عالمی افسانہ میلہ
تیسری نشست
افسانہ نمبر 47
گڑیا
ڈاکٹر مہ جبیں غزال
میسور – انڈیا
اسے اچھی طرح یاد ہے وہ اپنے مائیکے میں بہت کم سوئی تھی۔ ساری ساری رات اس کی ماں اس کے باپ سے جھگڑتی جو رہتی۔ اپنی غلطیوں کی وجہ سے باپ کی خاموشی۔۔۔ماں کی تکرار پھر رونے کی آواز سے اسے وحشت ہونے لگتی۔ شروع شروع میں تو تجسس کے مارے وہ جاگتی رہی۔ تکرار کا موضوع جاننے کا اشتیاق اسے جگائے رکھتا۔ بظاہر لحاف ڈھانپے وہ ماں باپ کی خواب گاہ کے بند دروازے کی طرف کان لگائے رکھتی، پھر وہ جلد ہی اس معمول سے اوب گئی۔ مگر نیند پھر بھی اسے نہ آتی۔ کبھی باپ کی بے سمجھی اور بےبسی۔۔۔کبھی ماں کے خوابوں کے ٹوٹنے کا درد اسے سونے نہ دیتا۔ صبح سویرے جب مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں بلند ہونے لگتیں تو نیند سے بوجھل اس کی آنکھیں خود بخود بند ہونے لگتیں۔
وہ تو شادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں اسے پوری نیند میسر آئی۔ مگر اب یہ بات اسے
بے چین رکھنے لگی کہ اس “ پوری نیند “ کے لیے اسے کتنے بوجھ ڈھونے پڑے، اس کی کیا قیمت چکانی پڑی۔
“ تم تو کولھو کا بیل بن گئی ہو “ کوئی اس کے اندر سے کہتا۔
“ چلو، اب کچھ تو ہوں۔ پہلے میرا کوئی وجود ہی نہیں تھا “ وہ مسکراتی !
“ روپیے کمانے کی مشین بن جانے کو تم وجود کا عرفان سمجھتی ہو ؟” کوئی اس کے ذہن میں سوالیہ نشان رکھ دیتا تو وہ کچھ پل کے لیے سٹپٹا جاتی پھر اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی۔
“ اپنے گھر کے لیے محنت کرنا اور روپیے کمانا کوئی بری بات نہیں ہے “ وہ خود کو تسلی دیتی۔
“ مگر گھر اور گھر والوں کو نکھارنے کے لیے تم مہندی کے پتوں کی طرح پس رہی ہو۔ تمہارا وجود ختم ہورہا ہے “
اف ! کون ہے یہ جو اتنی کھری کھری سناتا ہے اور اسے میرے وجود کی اتنی فکر کیوں ؟ کہیں وہ بھی اپنی فکر آپ تو نہیں کررہا۔
“ مما ! میرے اسکول کی فیس پینسٹھ ہزار روپیے۔۔۔” اس کے بیٹے نے اسے یاد دلایا۔
“ کل بینک ہو آؤں گی بیٹا۔ پرسوں پے ( pay) کر دینا “
“ ڈیبیٹ کارڈ Debit card کہاں گم کردیا مما تم نے، ATM سے ابھی روپیے لے لیتے “
بیٹے نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔
اف ! یہ بے صبر نئی نسل۔۔۔ انھیں سب کچھ ابھی کے ابھی چاہیے۔ وہ من ہی من بڑبڑائی۔
“ اور مما میرے ٹورکے بتیس ہزار روپیے ؟ “ اس کی بیٹی نے بلیچ کیا ہوا سفید چہرہ واش کرنے کے لیے جاتے ہوئے اپنا سوال دہرایا۔
“ وہ تو نہیں ہیں۔۔۔” اس کے لہجہ میں کچھ ندامت کچھ بےبسی تھی۔
“ کیا مما ! بیٹے اور بیٹی میں فرق نہیں کرنے کا بس ڈھونگ کرتی ہیں آپ۔۔۔”
اس کے دل کو ٹھیس سی لگی۔
“ اسے بدتمیزی کہتے ہیں نازیہ۔ بڑوں سے اس طرح بات کی جاتی ہے ؟ “
“ ٹھیک ہے مما۔ نہیں بولوں گی کچھ۔ مجھے کہیں نہیں جانا “
“ارے۔۔رے ۔۔۔منہ کیوں پھلا لیا میری گڑیا نے۔ تو کیا ہوا اگر روپیے نہیں ہیں۔ میں پرسنل لون لے لوں گی ناں۔۔۔ شاباش ، اسی طرح مسکراتی رہنا ورنہ میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔۔۔”
وہ اپنی پریشانی پر کسی طرح قابو پاتے ہوئے بولی۔
“جانم۔۔۔” اس کا شوہر غسل خانے سے تولیہ لپیٹے نکلا
“ پرسنل لون لے ہی رہی ہو تو بیس تیس ہزار کا کیوں۔۔۔پانچ سات لاکھ کا لے لو ناں۔۔۔
تمھاری eligibility تو ہے اتنی رقم کی۔۔۔کوئی نیا بزنس آزماؤں گا “
“ مگر۔۔۔مگر کفیل۔۔۔ “ اس کے پسینے چھوٹنے لگے۔
“ اگر مگر کی کیا بات ہے۔۔۔بھروسہ نہیں ہے میرے تجربوں پر۔۔۔”
اپنے پچھلے سارے تجربات کی ناکامی کے باوجود اس کی ہمت جوان تھی۔
“ نہیں نہیں۔۔۔ خفا مت ہوئیے۔۔۔پہلے ہی اتنا قرض ہے ہم پر مختلف بینکوں کا۔۔۔بس اس لیے۔۔۔”
خود کے خفا ہوتے ہوئے دل کو سنبھال کر وہ ٹھہر ٹھہر کر بولی۔
“ ارے سب لوٹا دیں گے بس ذرا تمھارے پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو بڑھ جائے۔ ادھر زمینوں کے دام چڑھے ادھر پلاٹ کا اشتہار اخبار میں۔۔۔”
اس کا چہرہ اتر گیا۔ آنکھیں یوں ویران نظر آنے لگیں جیسے ان کے رہے سہے خواب بھی کوئی لوٹ لے گیا ہو !
“ تو پھر ہم اپنا مکان کہاں بنائیں گے۔۔۔لے دے کے ایک پلاٹ ہی تو باقی رہ گیا ہے ! “ اس نے گویا خود سے کہا۔
ادھر کچھ سالوں سے پھر سے وہ بہت کم سونے لگی تھی۔ کبھی کبھی اسے اپنی فکر بھی ہوتی، بس اتنی سی کہ۔۔۔ طبی ماہرین کے مطابق نیند کی کمی سے انسان کے مختلف بیماریوں کا شکار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور وہ۔۔۔بیمار ہونا نہیں چاہتی تھی۔ گویا اس سوچ میں بھی گھر کی خیرخواہی کا جذبہ ہی کارفرما تھا۔
اس کے گھر میں نہ کوئی جھگڑا تھا نہ تکرار۔۔۔ جب بچے باہر ہوتے ایک پرہول سی خاموشی ضرور محسوس ہوتی تھی اسے اور آج۔۔۔آج تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے۔۔۔اپنا مکان اب بھی نہیں بنے گا تو آئندہ کہاں رہیں گے ہم۔۔۔اس نے کار کی رفتار تیز کردی۔پھر مسلسل بجتے ہوئے موبائل پر بات کرنے لگی
“ کیا بات ہے سیما، ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں ! سینے میں بے چینی ؟ اچھا میں ابھی پہنچتی ہوں۔ ماں کو کسی اچھے سے ہاسپٹل میں داخل کروادوں گی۔۔۔ارے نہیں تم اس کی فکر مت کرو۔۔۔ماں کو بابا کے روپیے گوارا نہیں تو کیا ہوا۔۔۔میں جو ہوں۔۔۔میں سب سنبھال لوں گی۔۔۔اچھا تم رونا مت Be a brave girl میں روپیوں کا انتظام کرتی ہوں۔۔۔پلیز سیما۔۔۔”
اس نے کار کی رفتار مزید تیز کردی تھی۔ بے خیالی میں موبائل ابھی آن ہی تھا۔۔۔ماں کی ہارٹ سرجری ہونی تھی۔ اس کے دماغ میں آندھی سی چلنے لگی کہ بینک میں تو زیرو بیلینس تھا۔ بیٹے سے ڈیبیٹ کارڈ کے گم ہونے کا اس نے محض بہانہ کیا تھا۔۔۔ذہنی تناؤ کے سبب انجانے میں Accelerator پر پیروں کا دباؤ بڑھتا چلا گیا اور پھر۔۔۔آنکھوں کے آگے چنگاریاں سی اڑ گئیں۔ آگے سے آتے ہوئے تیز رفتار ٹرک سے ٹکرا کر کار الٹ گئی تھی اور اس کا سر، کار کے کھلے ہوئے ڈور (door) سے نکل کر سنگلاخ زمین پر تھا۔
“ہاؤ از شی ڈاکٹر ؟ “
“ شی از ان کوما۔۔۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہوش میں آنے کے لیے چند دن بھی لگ سکتے ہیں یا کئی سال بھی۔ ایسے مریض کوما سے سیدھے موت کے منہ میں بھی جاسکتے ہیں ! “
ڈاکٹر نے تشویش بھرے لہجے میں بات پوری کی اور کفیل ضبط کی کوشش کے باوجود رو پڑا ۔
وہ ۔۔۔مسلسل سوتی رہی۔ دن، مہینے، سال۔۔۔وقت کی رفتار سے بےخبر۔۔۔رشتوں کے دکھ سکھ کے احساس سے بے نیاز۔ کبھی کبھی ربڑ کی بےحس گڑیا بن جانے کی جو شدید خواہش اس کے دل میں ابھرا کرتی تھی ، وہ پوری ہو چکی تھی !
Be First to Comment