عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 97
یاد گرفتند
حسنین جمال، لاہور، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے کا وہ موڑ مڑتے ہی اسے سب کچھ پہلے سے دیکھا ہوا لگنے لگا، وہ کونے والا مکان جہاں جانور بندھے ہوتے تھے اور جن کی گندگی کی بو بہت دور سے آنی شروع ہو جاتی تھی۔ اسے یاد آنے لگا کہ اس مکان کے رہنے والوں میں ان جانوروں کی خصوصیات بھی محسوس کی جا سکتی تھیں، بلکہ اس کو تو بڑے لڑکے کی شکل کافی حد تک ان سے ملتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ صبح کو وہ جب بھی وہاں سے گزرتا تو اس لڑکے کو سواری والے جانور کے ساتھ دیکھ کر لگتا جیسے دو بھائی ہیں۔ دونوں کی شکل میں حیرت انگیز مماثلت لگتی لیکن یہ بات وہ کسی کو کہہ نہیں سکتا تھا، والدین سے تو اس بات کا ڈر تھا کہ انھوں نے خدا کی مخلوق کا مذاق اڑانے والی بات کرنی تھی اور کہنا تھا کہ تم بھی ویسے ہی ہو جاؤ گے اور اسے دل ہی دل میں ویسا ہونے سے ڈر بھی لگتا تھا۔
ساتھیوں سے اس لیے نہ کہہ پاتا تھا کہ کوئی ساتھی پڑھانے والی خاتون کو شکایت نہ لگا دے لیکن اس لڑکے کو دیکھ کر جب وہ اس کے بالوں اور اس جانور کی گردن کے بالوں کا رنگ تک ایک ہی جیسا دھوپ میں جلا ہوا بھورا پاتا تو بہت لطف اندوز ہوتا اور سوچتا کہ کوئی اور بھی شاید اسی طرح سوچتا ہو گا یا شاید کسی اور کو فرصت ہی نہ ہو۔ پھر اس لڑکے کے والد، وہ شکل سے ہی سواری کا جانور چلانے والے لگتے، اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ بھی خالصتاً اس کا ذاتی تصور تھا، آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ایک سواری کا جانور چلانے والے کی شکل ہمیشہ ایسی ہی ہو گی، یعنی ایک اچھا خاصا آدمی ہے، اچھا لباس پہنے ہوئے ہے، سر اور چہرے کے بال ترشے ہوئے ہیں، سرکار کی ملازمت میں ہے، ملک کی حفاظت کرنے والوں میں سے ہے، مگر، چوںکہ اس کی شکل اس آدمی سے ملتی ہے جو سواری کا جانور چلاتا ہے تو یہ بھی لامحالہ اپنی ملازمت میں جچتا نہیں ہے، اس کے ہاتھ میں بھی اس جانور کو دوڑانے والا لکڑی کا لمبا چابک ہوتا تو کیا خوب لگتا !!!، یا وہ راستے میں موجود سواریاں چلانے والوں کو دیکھتا رہتا اور کئی لوگ اس کے معیار پر پورے نہ اترتے کیوںکہ ان کا چہرہ اس سانچے میں نہیں بیٹھتا تھا جو اس نے پہلے سے ہی ذہن میں اس کام کرنے والوں کے لیے بنایا ہوا تھا۔ اب بتائیے یہ بات کسی سے کیسے کہی جا سکتی ہے؟
یہ اس کے بہت شروع عمر کے مسائل میں سے ایک تھا جو اسے اس دیکھے بھالے راستے سے گزر کر یاد آ رہا تھا۔ وہ اس جگہ رکا اور غور سے دیکھنے لگا، اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ بچہ کہیں سے نکل کر ابھی سامنے آ جائے گا جس کے پھولے ہوئے گال اتنے شفاف ہوتے تھے کہ ان میں دو نیلی رگیں تک نظر آتی تھیں جو شاید عمر میں اس سے تھوڑا ہی چھوٹا تھا، مگر اسے چوںکہ وقت سے پہلے بڑا بننے کا شوق تھا تو وہ اسے کچھ زیادہ ہی چھوٹا لگتا اور وہ اسے بہت شفقت سے دیکھتا۔
لیکن یہ سب کچھ اسے وہاں کیوں یاد آ رہا تھا، وہ کونے والا مکان تو اب مکمل طور پر عبادت گاہ میں بدل چکا تھا اور لکڑی کے لمبے ٹکڑے جوڑ کر بنایا گیا دروازہ جو تین سیڑھی چڑھ کر آتا تھا وہ بھی نہیں تھا، اس کی جگہ سفید چمکتے پتھر کی عمارت اور لوہے کا شاندار دروازہ لگا تھا، اور دروازے سے پہلے وہ تین سیڑھیاں بھی نہیں تھیں کیوںکہ راستہ خود اونچا ہو گیا تھا بار بار بننے کے بعد۔ وہ کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے وہیں تھے شاید اس وجہ سے یاد آ گیا لیکن ان میں بھی وہ مری ہوئی مچھلی کی جیسی آنکھوں والا مہربان بزرگ نہیں تھا، جو پیار تو بہت کرتا مگر ادھار یا رعایت نہیں کرتا تھا۔ ہاں، اس کے لڑکے تھے، آنکھیں سیاہ تھیں۔
شاید یوں ہو کہ وہ رکاوٹ جو نکڑ پر اس لیے بنائی گئی تھا کہ کوئی بھی سواری وہاں سے گزرے تو آہستہ ہو جائے، وہ ویسی کی ویسی تھی، باوجود اس کے کہ راستہ اونچا ہو چکا تھا اور کچھ تنگ بھی، لیکن، وہ رکاوٹ وہیں تھی۔
آسمان مہربان تھا، پانی اترنے کا موسم تھا، وہ اپنے والد کا مہربان ہاتھ تھامے راستے میں اسی رکاوٹ پر جم کر کھڑا تھا اور پڑھنے کے پہلے ہی دن اس جگہ جانے سے انکار کر دیا تھا جہاں اس مقصد کے لیے اسے داخل کروایا گیا تھا لیکن پھر مان بھی گیا اور ہاتھ تھامے اس مقدس جگہ پہلا قدم رکھا جہاں سے تا عمر سیکھنے کا بوجھ اٹھانا تھا۔ وہ گہری گندمی رنگت والے سفید ریش لمبے اونچے بزرگ (جو اسے بگلے لگتے تھے حالاںکہ اس نے صرف بگلے کا نام سنا تھا دیکھا تک نہیں تھا ) جن کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھما دیا گیا تھا وہ اس رکاوٹ پر کھڑے کھڑے اسے یاد آ رہے تھے۔ اور یوں گویا اس ایک نشانی کی وجہ سے وہ سارا علاقہ اور واقعات اس کے سامنے ایک کے بعد ایک گویا چلتے جا رہے تھے۔
پھر جب آسمان سے پانی اترتا، اترتا جاتا، تھمنے کا نام ہی نہ لیتا، ایسے میں وہ اکیلا ہی مجنوں باہر کو دوڑ پڑتا۔ پانی پہلے ٹخنوں تک ہوتا پھر گُھٹنے بھی ڈوب جاتے لیکن وہ گھومتا رہتا۔ پرنالوں کے نیچے نہانے میں اسے بہت لطف ملتا اور وہ ، آگے ایک عمارت میں لگے کسی بہادر جانور کے منہ جیسے پرنالے وہ کیسے پرُ ہیبت دکھتے تھے۔ ویسے پرنالے پھر کہیں نظر بھی نہیں آئے۔ ان میں سے پانی باقاعدہ ایک لمبی دھار کی صورت نکلتا تھا اور وہ دھار اگر سر کے اوپر پڑتی تو بڑے بڑوں کی طبیعت صاف ہو جاتی تھی۔ اس کے ساتھی باقاعدہ شرط لگا کر اس دھار کے نیچے کھڑے ہوتے، جو سب سے زیادہ دیر کھڑا رہ پاتا وہ جیت جاتا۔ ایک دن سامنے والوں کے بچے کی طرح وہ بھی خالی چڈی میں نہانے نکل گیا۔ کتنی مار پڑی تھی امی سے اس دن! اسے سامنے والا بچہ یاد آ گیا، کتنا خوش نصیب تھا، ایک وقت میں ایک کپڑا ہی پہنتا تھا، یا قمیص یاچڈی۔ وہ بھی ایسے ہی گھومنا چاہتا لیکن روک دیا جاتا۔ اسے وہ سائیکل والا یاد آ گیا جو پچھلے محلے میں لگاتار چھ دن ایک دائرے کی صورت سائیکل گھماتا رہا تھا، ساتویں دن اتنا پانی برسا کہ اسے بھی سامان لپیٹنا پڑا۔ اس میدان میں باقاعدہ اتنا پانی تھا کہ خانہ بدوش لڑکے تیرتے پھرتے تھے۔ ایک خواہش یہ بھی تھی کہ وہ ان کے ساتھ تیرے مگر یہ بھی ممکن نہ تھا۔ ہاں اپنے صحن میں جو کبھی پانی بھر جاتا تو وہ اور چھوٹا بھائی ایک ایک تسلہ سنبھال لیتے اور پانی میں تیرتے پھرتے، آم کی پیٹیوں کو توڑ کر چپو بنتے اور سواری شروع ہو جاتی۔
یہیں آگے ایک گھر میں اسے شام کے وقت پڑھنے بھیجا جاتا تھا، ایک دن ٹانگوں پر ایسی قمچیاں پڑیں کہ واپس آ کر اس نے ہنگامہ کر دیا اور پہلی بار اپنی ضد میں کامیاب بھی ہوا۔ پھر وہاں بس ایک بار جانا ہوا جب چارپائیاں اوندھی کر دی گئیں تھیں اور ایک ہنستا مسکراتا انسان دم سادھے لیٹا تھا۔ یہ ایسے واقعات سے اس کا پہلا تعارف تھا۔ یہ ضرور ہوا کہ اس واقعے کے بعد اسے کھیل میں بھی چارپائی اوندھی کرنے سے خوف آتا تھا۔
چارپائیاں بننے والا پٹھان بھی تو اسی موڑ پر آکر آواز لگاتا تھا، مااااانجئیاں اونڑا لو (منجیاں بُنوا لو)۔ کیسے پانی میں بھگو کر نرم نرم بان سے وہ چارپائی بنتا اور نئی کوری چارپائی رات کو اس کا استقبال کرتی تھی۔ کتنے ہی خوانچہ فروش کیسی کیسی آوازیں لگاتے گزرتے تھے۔ وہ بابا جو دور سے آواز لگاتا آ رہا ہوتا۔ چھوووولے ے ے ے ۔ لڑکے اس کے جواب میں آواز لگاتے ، کیلے ے ے ے، اوروہ باقاعدہ خوانچہ رکھ کر ان کو مارنے دوڑ پڑتا، اس کو چھیڑا جو گیا ہوتا۔ پھر دوسرا آتا۔۔۔۔۔۔۔۔بھی آاال چھول لے ے ے ے (بھی آلو والے چھولے) ۔ کوفی عنان کے جیسا سبزی والا ریڑھی دھکیلتا چلا آ رہا ہوتا۔ آلو، ماٹر، گوبھی، گاجر۔۔ٹینڈے، وتاﺅں، گندلاں دا سااااااگ۔ یہ دونوں مصرعے بہت وزن میں پڑھتا تھا وہ۔پھر تھوڑی دیر میں گھنٹی کی آواز آتی ٹن ٹن ٹن، قلفی والا غلام رسول چلا آ رہا ہوتا۔ گھنٹی کے بعد وہ خود آواز لگاتا۔ کھوئے آااالی ی ی، ملائی آلی یا۔وہ دوڑتا ہوا جاتا، آٹھ آنے کی قلفی خریدتا، کھوے کا مرتبان کھلوا کر خود قلفی اس میں ڈبوتا اور کھوا ٹپکاتا اور چاٹتا گھر چلا آتا۔ سہ پہر میں پھل والے چلے آ رہے ہوتے۔ جمّوں کالے را کا۔ لے ے ے۔ (جامن کالے )۔ شکرقند اور سنگھاڑے بیچنے والا آتا۔ آئے یا بڑے ودّھیا سنگھاڑے، شکّر کند پیڑے، کھنڈ میوے ے۔ شام کو دو تین گول گپّے والے آتے، گووولی گپی ی ی ےا۔ یہ ان میں کا ایک بلند آواز سے کہتا۔ الغرض دنیا جہان کی چیزیں دروازے پر ہی مل جاتیں۔ وہ ایک ملنگ جو ہر جمعرات صرف اسی کے دروازے پر آتا تھا، کالا لمبا سا کرتہ، کالی تہمد، کالی پگڑی باندھے، ہاتھ میں لمبا سا عصا، ہر انگلی میں عقیق اور فیروزے کی انگوٹھیاں اور دونوں ہاتھوں میں موٹے موٹے کڑے پہنے دیر تک کھڑا رہتا۔ موٹی گونجدار آواز میں دیر تک پڑھتا رہتا۔ جنگل پہاڑ کہتے ہیں نادِعلی علی، مشکل مری کو دور کر مشکل کشا علی۔ اس کا نام ہی ان لوگوں نے جنگل پہاڑ رکھ دیا تھا۔ کوئی بزرگ آ کر پیسے دیتا، پانی پلاتا، رخصت وہ اپنی مرضی سے ہوتا تھا۔
وہ محترم شخص جو بول نہیں سکتا تھا وہ بھی اپنی بوڑھی والدہ کے ساتھ یہیں آگے رہتا تھا، اس سے اشاروں کی زبان سیکھی تھی کتنے ہی لڑکوں نے، اس کی والدہ کے بال کتنے سفید تھے، جب پڑھانے جاتیں تو کالے برقعے میں سے بھی سفید بال جھانکتے رہتے، سب لڑکیاں ہی ان سے پڑھی تھیں. پھر وہ تھڑا جو ان کے گھر سے اگلے گھر کا تھا، اس کے تمام ساتھی شام کو وہیں اکٹھے ہوتے تھے (اب تھڑا نہیں تھا لیکن تھا!) کوئی سائیکل پر ہوتا تو اسے بھی وہیں بجلی کے کھمبے سے باندھ کر تالا لگا دیتا۔ اس کے زیادہ تر ساتھی بھی اس سے بڑی عمر کے ہی تھے، وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے زندگی کے کتنے ہی راز جانے تھے۔ وہ جس کا نام لڑکوں نے گج گامنی۔۔۔۔
جی کن صاحب سے ملنا ہے آپ کو؟
بھائی کسی سے نہیں۔
تو اتنی دیر سے یہاں موڑ پر کھڑے کیا کر رہے ہیں؟
Urdu short stories and writers