عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 38
ہُوک
عمار نعیمی لاھور
دو تین دن سے قلم بہت پریشان تھا ۔ اسے اس بات کا غم کھائے جا رہا تھا کہ انجانے میں اس نے لکھتے لکھتے یہ کس چیز کو جنم دے دیا ہے۔ یہ باقی تمام الفاظ سے ہٹ کر تھا۔ اس کی شکل و صورت بھی اس کے لیے انجان تھی ۔ اس نے بڑی سوچ بچار کر بعد اس کو سوال کا نام دیا۔ لیکن چند دنوں بعد وہی اس کے لیے دردِ سر بن گیا۔ وہ بہت پریشان تھا کیوں کہ وہ صفحے کے دیگر الفاظ سے بے حد مختلف تھا۔ اور ان الفاظ کو اپنے سانچے میں بھی ڈھالنا چاہتا تھا۔
قلم کی پریشانی جب حد سے بڑھی تو اس نے اس کو چند دنوں کے لیے کتاب کے آخری صفحے پر منتقل کردیا۔ اس کے بعد قلم نے بہت سکون محسوس کیا ۔ اس کی غیر موجودگی میں وہ دیگر الفاظ کو بہت محبت سے لکھتا اور وہ الفاظ بھی قلم سے بے پناہ محبت میں بچھتے چلے جاتے۔
وہ سوال دوبارہ لوٹا لیکن اب کی بار اسے قلم کی بدنیتی صاف نظر آنے لگی ۔ اب وہ اس کی آنکھوں میں ہی اپنے لیے نفرت کی آگ دیکھ لیتا۔ چنانچہ اس کی دور اندیشی نے خطرے کو بھانپ لیا اور اس کوشش میں اپنا آپ صرف کردیا کہ وہ کم از کم ایک لفظ کو ضرور اپنے جیسا بنا دے گا۔ کیوں وہ اکیلا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
چناں چہ چند دنوں کی کوشش کے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔ ان دونوں نے گیارہ کی طاقت پکڑتے ہوئے قلم کی ناک میں دم کردیا ۔ لیکن قلم کہاں خاموش بیٹھنے والا تھا وہ تو آخر ان دونوں کا خالق تھا۔ اک دن اس نے ان دونوں پر روشنائی گرادی ، وہ روشنائی جو قلم کی طاقت تھی پر مرتا کیا نہ کرتا۔ لیکن وہ آگ بگولا تو تب ہوا جب اس روشنائی سے وہ دونوں سیاہ پڑنے کی بجائے جگمگانے لگے۔
جب انتقام کی آگ بھرک جائے پھر ٹھنڈا پانی بھی اس کو نہیں بجھا پاتا لہذا
اس کے دل و دماغ پر وہ دونوں سوار ہوچکے تھے۔ جب بہت دیر کچھ نہ سوجھا اس نے سوچا
“میرے خیال میں مجھے خودکشی کرلینی چاہیے ۔۔۔۔ لیکن نہیں ، میں کیوں خودکشی کروں؟ اگر خودکشی کروں گا تو میری کتاب کے دیگر صفحات کون لکھے گا ؟ نہیں میں خودکشی نہیں کروں گا”
سوچ کا ایک در اس پر وا ہوا۔
” جب ہم اپنے حریف کو ہرا نہیں سکتے تو اس کے کردار کو گندا کردینا چاہیے”
اس خیال پر اس نے خود کلامی میں خود کو بہت داد دی۔ اس نے اپنے تمام پرانے قلم : جن کے ساتھ اچھا وقت گزارا تھا؛ یاد کیا اور اک تحریک چلا کر ان دونوں سوالوں کو مرتد و زندیق قرار دیا۔
ان دونوں کو کتاب کے آخری صفحے پر لکھ دیا گیا جہاں سے ان کا دیگر الفاظ سے اک طویل عمر کا فاصلہ تھا۔
انھوں نے اک طویل مدت آخری صفحے پر گزاری اور قنوطیت نے ان کو سینے لگا لیا۔ اب وہ دونوں آخری صفحے سے مکمل طور پر نکل گئے اور اس صفحے پر نشان چھوڑ گئے جسے آنے والی نسلوں نے دریافت کیا اور کافی تحقیق کرنے پر ان نشانات کو سمجھنے کے بعد کتابوں کی یوں زینت بنادیا گیا۔
” ہر کتاب کی زینت ، ہر صفحے کی رونق
سوال ہے جو کہ امر ہوچکا ہے “