عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ ۔ 140
“یَومُ الْمَوْعُود”
افسانہ نگار: مشتاق احمد مشتاق
مالیگاؤں، ضلع ناسک، صوبہ مہاراشٹر، انڈیا
وقت روشنی کی رفتار سے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، دیہات شہر اور شہر میٹرو سٹی میں تبدیل ہو رہے ہیں، زمین پر آباد لوگوں کا تناسب حد درجہ بڑھ چکا ہے، اپنے مسکن و مامن کے لیے جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف سے آنے والے لوگ اب تختہ آب پر آباد ہو رہے ہیں ملوں فیکٹریوں، سواریوں میں جلنے والے ایندھن دھواں بن کر آسمان اور زمین کے درمیان پھیلے خلاء کو پر کر رہے ہیں، یہ تفکر بھری آواز غار سے مسلسل آ رہی ہے، اور اب آواز میں گھبراہٹ شامل ہو گئی ہے.
موسم میں تغیر آ چکا ہے، سورج مدھم، چاند دھندلا رہا ہے، ستارے ماند پڑ چکے ہیں، زمین درختوں سے خالی ہو رہی ہے، پہاڑ کاٹے جا رہے ہیں، پرندے لاسلکی لہروں کی زد میں آ کر ناپید ہو رہے ہیں، مچھلیاں ساحلِ سمندر پر مردہ حالت میں پائی جا رہی ہیں، زمین کے خاکی بدن پر سیمنٹ اور تارکول کے خول پہنائے جا رہے ہیں.
غار سے نکلنے والی آواز اب گلوگیر ہو گئی ہے، یہی سب نشانیاں تو ہمیں بتلائی گئی ہیں اور!! اور!! یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب ایسا ہو تو سمجھ لینا کہ جن لوگوں نے کمزوروں ہر زندگی تنگ کی ہے ان پر شکنجہ کسا جانے والا ہے..
غار سے نکلنے والی آواز ہانپنے لگی ہے ..
“نہیں نہیں! اب مجھے سناٹوں کے حصار کو توڑنا ہو گا، وعدے کا دن قریب ہے، مجھے غار کی تنہائی سے نکل کر اب بھیڑ کی طرف جانا ہے، بھیڑ!! جو سمندر پر چھا چکی ہے، میرا فرض ہے کہ میں ان کے درمیان جاؤں، انہیں سچائی سے روشناس کراؤں، ہاں ہاں!! سچائی بتا دینے سے ذہنی خلفشار ختم ہو جاتا ہے”.
آواز خاموش ہوئی اور غار کے دہانے سے ایک بوڑھا شخص سفید لباس میں اپنی لاٹھی تھامے نمودار ہوا، بوڑھا کچھ دیر لاٹھی کو تھامے کمان بنا آبادی کی طرف دیکھتا رہا اور زور سے ہانک لگائی، حیرت انگیز طور پر بوڑھے کی آواز آبادی میں موجود لاسلکی آلات سے خارج ہونے لگی، لوگ گھبرا گئے اور اپنے ان آلات کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگے، جن سے ایک بے چہرہ آواز خارج ہو رہی تھی..
“وقت آ چکا ہے، اے ذہین لوگو!! تمہاری ذہانت انتہا کو پہنچ کر بے وقوفی میں تبدیل ہو چکی ہے.. سنو!!تمہاری ایجادات ناکارہ پرزوں میں بدلنے والی ہے، اے لوگو!! تم زندگی کرنے کی کوشش میں، زندگی سے دور ہو چکے ہو،سنو!!! جدید اشیاء کے پرستارو!! گردن جھکاؤ اپنے سینے کی طرف دیکھو!! دیکھو وہاں ایک لوتھڑا بے حس و حرکت پڑا ہے، اگر تم آسمانی انتقام سے بچنا چاہتے ہو تو اسے جاری کرو! جسے تم مادیت کی چکا چوند میں بھلائے بیٹھے ہو “
آواز کچھ دیر کو رکی اور پھر تازہ ہو ابھرنے لگی..
” وعدے کا دن قریب ہے، زمین تم پر تنگ ہو چکی ہے، اس سے پہلے کہ تابوت کھلے اور تمہاری مشینیں ناکارہ ہوجائیں، اے مادیت کی چادر تان کر سونے والو!! جاگو..
اس سے پہلے کہ تمہاری سانسیں تمہاری سینے میں گھونٹ دی جائیں اور تمہارے جسم پتھر ہوجائیں، آلہء ایزدی کو بیدار کرو”
بوڑھے کی آواز مسلسل لاسلکی آلات سے خارج ہو رہی تھی، اور دوسری طرف بڑے سے ہال میں دنیا کی چھوٹی چھوٹی طاقتیں ایک ہجوم کی شکل میں اپنی آنکھوں میں سراسیمگی کی پرچھائیاں لیے اپنے سے بڑی طاقت کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھ رہی تھیں.
“گھبرانے کی ضرورت نہیں! “
ایک مغرور آواز ہال میں گونجی..
” اس سے پہلے بھی کئی ایسی آوازیں ابھری ہیں، جسے ہم نے خاموش کردیا، یہ آواز بھی خاموش کردی جائے گی”
“لیکن یہ ایک ایسی آواز ہے جس کا کوئی چہرہ نہیں ہے، اسے ہم کیسے تلاش کریں گے؟ “
” اسے ہم نہیں ہماری مشینیں ڈھونڈیں گی، ہم نے ہر آسمانی بلا سے نپٹنے کا انتظام کر رکھا ہے”
“مگر اس آواز نے کہا ہے کہ مشینیں……….. “
بات مکمل ہونے سے پہلے ہی مغرور آواز گونج پڑی..
” ہاں مشینیں ناکارہ ہوجائیں گی….. لیکن ابھی ہوئی نہیں… ہم ذہین لوگ ہیں، ہم نے اپنی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا میں زندگی کو آسان کیا ہے اور کرتے رہیں گے، اس سے پہلے بھی ہمیں ڈرایا جا چکا ہے “
مغرور آواز اور مغرور ہو کر گونجی..
” مگر ہم نہ اس وقت ڈرے تھے اور نہ اب ڈریں گے، کیونکہ ہم نے مشکلوں سے ڈرنا نہیں لڑنا سیکھا ہے “
اتنا کہہ کر مغرور آواز بند ہوگئی اور ایک مشین کے لال، پیلے، ہرے لائٹ طرح طرح کی آوازیں کرنے لگے اور ایک جلتا ہوا لوہے کا ٹکڑا مشین سے نکل کر بے چہرہ آواز کے تعاقب میں نکل پڑا، بوڑھے کی آواز اب بھی لاسلکی آلات سے خارج ہو رہی تھی، بوڑھا اب بھی دنیا کو پند و نصیحت کر رہا تھا..
اور پھر جلتا ہوا لوہے کا ٹکڑا ہوا میں تیرتا ہوا بوڑھے کی پشت کی طرف بڑھا، زور کی چنگھاڑ ہوئی…
مشین ناکارہ ہو گئیں..
Be First to Comment