہیں جو کسی بھی وجہ سے نہیں پڑھ سکتے۔‘‘
’’دیکھو ناراض نہ ہونا،وہ ضرور دولت مند ہوگا کہ تم نے پسند کیا،جسم سے تو___‘‘
’’نہیں! میری معمولی تنخواہ پر ہی ہم دونوں گزارا کرتے ہیں۔ویسے بھی ہمارے آگے پیچھے کوئی نہیں۔اور اولاد تو___‘‘وہ رک گئی جیسے کسی بچھو نے ڈنک مارا ہو۔
میں دل میں مسکرایا کہ ایک ہیجڑے سے اولاد کہاں سے آئے گی۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ تم اسے قابومیں رکھ کر اپنے جسم کی بھوک مٹانے، میری طرح آزاد ہو گئی ہو؟‘‘
وہ مسکرائی:’’نہیں!ایسی بات ہوتی تو جسمانی بھوک مٹانے سب سے پہلے تمہارے پاس چلی آتی کہ تم ویسے بھی میرے عاشق تھے اور شاید اب بھی ہو۔‘‘اور قہقہہ لگا گئی۔
’’ یہ تو ہے۔اب بھی عاشق ہوں۔ !خیر! جو بھی ہو۔ گھنشام کے حوالے سے مجھے اب بھی دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے۔‘‘
’’نہیں!تمہاری سوچ غلط ہے۔میرا انتخاب ہر گز غلط نہیں ہو سکتا۔ گھنشام جی کے ساتھ رہ کر مجھے پورا ذہنی،روحانی اور جسمانی سکون مل رہا ہے۔میں کسی بھی طور بھوکی پیاسی نہیں۔میں نے بتایا نا کہ وہ کئی خوبیوں کے مالک ہیں۔مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘
’’ بھروسہ!کیا اسے یہ معلوم ہے کہ اس وقت تم اپنے پرانے عاشق کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہو؟‘‘
’’جی ہاں!اب تم حیران مت ہونا اگر میں یہ کہوں کہ میری توسط سے انھیں میرے سارے سچے جھوٹے عاشقوں کے نام،اطوار اور شکل و صورت ازبر ہیں۔
بھروسہ تو اتنا کرتے ہیں کہ اگر ہم دونوں،لیکن تمہیں ایسی ویسی حرکت بالکل کرنا نہیں ہے، اس بستر پر لیٹ جائیں اور اس دوران ہماری آنکھ لگ جائے تو گھنشام جی پورے آرام اور اطمینان سے تمہیں جگا کر کہیں گے کہ ،میں آگیاہوں تم جا کر کسی اور کمرے میں سو جانا۔پھر مجھے جگا کر کہیں گے ۔
“آج کیسے بے خبر سو گئی؟تمہارے پہلو میں تمہارا عاشق بھی سو گیا تھا۔کوئی اور آکر تم دونوں کو دیکھتا تو کیا سمجھتا؟یہ کہہ کر وہ قہقہہ بھی لگاتے ،میں صرف ہنس کر کہتی:اچھا! اس سالی نیند نے مجھے اتنا بے ہوش کردیا! کہاں ہے اب وہ؟وہ جواب میں کہتے:باہر کسی کمرے میں سو رہا ہوگا،پہلے میں نے سوچا تھا کہ گود میں اٹھا کر کسی جگہ سلادوں یا اسے کھسکا کر تم دونوں کے بیچ میں سوجاؤں، لیکن پھر سوچا، اگر وہ نیند سے جا گ گیااور ہمیں ایک نا مناسب حال میں دیکھ لیا تو بے چارہ رقابت کے مارے جل جائے گا۔وہ اس بات پر ضرور قہقہہ لگاتے اور میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتی۔‘‘
میں حیرت سے گنگ ہو گیا کہ اتنا بھروسہ!!!!
کچھ دیر بعدمیں جانے کے لئے اٹھا۔ جاتے ہوئے جب میں نے خواب گاہ کا بے شکن بستر دیکھا توا ٓنکھ کے اشارے سے اسے رادھیکا کو دکھایا
۔
وہ سب کچھ سمجھ کر بولی:’’میں نے جھاڑ کر سارے شکن ہٹا دیئے ہیں۔رات کو بستر کا منظر کچھ اور ہی ہوتا ہے۔اور ہاں! ڈیلے اسپرے یا ٹائمنگ بڑھانے والی کریمیں بالکل استعمال نہیں کرتے میرے گھنشام جی۔‘‘
اس بات سے مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ جیسے وہ میری کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ گئی تھی۔
( ختم شد؟)
قارئین! کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی۔
:
دوسرے دن میں پھر رادھیکا کے یہاں گیا۔
چائے پانی اور رسمی باتوں کا دور ختم ہوا تو میں نے پوچھا:
’’کل جو تم نے بتایا کہ اگر میں تمہارے بستر پر سو جاتا۔۔۔۔تو کیا واقعی وہ تم پر اتنا بھروسہ کرتا ہے؟مجھے بالکل یقین نہیں۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ تم ثبوت کے بغیر یقین نہیں کروگے۔چلو آؤ!،آج یہ سب کر کے دکھاتی ہوں۔لیکن خبردار!مجھے چھونے کی کوشش بالکل نہ کرو!اچھے بندوں کی طرح میرے ساتھ صرف لیٹے رہو،نیند آجائے تو اسے آنے دو مجھے اپنے ذہن میں آنے نہ دو!‘‘
اس نے مسکرا تے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کھینچتے ہوئے مجھے بستر تک لے گئی۔میں پہلے گھبرا سا گیا پھر بستر پر لیٹ گیا۔وہ بھی میرے ساتھ ایسے لیٹ گئی کہ اسکے لباس کی صرف سرسراہٹ مجھ سے لمس کھا رہی تھی بدن نہیں۔آخر ایک جسم میرے پہلو میں لیٹا تھا ،میری یک طرفہ محبوبہ ، میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر سہلانا چایا تو مجھے جھڑک کر ڈانٹ دیا۔پھر اچانک نہ جانے کیا سوچ کر اس نے پوچھا:
’’میں تمہاری محبوبہ ہوتی تو تم آج کیا کرتے؟‘‘
’’بہت کچھ۔‘‘میں نے سیدھا سادہ اور سچا جواب دے دیا۔
’’مثال کے طور پر؟‘‘
’’لیکن تم کرنے نہیں دوگی، بتانے کا کیا فائدہ؟‘‘
’’پھر بھی۔‘‘اب جیسے وہ بھی کسی ایڈونچر کی تلاش میں لگتی تھی۔
میں کچھ سمجھ گیا،بلکہ سارا کچھ سمجھ گیا توایک ہی لمحہ میں ایک بھوکا آدمی بن گیا،برسوں سے اسکے لئے یک طرفہ پیار اور محبت کا بھوکا، شاید ہوس کا بھی بھوکا۔میں نے جھٹ سے اسکا سارا کا سارا لباس اتار کر اپنی منزل اسکی راہ میں ڈال دی اور کچھ ہی دیر میں شانت ہو کر بے دم سا اسکے پہلو میں ڈھیر ہو گیا۔
وہ ویسے کی ویسے تھی۔یہ سب اتنی جلدی میں ہو گیا تھا کہ اسے بھی شاید میری طرح یقین نہ تھا کہ یہ سب واقعی ہو گیا؟کیسے ہو گیا؟رکاوٹیں کہاں گئیں؟
’’بس؟دو ہی منٹوں میں تم اپنے ’’پیار‘‘ کے سارے ذخیرے ختم کر بیٹھے؟تھک کر ڈھیرہو گئے نا؟تو یہ سب تمہارا پیار، محبت نہ تھا ۔ تمہیں ایک جسم کی تلاش تھی مجھ میں۔ یہ سب ہوس تھی تمہاری۔ میرے گھنشام تو ایسے نہیں۔
میرے گھنشام؟‘‘اچانک وہ ہسٹیریائی انداز میں تڑپ کر رونے لگی،’’اب میں گھنشام کے قابل نہیں۔میں نے انکا بھروسہ توڑ دیا ہے۔پلیز !چلے جاؤ یہاں سے۔مجھے تم نے برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔چلے جاؤوووووو!‘‘
وہ چیخ پڑی ۔تو میں حیران و پریشان ، اپنے کپڑے جلدی جلدی پہن، اسکے کمرے سے نکل کر باہر آیا۔
راہداری میں میری طرف آرہی ایک عورت ممکنہ طور پرمیری حالت اور چہرے کی بدلی ہوئی لکیریں دیکھ کر میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ ایک ہمدردانہ لہجہ لئے اس نے پوچھا:
’’کیوں بھائی! لگتا ہے رادھیکا سے مل کر آرہے ہو؟‘‘
میں حیران رہ گیا،’’جی ہاں! لیکن آپ کو کیسے پتہ؟!اس اپارٹمنٹ میں اور بھی تو لوگ رہتے ہیں!کیا آپ رادھیکا کو جانتی ہیں؟‘‘
’’اسے یہاں کون نہیں جانتا؟‘‘اب وہ جیسے مجھے رحم بھری نظروں دیکھنے لگی تھی۔
’’اچھا!اسکے پتی گھنشام سنگھ کو بھی آپ جانتی ہوں گی ؟‘‘
’’جی اسے بھی ۔لیکن وہ بے چارہ___‘‘
’’کیا بے چارہ؟‘‘
’’گھنشام کی وجہ سے ہی تو بے چاری رادھیکا کو اتنے دکھ سہنے پڑ رہے ہیں۔کیا وفا داری ہے!آج بھی گھنشام سے چمٹی ہوئی ہے حالانکہ کتنے لوگ اس پر عاشق ہیں۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’گھنشام اسکا بہت خیال اور پیار کرنے والا پتی تھا۔شادی کے ایک سال بعد وہ کسی حادثہ میں مر گیا۔ لیکن رادھیکا آج بھی اسے زندہ سمجھتی ہے۔ہر روز ناشتہ،لنچ اور ڈنر پر اسکا انتظار کرتی ہے۔ ہر جگہ ،ہر کسی سے اپنے پتی کی تعریف کرتی رہتی ہے۔‘‘
یہ سب سن کر حیرت سے میری گھگی ہی بندھ گئی:
’’اگر ایسا ہے تو کیا رادھیکا پاگل ہے پھر؟‘‘
’’نہیں،ہرگز نہیں! بس اسے اپنے پتی سے بے حد پیار ہے۔‘‘
’’ اپنی ہوس سے رادھیکا کے’’زندہ‘‘ پتی کو مردہ کر گیا ہوں۔ یہ میں نے اچھا نہیں کیا۔جو بھی ہو وہ میری کلاس فیلو اور اچھی دوست تھی ۔یک طرفہ محبوبہ بھی۔میں تو اب معافی مانگنے کے بھی قابل نہیں رہا۔‘‘یہ سوچ کرمیری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
پھر کچھ اور سوچ کر میں نے اپنے قدم واپس رادھیکا کے کمرے کی طرف بڑھا دیئے۔اب مجھے اس بات کی پرواہ اورڈر بالکل نہیں تھا کہ مرا انجام مُردوں میں ہوگا یا زندوں میں۔۔۔
Comments are closed.