Skip to content

گوتم دیوانہ ، دیوی ناچنی

عالمی افسانہ میلہ 2015

افسانہ نمبر 88

گوتم دیوانہ ، دیوی ناچنی

سدرۃ المنتہی’ جیلانی،حیدر آباد، پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک دیوی تهی۔ راجہ گوتم نے کہا تو ہے محبت کی دیوی۔۔۔۔۔ ہنسی کهنکهنائی۔۔۔۔۔ گهنگرو تو ہر سانس کے اندر بجتے تهے۔ دیوی نے اپنی ساری محرومیوں سمیت ذندگی کے کڑوے مشروب کا پیالہ پی لیا تها مگر آب چهلک گیا۔ جس دن راجہ گوتم نے کہا تها تم راگ کی رانی ہو ( رات کی رانی بهی کہیں جسے) وہ دن تها محبت کے اظہار کا۔۔۔۔ چڑهتے پانیوں میں عکس جهانکنے لگے تهے اور دیکهتے ہی دیکهتے پانی کے رنگ میں سورج نے شہد گهولا جو کیچڑ میں ڈوبتا جارہا تها صبح سے شام ہوئی اور رات ہونے کو تهی۔ محبت دم سادهے کهلے آسمان تلے کهڑی تهی۔ وہ رات تهی پیار کے اظہار کی چاشنی کی۔۔۔۔ ایک تهی رقاصہ سنبارہ اور ایک تها راجہ گوتم جو رقص کا دیوانہ تها اسی دن اس نے سنبارہ کو عہد محبت میں باندها تها۔ یہ نسل در نسل چلا آیا تها۔

رقص کی روایت پرانی جیسے، ویسے ہی رقص کی روح بهی پرانی تهی۔۔۔۔ کہانی پانچ ہزار سال پہلے بهی تشنہ تهی۔۔۔۔ جب موهن جو دڑو کی تہذیب میں سنبارہ نامی رقاصہ نے جنم لیا تها اور اس کا رقص پورے خطے میں مشہور تها۔۔۔۔ لوگ کهوجاتے تهے۔ دل باندھ آتے اس کی دہلیز پہ۔ صدیوں سے یہی سلسلہ تها۔ صدیوں سے سنبارہ عہد محبت میں باندهہ لی جاتی تهی اور راجہ دیوانہ ایک دن اسے تپتے ہوئے محبت کے صحرا میں تنہا چهوڑ جاتا تها جانے محبت کے ہونٹوں پہ کتنی زبانوں کی چاشنی کے قطرے گرے جو زہر بن گئے اور آنکهیں اسی کی راہ تکتے ہوئے پتهرا سی جاتی تهیں پانچ ہزار سال پہلے بهی یہی ہوا تها اور گوتم نے سمجها کہانی ختم ہوگئی۔

سرزمین ہند سے سندھ کو یے اس کا پہلا بوسہ تها پہلی عقیدت کی نگاہ تهی وہ سرزمین سندھ پہ کهڑا تها پیاسا۔ دهرتی پہ پڑے پہلے دن کے پہلے سورج کی کرنوں سے جگمگاتے ہوئے کهیتوں میں لہلہاتی ہوئی فصلوں کے بیچ میں بہتی پانی کی میلی کهال کے اندر فراٹے بهرتے دوڑتے ہوئے پانی کا۔ بهوکا دهرتی کی کوکھ سے اگتے اناج کی بوریوں سے چهنتی ہوئے سرخ چاول کے پسے ہوئے آٹے کی گندمی میلی سرخ رنگ کے زرات سے بنی کڑک اور خستہ روٹی کا۔ اسی جگہ جہاں اس کے پرکهوں کی مشقت بهری ذندگی کے پورے آثار ابهی تک ذندہ تهے۔

اس کے آباء و اجداد سرزمین سندھ سے صرف نسلی نہیں اصلی تعلق رکهتے تهے۔ دل کا بهی کہاں روح کا تعلق تها۔ اس کے بڑے اصلی لکڑی کے چتروں کا کام کرتے تهے۔ لکڑی کا عمدہ کام جو ہر جگہ سرزمین سندھ کی گود میں رہنے والے مزدور باسیوں کی مشقت اور فن کا ایک خوبصورت اور عمدہ نمونہ تها۔ وہ انہیں جگہوں پہ گهومتا ہوا سانس لیتا کیسی عجیب کیفیت کا شکار تها۔ یہاں اسے وہی محبت ملی جس کی توقع اسے اس سے پہلے ہی تهی۔ سنا تها سرزمین سندھ کے باسی بڑے مہمان نواز ہیں۔ سنا ہوا سچ ہی تو تها۔ وہ اسی گوٹھ کے کچے پر بیٹها تها۔

” ابے کو فون کیا! یہ وہی جگہ ہے جہاں اس کا ابا کهیلا تها۔ “

سادهنا تو سنتے ہی سر جهٹک کے مسکرا دی (سادهنا اس کے نام پہ ٹهنڈے سانس بهرنے والی تھی)۔ گوتم تو دیوانہ ہے۔ گوتم ایک سفرنامہ نگار تها گلیوں گلیوں ملکوں ملکوں پهرنے کا شوق اسے گهر میں ٹکنے کہاں دیتا تها۔ وہ جب بهی سامان سفر باندهتا۔ ابا رستے کی دیوار نہ سہی پتهر بنا کهڑا ہوتا۔ اے گوتم سندھ کیوں نہیں جاتا۔۔۔۔ سندھ ۔۔۔۔ اے گوتم بهٹائی کی نگری کا مقدر تجهے کیوں نہیں کهینچتا۔۔۔۔ اے گوتم سندھ کی مٹی میں ملی محبت تجهے ورثے میں کیوں نہ ملی۔۔۔۔ وہ بچپن سے سندھ کے قصے سنتا آیا تها۔ (قصہ موهن جودڑو کی تہذیب کو کهنگالتا ہوا بهٹائی کے سروں کی مالا جپتا.سر سسئی ماروی ہیر گاتا ہوا جهونگارتا اس کے قدموں کی آہٹ کے ساتھ ساتھ چلتا، دل کی دهڑکنوں کے ساتھ ذندگی دیتا، خواہشوں کی طرح پنپتا حیاتی لے جیسا جوان ہوتا جارہا تها) اور وہ دیوانہ مٹی کی محبت میں پهنسا ہوا جانتا تها بٹوار زمین کا ہوتا ہے دلوں کا نہیں۔۔۔۔۔ پارٹیشن کے بعد اس کے آباء سندھ سے اپنی رضا خوشی سے ہی گئے مگر نہ جانتے تهے کے سندھ کی محبت انہیں ہمیشہ اپنی اور کهینچتی رہے گی اور اب بهٹائی کی نگری ۔۔۔۔۔ گوتم کو پتہ تها کہ وہ اپنی طرف کهینچتی ہے۔۔۔۔ وہ ہالہ کے قدیم فن کے چتروں بهری گلکاری کے رنگ دیکهتا دنگ رہ جاتا تها۔۔۔۔۔ سندھ ہینڈی کرافٹ کے کئی نمونے اپنے ساتهہ باندھ لیے اور کئی کچھ دل کے ساتهہ۔ بس جو رہتا تها وہ اک تلاش۔ وہ پیاسا تها۔۔۔۔ اس کی نظر پیاسی تهی۔۔۔۔ وہ جو دیکهنا چاهتا تها۔ کوئی ایسی ہی کیفیت اپنے ادهورے پن سمیت اس کے اندر کی بے چینی کو ہوا دے رہی تهی۔ اس کے جانے میں بہت کم دن رہ گئے تهے اور وہ اداس تها۔ اس کی نظر سنبارا دیوی کو ڈهونڈتی تهی اور اس کی سماعتوں میں رقص کے گهنگهرو چهن چهن بجتے ہی جا رہے تهے۔ اسے رقص کی محفلوں کے پتے پر فقط کوٹهوں کی دہلیز کے پتے ہی ملے تهے۔ وہ ناچ ضرور تها۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ اور ایک وہ تها جس کا نام تها گوتم دیوانہ۔۔۔۔۔۔ آخری رات سے ایک رات پہلے کی گهڑیاں وہ نہیں گننا چاہتا تها اور گهڑیاں ٹک ٹک کرتی جاتی تهیں۔۔۔۔ یہ صوفی قلندر شہباز کے میلے سے چند دن پہلے کا آغاز تها۔ دهمال تو یہاں روز ہی ہوتی تهی۔۔۔۔ دهمال سے پہلے ساز بجے ڈهولک پہ تهاپ پڑی۔۔۔۔۔ کوئی راگ سجن کے ملنے کا۔۔۔۔۔ کوئی ہجر کے تپتے صحرا میں کهڑے ساجن کا۔۔۔۔ پاگل کا دیوانے کا جو وصل کی بهاری امید لئیے زندگی کو گهڑی گهڑی گنتا سنتا دیکهتا ترستا رہ جاتا ہےعشق تیرے گلیوں کا آوارہ تها۔ شہباز کی طرح دل پھڑک کے جو اڑ جاتا تو کون دوبارہ لاتا اور ہاتھ پہ رکھ دیتا۔۔۔۔ دل ہاتھ پہ رکھ دیتا۔۔۔۔ گوتم زیر لب بڑبڑایا۔ یہاں عشق کے کتنے انوکهے روپ چہروں سے عیاں ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ بے ساختہ۔۔۔۔ بیگانہ ۔۔۔۔ جہاں بندہ نہیں عشق دهمال کرتا تها جہاں مجاز اور حقیقت کا روپ یکساں ہو کے رنگ چڑهاتا۔۔۔۔ رنگتا جاتا وہ بهی جو رنگے بنا رہتا تها۔۔۔۔ وہ بهی رنگتا جاتا تها۔۔۔۔ جوگیوں کی ٹولیاں تهیں اور ان میں گوتم دیوانہ لہر لہر کیسے بہہ گیا، کیوں کر ڈوبنے سے بچتا کے رقص کو ہتهیلی پہ جمائے وہ دیوی جادوگرنی تهی۔۔۔۔ دهمال عروج پہ تها۔۔۔۔ اس کی بکهری ہوئیں بیتاب زلفوں کے خم بهی گواہ تهے۔ کیفیت گواہ تهی۔۔۔۔ رقص پریشان تها اور وہ دیوی گوری کلائیوں والی دهمال کر رہی تهی گوتم کا سانس تهم گیا یا پهر منظر تهما تها۔ وہ تو ازل سے دیوانہ تها۔۔۔۔۔ اس کا نام سنبارہ تها۔ وہ سنبارہ کی نسل سے تعلق رکهتی تهی۔ اس نے بتایا کے رقص کا رشتہ نبهانا ان کے لئیے مشکل تر ہو گیا ہے۔ رقص اور عزت دو الگ خانوں میں تقسیم ہونے کے بعد اس نسل نے صدیوں بعد عزت کی ذندگی کا رستہ چنا (ذندگی میں مگر ایک خلاء تها۔ روح کی طلب نا مکمل تهی) اور ناچ کو رقص کا روپ چڑهائے اب دل لگی کی محفلیں سجتی ہیں۔۔۔۔ اصل رقص زنجیروں میں قید ہوگیا ہے۔ روح کی بیچینی جب بڑهنے لگتی ہے تو رقص رگ رگ میں جهومنے لگتا ہے اور وہ صوفی کی نگری کے صحن میں اپنی روح کی پیاس بجهانے کے لیئے یہاں دهمال کرتی ہے اور شاہ بهٹائی کے سر سارنگ سے لے کر سَسی تک اس کی روح کی بانسری میں بجنے لگتے ہیں تو روح کی تلاش کو اک نیا سراغ مل جاتا ہے۔ گوتم کیسے کہتا کہ کہانیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ کہانیاں تو ہر نسل کے ساتھ پروان چڑهتی ہیں۔۔۔۔ اس نے چاہا راجہ بن کر رانی کو کسی نئے عہد محبت میں باندھ لے.مگر نہیں۔۔۔۔۔ اور ہاں مگر آج دن تها محبت کے عہد کا یا روح کے نئے راستے کا عشق نے ایک کروٹ بائیں لی یا پهر دائیں۔۔۔۔۔ وہ سانس تهامے کهڑی تهی۔ سنبارہ دیوی۔۔۔۔ یا پهر اس کے من کی محبت تهی۔ جو تهی پیاسی۔۔۔۔۔ من رنگ کی محفل سجی تهی، ایک بڑا سا اسٹیج تها، محبت کے رنگ ڈهنگ ہی اور تهے، کہ روح کی چابی وہ ہاتهہ میں لئے لئے پهرنے لگی تهی اور سر تال کہ کئی سرگم کهیلتی تهی۔

صوفی کے راگ کا ریکارڈ بجنے لگا تها سروں کا سحر طاری تها۔ سنبارہ دیوی نے رقص کا ردِهم اوڑھ لیا اور عین سامنے لوگوں کا ہجوم تها۔۔۔۔۔ ہر سانس سروں میں کهیلتا تها اور رقص کو روح نے آزادی کا عظیم پروانہ دیا، سنبارہ ہوائوں کی دیوی تهی اور هال میں تالیاں بجانے والوں میں سب سے نمایاں کهڑا گوتم دیوانہ تها۔#
سدرۃ المنتہی’ جیلانی،حیدر آباد، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دیوی تهی۔ راجہ گوتم نے کہا تو ہے محبت کی دیوی۔۔۔۔۔ ہنسی کهنکهنائی۔۔۔۔۔ گهنگرو تو ہر سانس کے اندر بجتے تهے۔ دیوی نے اپنی ساری محرومیوں سمیت ذندگی کے کڑوے مشروب کا پیالہ پی لیا تها مگر آب چهلک گیا۔ جس دن راجہ گوتم نے کہا تها تم راگ کی رانی ہو ( رات کی رانی بهی کہیں جسے) وہ دن تها محبت کے اظہار کا۔۔۔۔ چڑهتے پانیوں میں عکس جهانکنے لگے تهے اور دیکهتے ہی دیکهتے پانی کے رنگ میں سورج نے شہد گهولا جو کیچڑ میں ڈوبتا جارہا تها صبح سے شام ہوئی اور رات ہونے کو تهی۔ محبت دم سادهے کهلے آسمان تلے کهڑی تهی۔ وہ رات تهی پیار کے اظہار کی چاشنی کی۔۔۔۔ ایک تهی رقاصہ سنبارہ اور ایک تها راجہ گوتم جو رقص کا دیوانہ تها اسی دن اس نے سنبارہ کو عہد محبت میں باندها تها۔ یہ نسل در نسل چلا آیا تها۔
رقص کی روایت پرانی جیسے، ویسے ہی رقص کی روح بهی پرانی تهی۔۔۔۔ کہانی پانچ ہزار سال پہلے بهی تشنہ تهی۔۔۔۔ جب موهن جو دڑو کی تہذیب میں سنبارہ نامی رقاصہ نے جنم لیا تها اور اس کا رقص پورے خطے میں مشہور تها۔۔۔۔ لوگ کهوجاتے تهے۔ دل باندھ آتے اس کی دہلیز پہ۔ صدیوں سے یہی سلسلہ تها۔ صدیوں سے سنبارہ عہد محبت میں باندهہ لی جاتی تهی اور راجہ دیوانہ ایک دن اسے تپتے ہوئے محبت کے صحرا میں تنہا چهوڑ جاتا تها جانے محبت کے ہونٹوں پہ کتنی زبانوں کی چاشنی کے قطرے گرے جو زہر بن گئے اور آنکهیں اسی کی راہ تکتے ہوئے پتهرا سی جاتی تهیں پانچ ہزار سال پہلے بهی یہی ہوا تها اور گوتم نے سمجها کہانی ختم ہوگئی۔
سرزمین ہند سے سندھ کو یے اس کا پہلا بوسہ تها پہلی عقیدت کی نگاہ تهی وہ سرزمین سندھ پہ کهڑا تها پیاسا۔ دهرتی پہ پڑے پہلے دن کے پہلے سورج کی کرنوں سے جگمگاتے ہوئے کهیتوں میں لہلہاتی ہوئی فصلوں کے بیچ میں بہتی پانی کی میلی کهال کے اندر فراٹے بهرتے دوڑتے ہوئے پانی کا۔ بهوکا دهرتی کی کوکھ سے اگتے اناج کی بوریوں سے چهنتی ہوئے سرخ چاول کے پسے ہوئے آٹے کی گندمی میلی سرخ رنگ کے زرات سے بنی کڑک اور خستہ روٹی کا۔ اسی جگہ جہاں اس کے پرکهوں کی مشقت بهری ذندگی کے پورے آثار ابهی تک ذندہ تهے۔
اس کے آباء و اجداد سرزمین سندھ سے صرف نسلی نہیں اصلی تعلق رکهتے تهے۔ دل کا بهی کہاں روح کا تعلق تها۔ اس کے بڑے اصلی لکڑی کے چتروں کا کام کرتے تهے۔ لکڑی کا عمدہ کام جو ہر جگہ سرزمین سندھ کی گود میں رہنے والے مزدور باسیوں کی مشقت اور فن کا ایک خوبصورت اور عمدہ نمونہ تها۔ وہ انہیں جگہوں پہ گهومتا ہوا سانس لیتا کیسی عجیب کیفیت کا شکار تها۔ یہاں اسے وہی محبت ملی جس کی توقع اسے اس سے پہلے ہی تهی۔ سنا تها سرزمین سندھ کے باسی بڑے مہمان نواز ہیں۔ سنا ہوا سچ ہی تو تها۔ وہ اسی گوٹھ کے کچے پر بیٹها تها۔
” ابے کو فون کیا! یہ وہی جگہ ہے جہاں اس کا ابا کهیلا تها۔ ”
سادهنا تو سنتے ہی سر جهٹک کے مسکرا دی (سادهنا اس کے نام پہ ٹهنڈے سانس بهرنے والی تھی)۔ گوتم تو دیوانہ ہے۔ گوتم ایک سفرنامہ نگار تها گلیوں گلیوں ملکوں ملکوں پهرنے کا شوق اسے گهر میں ٹکنے کہاں دیتا تها۔ وہ جب بهی سامان سفر باندهتا۔ ابا رستے کی دیوار نہ سہی پتهر بنا کهڑا ہوتا۔ اے گوتم سندھ کیوں نہیں جاتا۔۔۔۔ سندھ ۔۔۔۔ اے گوتم بهٹائی کی نگری کا مقدر تجهے کیوں نہیں کهینچتا۔۔۔۔ اے گوتم سندھ کی مٹی میں ملی محبت تجهے ورثے میں کیوں نہ ملی۔۔۔۔ وہ بچپن سے سندھ کے قصے سنتا آیا تها۔ (قصہ موهن جودڑو کی تہذیب کو کهنگالتا ہوا بهٹائی کے سروں کی مالا جپتا.سر سسئی ماروی ہیر گاتا ہوا جهونگارتا اس کے قدموں کی آہٹ کے ساتھ ساتھ چلتا، دل کی دهڑکنوں کے ساتھ ذندگی دیتا، خواہشوں کی طرح پنپتا حیاتی لے جیسا جوان ہوتا جارہا تها) اور وہ دیوانہ مٹی کی محبت میں پهنسا ہوا جانتا تها بٹوار زمین کا ہوتا ہے دلوں کا نہیں۔۔۔۔۔ پارٹیشن کے بعد اس کے آباء سندھ سے اپنی رضا خوشی سے ہی گئے مگر نہ جانتے تهے کے سندھ کی محبت انہیں ہمیشہ اپنی اور کهینچتی رہے گی اور اب بهٹائی کی نگری ۔۔۔۔۔ گوتم کو پتہ تها کہ وہ اپنی طرف کهینچتی ہے۔۔۔۔ وہ ہالہ کے قدیم فن کے چتروں بهری گلکاری کے رنگ دیکهتا دنگ رہ جاتا تها۔۔۔۔۔ سندھ ہینڈی کرافٹ کے کئی نمونے اپنے ساتهہ باندھ لیے اور کئی کچھ دل کے ساتهہ۔ بس جو رہتا تها وہ اک تلاش۔ وہ پیاسا تها۔۔۔۔ اس کی نظر پیاسی تهی۔۔۔۔ وہ جو دیکهنا چاهتا تها۔ کوئی ایسی ہی کیفیت اپنے ادهورے پن سمیت اس کے اندر کی بے چینی کو ہوا دے رہی تهی۔ اس کے جانے میں بہت کم دن رہ گئے تهے اور وہ اداس تها۔ اس کی نظر سنبارا دیوی کو ڈهونڈتی تهی اور اس کی سماعتوں میں رقص کے گهنگهرو چهن چهن بجتے ہی جا رہے تهے۔ اسے رقص کی محفلوں کے پتے پر فقط کوٹهوں کی دہلیز کے پتے ہی ملے تهے۔ وہ ناچ ضرور تها۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ اور ایک وہ تها جس کا نام تها گوتم دیوانہ۔۔۔۔۔۔ آخری رات سے ایک رات پہلے کی گهڑیاں وہ نہیں گننا چاہتا تها اور گهڑیاں ٹک ٹک کرتی جاتی تهیں۔۔۔۔ یہ صوفی قلندر شہباز کے میلے سے چند دن پہلے کا آغاز تها۔ دهمال تو یہاں روز ہی ہوتی تهی۔۔۔۔ دهمال سے پہلے ساز بجے ڈهولک پہ تهاپ پڑی۔۔۔۔۔ کوئی راگ سجن کے ملنے کا۔۔۔۔۔ کوئی ہجر کے تپتے صحرا میں کهڑے ساجن کا۔۔۔۔ پاگل کا دیوانے کا جو وصل کی بهاری امید لئیے زندگی کو گهڑی گهڑی گنتا سنتا دیکهتا ترستا رہ جاتا ہےعشق تیرے گلیوں کا آوارہ تها۔ شہباز کی طرح دل پھڑک کے جو اڑ جاتا تو کون دوبارہ لاتا اور ہاتھ پہ رکھ دیتا۔۔۔۔ دل ہاتھ پہ رکھ دیتا۔۔۔۔ گوتم زیر لب بڑبڑایا۔ یہاں عشق کے کتنے انوکهے روپ چہروں سے عیاں ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ بے ساختہ۔۔۔۔ بیگانہ ۔۔۔۔ جہاں بندہ نہیں عشق دهمال کرتا تها جہاں مجاز اور حقیقت کا روپ یکساں ہو کے رنگ چڑهاتا۔۔۔۔ رنگتا جاتا وہ بهی جو رنگے بنا رہتا تها۔۔۔۔ وہ بهی رنگتا جاتا تها۔۔۔۔ جوگیوں کی ٹولیاں تهیں اور ان میں گوتم دیوانہ لہر لہر کیسے بہہ گیا، کیوں کر ڈوبنے سے بچتا کے رقص کو ہتهیلی پہ جمائے وہ دیوی جادوگرنی تهی۔۔۔۔ دهمال عروج پہ تها۔۔۔۔ اس کی بکهری ہوئیں بیتاب زلفوں کے خم بهی گواہ تهے۔ کیفیت گواہ تهی۔۔۔۔ رقص پریشان تها اور وہ دیوی گوری کلائیوں والی دهمال کر رہی تهی گوتم کا سانس تهم گیا یا پهر منظر تهما تها۔ وہ تو ازل سے دیوانہ تها۔۔۔۔۔ اس کا نام سنبارہ تها۔ وہ سنبارہ کی نسل سے تعلق رکهتی تهی۔ اس نے بتایا کے رقص کا رشتہ نبهانا ان کے لئیے مشکل تر ہو گیا ہے۔ رقص اور عزت دو الگ خانوں میں تقسیم ہونے کے بعد اس نسل نے صدیوں بعد عزت کی ذندگی کا رستہ چنا (ذندگی میں مگر ایک خلاء تها۔ روح کی طلب نا مکمل تهی) اور ناچ کو رقص کا روپ چڑهائے اب دل لگی کی محفلیں سجتی ہیں۔۔۔۔ اصل رقص زنجیروں میں قید ہوگیا ہے۔ روح کی بیچینی جب بڑهنے لگتی ہے تو رقص رگ رگ میں جهومنے لگتا ہے اور وہ صوفی کی نگری کے صحن میں اپنی روح کی پیاس بجهانے کے لیئے یہاں دهمال کرتی ہے اور شاہ بهٹائی کے سر سارنگ سے لے کر سَسی تک اس کی روح کی بانسری میں بجنے لگتے ہیں تو روح کی تلاش کو اک نیا سراغ مل جاتا ہے۔ گوتم کیسے کہتا کہ کہانیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ کہانیاں تو ہر نسل کے ساتھ پروان چڑهتی ہیں۔۔۔۔ اس نے چاہا راجہ بن کر رانی کو کسی نئے عہد محبت میں باندھ لے.مگر نہیں۔۔۔۔۔ اور ہاں مگر آج دن تها محبت کے عہد کا یا روح کے نئے راستے کا عشق نے ایک کروٹ بائیں لی یا پهر دائیں۔۔۔۔۔ وہ سانس تهامے کهڑی تهی۔ سنبارہ دیوی۔۔۔۔ یا پهر اس کے من کی محبت تهی۔ جو تهی پیاسی۔۔۔۔۔ من رنگ کی محفل سجی تهی، ایک بڑا سا اسٹیج تها، محبت کے رنگ ڈهنگ ہی اور تهے، کہ روح کی چابی وہ ہاتهہ میں لئے لئے پهرنے لگی تهی اور سر تال کہ کئی سرگم کهیلتی تهی۔
صوفی کے راگ کا ریکارڈ بجنے لگا تها سروں کا سحر طاری تها۔ سنبارہ دیوی نے رقص کا ردِهم اوڑھ لیا اور عین سامنے لوگوں کا ہجوم تها۔۔۔۔۔ ہر سانس سروں میں کهیلتا تها اور رقص کو روح نے آزادی کا عظیم پروانہ دیا، سنبارہ ہوائوں کی دیوی تهی اور هال میں تالیاں بجانے والوں میں سب سے نمایاں کهڑا گوتم دیوانہ تها۔

Published inسدرۃ المنتہیٰ جیلانیعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply