عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 41
گل زکئی
توصیف احمد، راولپنڈی، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاہ بادل وقت کو قبضے میں لے چکے تھے اسی لئے گل زکئی کی پلکوں سے شام سے پہلے رات کے سائے اٹک گئے تھے۔ یہ خیران پور گاؤں سے پونے تین کلو میڑ کے فاصلے پہ کھیتوں میں بنا ہوا مکان تھا، جسے گل زکئی کا وجود پچھلے چار سالوں سے گھر بنانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ جو دو کمروں اور چھوٹے سے صحن پہ مشتمل تھا۔ دروازے تو مٹی کا رنگ اوڑھے دیمک کی خوراک تھے ہی۔۔۔۔۔ کھڑکی کیا تھی, بس دیوار میں اتنا سا سورا خ تھا کہ وہ بیٹھ کر اندر باہر سے آ جا سکتی تھی۔ وقت کے ہر پہر ہوا کا کوئی نہ کوئی آوارہ جھونکا کھڑکی کے اندر باہر منڈلاتا رہتا۔ کھڑکی فرش سے ذرا سا ہی اونچی تھی۔ وہ کھڑکی کے نزدیک ہوئی اور سر دیوار سے لگائے دور تلک برستی ہوئی بے خبر بارش کو تکنے لگی، وہ خود بھی بے خبر تھی کہ باہر برستی ہوئی بارش کے چند آوارہ قطرے اس کی پلکوں پہ آ ٹھہرے تھے، جہاں شام کے وقت رات کے سائے لٹک رہے تھے۔ بارش کا ایک جھونکا گزرا۔۔۔۔ رکا اور اس کے چہرے سے آن ملا۔ اُسے چہرے پہ سوئیاں سی چھبنے کا احساس ہوا اور اگلے ہی لمحے ٹھنڈک کے لاتعداد احساس یکے بعد دیگرے جسم میں اترنے لگے۔ اس کا ہاتھ بے اختیار گالوں سے ہوتا ہوا گردن پہ آن ٹھہرا جہاں سیاہ دھاگے سے بندھا ہوا ایک تعویذ اس کی انگلیوں کے لمس کے حصار میں آتے ہی سلگ اٹھا۔ بے اختیار وہ اٹھی اور کمرے کی دوسری کھڑکی کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی۔ کھڑکی سے چند قدم کے فاصلے پہ بیری کے بوڑھے درخت کے نیچے ایک لحد بارش بھرے جھونکوں کی زد میں تھی۔ دیوار سے سر لگائے اس نے ہچکی لی اور پلکوں کے اندر قید سمندر یکلخت باہر امڈ پڑا۔
’’ احمدے…‘‘ اس کے لبوں پہ اک نام آ ٹھہرا۔ اس کے ساتھ ہی بارش کی ٹپ ٹپ اور جھونکوں کی سرگوشیوں میں اس کی سسکیاں رقص کرنے لگیں۔ اس نے احمد خان کو پہلی مرتبہ اس وقت دیکھا تھا جب سولہ کلو میٹر پیدل چل کر اس کی ماں اسے احمد خان کے خفیہ ٹھکانے ’ کھاہ احمد‘ پہ لائی تھی۔ کاندھوں تک آئے سیاہ گھنے بال، چھوٹی داڑھی، باریک مونچھیں، سرخ سفید رنگ اور سیاہ کھلی شلوار قمیض میں ملبوس احمد خان حقیقت میں اسے پہلی نظر میں ایک مضبوط امید کی صورت میں بھا گیا تھا۔ جسے اس علاقے کے باسی احمد خان ڈکیت کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ گل زکئی نے اس کے بارے میں سن رکھا تھا لیکن پہلی مرتبہ دیکھ رہی تھی۔ وہ حیرت زدہ چاروں طرف موجود مسلح افراد دیکھ رہی تھی اور احمد خان جن کا سردار تھا۔ یہ وہی اونچے بڑے ٹیلوں سے لبریز وادیِ سون کا نواحی علاقہ تھا جو مسلسل رینگتے ہوئے آج تک روپوشی سے سرفروشی تک کا سفر طے کر رہا تھا جو اب اس سفر میں تحصیل تَلہ گنگ کے دیہات جیسے گوہل اور ڈھوک جڈ سے جا ملتا تھا۔ اس دوران بعد میں گل زکئی نے گوہل گاؤں کے اونچے بڑے ٹیلے بھی دیکھے تھے جہاں اس سے پہلے بھی معاشرے کے باغیوں کی کہانیاں رقص کرتی رہی تھیں۔
وقت نے ایک بار پھر احمد خان ڈکیت کی صورت میں انہی غاروں ٹیلوں اور پہاڑیوں میں خود کو دہرایا تھا۔ وہ حیرت زدہ غاروں اور اوپر نچے ٹیلوں پہ کھڑے مسلح افراد دیکھ رہی تھی۔ انہیں عزت کے ساتھ احمد خان ڈکیت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کی ماں نے روتے ہوئے احمد خان ڈکیت کو بتایا تھا کہ وہ اتنا سفر طے کر کے ایک فریاد لائی ہے۔ ذکا زمیندار کے بیٹے نے اس کی بیٹی کی عزت پہ ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل وہ کئی لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکا تھا۔ ذکا زمیندار دھیرے دھیرے علاقے میں اثر و رسوخ رکھتا جا رہا تھا۔ احمد خان ڈکیت نے انہیں وہیں رکنے کا کہا۔ اس رات گل زکئی نے کسی کے گنگنانے کی آواز بھی سنی تھی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ احمد خان کی آواز سن رہی تھی۔ اگلی صبح ذکا زمیندار کا بیٹا گل زکئی کے قدموں میں تھا۔ عزتیں لوٹنے کے جرم میں احمد خان ڈکیت نے اسے موت کی سزا سنائی اور اس کی لاش ذکا زمیندار کو اس پیغام کے ساتھ بھجوا دی کہ وہ غریب مسکین لوگوں کی جان و مال سے کھیلنا بند کرے ورنہ اس کا حشر اس کے بیٹے کی طرح ہو گا۔ دونوں ماں بیٹی وہاں سے بحفاظت واپس آ گئیں۔ صرف دو دن بعد ذکا زمیندار نے گل زکئی کی ماں کو قتل کروا کر، اس کی لاش ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کے دروازے پہ پھینک دی۔
گل زکئی اس وقت کسی اور کے گھر میں تھی۔ وہ وہیں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی اور ’ کھاہ احمد‘ پہنچ گئی۔ احمد خان نے ذکا زمیندار کی سانسیں کھینچنے سے پہلے اس کی ساری متاع گاؤں میں تقسیم کر دی تھی۔ گل زکئی احمد خان کے ساتھ رکنے کی ضد میں تھی۔ گل زکئی احمد خان کی محبت کی صورت میں اپنے دکھوں پہ مرہم رکھ رہی تھی۔ احمد خان دھیرے دھیرے ہر وقت کسی سوچ میں کھوئی ہوئی اس لڑکی کے نزدیک آتا گیا جو ہمیشہ اس کی راہ تکتی رہتی تھی جس کی آنکھوں میں دکھ اور محبت اکٹھے محو رقص تھے۔ دونوں کی شادی کر دی گئی اور گل زکئی نے ان ٹیلوں کو اپنا لباس مان لیا۔ وہ لباس کی طرح ٹیلے بدلتی رہتی تھی، یہی احمد خان کا لباس بھی تھا۔ ایک دن جب احمد خان ذکا زمیندار کی فطرت کے مالک کسی اور شخص کی تلاش میں شہر میں نکلا تو راستے میں پولیس سے سامنا ہوا. جہاں وہ ڈپٹی لارا کے نام سے مشہور پولیس افسر کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ اس کی آنکھوں یادوں سے وضو کرنے لگی تھیں۔
“احمد خان”سسکیوں میں لپٹا ہوا ایک نام اس کے لبوں سے وا ہوا اور وہ ننگے پاؤں دیوانہ وار باہر بھاگی۔ صحن عبور کرتے ہوئے اس نے مٹی کی چھوٹی دیواروں کے اوپر سے تین گاڑیاں رکتی دیکھیں۔ یہ خیران پور اور ٹابا خیر کو آپس میں ملانے والی ٹوٹی پھوٹی سڑک تھی، بالکل گل زکئی کے وجود کی طرح، جہاں سے خواب خیال مختلف آوازیں نکالتے ہوئے گزرتے رہتے تھے۔ یہ سڑک بھی جو اس مکان سے چند کھیتوں کے فاصلے سے گزرتی تھی، گاڑیوں کی ایسی آوازوں کی زد میں رہتی تھی۔ وہ جس رفتار سے باہر بھاگی تھی، اسی رفتار سے اندر آئی، کمرے میں مسلسل بارش کی پھوار پڑنے کی وجہ سے فرش پہ مٹی اور بھوسے کی تہہ کیچڑ کا ابتدائی روپ اختیار کر چکی تھی۔ اس کا پاؤں پھسلا اور وہ کولہوں کے بل زمین پہ پھسلتی چلی گئی۔
’’وے…احمد‘‘بے ساختہ اس کی زبان لرزی اور وہ ایک کونے کی طرف بڑھی۔ تکلیف کو بھولتے ہوئے اس نے زنگ آلود صندوق کھولا اور کلاشنکوف نکال لی۔ یہ کلاشنکوف احمد خان ڈکیت کی زندگی کا وہ حصہ تھی جو ہمیشہ اس کے جسم کے ساتھ رہی تھی۔ اس نے آنچل گلے میں ڈالا اور دانت پیستے ہوئے نم آنکھوں سے کھڑکی کے پار احمد خان کی بھیگتی ہوئی قبر کو دیکھا اور بے اختیار مسکرا دی۔ کچھ دیر بعد ڈپٹی لارا کی آواز پھٹے پرانے سپیکر سے پھٹ کر باہر آنے لگی۔
’’ گل زکئی… ہتھیار پھینک دو… سلیم ملک کو ہمارے حوالے کر دو…تمہیں زندہ رکھا جائے گا۔‘‘ گل زکئی نے کلاشنکوف پہ گرفت مضبوط کر لی۔ وہ جھکتے ہوئے کمرے کے اندر بنے دروازے سے دوسرے کمرے میں داخل ہوئی. جہاں سلیم ملک اور نادر کاکا ایک کونے میں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ ان دونوں کے جسم پہ زنانہ لباس تھا۔۔۔۔ پیروں میں گھنگرو بندھے ہوئے تھے۔ گل زکئی نے جاتے ہی سلیم ملک کی پسلیوں میں لات ماری۔
“چل بے غیرت…عزرائیل آیا ہے تجھے لینے…” گل زکئی نے اس کے پاؤں کھولتے ہوئے کہا اور اسے اٹھا کر پہلے کمرے میں لے آئی۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ پولیس دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔
“چل خبیث…تجھے آزادی مبارک ہو….” اس نے سلیم ملک کو دروازے سے باہر دھکا دے دیا۔ اس کے ہاتھ ابھی بھی بندھے ہوئے تھے۔ واپس آ کر اس نے نادرکاکا کے بازوؤں پر موجود زخموں کو ٹھوکریں مارکر زندہ کیا اور اٹھا کر سامنے بٹھایا تاکہ دوسرے کمرے سے اس پر نظر پڑتی رہے۔ نادر کاکا کی چیخ و پکار جاری ہو گئی تھی۔ خود واپس کھڑکی میں بیٹھ کر سلیم ملک کو باہر جاتا ہوا دیکھنے لگی۔ سلیم ملک نے مڑ کر دیکھا اور کسی شے سے ڈرتے ہوئے تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ گل زکئی مسکرائی اور پھر اس نے فائر کر دیا۔ پولیس والے اچانک دبک گئے۔ سلیم ملک اپنے گناہوں کا بوجھ سنبھالتے ہوئے زمین پہ گر گیا۔ اس نے دوسری کھڑکی کے ساتھ جگہ سنبھالی اور دوسرا فائر کر دیا۔ کچھ دیر بعد گولیوں کی ایک بوچھاڑ کھڑکی کے ساتھ ٹکرائی اور چند گولیاں کھڑکی کے راستے کمرے کے اندر سامنے دیوار میں پیوست ہو گئیں۔وہ وقفے وقفے کے بعد فائر کر دیتی تھی۔ پولیس دونوں سمت سے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔ بارش مسلسل برس رہی تھی۔ صحن میں چھپ چھپ نما آہٹیں گونجنے لگیں تھیں اور فائرنگ کا سلسلہ رک چکا تھا۔ ڈپٹی لارا سب سے پہلے کمرے میں داخل ہوا۔ جہاں اسے دوسری کھڑکی کے ساتھ زمین پہ بیٹھی گل زکئی نظر آئی، جس کی نظریں بیری کے بوڑھے درخت کے نیچے احمد خان کی لحد پہ جمی تھیں۔ اس کی بندوق اس کی گود میں پڑی تھی, انگلیاں اب بھی ٹریگر پر تھیں ۔ ڈپٹی لارا نے پستول گل زکئی پر تان لیا۔
“بندوق چھوڑ دو گل زکئی…” اس نے لحد سے نظریں ہٹا کر ڈپٹی لارا کو دیکھا اور اسی حالت میں انگلیوں کو حرکت دی۔ میگزین میں بچی آخری گولی ڈپٹی لارا کے سامنے سے ہوتی ہوئی دوسرے کمرے میں سامنے دیوار کے ساتھ پڑے زخمی نادرکاکا کے سر میں گھستی چلی گئی۔ ڈپٹی لارا نے گل زکئی کے لہو سے سرخ ہوتے پہلو میں فائر کیا اور پھر ہاتھ اٹھا کر سپاہیوں کو فائر کرنے سے منع کر دیا۔ گل زکئی کے وجود کو ایک جھٹکا لگا اور کلاشنکوف اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔ سپاہیوں نے فورا دوسرے کمرے میں نادر کاکا کی لاش دیکھی اور واپس آ کر ڈپٹی لارا کو بتانے لگے۔ اس نے گل زکئی کی کلاشنکوف اٹھانے کا کہا اور پھر پولیس والوں کو باہر بھیج دیا اور خود کھڑکی کے ساتھ گل زکئی کے سامنے بیٹھ گیا۔ گل زکئی نے نظریں ہٹا کر باہر دیکھا، باہر سے نظریں ہٹا کر ڈپٹی لارا کو دیکھا اور پھر باہر دیکھنے لگی۔ سفید آنچل کاندھے اور پہلو میں گولیاں لگنے کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا۔ ہونٹ سفید ہونے لگے تھے۔ وہ کراہتے ہوئے بولی۔
’’سلیم مر گیا؟۔۔۔ نادر بھی۔۔۔۔ کمبختوں کے کوئی جرم معافی کے قابل نہیں تھے۔۔۔ موت کی سزا سب سے کم تھی۔۔۔۔ ان کےلیے۔۔۔۔”
“تیری گولی سر پہ لگی ہے دونوں کے۔۔۔۔ سزا جزا کا فیصلہ قانون کرتا ہے۔۔۔۔ احمد خان کی طرح بھول گئی تو بھی۔۔۔۔” ڈپٹی لارا نے کہا۔
“احمد خان کے قانون میں مجرم کو سزا ملتی تھی۔۔۔۔ تیرے قانون کی طرح مظلوم کو تاریخ پہ تاریخ نہیں۔۔۔۔ تجھے کوئی چوٹ تو نہیں آئی ڈپٹی صاحب۔‘‘ گل زکئی نے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔’’ آج بھی تیری کوئی گولی میرے قریب سے بھی نہیں گزری۔۔۔۔ گل زکئی!‘‘
’’ شکر ہے۔۔۔۔ مجھے اس درخت کے نیچے دفنا دینا۔۔۔۔ ڈپٹی۔۔۔۔ اس درخت کے نیچے۔‘‘ گل زکئی نے بیری کے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ احمد خان میری گولی کا نشانہ بنا تھا۔۔۔۔ میں دو مرتبہ اس کے سامنے آیا تھا لیکن اس کا ہاتھ بندوق کی طرف نہیں گیا۔۔۔۔ اور تیرے سامنے بھی دو مرتبہ آیا تھا۔۔۔۔ آج بھی تیری کوئی گولی میرے کسی جوان کو چھو کر نہیں گزری ۔۔۔۔ میری بچی کو تو نے بچایا تھا۔۔۔۔ کیونکہ میرے گھر سے یہ ملا تھا۔‘‘ ڈپٹی لارا نے جیب سے ایک چھوٹا سا چاقو نکال کر گل زکئی کی طرف بڑھایا۔
“آہ” گل زکئی نے کراہ کر پہلو پہ ہاتھ رکھا۔ ’’اسے بھی میرے ساتھ دفنا دینا ڈپٹی۔۔۔۔‘‘ گل زکئی کی نحیف آ واز ابھری، اس کی پلکوں پہ دو آنسو ٹھہر گئے تھے۔’’ وہ کہا کرتا تھا کہ ڈپٹی لارا کو تیری گولی چھو کر بھی گزری تو خیر نہیں۔۔۔۔ تو کیا لگتا ہے اس کا۔۔۔۔ تیری آنکھیں اس سے ملتی جلتی ہیں۔‘‘ اس کا وجود لرزا تو پلکوں پہ اٹکے آنسو اس کے ٹھنڈے ہوتے گالوں پہ بکھرتے چلے گئے۔
’’ کچھ نہیں۔۔۔۔۔ بس وہ میری عزت کرتا تھا۔۔۔۔۔ جیسے تو کرتی ہے۔‘‘ گل زکئی نے آخری مرتبہ مسکرانے کی ناکام کوشش کی اور سر دیوار سے لگا دیا۔ اس کی نظریں احمد خان کی لحد پہ جمی تھیں۔ باہر بارش تھم چکی تھی۔ دور کہیں کھیتوں میں ٹریکٹر کے لاؤڈ سپیکر سے ہجر سے لبریز پنجابی گیت نکل کر گردو نواح میں گردش کر رہا تھا۔
“اک ماں کے دو بیٹے تھے ہم ۔۔۔۔” ڈپٹی لارا نے نم آنکھوں سے اس کی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا