عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 91
یہ عشق بڑا بے درد
الطا ف اشعر بخاری، کراچی، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بد ھ مت کے قدیم بھکشوؤں کی طرح ہمارے درمیان میں بیٹھا تھا۔ آگ کے الاؤ کی وجہ سے اُس کے سال خوردہ مگر سفید چہرے پر پڑنے والی روشنی اُس کے خد و خال کو ایک ایسے بت کی شکل میں پیش کر رہے تھے جیسے ابھی ابھی کسی سنگ تراش نے اُسے مکمل کر کے رکھ دیا ہوا۔ چاچا سرو تمام بستی کا چاچا تھا۔ اُس نے اپنی ساری زندگی روایتی طریقوں کو مد نظر رکھ کر گزار دی تھی اور جو بچ گئی تھی وہ اُس نے اُن اصولوں کی تر ویج کے لیے رکھ چھوڑی جن پر عمل کر کے وہ اس عمر تک پہنچا تھا۔ محلے کے لڑکے بالوں سے لے کر بڑے بو ڑھوں تک وہ سب کا دوست اور محفل کا آدمی تھا۔ اُس کی زندگی صرف دو باتھوں کے گرد گھو متی تھی ایک شکار، دوسرا اُس شکار سے متعلق دلچسپ قصوں پر مزے لے لے کر بات کرنا ۔ آج بھی ہم لوگ شہر سے دور جنگل میں سر د رات کو ایک الا ؤ جلا کر گرم گرم آگ سینک کر اپنے گیلے کپڑوں کو سکھا رہے تھے جو دریا میں مچھلی پکڑنے کے لیے جال لگا نے سے گیلے ہوئے تھے۔ سخت سردی میں جنگل کے اندر رات کے وقت ایک عجیب سا ماحول ہوتا ہے۔ انسان واقعی اپنے آپ کو طلسماتی دیس میں محسوس کرتا ہے۔ آج تو اس پہ مستزاد شام کے وقت ہلکی ہلکی بارش ہونا شروع ہوئی اور رات تک کافی بارش ہو گئی جس سے چاروں طرف کھڑے درخت سیاہی کا لبادہ اوڑھے ایسے نظر آتے تھے جیسے وہ ہمیں گھور رہے ہوں لیکن اس کے با وجود ماحول پر کسی قسم کے خوف کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ بعض دوست دو دو تین تین کی ٹو لیوں میں اپنے اپنے کا موں پر جُت گئے تھے۔ کوئی کھانا پکا نے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کر نے گئے تھے تو کو ئی برتنوں کو دھو کر کھانے پکا نے میں مصروف تھا۔ کو ئی رات کے وقت سونے کے لیے ٹینٹ میں بستر بنانے کے چکر میں تھے، تو کو ئی ابھی بھی مچھلی پکڑنے کی کنڈیاں لگانے میں مصروف تھے یہاں تک کہ کچھ تو ریڈیو پر لگے گانوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ الغرض سب ہی دنیا و ما فیہا سے لاتعلق زندگی کی آزادی کے یہ پل مزے لے کر کر گذار رہے تھے۔ ہم بھی آگ کے قریب بیٹھے آگ کی تپش کا لطف لے رہے تھے ۔ پہلے پہلے تو عام باتیں ہو رہی تھیں پھر ہم نے اُس بتِ بیخود کی خا مشی کو توڑنے کے لیے آنکھو ں ہی آنکھوں میں منصوبہ طے کیا۔
“چاچا تمہیں بھی کبھی کسی لڑکی سے عشق ہوا ؟” اُس نے بڑی مشکل سے اپنے اعضاء کو جنبش دی جیسے یہ کوئی ناگوار عمل ہو۔۔ پھر ہم سب کو دیکھا اور کہا۔
” ناں بیٹا ہمارے تو باپ دادا نے کبھی ہمیں یہ نہ سکھایا ۔ اﷲ معاف کرے۔” چاچا سرو کے ’’ اﷲ معاف کرے‘‘ میں جو گھبراہٹ تھی اُسے محسوس کرکے سب ہنسنے لگے۔ جب انسان آزادانہ موڈ میں آتا ہے تو اُس کی سوچ میں ایک شوخی، ایک طراری خودبخود آجاتی ہے۔
“کیوں چاچا کو ئی ملی نہیں یا کسی نے گھاس نہیں ڈال ؟” مظہر نے بجھتی لکڑی کو پھر سے آگ میں پھینکتے ہوئے کہا۔
“نا یار بکواس نہ کر، چا چا کا جسم تمہیں چیخ چیخ کر نہیں بتا رہا کہ جوانی میں کئی لڑکیوں پر چاچا سرو بجلیاں گراتا ہو گا۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا ہا ہا” مقدر خان کی وضاحت پر پھر سے ایک قہقہہ بلند ہوا۔
” اوے پلیدآ۔۔۔۔ میں تیری طرح نہیں جو گڈوی بجاتی لڑکیوں پر جان چھڑکتا پھروں۔” چاچے سرو نے غصے سے مظہر کی طرف دیکھ کر بے اختیار ڈانٹا تو قہقہہوں کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہاں موجود ہر بندہ اس بات کے لطف میں گم ہو گیا مگر سب اپنی اپنی جگت میں مصروف ہو گئے۔ ایک دم سے چاچا سرو سنجیدہ ہو کر بیٹھ گیا اور کسی سوچ میں گم ہو گیا۔ میں سمجھا چاچے کو یہ مذاق اچھا نہیں لگا ہو گا، میں نے چاچے کی ڈھارس بند ھانے کے لئے ایسے ہی سوال داغ دیا۔ ” کیوں چاچا کو ئی عشق یاد آ گیا نا جو تم چپ ہو گئے ہو ؟ میرے اس سوال سے باقی لوگوں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور وہ بھی سنجیدہ ہو گئے۔
” نہیں بیٹا۔۔۔۔۔ ایسا نہیں۔۔۔۔” اس دفعہ چاچے سرو کا لہجہ دھیما تھا۔ “بیٹا یہ عشق بڑا ظالم ہوتا ہے۔”
” وہ کیسے؟” میں دریافت کیا۔
” اگر یہ کسی کو اپنے دا م میں لے لے تو پھر اُس کی جان لے کر ہی چھو ڑتا ہے۔”
میں دل ہی دل میں سو چنے لگا کہ چاچا سرو بوڑھا ہو گیا ہے ساری زندگی اس نے لگے بندھے اصولوں پر گزاری ہے اسے کیا پتہ عشق کیا ہو تا ہے کیو نکہ ساری زندگی اُس کی آنکھیں نیچی ہی رہی ہوں گئیں۔ وہ کیا جا نے حسن کیا ہے ؟ عشق کیا ہے ؟ تا ہم بات کا لطف لینے کے لیے میں نے بات آگے بڑ ھائی۔
” نا چاچا ہم نے تو سنا ہے جس کو عشق ہو جاتا ہے اُس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور وہ ۔۔۔۔۔”
” بکواس ہے سب۔ میرا ایک دھی چو۔۔۔۔” چاچے سرو نے اپنے چاچے کو ایک موٹی سی گالی دی تو سب کا قہقہہ پھر بلند ہوا۔۔۔۔۔ “وہ بڑا شیطان تھا۔۔۔۔ پتہ نہیں اُس کے اندر یہ بدمعاشی کیسے آ گئی تھی۔ دادا کے مرنے کے بعد اُس نے تو پورے خاندان کی لٹیا ڈبو دی۔ میرا دادا تو وہ تھا کہ اپنے علا قے کا سردار تھا۔ رات کو نکلتا تو گندم کی بوری یا آدھی بوری لے کر نکلتا تھا اور کسی نہ کسی غریب کے دروا زے رکھ کر واپس اپنے بستر پر سوتا تھا۔ صبح وہ غریب جب پوچھتا کہ خا ن یہ بوری تم نہ تو نہیں رکھی تو وہ صاف مکر جاتا۔ نیکی اسے کہتے ہیں لیکن میرا چا چا۔۔۔۔۔ کچھ نہ پوچھو اُس کے کرتوت۔۔۔۔۔ پتہ نہیں اُسے یہ لت کس نے لگائی کہ وہ عورتوں کو لے آتا اور اُن کو جھنگ میں جا کر فرو خت کر دیتا۔ جھنگ کی عورتوں کو ملتان لے جاتا اور بیچ دیتا۔ بڑا ہی حرامی نکلا۔”
” نا، نا، چاچا کو ئی اُسے پکڑتا نہیں تھا۔”
“مٹی تے سواہ۔” ( یہ چاچے سرو کا تکیہ کلام تھا جب وہ کسی بات کو سختی سے رد کر تا تو) ۔۔۔۔ سب ہی بدمعا ش تھے چاہے وہ دلّے جو انہیں لے آتے یا پولیس والے جن کی نگرانی میں وہ یہ کام کرتا یا پھر میرا چاچا۔”
” چاچا تم تو چھو ٹے تھے تمہیں کیا پتہ وہ عورتیں کون تھیں؟ اور کیا کبھی تم نے اُن کو دیکھا بھی تھا؟” میں نے شرارتاً پو چھا تاکہ کو ئی سٹوری ہی نکل آئے۔
” میں اتنا چھو ٹا بھی نہیں تھا ہاں میں اُن کو دیکھتا تھا بلکہ میں ہی تو تھا جو اُن کو کھانا دینے جاتا۔”
کیا؟۔۔۔۔ کیا، کیا؟ چاچا تم جاتے تھے؟ کیا تم بھی اس کام میں شریک تھے؟” میں نے حیرت سے پو چھا۔
” نہیں بھئی میں تو بہت چھوٹا تھا۔ میری چاچی مجھے کہتی کہ یہ کھانا لو اور اندر ایک کتیا بیٹھی ہے اُسے دے آؤ۔۔۔۔ پہلے تو میں یہ سمجھتا تھا کہ واقعی کو ئی کتیا وہاں بیٹھی ہو گی مگر جب اُس عورت کو دیکھتا تو حیران رہ جاتا۔”
اتنے میں کئی لوگوں کے راجہ گدھ نے سر اُٹھایا۔۔۔۔کسی نے سوال داغا۔
” کیا چاچا کو ئی خوبصورت بھی تھیں یا مظہر کی پسند کی تھیں۔”
” بس بیٹا کچھ نہ پوچھ اتنی خو بصورت تھیں کہ پانی پیتیں تو حلق سے گزرتا دکھا ئی دیتا۔ یہ بڑی بڑی آنکھیں خوبصورت تو بہت ہوتی تھیں۔” چاچے سرو نے تو یہ کہہ کر بات ختم کر دی لیکن میں سو چوں میں ابھی تک اُسی عورت کے پاس کھڑا تھا کہ مظہر نے سوال داغا۔
” پھر چاچا سرو تیرا چاچا تو عیش کرتا ہو گا۔ ”
” مٹی تے سواہ۔۔۔۔۔ ” چاچے نے غصے سے کہا۔ وہ تو اُن کی طرف آنکھ اُ ٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا اُس کے لئے تو وہ صرف مال تھا جیسے گائیں بھینسیں ہوتی ہیں منڈی میں فروخت کرنے کے لیے۔ وہ تو اُن کو آگے بیچ دیتا تھا۔۔۔ اﷲ معاف کرے۔ بس پھر ایک د ن میرا چاچا خدا کی بے آواز لا ٹھی کے دام میں آ گیا۔”
” وہ کیسے ؟؟؟” ہم سب نے ایک ساتھ ہی پو چھا۔
” وہ ایسے کہ اُس کو عشق ہو گیا۔”
ہم سب چاچے کی اس معصو میت پر ہنسنے لگے۔
ہا، ہا، ہا، واہ چاچا یہ بھی کوئی اﷲ کی پکڑ ہو ئی؟”
” ہاں نا۔۔۔۔ پتہ ہے اُسے عشق کس سے ہوا ؟؟”
” کس سے؟” میں نے پو چھا۔
” ایک ایسی عورت سے عشق ہو گیا جس کا رنگ اتنا کالا تھا جیسے رو ٹی پکا نے والے توّے کا ہوتا ہے۔۔۔کالا سیاہ۔۔۔۔ نہ اُس میں خو بصورتی تھی اور نہ ہی کو ئی ادا وغیرہ۔۔۔۔ پھر بھی میرے چاچے کو وہ بھا گئی۔
” پھر کیا ہوا چاچا ؟” میں پوچھا۔
” اُس سے میرے چاچے نے زبر دستی شادی کر لی لیکن وہ چاچے کو با لکل پسند نہ کرتی تھی۔ میرا چاچا اُسے جتنی محبت کر تا تھا وہ اُس سے دوگنا نفرت کرتی تھی۔۔۔۔ میں نے خود کئی دفعہ دیکھا وہ اُسے جو تیاں مارا کرتی تھی اور میرا چاچا آگے سے ہنستا تھا۔۔۔۔ وہ اُس گالیاں دیتی تو وہ خوش ہوتا تھا یہاں تک کہ وہ اُسے لاتیں مارتی۔۔۔۔ عشق جو ہو گیا تھا۔ اُس کے بطن سے ایک لڑکی بھی پیدا ہو ئی۔ اُس نے اپنی بیٹی کی بھی پروا ہ نہ کی اور ایک دن گھر سے بھاگ گئی۔”
” گھر سے بھاگ گئی کیا مطلب کسی اور کے سا تھ؟ مقدر نے حیرت سے پو چھا۔
مٹی تے سواہ۔۔۔۔ چاچا سرو پھر ناراض ہوا۔ ” اُس بھُتنی کو کس نے پسند کر نا تھا۔ بس وہ بھاگ گئی چڑیل کہیں کی۔”
” پھر کیا ہوا؟ تمہارے چا چے نے دوسری شاد ی کر لی؟” میں نے پوچھا۔
” نہیں وہ ابھی عشق کی پکڑ میں تھا۔۔۔۔۔ وہ اس کی جدائی میں گھر کی دیواریں پکڑ پکڑ کر روتا تھا اور او نچی آواز میں اُس کا نام پکارتا تھا۔ ایسے جیسے دنیا اُس کے لیے ختم ہو گئی ہو۔۔۔۔۔ بھرپورکو شش کے باوجود بھی وہ اسے نہ ملی ۔۔ رو تے روتے اُس کی بینائی چلی گئی اور پھر وہ بڑی بھیانک مو ت مر گیا۔
” مر گیا کیا مطلب، ایک بد صورت عورت کے لیے وہ مر گیا؟” مقدر نے حیرت سے استفسار کیا۔
” ہاں مر گیا کیو نکہ اُسے خدا نے عشق کی سزا دی۔” چاچا سرو تو یہ کہہ کر چپ ہو گیا لیکن میں آگ کے الاؤ میں ایسا گم ہوا کہ جب بھی کہیں آگ کا الاؤ نظر آتا ہے میں اسی کہانی میں گم ہو جاتا ہوں۔
Be First to Comment