Skip to content

یہ کیسا انصاف ؟؟؟

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 120
یہ کیسا انصاف ؟؟؟

از: فریدہ نثار احمد انصاری ۔
دوحہ۔قطر۔

قدرت کا کتنا خوبصورت دستور ہے کہ بچے اور ماں کا تعلق پہلے دن سے ہی رحمِ مادر سے شروع ہو جاتا ہے۔ماں کی زیست جس طرح سے گزرے بچہ اسے محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اسی طرح تین اندھیروں میں رہ کر دنیا کی نیرنگیوں کو جاننے کی سعی کرتا رہتا ہے۔

‎وہ یہ بات جانتی تھی پھر بھی اس
نے ایسا کیوں کیا؟ کیوں اس نے ایک نہیں بلکہ کئ بار اپنے رحم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔پہلی بار جب اس کی کوکھ نے صدا دی تب وہ بڑی خوش ہوئ۔ ایک طوائف زادی کو کہاں پتہ ہوتا ہے کہ اس کے رحم میں کس کا گناہ پنپ رہا ہے پھر بھی ماں بننے کا خواب ہر عورت کی طویل مسافت کا سر بستہ راز ہوتا ہے اور وہ بھی یہی چاہتی تھی لیکن ڈرتی تھی کہ بازار میں ایک اور طوائف کو زینت بنا کر نہ بٹھا دیا جائے ۔حالاں کہ اس کی پڑوسی سہیلیوں نے خوب سمجھایا :
” یہی اس بازار کا دستور ہے ، ماں کے بعد بیٹی کا سنگھار ہی اس کوٹھے کو زیبا دیتا ہے.”
لیکن اس کا دل اس پر راضی نہ ہوتا۔وہ ماں بننا چاہتی تھی چاہے ایک رات کی دلہن بن کر، چاہے روزانہ مختلف مردوں کی سیج سجا کر ، چاہے ان کے گندے وجود کو گلے لگا کر مگر
” بیٹے کی ماں “۔ اس کا خیال تھا کہ کم از کم لڑکے کو اپنے جذبات کا تو سودا نہ کرنا پڑے گا۔سہیلیاں کہتیں:” بڑا ہو کر وہ کیا بنے گا صرف ” دلال” نا۔” پر وہ سوچتی لڑکا پھر بھی خود کفیل ہوگااسے روز روز میری طرح مر مر کر،
‎ لوگوں کی گندگی جھیل جھیل کی
زندہ نہ رہنا ہوگا۔
اسے وہ دن بھی آج ازبر تھا جب اپنی سہیلیوں کے ساتھ امی کے نہ کہنے پر بھی گھر سے پکنک پر گئ تھی اس وقت اس کی عمر لگ بھگ پندرہ سال تھی۔گھر میں ہمیشہ امی کی چخ چخ، بھائیوں بھابیوں کے جھگڑے، بہنوں کے حسد سے تقریباً روز سابقہ پڑتا تھا۔وہ گھر کی فضا سے تنگ آچکی تھی اسی لئے موقع غنیمت جان کر گھومنے نکلی تھی پر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے بس پلٹ گئ۔حادثے میں کئ جانیں گئیں ۔اس کی زندگی کے اوراق ابھی بند نہ ہوئے تھے اس لئے لڑکھتے ہوئے پہاڑ کی وادی میں ایک پتھر سے ٹکرائ اور بے ہوش ہو گئ۔ہوش آیا تو خود کو ایک نرم بستر پر پایا۔ایسا بستر نہ کبھی دیکھا نہ اس پر سونے کی تمنا ہی کی تھی کہ یہ تو خوابوں ،تمناؤں سے بھی پرے تھا۔اتنے میں ایک مشفق خاتون نے اسے سہارا دیا۔پگلی تھی ! اس شفقت کو مہربانی سمجھ بیٹھی۔ اتنی بڑی کوٹھی میں خوب گھومتی پھرتی۔پیٹ بھر مرغن،مقوی غذائیں ملیں ،جدید تراش خراش کے لباس زیب تن ہوں تو گھر کی یاد کہاں آتی ہے اور وہ بھی ایسا گھر جہاں اپنے وجود کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو، سو وہ بھولتی چلی گئی ۔

‎روز گھنگھرؤں کی تھاپ سنتی ۔اپنی ساتھیوں کو رقص کرتے اور مشق کرتے دیکھتی۔۔مشفق خاتون کی نوازشیں دیکھتی اور خوش ہوتی۔پتہ نہیں تھا کہ یہ سب عارضی ہیں۔آئینے کا پچھلا حصہ ہمیشہ کالا رہتا ہے۔اس کا دل بھی چاہتا کہ وہ بھی رقص کا حصہ بنے کہ امی کے گھر ٹی۔وی پر رقص دیکھتے ہوئے کافی متاثر ہوتی تھی ،کرنا بھی چاہتی تھی پر امی کی غصیلی نظروں کے آگے یارا نہ تھا اور ایک دن اس کی تمنا رنگ لے آئ۔مشفق خاتون نے اس کے پیروں میں بھی گھنگرو پہنا دئیے۔وہ جنگل کے مور کی طرح جھوم جھوم کر خوب ناچی ۔۔روزانہ کی ریاض اور شوق پیروں کو زمین پر ٹکنے نہیں دیتے۔۔ہواؤں کے دوش پر اڑ رہی تھی۔خوش گلو بھی تھی۔راگ اساوری ہو یا پہاڑی ، وہ لئے گلے سے
اٹھتی کہ استاد دنگ رہ جاتے۔۔

اور پھر ایک دن اسے سجا دھجا کر بازار کی زینت بنا ہی دیا گیا۔۔پہلے پہل صرف راگ راگنیوں ہی سے زندگی کو موڑ دیا گیا اور اس کے گھنگھرؤں اور راگنیوں نے وہ جوہر دکھائے کہ شائقین کو حاضرین بنا دیا۔دو ایک تو بس اسی کی چوکھٹ کے ہو کر رہ گئے۔ مشفق خاتون کی اصلیت اب اس کے آگے آئینے کی مانند صاف ہونے لگی۔خود شناسی نے خود غرضی کی ردا کو سر سے کھینچ لیا اور جب اسے پہلی رات ، صرف ایک رات کی دلہن بنایا گیا تب وہ پھوٹ پھوٹ کر روئ۔آج اسے چخ چخ کرتی امی پر ٹوٹ کر پیار آیا، حاسد بہنوں کو دل نے رو رو کر یاد کیا۔بھابیوں کے طعنے پھول بن کر اس کی جھولی بھرنے لگے۔۔ وقت نکل چکا تھا۔۔صیاد کا دام ہر طرح سے اسے گھیر چکا تھا۔۔اب آگے جائے تو کھائ اور پیچھے کنواں۔۔سو قدم وہیں کے وہیں جامد ہو گئے اور خود کو حالات کے سپرد کر جذبات کا قلع قمہ کر دیا۔

‎جذبات کہاں چھپ کر سو جاتے. ہیں، وقت بے وقت خوابوں کی گزرگاہ اس کا مسکن بن جاتی ہے اور پھر آنکھوں سے دل کے دریچوں سے اندر کی حالت دگرگوں ہو جاتی ہے۔۔کچھ دن اسی طرح گزرتے رہے ایک بار دل اور دماغ کی جنگ میں خودکشی کی ٹھان لی اور چھری لے کر بیٹھ ہی گئ تھی کہ امی کا سبق یاد آیا ” دیکھو زندگی میں چاہے کچھ ہو جائے، کیسے ہی نامساعد حالات سے گزرو لیکن خود کشی نہ کرنا کہ قیامت تک اسے یہی عذاب سے گزرنا ہوگا” اور لاچاری نے موت کی سیج پر انصاف نہ کرنے دیا۔ صبر کا لبادہ اوڑھ وہ دو آنکھوں کے کٹوروں میں صرف خواب سجائے سسک سسک کر بیٹھ گئ ۔

ایک دن مشفق خاتون نے بھی اگلی دنیا کا رخت سفر باندھنے کی سعی کی تب اسے ہی بلا کر اپنی گدی نشینی کا اعلان کیا۔ اب تو مسئلہ اور بڑھ گیا۔۔اس نے جان لیا کہ اسے بھی آگے اسی رہگزر پر چلنا ہے ساتھ ماں بننے کی چھپی خواہش نے ایک بار پھر انگڑائ لی اور ساری احتیاط کو بروئے طاق رکھ کر ممتا کی راہوں پر چل پڑی۔کچھ دنوں میں پتہ تو چل گیا کہ سخت زمین پر ہری کونپل جلوہ نما ہونے والی ہے۔پھر سے دل و دماغ کی شطرنج میں آخر امید کا پیادہ کہاں جیت پاتا ہے ۔بادشاہ کا مہرہ آگے بڑھ جاتا ہے سو وہ بھی چارماہ گزرتے ڈاکٹر کے آگے جاننے کےلئے پہنچ گئی کہ بن باپ کا بچہ کس کی شخصیت کا
‎پر تو ہے ۔ڈاکٹر صاحبہ نے پہلے الٹرا ساؤنڈ کی مدد سے بتانے سے انکار کر دیا لیکن جب پیسے کھنکے تب سارے قانون معاف ہو گئے اور اسے لڑکی کی نوید سنائی دی۔

Published inافسانچہعالمی افسانہ فورمفریدہ نثار احمد انصاری

Be First to Comment

Leave a Reply