عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 58
گٹھڑی اور گھڑی
صوفیہ کاشف ، ابوظہبی
ٹرین میں بیٹھی حنا کی زندگی کسی ٹرین ہی کی طرح بھاگتی دوڑتی دھواں دیتی،مسافتیں ناپتی منزلیں سر کرتی آخری منزل کی طرف بڑھے جا رہی تھی۔اور اس ٹرین میں کھڑکی کے شیشے سے لگی وہ ایک بوسیدہ گٹھڑی اور ایک درذیدہ گھڑی سینے سے لگائے بیٹھی تھی۔بوسیدہ پھٹی پرانی اُڑے ہوئے رنگوں والی گٹھڑی جسمیں بہت سی یادیں بندھی تھیں۔کچھ ٹوٹ چکے خواب،ایک گمشدہ محبت،سالوں کی دھوپ میں سڑ چکے کچھ خوبصورت فقرے اور چند ایک فرصت کی نگاہیں۔ وہ زنگ آلود گھڑی جس میں اسکے محبوب کی آنکھیں سجی تھیں،پکارتی ہوئیں،التجا کرتیں،صدائیں دیتیں۔یہ عزیز از جان گھڑی اور گٹھڑی اسکی زندگی کی ہر مسافت سے زیادہ اہم تھیں۔ہر منزل سے زیادہ قیمتی تھیں۔اس گٹھڑی میں اس کی زندگی کی سانسیں تھیں۔اس کی بندھی گرہوں میں اسکا دل دھڑکتا تھا۔اگر جو یہ گٹھڑی اسکے سینے سے جدا ہو جاتی تو حنا کی سانسیں رک جاتیں،دھڑکن بند ہو جاتی،آنکھوں کی بینائی اندھیروں میں بھٹکنے لگتی،کانوں کی سماعت میں خموشی کا راج ہو جاتا۔قدم زمین پر بے جان ہو کر ِگر جاتے،منزلیں بے نشاں ہو کر دھواں ہو جاتیں۔اور یہ پل پل، کھٹ کھٹ، ٹک ٹک کرتی گھڑی،،جو اسکی جدائیوں کے دن گنتی تھی۔۔۔ایک اور گیا،،ایک اور،،،کی گردان کرتی تھی۔وہ لمحے جو قیامت تھے،وہ پل جو عذاب تھے مگر اس کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تھے۔
اسکے قریب اسکی بازو سے جڑے بیٹھے تھے اسکے جسم و جاں سے لپٹے کچھ زمہ داریوں بھرے رشتے،حنا کے دو بچے، ہر وقت رونے دھونے والے ،ہر وقت خفا رہنے والے،ناآسودگی انہیں ماں سے ورثے میں ملی تھی۔ناآسودہ ماں ناآسودگی کے سوا کچھ نہ جنم دے سکی۔انکے ساتھ بیٹھا گھمبیر صورت اور سنجیدہ مزاج والا کاغذ کے خشک کڑک کڑک کرتے ورق جیسا حنا کاشوہر_____کہ جس پر کبھی کوئ محبت کی میٹھی تحریر نہ لکھی جا سکی ہو،جسکی سختی میں کبھی کسی سیاہی کی نرمی نہ گھلی ہو۔سامنے والی سیٹ پر منہ پر دوپٹہ اوڑھے،ماتھے پر بازو ٹکاےاس کی بیزار ساس،سیٹ کے اوپر والی برتھ پر سویابے نیاز خراٹے لیتا سسر________اور ان سب کے ساتھ کھڑکی سے جڑ کر بیٹھی باہر سے گزرتے فاصلے گنتی،اندھیرے ناپتی،مسافتیں گنتی اور انکی سختیاں اعصاب پر جھیلتی حنا۔
سالوں پہلے جب وہ اپنے نئے نویلے شوہر کے ساتھ لال رنگ کے کفن میں لپٹی اس ٹرین میں بیٹھ کر اُس سفر میں نکلی تھی جو اسکی زندگی کی سب سے بڑی اذیت بن گیا تھا۔شملے، رشتے اور عزت کے بدلے میں اس نے محبت کو ہارا تھا اور خالی خسارہ دامن میں بھرا تھا۔ایک
