Skip to content

ہم خواب

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 39
ہم خواب ۔
افسانہ نگار ۔آصف اظہار ۔علی گڑھ ۔

نصیر اور رام اوتار کی دکانیں پھول چوراہے پر سبزی منڈی کے پاس تھیں۔کبھی ان کے باپ دادا آپس میں گہرے دوست رہے تھے ٗلیکن وہ تو ایک دوسرے سے شدید نفرت کرے تھے۔پچھلے کٸ فرقہ وارانہ فسادات نے سب سے بڑاستم ہندوستانی عوام پر یہ ڈھایا تھا کہ ان کے دل و دماغ مذہب کے نام پر تقسیم ہونے لگے تھے۔ان کے محلے الگ ہو گۓ تھے۔بازار الگ ہو گۓ تھے۔ان کے ذہن بٹ گۓ تھے۔شاید وقت نے ہی رام اوتار اور نصیر کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا تھا۔نفرت کازہر ان کے اندر بھر دیا تھا۔ذرا ذراسی بات کو لے کر آپس میں جھگڑنا۔زور زور سے ایک دوسرے کو گالیاں دینا انکا روز کا معمول تھا۔اس علاقے کے دکان دار ان کے اس روز روز کے جھگڑے اور جھک جھک سن کر پریشان رہتے لیکن کر بھی کیا سکتے تھے۔برسوں سے جمی ہوٸ دکا نیں ہٹاٸ تو نہیں جاسکتی تھیں۔لہٰذا برداشت کرنےاور کبھی کبھی ان دونوں میں صلح صفاٸ کرادینے کے علاوہ چارہ بھی کیا تھا ۔نصیر کی آتش بازی کے سامان کی دکان تھی اور اس سے ملی ہوٸ رام اوتار کی دکان لکھنوی چکن کے کپڑوں سے اٹی پڑی تھی۔مردانے کرتےپاجامے ٗشلوار سوٹ ٗ ساڑیاں ٗ دوپٹّے اور ٹوپیاں وغیرہ۔عید پر تو جیسے رام اوتار کی دکان پر پورا شہر کرتوں کی خریداری کے لۓ امڈ آتا۔اس وقت نہ جانے کیوں حسد کا کالا ناگ نصیر کو ڈس لیتا ۔ہونہہ کیا ہوگیا ہے شہر کے مسلمانوں کو سب اسی دکان پر چلے آتے ہیں خریداری کرنے۔ہماری بدولت مالا مال ہو گیا ہے سالا اور ہمیں سے اکڑ تا ہے۔رام اوتار کو بھی شدّت سے یہی غم ستاتا تھا کہ دسہرہ اور دیوالی پر نصیر کی دکان چمک اٹھتی ہے۔وارے نیارے ہو جاتے ہیں اس کے۔لاکھوں میں کھیلتا ہے وہ۔ضلع بھر میں آتش بازی کا سامان اسی کی دکان سے سپلاٸ ہوتا ہے۔حالانکہ اس بھیڑ بھاڑ والے بازار میں آتش بازی کی اتنی بڑی دکان کا ہونا ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔کٸ بار سارے دکاندار مل کر انتظامیہ کے پاس جا چکے تھے کہ بیچ بازار سے پٹاخوں کی دکانیں ہٹواکر کسی کھلے علاقے میں پہنچوادی جایٸں۔لیکن کوٸ سنواٸ نہیں ہوٸ تھی۔رام اوتار کی دکان کیونکہ نصیر کی دکان سے بالکل ملی ہوٸ تھی اس لۓ اسے ہر وقت ایک ڈر سا لگا رہتا تھا۔اگر نصیر کی انار پٹاخوں کی دکان میں کبھی بھولے سے ایک بھی چنگاری آپڑی تواس کی دکان کے ساتھہ ساتھہ رام اوتار کی دکان بھی جلنے سے نہیں بچے گی۔
پچھلے کٸ سال سے جب شہر میں سالانہ فسادات بھڑکتے تو شدید دشمنی کے باوجود رام اوتار بھگوان سے یہی پرارتھنا کرتا کہ ہے بھگوان نصیر کی دکان میں کوٸ بلواٸ کبھی آگ نہ لگاۓ۔ جوش اور جنون میں آکر جب اس کے محلے کے نو جوان پیٹرول کے ڈبّے لے کر آگ لگانے نکلتے تو را م اوتار کا چہرہ زرد پڑ جاتا وہ ایک ایک کے آگے ہاتھہ جوڑتا کہ بھیا آگ لگانے سے کچھہ لابھہ نہیں ہوگا اور پھر آگ نے تیرا میرا بھلا کب دیکھاہے وہ پھیلے گی تو سارا بازا ر جل کر راکھہ ہو جاوے گا۔یہ غضب نہ کرو آگ مت لگاٶ ۔کبھی کبھی ان لڑکوں کی سمجھہ میں یہ بات آ بھی جاتی تھی ۔لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔بڑے بڑے جھگڑوں اور فرقہ وارانہ فسادات میں جو دکان جلے بغیر بچ گٸ تھی دیوالی سے دو روز پہلے ادھر سے گزرتی ہوٸ کسی جیپ کی چنگاری سے اس میں جو اچانک آگ لگی تو خوشی کے موقع پر چھڑاۓ جانے والے پٹا خے تڑا تڑ چھوٹنے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے اور دکانوں نے بھی آگ پکڑ لی۔پٹاخوں کی خریداری کرتے ہوۓ ننھے بچے آگ کی زد میں آگۓ۔رام اوتار اپنی دکان کے نیچے بنے گودام میں کچھہ حساب کتاب کر رہا تھا۔کچھہ دیر تک تو اسے پتہ ہی نہ چلا کہ اوپر کیا ہو رہا ہے۔احساس ہونے پر وہ اوپر بھاگ کر ؒآ یا تو اس کی کپڑوں کی دکان دھو دھو کرکے جل رہی تھی۔نوکر چاکر جان بچا کر بھاگ چکے تھے۔رام اوتار بھی باہر کی طرف بھاگا تو لکڑی کا ایک جلتا ہوا بڑا سا ٹکڑا اس کے سر کے اوپر آ گرا ۔جلتا ہوا رام اوتار باہر نکل کر ڈھیر ہو گیا۔
ایک نفسا نفسی کا عالم تھا۔چا روں طرف ایک شور ٗ ایک ہنگامہ تھا۔لوگ دکانوں میں سے مال نکال نکال کر باہر پھینک رہے تھے۔کچھہ دکان دار یہ سمجھے کہ شاید فساد بھڑک اٹھا ہے۔وہ جلدی جلدی اپنی دکانوں کے شٹر گرا کر اندر بند ہو گۓ۔خوف کی ماری کچھہ عورتوں اوربچوں کوبھی انہوں نے اندر ہی چھپنے کی غرض سے بلا لیا تھا ٗلیکن یہی دکانیں ان کی دہکتی ہوٸ چتا میں تبدیل ہو گیٸں۔بربادی شہر کے انتظامیہ پر کھڑی ہنسی رہی تھی۔شہر کے نلوں میں اس وقت پانی نہیں تھا۔فاٸر بریگیڈ جو تقریباً پون گھنٹے کے بعد وہاں پہنچا پانی نہ ملنے کے سبب بے کار ہوگیا۔آس پاس کے شہروں اور قصبوں سے فاٸر بریگیڈ بلاۓ گۓ گھروں کے جٹ پمپ چلوا دۓ گۓ مگر آگ تو بے قابو ہو چکی تھی۔ہر طرف چیخ و پکار مچی تھی۔لوگ آنکھوں میں آنسو بھرے ہوۓ اپنے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو تلاش کرتے پھرتے تھے۔چلّا تے تھے آوازیں دیتے تھے۔کٸ بچے اور بڑے غاٸب تھے۔یقیناً وہ جلی ہوٸ دکانوں اور ملبے میں دبے پڑے ہوں گے۔آدھی رات کو آگ پر قابو پایا جا سکا۔رات بھر ملبہ سلگتا رہا۔پٹا خوں کی جس دکان سےیہ آگ قیامت بن کر ٹوٹی تھی اس کی جگہ اب راکھہ اور ملبے کا ڈھیر تھا۔رام اوتار کی کپڑوں کی دکان بھی پوری طرح جل کرخاک ہو چکی تھی۔نصیر اور رام اوتار کی تلاش جاری تھی مگر ان کی دکانوں کے باہر سواۓ جھلسے ہوۓ گوشت کے لوتھڑوں کے اور کچھہ بھی نہیں ملا۔نوکروں نے تو جیسے تیسے بھا گ کر جانیں بچا لی تھیں۔لیکن نصیر او رام اوتار کا کہیں پتہ نہ تھا۔دونوں کے رشتہ دار روتے بلکتے ہوۓ بس یہی فریاد کر رہے تھے کہ کم سے کم یہ ادھہ جلے جسموں کے ٹکڑے ہی ان کے حوالے کر دۓ جا ٸیں تاکہ وہ انہیں دفنا سکیں یا جلا سکیں۔لیکن پولیس بھی حیران و پریشان تھی۔آخر کس طرح اس کی شناخت ہو سکے گی کہ نصیر کے جسم کا ٹکڑاکون سا ہے او رو رام اوتار کے جسم کا ٹکڑا کون سا۔یک رنگ اور جلا ہوا گوشت ہی تو بچا تھا۔
باہر رشتے دار بلک رہے تھےاوراندر تھانے کے ایک کمرے میں ایک میلے سے کپڑے پر جلے ہوۓ جسموں کے ٹکڑے آپس میں گڈ مڈ ہو کر رکھے ہو ۓ تھے شام تک یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ رام اوتار کے جسم کے ٹکڑے کون سے ہیں اور نصیر کے کون سے۔باہر ایک ہنگامہ شروع ہو گیا تھا۔ہندو اور مسلمان دونوں ہی جمع تھے۔اس آگ کے بھڑکنے کے بعد جہاں بغیر کسی مذہبی تفریق کے دونوں فرقوں نے انسان بن کر لوگوں کی مد دو کی تھی۔ انکی جانیں بچاٸ تھیں۔اب ایک بار پھر آمنے سامنے تھے۔ایس۔ایس پی نے بہت سمجھایا کہ کوٸ ایک پارٹی یہ ٹکڑے لے جاۓ لیکن بھلا یہ کیسے ممکن تھا۔رام اوتار کو زندہ جل جا نے کے بعد بھی اپنے رشتے داروں کے ہاتھوں ایک بار پھر شمشان میں جاکر باقاعدہ جلنا تھا اور نصیر کو قبر میں دفنایا جانا تھا۔معاملہ الجھتا ہی چلا جا رہا تھا۔شہر کے بڑے بڑے تاجر سوشل ورکر اور سیاسی لیڈر سب موجود تھے۔آخر رات کے دس بجے یہ فیصلہ ہوا کہ گوشت اور ہڈیوں کے ان جھلسے ہوۓ ٹکڑوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاۓ۔ایک حصہ رام اوتار کے بیٹے اور رشتے دار لے جاکر جلا دیں اور دوسرا نصیر کے رشتہ دار لےجاکر دفنا دیں۔اس طرح زندگی بھر جو نصیر اور رام اوتار لڑتے جھگڑتے ہی رہے تھے موت نے انہیں ہمیشہ کے لۓ ایک کر دیا تھا۔رام اوتار کے ساتھہ اس کےبیٹوں نے نصیر کے جسم کے ٹکڑوں کو بھی راکھہ میں تبدیل کر دیا اور نصیر کے جسم کے ٹکڑوں کے ساتھہ رام اوتارکے ٹکڑے بھی دفنادۓ گۓ۔اس قضا ۓ ناگہانی نے ان کے تفرقات مٹا دۓ تھے ٗ ان کی زبانیں خاموش کردی تھیں اور اب وہ دونوں ہمیشہ کے لۓ ہم خواب بن گۓ تھے۔

Published inآصف اظہارعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply