عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 10
گُل جان
افسانہ نگار: فارس مغل(کوئٹہ۔پاکستان)
یہ اُس زمانے کا ذکر ہے جب میں کوئٹہ سے تعلیم مکمل کر کے کراچی میں بسلسلہٗ ملازمت سکونت اختیار کر چکاتھا اور” روسی سویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ” کی دھجیاں اُڑے ہوئے چند برس کا عرصہ ہی گزرا تھا افغانستان سے آنے والی ہواؤں میں بارود اور لہو کی بُوکم محسوس ہوتی تھی” ریاستہائے متحدہ امریکہ “کسی بدمست شرابی کی طرح جھوم رہا تھا اور پاکستان قریباً سوا تیس لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کا شرف بسرو چشم قبول کر چکا تھا۔
اُس دن میں شہر کے بیچ واقع ایک ہسپتال میں اسپیشل ڈیوٹی پر شام تک معمور تھا جہاں ایک بڑے سیاسی قائد کی اپنے زخمی بھائی کی مزاج پُرسی کے لیئے کسی بھی وقت آمد متوقع تھی۔ شہر کے کشیدہ حالات کے پیش نظر مجھ سمیت ہمارے خفیہ ادارے کے دیگر اہلکار صبح سے ہسپتال کے مختلف گوشوں میں تعینات تھے۔ میں اس وقت ہسپتال کے چوکیداروں کے لیئے مختص رہائشی کمرے میں تنہا کرسی پربراجمان اس کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا جہاں سڑک کی دوسری جانب ایک گلی کے نکڑ پر میونسپل کارپوریشن والوں کا بڑا سا آہنی کچرادان زمین میں دھنسا ہوا تھا جس میں مکانوں کے کوڑا کرکٹ کے علاوہ ہسپتال کا فُضلہ بھی آدھی گلی میں بکھرا پڑا تھا۔گلوکوزکی خالی بوتلیں، خون کی سوکھی ہوئی بیکار ڈرپّوں اور پیشاب کی بدبودارتھیلیوں کے علاوہ ناکارہ سرنجیں اور استعمال شدہ مرہم پٹیاں مکھیوں سے اَٹی ہوئی تھیں مگر وہیں اسی قریہ ء غلاظت کے کُنج میں اک پھول بھی کھلا ہوا تھا!
وہ ایک بے انتہا خوبصورت بچہ تھا ۔
عمرسات آٹھ برس سے زیادہ نہ تھی۔ میلے چکٹ شلوار قمیص میں اس کے گنجے سنہری سر سے متصل سرخ و سپید گول چہرہ کُہر میں لپٹے ہوئے سورج جیسا دکھائی دیتا۔ معصوم ہاتھوں اور ننھے مُنے ننگے پیروں پر میل کی دبیز پرت چڑھی ہوئی تھی ۔گلاب کا پھول کیچڑ میں گر جائے تو پُر کشش نہیں رہتا لیکن اس بچے کا غبار آلود سراپا دل کش دکھائی دیتا ۔
وہ اس گھڑی دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک سڑے ہوئے سیب کو قمیص کے دامن سے رگڑ رگڑ کے ستھرا کرنے کے بعد شاید کھانے کی تیاری میں تھا ۔پہلی بار جب اس نے اپنی نیلی نیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور مجھے بھی اپنی ہی جانب دیکھتا ہوا پایا تو ہنس دیا۔یہ معصوم ہنسی اگر کوئی بے اولاد عورت دیکھ لیتی تو عین ممکن تھا کہ اسے چوم چوم کر ہلکان کر دیتی ۔ایک مرتبہ تو میرے دل میں بھی اپنی بھابھی کی ویران گود کا خیال ابھرا اور جی چاہا کہ اس پھول کو چپکے سے اپنی واسکٹ کی جیب میں سجا کے گھر لے چلوں اور بھابھی کی افسردہ اور خوابیدہ مامتا کی جھولی میں ڈال دوں۔
وہ ایک افغان مہاجر بچہ تھا یقیناًاسکے خاندان نے افغانستان میں روسی جارحیت کے دوران یا بعد ازجنگ پاکستان ہجرت کی ہوگی اس معصوم صورت کو دیکھ کر دوسراخیال میرے دل میں یہی ابھرا کہ یہ غریب الوطنی بھی کیسی بھیانک سزا ہے۔ آہ !۔روزِ اول سے ہی مہاجرین کی کثیر تعداد معاشی بدحالی کی چکی میں پِس رہی تھی۔
اس لمحے ناجانے کیوں مجھے اپنے آبائی شہر کوئٹہ کے ٹھیکیدار اسلم کے گودام کا رہائشی، مہاجر کیمپ سے بھاگ کر آیا ہواسواچھ فٹ کا بلند قامت، پچاس سالہ خستہ حال افغان ہلمند خان شدت سے یاد آرہا تھا جو خود کو کابل یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کا اسسٹنٹ پروفیسر بتاتا لیکن وقت کی ستم ظریفی کے ہاتھوں مجبور ہو کردو وقت کی روٹی کے عوض آٹے کے گودام کی رکھوالی پر معمورتھا ۔ اُن دنوں میں کالج میں زیرِ تعلیم تھا اور اکثر نیاز خیرات لے کر اسکے پاس چلا آتا اور پھر آہستہ آہستہ ہم محلے کے تین چار دوست کیسے اسکی سحر انگیز باتوں کے حصار میں گِھرتے چلے گئے ہمیں پتہ بھی نہ چلا کہ اکثر ہم اپنے گھر وں سے اسکے لیئے کھانے پینے کا سامان اٹھا لاتے اور سبز قہوے کی چُسکیاں لیتے گھنٹوں اسکی محفل سے لطف اندوز ہوا کرتے ۔ وہ ایک زندہ دل آدمی تھا اسکی آنکھوں میں ذہانت کے دئیے روشن رہتے حافظ شیرازی کی غزلوں کو سلیس زبان میں سمجھاتے ہوئے سرد آہیں بھرنا اسکا من پسند مشغلہ تھا ہم اس سے سرزمینِ افغانستان کی کہانیاں سنتے نہ تھکتے اور وہ ہمیشہ اپنے شہر کابل کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتا ،اسکی آنکھیں بھیگنے لگتیں اور نمی اسکی آواز میں در آیا کرتی”بچہ لوگ!ایک جگہ’ وطن‘ کہلاتی ہے یہ وہ لفظ ہے جو انسان کے دل پر آنسوؤں سے لکھا ہوتا ہے یہ وہ زمین کا ٹکڑا ہے جہاں ہمارے جسم نہیں روحیں آباد ہوتی ہیں جب وقتِ ہجرت بڑے بڑے ٹرکوں کے شکم ہمارے جسموں سے بھردئیے گئے تب ہماری سوگوار روحیں دور کھڑی روتی تھیں۔ہاں!میں دیکھ رہا ہوں کہ میری روح بھی کسی بے چین ماں کی طرح دروازے پر کھڑی میرا رستہ دیکھ رہی ہے اور اب میری موت ہی اسکا انتظار ختم کر سکتی ہے۔گر بادِ فتنہ ہر دو جہاں را بہم زنَد ۔۔ما و چراغِ چشم و رہِ انتظارِ دوست”
“آہ افغانی”بے ا ختیار میرے منہ سے یہ کلمہ نکل کر فضامیں تحلیل ہوگیا۔
نیلی آنکھوں والا پھول ہنوز سیب کو رگڑنے میں مصروف تھا اسی اثناء میں ایک مکان سے نو عمر لڑکا نکلا اور کچرے سے بھرا پلاسٹک کا سیاہ لفافہ بچے کے اوپر اچھال دیا۔لفافہ اسکے سر پر لگ کے ایک جانب لڑھک گیااور اس سے پہلے وہ کوئی جوابی کاروائی کرتا لڑکا ہنستا ہوا واپس مکان میں گھس چکا تھا ۔
اسی لمحے میرے ذہن کے پردے پر ایک اور یاد نمودار ہوئی، ایک مرتبہ ہلمند خان کوکسی نے مذاق میں چھیڑا”تم افغانیوں نے ہمارے سارے ملک میں گند پھیلا رکھا ہے”یہ سن کر اسکا چہرہ غصے سے لال ہوگیا مگروہ اسکے باوجود بہت نرمی سے بولا”تم ہمیں اپنی غلاظتوں کے ڈھیر پر بٹھا کرپوچھتے ہو کہ ہمارے جسموں اور تمھاری گلیوں سے بدبو کیوں آرہی ہے ؟”
وہ اکثر ہمارے آگے اپنے دل کی باتیں کیا کرتا شاید اسے ہماری شکل میں اپنا نوجوان بیٹا دکھائی دیتا جو مہاجر کیمپ میں سخت سرما کے موسم میں نمونیا سے لڑتے لڑتے مر اتھا۔
“یہ بھی تو کسی کا لختِ جگر ہے “میری نظر یں ایک مرتبہ پھر کچرے کے ڈھیر پر کھلے پھول کی جانب دوڑ گئیں
کمرے میں تعفن کا احساس بڑھ چکا تھا اور اسکی وجہ سڑک کے پار موجود تھی ۔یہ ہسپتال کا عقبی حصہ تھا جہاں سامنے کی دو گلیوں میں رہائشی مکانات تھے جبکہ بائیں جانب ایک کھلا میدان تھا جس میں دو روز پہلے ہونے والی بارش سے کیچڑ بنا ہوا تھا
گھڑی تین بجکر آٹھ منٹ بتا رہی تھی ۔گلی میں ہُو کا عالم تھا ۔میں نے کمرے کی چھت پر ٹنگے ہوئے تیز گھومتے ہوئے پنکھے کی جانب نگاہ کی اور پھر اس خیال سے کہ شاید دھوئیں کی مہک سے تعفن کا احساس زائل ہوجائے ایک سگریٹ سلگا لی یہ تدبیر کافی حد تک کارگرثابت ہوئی ۔دھواں ہوا میں تحلیل کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اب وہ معصوم صورت بچہ سیب کا سڑا ہوا حصہ ننھی ہھتیلی میں چھپا کرصاف حصے پر اپنے دانت گاڑ چکا تھا۔ میں نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھا تو اسکے باریک ہونٹ بھی کھل اٹھے۔ ابھی میں نے سگریٹ کا تیسرا کش ہی لیا تھا کہ یکایک کہیں سے کوڑے کرکٹ سے لدی ایک گدھا گاڑی نمودار ہوئی اور کچرے دان کے پاس آکر رک گئی ۔بچہ سیب کو قمیص کی جیب میں ڈال ،پھرتی سے کھڑا ہوکر گاڑی سے کوڑا اتارنے میں ان دو لڑکوں کا ہاتھ بٹانے میں جت گیا جو گدھا گاڑی کو ہانکتے ہوئے لائے تھے۔ ان دونوں مستعد افغانیوں کی عمریں بھی پندرہ سولہ برس سے زیادہ نہ تھیں ۔جب سارا کُوڑا اتر چکا تو ایک لڑکے نے پیوند زدہ بوری اٹھا ئی اور جلدی جلدی سڑک سے پلاسٹک کی بوتلوں، ڈرپّوں اور سرنجوں کو سمیٹ کے اس میں پھینکنا شروع کردیا اسکے بعد وہ نیلی آنکھوں والے پھول کے قریب آیا اور مادری زبان میں واہیات گالیاں بکتا ہوا اسکے رخساروں پر دونوں ہاتھوں سے تھپڑوں کی بارش کردی ۔ اسکے پچھواڑے پر دو چار لاتیں رسید کرنے کے بعد چیخا”خرام خور کی اولاد، تمھیں یہاں جس کام کے لیئے چھوڑا تھا وہ تمھارا باپ کرے گا؟”پھول کی آنکھوں سے نیلے نیلے آنسو رواں تھے۔ اسکے ننھے ننھے ہاتھ تیزی سے کُوڑے دان سے شیشہ، پلاسٹک،کاغذ چُن چُن کر بوری میں ڈالنے لگے ۔میں نے جان بوجھ کر مداخلت نہیں کی۔ میں جانتا تھا یہ انکا نجی معاملہ ہے وہ بچہ ضرور ان لڑکوں میں سے کسی ایک یا پھر دونوں کا بھائی ہوگا ۔
شہر میں میونسپل کارپوریشن کے خاکروب کُوڑا کرکٹ جمع کرنے سے بہت حد تک آزاد ہوچکے تھے کہ اب یہ کام بہت سے افغان خاندانوں کا پیشہ بن چکا تھا۔ اس میں مرد و زن، پیر و جوان،بچے سبھی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے دکھائی دیتے ۔شہر کا مضافاتی علاقہ انکے کچے گھروندوں خیموں اور جھونپڑوں سے آباد تھا۔جب افغان مہاجرین نے پاکستان میں ڈیرے ڈالے تو انکے بارے میں مشہور تھا کہ افغان بھوکا مر جائے گا لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گا اور پھر سب نے دیکھا بھی کہ ہر ایک مہاجر چھوٹے موٹے اپنی حیثیت سے کم تر کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا لیکن کاسہ لے کر سڑک کنارے بیٹھا دکھائی نہ دیتا ۔
کمرے میں دیوار کے ساتھ پھیلے میلے بدبوداربستر کے ساتھ اخبار میں لپٹی سوکھی ہوئی روٹی دیکھ کر اچانک مجھے وہ منظر یاد آگیا جب ایک بار ہلمند خان نے انگریزی اخبارپر رکھی تندور ی روٹی کو شکم میں اتار کر خبر پڑھتے ہوئے افسوس سے سر ہلایا اور ہلاتا چلا گیا”ہمارے نام پر دنیا بھر سے کروڑوں ڈالرز بٹورنے والے اس ملک کے اربابِ اختیار نے کبھی ہمیں خصوصی توجہ کا مستحق نہیں سمجھا یہاں ہم لوگ سستے مزدور، کوڑا کرکٹ جمع کرنے والے بھنگی ،جعلی ووٹر،جرائم پیشہ افراد کے آلہء کار بن کر رہ گئے ہیں۔۔آہ”
گدھا گاڑی واپس روانہ ہوچکی تھی اب وہاں صرف نیلی آنکھوں والا پھول کچرا چننے میں مگن تھا اسکے رخسار دھوپ اور تھپڑوں کی تمازت سے مزیدسرخ ہوچکے تھے۔ ا س سمے میں نے ایک عجیب تبدیلی نوٹس کی کہ وہ کچرا چننے کے ساتھ ساتھ کھڑکی کی جانب بھی دیکھتا جاتا ۔ اسکی فریادی مغموم نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں نے اس کا دل بہلانے کی خاطر دوچار باتیں کرنے کے لیئے اسے پاس بلایا ۔پہلے تو وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرایا اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بھاگ کر کھڑکی کے سامنے آن کھڑا ہوا ۔اس نے کھڑکی میں نصب آہنی جالی دونوں ہاتھوں میں جکڑ لی۔پورے چاند کو دوربین سے قریب کر کے دیکھا جائے تو اسکے داغ نمایاں اور سندر تا ختم ہو جاتی ہے مگر وہ میلا کچیلا بچہ ہیرے کی مانند جگمگاتا تھا۔مجھے دیکھ کر پہلے تو وہ ٹھٹکا لیکن میرا مسکراتا چہرہ دیکھ کر اسے حوصلہ ہوا
“پانی” اسکی دلفریب معصوم مسکراہٹ میں سے ایک دانت غائب تھا ۔
میں نے گھڑے میں سے پانی کا گلاس بھر کر آہنی جالی میں سے اسے تھمانے کی کوشش کی لیکن گلاس بڑا تھا جالی میں سے گزر نہ سکا ۔
“دروازہ کھولو”اس نے دائیں جانب اشارہ کیا تو جیسے مجھے دھیان آیا۔میں کمرے سے نکلا اور سیڑھیوں سے متصل چھوٹا سا آہنی گیٹ کھول دیا وہ جھٹ سے بھاگتا ہوا کمرے میں جا گھسا۔
غٹ۔۔ غٹ۔۔ غٹ ایک ہی سانس میں وہ پورا گلاس پی گیا۔
وہ قندھار ی انار جیسا تھا۔ میں نے چند لمحوں کے لیئے چشمِ تصور میں اسے دھلی ہوئی یونیفورم پہنے اجلے موتی جیسا چمکتا ہوا دیکھا۔
“تمھارا نام کیا ہے؟”میں نے اسکی مادری زبان کا سہارا لیا تو اپنائیت کا احساس اسکے چہرے سے جھلکنے لگا
“گل جان”اس کی آواز میں بلا کی کھنک تھی
وہ میرے روبروبے خوف کھڑا تھا “تم کون ہو اور وہ چوکیدار کدھر ہے؟”اگلا سوال اسکی جانب سے آیا
“میں اُسکا دوست ہوں اور وہ ایک ضروری کام سے گیاہے”میں نے فٹ سے جواب گھڑا جسے سن کر وہ خاموش ہوگیا ۔
“تم اسکول کیوں نہیں جاتے گل جان؟”میں نے جان بوجھ کر یہ سوال پوچھا تھا مجھے اسکے جواب میں دلچسپی تھی لیکن اس نے میرا سوال سنا اَن سنا کرتے ہوئے پورا پہاڑ میرے سر پر دے مارا “تم مجھے پیسے دو گے؟”اسکے میلے ناخنوں والا ہاتھ میرے سامنے پھیلا ہوا تھا مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا”کیا یہ وہی افغان قوم ہے جس کے نزدیک بھوک سے مر جانا،بھیک مانگنے سے افضل تھا”
“قوم؟ ۔۔آہ۔۔ ہم مفلوک الحالوں کے قدم تواپنی سرزمین کے ایک ذرا سے لمس کو روتے ہیں ایسے میں کیسی قوم اورکہاں کی قوم؟ بچہ لوگ” ہلمند خان کی آواز نے میرے خیالات میں کنکر پھینکا۔
ایک پرائے ملک میں افغانوں کی نئی نسل ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگئی ۔آہ !کیسا دلخراش منظر ہے اسکی نیلی نیلی آنکھیں ہزارہا سوال لیئے مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں ایسے سوالات جسکا دراک اس معصوم کو خود بھی نہیں تھا میں اپنے جذبات او راحساسات چھپاتے ہوئے پھیکا سا مسکرا دیا
“تم تو محنت کش ہو گل جان،خبردار کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔۔بری بات”
اسکی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی جیسے میں نے لطیفہ سنایا ہو
اسی دوران مجھے وائرلیس پر اطلاع ملی کہ قائد صاحب کا دورہ منسوخ ہوگیا ہے ۔گل جان نے اس جانب دیکھا جہاں وائرلیس سیٹ دھراتھا اسکی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ میں ان آنکھوں کو بغور دیکھنا چاہتا تھا ان میں مہاجرت کا دکھ تلاش کرنے کو جی چاہتاتھا مگر مجھے وہ دکھ کہیں نظر نہیں آیابس وہ معصوم،حیران اور زندہ آنکھیں تھیں۔
اچانک ہلمند خان کی آواز کانوں میں گونج اٹھی”بچہ لوگ! سچ کہتا ہوں کہ میں نے کئی مرتبہ کمرہ جماعت میں آزادی پر لیکچر دئیے مگر اب کہیں اس کے حقیقی معنی مجھ پر کھلے ہیں کہ آزادی ایک ایسا عطر ہے جسے محسوس کرنے کے لیئے ناک کو زکام سے دور رکھنا پڑتا ہے ورنہ یہ وباء اپنی شکار قوموں کا انجام غلامی کی زنجیروں پر تحریر کرتی ہے۔ جنگ کے دوران جو لوگ ہمیں’ افغان شیر‘ کہتے تھے جنگ کے بعد وہی لوگ ہمیں’ افغان مہاجرین ‘بلاتے ہیں یہ ایسا چشم کشا المیہ ہے جسے اس روئے زمین پر بسنے والی ہر آزاد قوم کو سمجھنا چاھیئے”
” ہلمند خان”میں نے سرد آہ بھری تو گل جان اپنا پھیلا ہوا ہاتھ نیچے گرا کر فوراً کھڑکی سے باہر نظریں دوڑانے لگا جیسے وہ بھی کسی ہلمند خان سے آشنا تھا “کہاں ہے؟”اسکی آواز ایک بار پھر کھنک اٹھی
میں نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا
اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور چوکیدار سر کےِ گرد اَجرک لپیٹتا اندر داخل ہوا ۔وہ ادھیڑ عمر،گہری سانولی رنگت کا موٹے موٹے جامنی ہونٹوں والا چھریرے بدن کاآدمی تھا۔ گل جان کو دیکھ کر ٹھٹکا اور میرے سامنے احتراماً سینے پر ہاتھ باندھ کر ایک جانب کھڑا ہوگیا “صاحَبو آپکے ساتھی باہرآپکو یاد کرتے ہیں”
میرا خود بھی اب اس جگہ مزید ٹہرنے کا ارادہ نہیں تھا ۔گل جان کی نظریں چوکیدار پر ٹکی ہوئی تھیں ایک لمحے کو میرا جی چاہا کہ اسے گود میں اٹھا کر بھاگ جاؤں لیکن پھر اپنے اس خیال پر میں خود ہی مسکرا دیا اور اسکے رخسار تھپتھپا تے ہوئے کمرے سے باہر نکل آیا۔میں اس سمے ہسپتال کے مرکزی دروازے تک یہی سوچتا رہا کہ چند روپے گل جان کی ہتھیلی پر رکھنے میں کوئی قباحت تو نہیں تھی۔ہے؟نہیں؟شاید؟ابھی میں اسی ادھیڑ بن میں سست قدم اٹھاتا چلا جا رہا تھا کہ ہلمند خان کا طیش میں آیا ہوا لہجہ میرے ذہن پر ہتھوڑے کی مانند برسا”باخدامجھے آنے والے وقت سے خوف آرہا ہے کہ میں کابل میں اپنے گھر کے گرم ڈرائینگ روم میں ٹیلی وژن پر وہ مناظر دیکھ چکا ہوں کہ جب بھوک کا عفریت مہاجر بستیوں میں داخل ہوتا ہے تواپنے حسب نسب پر مغرور،غیور اقوام کے افراد بھی بے غیرتی کی حدود پار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور پھر نانِ جویں کے حصول کی خاطر مرد اوندھے منہ لیٹ کر جوتے چاٹتے ہیں اور عورتیں ٹھنڈے بستر گرم کرتی ہیں”
بھوک!!میرے ذہن میں صرف ایک یہی لفظ مچل اٹھا ۔میں نے دل پر پتھر رکھتے ہوئے اپنی جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا ۔چند لمحوں کے لیئے سگریٹ کا گہرا کش لگا کر وہیں چپ چاپ کھڑا بھوک سے بھیک تک کے سفر پر غور کرتا رہا اورپھر اپنا ارادہ کمزور پڑنے سے پہلے ہی چوکیدار کے کمرے کی جانب پلٹ گیا۔
میں نے بند دروازے پر دستک دی ۔
“شاید گل جان یہاں سے جا چکا ہے” ذہن میں خیال ابھرا”باہر کچرے کے ڈھیر پر موجود ہوگا آہنی گیٹ کھول کر پیسے دے دیتا ہوں”
اس سے پہلے میں اس جانب بڑھتا کمرے کا دروازہ کھل گیا۔بنیان میں ملبوس چوکیدارنے اَدھ کھلے دروازے سے باہر جھانکا اور مجھے دیکھتے ہی اسکے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔کھڑکی پر مہین سا پردہ گرا ہوا تھا۔دروازہ کھلنے سے روشنی کی پٹی دیوار تک چڑھ دوڑی تھی۔
“ججی۔۔جی صاحبو”بمشکل اسکے حلق سے آواز برآمد ہوئی۔ ابھی مدعا میری زبان پر آیا ہی چاہتا تھا کہ میری نظر کرسی کے پاس زمین پرسمٹی ہوئی گل جان کی میلی چکٹ شلوار پر جم کر رہ گئی !