تولا قدر کا مقدر نہ ہو سکا تھا۔وہ دعائیں دےکر رخصت کرنے والے شملے سجا کر اسکی قبر پر وداع کا کتبہ لگا کر اب حالت سکون میں تھے مگر حنا کے لئے جزا و سزا کا میدان ہر پل مقدر ہوچکا تھا۔اسکے رستے کی ہر شرط کڑی تھی جسمیں ڈوب ڈوب ،ابھر ابھر اس نے دیکھا تھا مگر پھر بھی پار نہ کر سکی تھی۔رخصتی سے پہلے جب آخری بار گہری لال سوجی آنکھوں والے محبوب نے اسکا ہاتھ تھاما تھا تو کہا تھا۔” مت جاو٬!”مگر حنا کی رگوں میں بہتی شرافت اسکے رشتوں کی عزت پر نثار ہونے کو بیتاب تھی،قربانی کا اسے بخار چڑھا تھا سو ہجر کے زہر کا پیالہ سر جھکائے پیا تھا اور سب کچھ ہار دیا تھا۔وہ بار بار روکتا اور کہتا تھا”محبت کھو کر کچھ نہ پا سکو گی!”اور وہ کچھ بھی نہ پا سکی تھی۔اب اپنی راکھ کو کاندھے پر اٹھاے پھرتی تھی،کالی بارشوں میں سے قوس قزح تلاشتی تھی،بے رحم سنگدل نگاہوں میں محبت دیکھنے کو ترستی تھی۔کبھی بڑا بیٹا چھوٹے سے لڑتا اور چھوٹا حلق پھاڑ پھاڑ روتا،ماں کا پلو پکڑ کر کھینچتا، چیختا چلاتا،شوہر سخت نظروں سے گھورتا کبھی حنا کو کبھی بچوں کو،ساس پلو کے نیچے سے غراتی،اور حنا تھی کہ اک بے جان بے حس مورتی کی طرح باہر تاریک رستوں پر پلکیں ٹکاے بیٹھی۔
پھر وہ اسٹیشن آ گیا جس پر انہیں نہیں اترنا تھا مگر ٹرین کسی مجبوری کے تحت کچھ گھڑی وہاں رکی تھی۔وہ اسٹیشن جس نے اسکے چہرے پر جمی برف پر ہتھوڑا مار کر اسے کرچی کرچی کر دیا یا جیسے اسکے بے حس بے جان جسم میں کوئ زلزلہ برپا کر دیا ۔”مت جاو! مجھے چھوڑ کر مت جاو!”چھوٹے سے اسٹیشن کی لال دیواروں سے پرے کوئ اسے چیخ چیخ کر صدائیں دے رہا تھا۔دور سے سورج کی پھوٹتی ہوی مٹھی بھر روشنی میں کھڑا جیسے کوئ اسے شدت سے بلاتا تھا۔حنا ہڑبڑا کر اٹھی۔بوسیدہ گٹھڑی اور زنگ آلود گھڑی سینے سے لگائے گرتی پڑتی سب کے پیروں کو پھلانگتی باہر کو لپکی، کسی بچے نے پلو پکڑ کر کھینچا اور وہ سر سے گر کر کاندھے سے ہوتا فرش پر جا پڑا۔شوہر نے سخت سوالیہ نگاہوں سے لتاڑا ۔پیچھے سے نجانے کس کس نے پکارا جو اس نے نہ سنا اور اس اسٹیشن پر جہاں انہیں نہ اترنا تھا وہ اتر گئی تھی۔یہ جانے بغیر کہ اسکی زندگی بھر کا اثاثہ،اسکے سب مغرور مالک پیچھے رہ گئے۔اسکی زمہ داریاں اور فرائض اسکی چھوڑی خالی نشست پر گرے بین اور نوحوں میں محفوظ تھے۔حنا ایک مست ملنگ کی طرح ایک ایسے اسٹیشن پر اتر چکی تھی جو اسکا مقدر نہیں تھا،جسکے دروازے اسکے لئے نامحرم تھے اور جسکے ہر اندرونی رستے پر کفر اور شرک کے،رسوای کے تمغے اور فتوے تھے۔بدنامی کی ہوائیں اور موت کے موسم اس شہر کی دہلیز پر اترنے والوں کا مقدر تھے۔حنا جانتی تھی مگر پھر بھی اس رسواے محبت کی آسیب زدہ حویلیوں کے شہر میں وہ اپنے گمشدہ خوابوں،ویراں دھڑکنوں اور پراسرار آوازوں کے تعاقب میں اتر چکی تھی۔ قدم زمین پر پڑتے ہی ٹرین ہچکی کھا کر یوں چل دی جیسے وہ محض اسی لئے تو رکی تھی۔رات کی پھیلی تاریکی کو الوداع کہتے سویرے میں وہ اس لال اینٹوں والی قدیم عمارت کے سرمئی فرش پر بھاگتی باہر کی طرف جاتے راستے کو لپکی تھی۔
ٹرین ٹوٹے بندھن اور ادھورے رشتے لئے چل پڑی نجانے کسی نے اسے روکا کہ نہیں ،نجانے کوئ اسکی طرف بڑھا کہ نہیں،کچھ بھی جانے بنا حنا عشق ممنوع کے اخلاق باختہ شہر کی ویران گلیوں میں بھاگتی چلے گئی۔وہ رستے جن سے منہ موڑ کر نکلی تھی آج اسے اپنے ساتھ بھگائے لئے جا رہے تھے،وہ موسم جو اس کی روح کی گہرائیوں میں دفن تھے جیسے آج اک تکلیف دہ اذیت سے جی اٹھے تھے۔اس ناراض شہر کی ہریالی گرچہ مانند تھی مگر وہی تھی اور ماتم کناں سی دکھتی تھی۔ہوائیں یوں محسوس ہوتا جیسے گلے لگا کر بین پر آمادہ ہوں،اس شہر کا ظالم خدا آج بھی محبت تھی مگر اس پر نجانے کیوں شب مرگ سی طاری تھی۔۔۔وہ محبت جسے وار کر وہ ایک بھی روز سکوں سےجی نہ سکی تھی۔اک صور تھا کہ پھونکا جاتا تھا وہ جسکے تعاقب میں گمشدہ بند آنکھوں اور بند کانوں سے بھاگتے چلے جاتی تھی۔محبوب کا چوبارہ اٹھ اٹھ کر اسے صدائیں دے رہا تھا اور وہ لبیک لبیک کہتی دل کو ہاتھوں میں سنبھالے دوڑتے جاتی تھی۔
۔اسٹیشن سے زرا دو کوس آگے اسکے پیروں میں کچھ چبھا تھا اور توازن بگڑا تھا۔سر جھکا کر دیکھا تو نجانے کب کہاں اک جوتا پیروں سے جدا ہوا اور ایک شیشہ پیروں میں کھبا ،رستے کو لال کیا جاتا تھا۔محبوب کے شہر کا زخم پہلے ہی موڑ پر لگا تھا مگر اب رکنا محال تھا۔آج اسکی نگاہ میں تھا محض ایک راستہ،ذہن میں صرف ایک صدا،دل میں محض ایک طلب!آج زندگی کی سب حاکم قوتیں ،پیروں کی زنجیریں، معاشرتی لباس وہ ٹرین میں پٹخ کر خود پاتال میں کود گئی تھی۔اگر مہربان زندگی کی معراج وہ تھی جو اس نے پای تھی تو اسے اب موت سے محبت ہو چلی تھی۔اگر نعمتیں وہ تھیں جن سے وہ بھاگ کر آئی تھی تو پھر وہ کیسی نعمتیں تھیں؟اب وہ جہنم کی آگ پی کر سیر ہونا چاہتی تھی, شاید وہ اپنے ہی ہاتھوں سے خودکو بھسم کر لینا چاہتی تھی۔صبح صادق کے وقت شہر کی خموش گلیوں میں مسجد کے سپیکر کھنکھارنے لگے اور چند ایک روشن پیشانیوں اور سفید ٹوپیوں والے عمر رسیدہ چہرے ہر نکڑ سے نکلنے لگے۔
صبح کے اس پرنور سویرے میں وہ کسی بدروح کی مانند افق کے اس پار بھاگتی جاتی تھی اس دہلیز کی طرف جو اسے رہ رہ کر صدا لگاتی تھی۔اک آگ سی لپکتی تھی جو اسکے سراپا کو لپیٹ میں لیتی،اس آگ سے الجھتے وہ کچھ رفتار اور پکڑتی۔کئی سفیدٹوپیوں نے مڑ کے دیکھا،اور سر جھٹکا”پاگل بیچاری”_پاگل بیچاری سیانے راستوں پر دوڑتی جاتی اور ذی شعور رستے تھے کہ سر نہ ہوتے۔کچھ گلیوں کا سفر جیسے حشر کا امتحاں ہوا تھا،وہ مسافتوں کی کٹھنائ سے،ذلت اور رسوائی سےاسقدر بے خبر تھی آج کہ جیسے اسرافیل نے آج ہی تو طبل صور پھونک دیا ہے۔
آخری گلی پر پہنچ کر بس اک نکڑ مڑنا باقی تھی اور دوسرا لکڑی کا دروازہ اسکی ذندگی کا مظہر تھا جب اسکے دل کی ذمینوں پر کئی بھسم کرتی بجلیاں ایک ساتھ گری تھیں۔نظروں میں اک اندھیرا سا چھایا۔نکڑ سے نکلتا لوگوں کا اک جم غفیر اپنے کندھے پر کسی کو اٹھائے کلمہ شہادت کا ورد کرتا اسکے قریب سے گزرا تھا ایسے جیسے کوئ مٹی مٹی بگولہ اسے اپنی بانہوں میں لے اڑا ہو،کئی صورتیں شناسا،اس سے بے خبر اسکے قریب سے گزریں،جھکی ہوئیں،کچھ نہ دیکھنے والیں،کچھ نہ کہنے کے قابل۔اسے پکارنے والی سب صدائیں جیسے رخ موڑ کر اس ہجوم کے پیچھے چل پڑیں تھیں،سر کی چادر تو نجانے کہاں گری تھی مگر اب اسکے قدموں سے زمیں بھی کھسک کر پاتال اتر آیا تھا ۔اب اس کے ہاتھوں سے گھڑی اور گٹھڑی چھن چکی تھی