Skip to content

یو مے کس دا برائڈ

افسانہ برائے عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 110
یو مے کس د ا برایڈ 

۔۔ سیمیں درانی ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان
یو مے کس د ا برایڈ ناؤ. ” ڈائنا اور چارلس کی دیو مالائی کہانی کا یہ منظر چارلس کو بہت بھاتا تھا اور وہ اپنی وال سکرین پر بار بار اس کو دیکھتا اور سوچوں میں کھو سا جاتا. آجکل اسکے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا. نئی ٹیکنالوجی کے متعارف ہوتے ہی وسیع پیمانے پر ڈاؤن سا یزنگ کی زد میں انے والوں میں چارلس بھی تھا. انسانوں کی جگہ روبوٹس اور َآ رٹیفِشل انٹلجنس لے رہی تھی جبکہ انسان بائیولوجیکل وار کے نتیجے میں بھوک افلاس اور نت نئی بیماریوں کا شکار ہو کے ابنا مقام کھوتا جا رہا تھا. مَارشِن کے وجود کی تلاش میں کوشآں انسان….. انسانیت کو پامال کرتے ھوہے دوسرے سیاروں کی ممکنہ زندگی کی امید میں سائنسدان انسانی حقوق کی تنظیموں کی مدد سےکوڈ اف کنڈکٹ تشکِل دے رہے تھے. موجودہ حالات اور صورتحال نے چارلس کو چڑچرا اور نفسیاتی مریض بنا کر رخ دیا. پامیلا اس کی کو ورکرھونے کی ساتھ ساتھ اس کی گرل فرینڈ بھی تھی اور دونوں پچھلے چند سال سے اکٹھے رہ رہے تھے ، بھلا ہو جنڈر اکویٹی کے قانون کا کہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی اکلوتی خاتون کارکن ھونے کے باعث پامیلا کی نوکری بچی رہی.گھر اتے ہی پامیلا نے بھوک کی شکایت کی اور فرج کی طرف دوڑی. مگر چارلس سارا دن سونے کی بعد باہر جا چكا تھا. اس کو کوستی اور غلیظ القابات سے نوازتی پامیلا نے وٹامنز اینڈ منرلز کی سپر ڈوز ٹیبلٹ لی اور بستر پہ خود کو گرا دیا. چارلس جب تازہ دم ہو کر واپس آیا تو پامیلا کو بے لباس دیکھ کر اس نے ایک جانور کی مانند اس کے وجود کو بھنبھوڑ کر اپنی فرسٹریشن اور جسمانی بھوک کا سامان کیا. پامیلا پہلے پہل تو اس کے اس انداز کو محبت کا اندھا دھند اور بے مہار انداز سمجھتی مگر اہستہ آ ہستہ اس نے مدافعتی انداز اپنانا شروع کر دیا اور جب وہ شور مچاتی تو چارلس کے اندر کے حیوان کو تسکین ملتی، چارلس کی یہ دیوانگی اسکی بیروزگاری کے بعد مزید شدت سامنےآہی تھی اور پامیلا نے ایک بیروزگار اور بیکار حیوان کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا اور دوسرے دن ہی فلیٹ چھوڑ کے چلتی بنی. شروع شروع میں تو چارلس کو تنہا ئی محسوس ہوئی اور اس نے پامیلا کو منانے کی کوشش کی مگر جب اس نے صاف انکار کر دیا تو اس کو تنہائی کھانے کو دوڑتی. پیٹ کی آگ بجھاتا تو جسم کی اگ لپیٹ میں لیتی. ایسے میں وہ وقت گزاری اور جنسی تسکین کے لیےاپنی ہی ذات اور پورن کے استعمال سے تنگ اکر کثرت مے نوشی کا سہارا لیتا. اسی طرح نیکسٹ نیکسٹ کا ارڈر دیتے وہ ایک ٹی وی چینل پر رک پڑا.” ١٠٠ پرسینٹ سلیکون ڈولز. آپکی تنہاہی کی بہترین ساتھی اور صحتمند زندگی کی ضامن بھی،. آج ہی اپنی پسند کی کسٹماہذڈ ڈول ارڈر کریں..فری ہوم ڈلیوری اور ایکسٹرا ایکسسریز بھی پائیں. یوں، چارلس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور ڈائنا اس کی زندگی میں شامل ہو گئی . ڈائنا خاموشی سے بیٹھی اس کی باتیں سنتی رہتی. وہ اس کی سامنے خود کو شہزادہ چارلس تصور کرتا اور اکثر پامیلا کا ذکر کرکے پوچھتا، کیا محسوس کر رہی ہو. دیکھو چارلس کو پامیلا نہیں ڈائنا چاہیے. اور وہ پامیلا کے خلاف دل کی بھڑاس نکلتا، شراب پی کر اول فول بکتا اورڈائنا کو خوابگاہ لیجا کر ایک شہزآدے کی مانند سلیکون کی اس گڑیا کو رگیدتا ، مسلتا اور پھر آخر میں اس کو بھنبھوڑ کے پھینک دیتا. اپنی مردانگی کا یہ اظہار اس کے اندرمرد کی آنا کو تسکین نہ ملتی کہ ڈاہنا اف” کا لفظ ادا نہ کر سکتی تھی، نہ ہی اس اس کی گھگھی بندھتی اور نہ ہی اس کا خون رستا. بلکہ وہ صرف جواب میں کراہ کر چپ ہو لیتی. شروعات میں تو چارلس مزہ لیتا رہا. مگر جب اس کے اپنی ہی صحت و تندرستی کے خیال سے ڈائنا کو ہر وقت صاف ستھرا رکھنا پڑتا تو اس بے جان عورت کی اپنے اوپر فوقیت سی اس کو نفرت انے لگی اور وہ محسوس کرتا کہ جس عورت کا تصور کرکے اس نےڈائنا کو خریدا تھا وہ اس کو انسان اور سلیکون دونوں میں نہیں مل سکتی. وہ، جو اس کے ایک اشآرے پہ بھاگتی آ ہے. چارلس بیٹھنے کو حکم دے. تو بیٹھے، اس کے انتظار میں گھنٹوں دروازے پر کھڑی اس کا انتظار کرے اور دیر سی انے کی صورت میں بھی پیار و جانثاری سے استقبال کرے. ، اس کے ہر حکم کی بلا چوں چراں تعمیل کرے ، جب بھی چارلس روٹھ جاہے، گھگھیا کر اس کے پیروں میں لوٹ پوٹ ہو. اور بستر میں ایک ‘بچ’ کی مکمل عکاس ہو. اس کو عورت کا وہ روپ درکار تھا. مگرایک بے زبان اور زبان دراز عورت، دونوں میں ان خصوصیات کا فقدان پایا. چارلس نے ڈائنا سے بھی چھٹکارا پا لیا اور آن لائن نوکری کی تلاش جاری رکھی. حکومت کی طرف سے ملنے والے وظیفے میں اس کا گزارا مشکل ہوتا کیونکہ وہ ایک ہائی فاہی زندگی کا عادی تھا. دسمبر کی روںقیں عروج پر تھیں اور وہ سرد موسم ، تنہاہی اور بے روزگاری کے جاڑے میں الجھا رات کا کھانا تیار کرنے میں مصروف تھا کہ اس کو دروازے پر کھٹ پھٹ محسوس ہوہی. واہمہ سمجھ کر اس نے دوبارہ اپنے کام پر توجہ دینی چاہی تو اس کو ہانپنے کی آواز سناہی دی . ڈرتے اور جھجکتے اس نے دروازہ کھولا توبرف میں لتھڑا ایک جانور اندر داخل ہو گیا. ایک کتا… کتے نے داخل ہوتے ہی بپھر کے برف جھاڑی اور ایک کونے میں کھڑے ہوکر ہانپنا شروع کر دیا. چارلس نے ایک برتن میں کھانا ڈآل کر اسکے سامنے رکھ دیا اور خود بھی لقمے نگلتے ہویے اس پر غور کرتا رہا.کھانے کے بعد وہ کتا اگے بڑھا اور اس کے قدموں میں تشکر آمیز انداز میں لوٹنے لگا۔ ڈش واشنگ سے فارغ ھو کر جب چارلس نے خوابگاہ کا رخ کیا تو کتا بھِی اسکے پیچھے دم ھلاتے اند ر داخل ھو گیا۔ اب ٹی وی سکرین سے نظر ھٹا کر اس کتے کا جاءیزہ لینا شروع کردیا۔ چارلس بولتا گیا اور کتا حکم کی تعمیل کرتا گیا۔ وہ کسی کا پالتو اور تربیت یافتہ کتا تھا جو کہ شاید شدید سردی مین راستہ بھٹک کر آ پہنچا تھا۔ اسی دوران چارلس نے مشاہدہ کیا کہ وہ جانور… ایک کتیا تھی. کرسمس رات کو چارلس رات کو بہت چڑھا کرآ یا اور سیدھا بستر میں جا گرا. اس کتیا نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور چارلس کے تلوے چاٹنے شروع کر دیے. چارلس کو اس کا یہ انداز بہت بھآیا اور اس نے اس کو بستر میں گھسیٹتے بولا . ”بی ما ئ برا ئیڈ مآہی ڈارلنگ” ….انسان اپنی حیوانی جبلت کی تسکین کے لیے جانور کی ساتھ ایک جانور بن گیا. صبح کی رو شنی میں جب اس نی اپنی بانہوں میں برائڈ کو سوتا پایا تو ہڑبڑا ااٹھا ..غسل خانے جا کر نہایا اور فیصلہ کرلیا کہ چرچ میں فادر ڈگلس کے پاس جا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرے گا. انسان ترقی کے باوجود بھی دعا کا بھکاری ہے. کشکول خواہ سونے کا بھی ہو، کشکول ہی رہتا ہے. اڑتِفِشل انٹیلیجنس اور انٹی ڈپرسنٹس کبھی بھی اس کی دلی کیفیت کا سدباب نہیں کر سکتیں . انسان کے جذبات و احساسات اس کو ایک ایسے وجود کی تلاش رہتی ہے جو دکھتا نہ پر سنتا ہو کہ دکھنے والی ذات کشکول کو بھرتے ہوئے، دینے کے تناسب کی جانچ کرتی ہے جبکہ پردوں میں پنہاں، چھپر پھاڑ کردیتا ہے. . سائنسی ترقی کی ساتھ ساتھ چرچ نے بھی ترقی کر لی اور اب انسانی اور جانوروں کی تنظیم کے عهدیدارن کے علاوہ ساہینسدان بھی چرچ میں نمائیندگی رکھتے تھے.ہم جنس پرستی کو ہر ملک میں قانونی سرپرستی حاصل تھی اور جنسیت کی منڈی میں انسان ہر قسم کے تجربات کا عادی تھا. فادر ڈگلس کو چارلس کی داستان سن کر اچنبھا تو نہ ہوا مگر وہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا. ”خداوند مہربان ہے اور تم سے پیار کرتا ہے”، مگر چارلس جو کہ پہلے ہی نفسیاتی کشمکش کا شکَار تھا اڑا رہا، روتا رہا. اسکی تسلی کے لیے فادر نے اسکو اگلے ہفتے کی سروس میں انے کی ہدایت کی. چرچ کی سالانہ رسومات کے سلسلے میں میٹنگ میں ساہنسدان، انسانی حقوق کی انجمن اور دوسری فلاحی تنظیموں کی سربراہان بھی شریک تھے. مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کے دوران فادر ڈگلس نے چارلس کے قصے کا تزکرہ کیا تو سب مندوبین نے اس بات پر خاص توجہ نہ دی، مگر نوجوان کلیرک سٹیفن نے اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا جو کہ چرچ کے دیے گیے وظیفہ پرسپلائیزنگ اور جنیٹک انجنرئینگ کی تعیلم حاصل کر رہا تھا. اسکی آنکھیں چمک اٹھیں اور ایک نئ بحث نے جنم لیا. جس سائنس اور ترقی کے نام پر انسان نے انسانیت کی دھجیاں بکھیری تھِین،اس کی منطق جیت گئی، مذھب سسکی لے کر کونا پکڑ جا بیٹھا اور تحقیق و ترقی کا وہ باب جس کو چھپ چھپاتے لکھا اور پڑھا اور آزمایا جا رہا تھا اب مذہبی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو کفالت کا تحفظ دیے جانوروں کو ان کا جائز مقام دلانے اور سیارے پر موجود انسانوں کو درپیش مستقبل کےانجانے اندِشوں سے نمٹنے کیلیے ا علئ عہدوں پر فائز شرفاء و علما ء نے ایک ہی سیاہی سے لکھنے کا فیصلہ کیا . اور اس کے لیے ١ جنوری کی تاریخ کا انتخاب ہوا. نیا سال جو کہ انسانیت اور زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا و سلامتی کی خوشخبری اور نوید لانے والا تھا. فادر نے چارلس کو فون کرکے جیوری کے فیصلے سے اگاہ کیا اور اس کو بتایا گیا، کہ چونکہ وہ اس مقصد کی کامیابی کے لیے پہلا قدم اٹھاننے میں ان کا معاون و مددگار ہنے لہذا اسکو سائنسی اداروں کے اشتراک سےمفت رہائش ، طبی سہولیات اور نوکری اور تحفظ کی سہولت مہیا کی جائے گی. یکم جنوری کی صبح ان پہنچی. چارلس نے اپنا بہترین لباس زیب تن کیا. براییڈ اسکی سیٹی کی آواز سن کر پچھلی نشست پر جا لپکی اور گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو گئی. چرچ کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں پا کر چارلس ننے دور ہی گاڑی کھڑی کی اور باہر نکل کر چرچ کی جانب قدم اٹھانے شروع کردئے. برائیڈ بھی دم ہلاتی اسکے پیچھے لپکی. چارلس اس کی اس ادا کا دیوانہ تھا. اس کو چمکارا. ”اوہ ماہی بیبی، رن فاسٹ” اندر داخل ہوا تو چرچ لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا. کمروں کی فلش لاہٹس سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں. تیزی سے قدم اٹھاتا. کتیا کو چمکارتا ، فادر کی جانب بڑھا. فادر نے نہایت مشفق مسکراہٹ سے نوازتے ہوئے رسومات کا اغاز کیا. اور اپنا تاریخی جملہ ادا کیا… ”یو مے ناؤ کس دی برایئڈ”’.

Published inسیمیں درانیعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x