Skip to content

سونا چاندی

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر134

سونا چاندی

اعجاز مصور ۔ گلبرگہ ۔ انڈیا

ایک پہاڑ کے دامن میں ایک خوبصورت گا وں تھا جس میں سونا نامی ایک بونا آدمی رہتا تھا۔ سیاہ رنگ گھٹیلا جسم، گھنی بھنویں، بڑی بڑی آنکھیں ، چپٹی ناک ، موٹے موٹے ہونٹ، بڑے بڑے دانت، چھوٹے چھوٹے ہاتھ لیکن سخت، لوہار جو تھا۔ اس کی عجیب و غریب ہئییت سے گا وں کے بچّے اسے آتے جاتے چھیڑتے تھے لیکن وہ کبھی کسی کو کچھ نہ کہتا سر نیچا کرکے گزر جاتا۔

ایک دن اس کے گھر پر ایک بھکارن نے صدا لگا ئی وہ با ہر آکر دیکھا کہ ایک اندھی لڑکی مانگنے کے لئے آئی ہے۔ اس لڑکی سے مخاطب ہوا تو وہ کہنے لگی کہ کچھ کھانے کو ملے گا؟

وہ اندر گیا اور اس کو کھانے کے لئے کچھ لے آیا اور اس سے کہنے لگا کے تم ادھربیٹھ کے کھانا کھا لو۔ پھر وہ اندر جاکر پانی لے آیا اور اس کے سامنے رکھ دیا۔ اور اس سے پوچھنے لگا کہ کیا تمھیں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا؟

اس اندھی لڑکی نے جواب دیا کہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا اور میں پیدائشی اندھی نہیں ہوں بچپن میں میری آنکھیں کسی بیماری میں چلی گئیں ہیں ڈاکٹر نے کہا تھا کے آپریشن سے آجائینگی پھر سے میں دیکھ سکونگی۔

کیا نام ہے تمہارا؟ سونا نے اس لڑکی سے پوچھا۔ لڑکی نے اپنا نام ’ چاندی‘ بتایا۔سونا کہنے لگا ارے واہ! تمہارا نام چاندی اور میرا نام سونا! پھر دونوں ہنسنے لگے۔ سونا نے چاندی سے کہا کہ تم شادی کیوں نہیں کر لیتی ؟ یہ سن کر چاندی ہنسنے لگی۔ مجھ اندھی بھکارن سے شادی کون کر ے گا؟ آپ بہت بھولے ہو صاحب! اور بھلے انسان بھی۔ لوگوں کو اپنے جسم کی آگ بجھانے کے لئے یہ اندھی بھکارن میں کوئی عیب نظر نہیں آتے لیکن جب شادی کی بات کروگے تو بری طرح دھتکار دی جا وں گی۔

اسی طرح جب کبھی چاندی سونا کے گھر آواز دیتی سونا اس کو عزّت کے ساتھ کھانا کھلاتا اور اس سے اچھی بات کرتا۔ ایک دن سونا نے چاندی سے پوچھا کہ کیا تم مجھ سے شادی کروگی؟ یہ سن کر چاندی دم بخود رہ گئی اور بے ساختہ رونا شروع کر دیا اور کہنے لگی کہ ایک وقت کے کھانے کے لئے لوگوں نے میری عزّت سے کھیلنے کی کوشش کی۔ یہ میرے ساتھ ڈنڈا دیکھ رہے ہو نا صاحب! مجھے راستہ دکھانے سے زیادہ اس نے میری عزّت کی حفاظت کی ہے۔ ایک دفعہ میں ایک راستے سے گزر رہی تھی کہ مجھے کچھ آوازیں سنائی دینے لگی کچھ امیرزادوں کے بدمعاش بچّے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ کسی ایک لڑکے نے انگریزی میں اپنے ساتھیوں سے کچھ کہا دوسرے نے یہ سن کر کہا کہ اچھّا یعنی وہ زمین جس کا کوئی دعویدار نہ ہو اس پر کوئی بھی اپنا قبضہ جما سکتا ہے

(No man’s Land) ۔ پھر سب نے قہقہے لگانے شروع کر دئے۔ پھر ایک لڑکے نے میرے جسم کو چھونے کی کوشش کی تب میں نے ڈنڈے کو مضبوطی سے تھاما اور گھمانا شروع کیا تین چار بدمعاشوں کو تو ایسا دھویا کہ سارے کے سارے بھاگ گئے۔ ان بھیڑیوں کے گاوں میں آپ جیسا انسان مجھے اتنی عزّت دے رہا ہے میرے تو بھاگ ہی کھل گئے۔

دونوں نے شادی کرلی اور ہنسی خوشی سے زندگی گزارنے لگے وہ دن بھر کام کر کے آتا اور اس کے آنے تک یہ اس کی راہ تکتی دروازے پر بیٹھا کرتی۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت خوش تھے۔دونوں کی خوشیوں کا ٹھکانا نہ تھا۔ ان کی خوشیوں میں اس وقت اور چار چاند لگ گئے جب ان کے ہاں ایک ننھے فرشتے نے جنم لیا۔ اب کیا تھا ان کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔

ایک دن خبر ملی کہ ان کے گاوں میں ایک آنکھوں کا ماہر ڈاکٹر آنے والا ہے ۔ چاندی کی خوشیوں کا ٹھکانا نہ تھا اس نے سوچنا شروع کیا کے جب اس کی آنکھیں واپس آئینگی وہ سونا کو اور اس کے لاڈلے کو دےکھ سکے گی۔وہ خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی تھی۔وہ سونا کے پیچھے پڑ گئی کہ ڈاکٹر کے پاس جاکر چیک اَپ کرائینگے۔سونا چاندی کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا ڈاکٹر نے اچھی طرح معائنہ کیا اور خوشخبری دےدی کے چاندی کی آنکھوں کا آپریشن ہو سکتا ہے اور وہ دیکھ بھی سکتی ہے۔ٹھیک ایک ماہ بعد آپریشن کی تاریخ دیدی گئی۔

بڑے انتظار کے بعد آخر وہ دن آگیا کہ چاندی کی اندھیری دنیا میں اجالا آنے والا تھا۔ سونا گھر سے یہ کہ کر نکل گیا کہ وہ کام سے آدھے دن کی چھٹّی لے کر ڈاکٹر سے وقت لے کر آئیگا۔

راستے میں اچانک اسے یہ خیال آیا کہ کہیں وہ چاندی کی زندگی میں روشنی لانے کی کوشش میں اپنی زندگی میں اندھیرا تو نہیں کر رہا ہے؟

جب وہ اپنی آنکھیں کھولے گی تو سب سے پہلے وہ مجھے دیکھنا چاہے گی۔جب وہ مجھ جیسے بد شکل اِنسان کو دیکھے گی تو وہ خود کی قسمت کو کوسے گی کہ میں اندھی ہی بھلی تھی۔اس کے اندر کا آدمی اپنے پورے منفی خیالات کے ساتھ مثبت خیالات پرغالب آ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ چاندی کو بتا دے گا کہ ڈاکٹر اپنی کسی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اپنی آمد آیندہ ماہ تک کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔

چاندی یہ سب سننے کے بعد بہت مایوس ہوئی اور گُم سُم رہنے لگی۔وقت گزرتا گیااور امیدیں نا امیدوں میں تبدیل ہونے لگیں۔

ایک دن بڑی طوفانی ہوائیں چلنے لگیں ساری گھاس پھوس کی بنائی جھوپڑپٹیاں جھومنے لگیں۔ سیٹیاں مارتی آوارہ ہوائیں سارے گاوں کی چکّر کاٹنے لگیں۔سارا ماحول ابر آلود ہو چکا تھا چاروں طرف اندھیرا چھا گیا تھا رات کا گُماں ہو رہا تھا، ہوا کے تیز جھونکے نے اوپر ٹنگی قندیل گرادی آناً فاً میں آگ لگ گئی بچّہ چیخ اُٹھا بے کس و مجبور ماں کانپ اُٹھی اور اَدھر اُدھر بچّے کو ٹٹولنے لگی دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے سارے جھوپڑے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب بچّے کی اور ماں کی دونوں کی آوازوں سے سارا گاوں جمع ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں راکھ کا ڈھیر ہو گیا۔

سونا واپس جب اپنے گھر کی طرف آ رہا تھا دور سے دیکھا کے سارا گاوں اس کے گھر کے اطراف جمع ہے۔وہ دوڑتا ہوا آیا اور ہجوم کو چیرتا ہوا جب آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہے کہ چاندی اور اس کا بچّہ راکھ کا ڈھیر بن چُکے ہیں۔ اس نے زورسے ایک چیخ ماری اس کا کلیجہ پھٹ گیا اور خون کا فوّارہ اس کے منھ سے نکلا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا!!!

Published inاعجاز مصورافسانچہعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply