گرداب
لیاقت علی
**********
احسان کرمانی کی بات سنتے ہی میرااندر باہر جیسے کسی نے اتھل پتھل کررکھ دیا۔ مجھ سے آفس میں بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ صوفے کے اندر جڑے سپرنگ جیسے نوکیلے کانٹوں کی صورت باہر نکل آئے تھے اور میں اُن پر اُچھل رہا تھا۔
لا ء والے شادانی کو تو جانتے ہونا؟
’’شادانی؟‘‘
اچانک میری آنکھوں کے سامنے اُس خبیث کا چہرہ اُبھر آیا جو یونیورسٹی یوں آتا تھا گویا اُس کے باپ کی جاگیر ہو۔ کلف لگا سوٹ، مونچھوں کو تاؤ، پشاوری چپل اور خوانخوار بھوکی نظریں۔
’’ہاں‘‘۔۔۔ میں اثبات میں سرہلاتے ہوئے سوچ رہا تھا احسان کرمانی کو غلط فہمی ہوئی ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ کرمانی نے اگلا وار کیا۔
’’اور فارمیسی کا علی؟‘‘
’’علی!‘‘
بنا سائلنسر موٹر سائیکل کی بھدّ ی آواز میرے کانوں میں گونج اُٹھی۔
’’امیروں کی بگڑی ہوئی حرامی اولاد ۔۔۔او ر کون!‘‘
میں نے وجیہہ کے استفسار پر دانت پیستے ہوئے کہا تھا اور ہم تیزی سے خود کو بچاتے فٹ پاتھ پر چڑھ گئے تھے۔
’’اور وہ مقرر تو نہیں بھولا ہوگا تمہیں جرنلزم والا ندیم قریشی؟‘‘
’’ندیم قریشی!‘‘
میں ہڑبڑا سا گیا۔
آرٹس آڈیٹوریم کا کچھا کھچ بھرا ہال میری نگاہوں میں گھوم گیا۔
’’صاحبِ صدر عورت اپنی تخلیقی قوت کے باعث خود خدا کے وجود کے قریب تر ہے، وہ دھرتی کی کوکھ ، کائنات کا حسن۔۔۔ عورت ۔۔۔ عورت۔۔۔ اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔ وجیہہ پہلی رو میں کھڑے ہوکر تالیاں بجا رہی تھی اور میں آخری قطار میں بیٹھا سوچ رہا تھا ، میں سٹیج پر کیوں نہیں جا سکتا؟ کیوں ہر بار یہی ہوا کہ سٹیج پر جاتے ہی میری آواز کہیں گم ہو گئی۔ ٹانگیں تھر تھر کانپنے لگیں اور زبان میں لکنت آگئی۔
’’یاد آیا میری جان‘‘
کرمانی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے پوچھا۔
ہاں۔۔۔ہاں!
آج پھر میری زبان لڑکھڑا رہی تھی اور میرا دل ابھی یہی ماننے کو رضا مند نہ تھا کہ احسان کرمانی نے حد کردی۔
’’اور احسان کرمانی کا چہرہ تو تمہیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے!‘‘
اُس نے دانستاً کھانستے ہوئے کہا تو میرا دِل جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا۔
’’واقعی؟‘‘
میں نے شعوری کاوش سے زبان کو لڑکھڑانے سے بچایا۔
’’کبھی پہلے تم سے جھوٹ بولاہے؟‘‘
’’احسان کرمانی ہے نا میرے جگر کے ٹکڑے۔۔۔۔ تیرے یار کے ہوتے ہوئے تجھے کسی دشمن کا خوف کیوں ہونے لگا؟‘‘
مجھے طلباء تنظیم کے ایک شرپسند نے کینٹین کے الگ تھلگ کرنے میں وجیہہ سے سرگوشیوں میں مصروف پایا تو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا ’’آئندہ ہم تمہیں یہاں نہ دیکھیں۔‘‘
میں بے اختیاربڑھتی دل کی دھڑکن اور اکھڑی ہوئی سانس کے ساتھ سیدھا ہاسٹل میں کرمانی کے پاس پہنچا تو اُس نے میرے کندھے پر مضبوطی سے ہاتھ جماتے ہوئے یہی تو کہا تھا۔
’’احسان کرمانی ہے نا میرے جگر کے۔۔۔!‘‘
میرا ذہن ابھی اس فقرے کی تصحیح کر رہا تھا کہ کرمانی نے پھر سے دہرایا۔
’’بتا بولا ہے کبھی جھوٹ؟‘‘
میرا بھاری سر پنڈولم کی طرح دائیں بائیں ہلا اور میں سوچنے لگا میں یہاں کیو ں آگیا؟
شادانی، علی، ندیم قریشی ۔ وہ سب تو میرے کچھ نہیں تھے مگر کرمانی تو میرا دوست تھا تو کیا اُس نے بھی مجھے دھوکے میں رکھا؟
اُسے تو خبر تھی کہ وجیہہ میری۔۔۔
’’وہ کسی کی نہیں تھی میری جان۔‘‘
کرمانی نے پھر سے میری سوچ کے تسلسل کو توڑتے ہوئے کہا۔
میں نے اُٹھنا چاہا مگر عجب ناطاقتی کے احساس نے مجھے گھیر لیا۔ مجھے اپنی ٹانگیں بے جان سی محسوس ہونے لگیں اور ہاتھ میں پکڑی چائے کی پیالی کپکپانے لگی۔
’’ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہائے !‘‘ اب کیا بتاؤں تمہیں لالے کہ پارٹنر شپ کے اصل مفہوم سے تو صرف وہ آگاہ تھی۔‘‘
مجھے یاد آیا میں کرمانی سے اُس کے بزنس میں پارٹنر شپ کا خواہاں تھا۔ اس لئے تو آج یہاں آیا تھا۔
اور پھر احسان کرمانی نے ایک ہی سانس میں پانچ سات ایسی انگریزی فلموں کے نام گنوائے کہ جنہیں چھپ کر دیکھنے کی خفیہ خبر میں کبھی اُسے دے چکا تھا۔
’’دیکھی ہوئی ہیں نا یہ فلمیں؟‘‘
’’وہ تصدیق نہیں فقط تجدید چاہتا تھا۔‘‘
میرا منّوں وزنی سر اس بار اوپر نیچے ہلا تو وہ قہقہہ لگاتے ہوئے جیسے شرطیہ لہجے میں بولا۔
’’بس سمجھو کچھ نہیں دیکھا تم نے۔‘‘
اس کے بعد اُس نے جو جو کہا وہ اَن گنت باریک سوئیوں کی مانند میرے بدن میں پیوست ہوتا رہا۔ میرے کانوں کی لویں سرخ ہو گئیں اور دل کی دھڑکن بتدریج بڑھتی چلی گئی۔پہلی بار مجھے محسوس ہوا وقت بھر بھری مٹی کی طرح میرے ہاتھوں سے پھسل گیا۔ تاسف، ملال، بے بسی سب کسی ملے جلے احساس میں ڈھل رہے تھے۔ میرے پٹھوں میں پیدا ہوتا تناؤ مجھ سے کسی تصدیق کا خواہاں تھا اور میرا گلہ بار بار تھوک نگلنے کے باوجود خشک تھا۔ میں دس برس پہلے اپنے کمرے کے اُس منظر کو اس نئے تناظر میں زندہ کر رہا تھا جو اب تک میری زندگی کا واحد معجزہ تھا۔
’’تمہیں معجزوں پر یقین ہے؟‘‘
اُس نے میری خواہش پر بالوں سے سیفٹی پن کو علیحدہ کرتے ہوئے اُنہیں کھول کرآئینے کے سامنے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’آج سے پہلے تک نہیں تھا۔‘‘
مجھے اپنی بات پر کتنا یقین تھا۔
’’اور آج کیا ہوگیا؟‘‘
وہ بھی سمجھی ہوئی بات کی فقط تصدیق چاہ رہی تھی۔
اور میں نے کولڈ ڈرنک کا گلاس اُسے تھماتے ہوئے جواب دیا تھا۔
’’جب خواب مجسم تعبیر بن کر سامنے موجود ہو تو معجزوں پر اعتبار کیونکر نہ آئے۔‘‘
’’سچ کہہ رہے ہو؟‘‘
اُس نے پیار سے بانہیں میرے گلے میں ڈال کر کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ میرے پورے بدن میں اِک انجانی سنسنی پھیل گئی تھی۔
میں پھر سے اسٹیج پر کھڑا اپنی ذمہ داری سے معذور فقط کانپ رہا تھا۔
’’تمہاری قسم۔‘‘
میں نے اُس کی کلائیوں کو پکڑ کر یہ ہاتھ کچھ اس تقدس سے پیچھے ہٹا دیے تھے جیسے غیر شعوری طورپر اُسی گستاخی پر معذرت چاہ رہا ہوں کہ جو سرے سے میں نے کی ہی نہیں تھی۔
پھر دوتین گھنٹے کی اس رفاقت میں وہ پلٹ پلٹ کر زمین پر آتی رہی مگرمیں اُسے کہیں آسمانوں میں لئے پھرتارہا۔
تو کیا مجھے بھی زمین پر ہی رہنا چاہیے تھا؟
آج یہ نیا سوال مجھے مجبور کر رہا ہے کہ میں بے بسی میں مٹھیاں بھینچوں ۔ اُدھر میرے سامنے احسان کرمانی کے غلیظ ہونٹ ہیں جو کھلتے، بند ہوتے نجانے کیسا کیسا زہر میری رگوں میں اُتارتے چلے جا رہے ہیں۔
’’جانتے ہو شادی کے بعد بھی وہ تیرے یار کرمانی کو نہیں بھولی!‘‘
’‘تم نے شادی کب کی؟‘‘
’’ارے میں اپنی نہیں اُس کی شادی کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
کرمانی نے اپنے ہی پٹھوں کو یوں سہلاتے ہوئے کہا جیسے کوئی مرغ باز میدان مارنے والے مرغ کو اُس کی جیت پر کمر سہلا سہلا کر شاباش دے رہا ہو۔
’’مگر اُس کا میاں تو سی۔ایس۔ پی۔۔۔‘‘
’’یہ سی۔ ایس ۔پی کچھ نہیں ہوتا یار ! مرد راس آنے کی بات ہے!‘‘
’’میں ابھی اپنا جملہ پورا بھی نہ کر پایا تھا کہ کرمانی نے میری بات کاٹ کر جواب دیا۔
میں نے پھر سے گلے میں اٹکا کوئی کانٹا نگلا اور عشق کی بھول بھلیوں میں گم ہوتا یہ بھول گیا کہ معاملہ ہتھیار پھینک کر جنگ جیتنے کا نہیں گردن پر چڑھ کر جیت کا نعرہ لگانے کا ہے۔
میری ناطاقتی کا احساس ایک مرتبہ پھر سے بڑھنے لگا۔
’’تم نے کبھی انگریزی فلمیں دیکھی ہیں؟‘‘
اُس نے اگلی ہی ملاقات میں بے تکلفی سے میرے بستر پر اوندھے منہ لیٹے ،ٹی۔ وی ریموٹ سے چینل بدلتے ہوئے پوچھا تھا۔
انگریزی فلمیں؟
میں نے یوں کہا جیسے سنا ہی نہ ہومگر اُس کی براہ راست سوال کرتی آنکھوں کے سامنے فوراً جیسے کوئی جواب نہ بن پایا تو اِک گھونٹ بھرتے ہوئے اعتراف کیا ۔
’’ہاں دیکھی ہیں۔‘‘
اُس کی انہی نگاہوں میں اب نجانے کیا سوال اُبھرا کہ مجھے لگا ہو نہ ہو میرا اعتراف مجھے لے ڈوبا۔ اور پھر میں اپنے دماغ کی اس حاضر جوابی پر خوش تھا کہ جس نے فوراً میری ہکلاتی زبان کو سہارا دیا اور میں نے ایک ہی سانس میں The Messageسے جراسک پارک تک سبھی صاف ستھری فلموں کے نام گنوادیے۔
’’نہیں نہیں یہ والی نہیں۔‘‘
اُس نے جیسے جھلّا کے کہا۔
’’تو پھر کون سی؟‘‘
میں نے معصومیت سے پوچھا۔
’’وہ ۔۔۔وہ گندی والی۔‘‘
اُس نے یوں کہا جیسے گندی تو محض رسماً کہہ رہی ہو دراصل اچھی کہنا چاہ رہی ہو۔ یا شاید یہ بات میں آج سوچ رہا ہوں؟
’’تو بہ توبہ ۔۔۔ کبھی نہیں۔‘‘
میں نے اس کڑے امتحان میں سرخروئی پر خود کو داد دی اور پھر ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
’’اور تم نے ؟‘‘
’’پاگل ہو گئے ہو۔ میں نے تو ہاسٹل کی کچھ لڑکیوں سے ان سے متعلق صرف سنا ہے۔‘‘
شکر ہے وہ بھی کامیاب ہوئی۔
یوں محبت جیت گئی مگر اپنی روایت کے بھرم میں ہمارے نام ہجر رقم کرنے لگی۔
’’ملاقات نہیں ہوسکتی؟‘‘
میں آئندہ ایک برس نجانے کتنی بار یہی پوچھتا اور سنتا رہا ۔
مشکل ہے۔۔۔ بہت مشکل ۔
وہ اس بہت کو کھینچ کر ادا کرتی تو میرا دل اس کٹھن مرحلے کو جھیلنے کے لیے مزید رضا مند ہو جاتا۔
مگر کب تک؟
اور پھر یہ ہجر پھانکتے پھانکتے میں تھک کے چپ ہوگیا تو اُس نے آخری امتحان بھی لے لیا۔
’’ آؤ گے نا میری شادی پر؟‘‘
مرے ہوئے کیا جواب بھی دیاکرتے ہیں!
’’آؤ گے نا؟ ۔۔۔آؤ گے نا؟‘‘
فون ریسیور پر اِک سکوتِ مرگ طاری رہا۔
’’تمہیں میری قسم‘‘
وہ سبھی حربوں سے واقف تھی۔
میری قسم ۔ یعنی وجیہہ کی قسم۔ میرے اندر عشق بلا خیز نے پھر سے اِک کروٹ لی اور میں سائباں کے نیچے ایک دور افتادہ کونے میں رکھی کرسی پر جا بیٹھا۔
اچھا ہی ہوا مجھ جیسا مفلوک الحال اُس کے لائق ہی کہاں تھا۔ کہاں ایم۔ اے ادب کا سیکنڈ ڈویژنریہ ادب دوست اور کہاں سامنے بیٹھے اس سی۔ ایس ۔ پی کے ٹھاٹھ۔ بہت اچھا ہوا۔
میں اس کے علاوہ سوچ ہی کیا سکتا تھا۔
پھر دس برس میں میرا اُس سے کوئی رابطہ نہ ہوا۔ نہ اُس نے کوشش کی اور نہ ہی میں نے اُس کے لئے مسئلہ بننا پسند کیا۔
’’مجھے اجازت دو۔‘‘
اس بار میں نے پوری قوت سے خود کو سہارا دیا اور کھڑا ہوگیا۔
’’اور وہ پارٹنر شپ؟‘‘
کرمانی نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’کون سی؟‘‘
ایک مرتبہ پھر میں بھول چکا تھا کہ میں کرمانی کا بزنس پارٹنر بننے آیا تھا۔
’’کون سی!‘‘
کرمانی نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پھر قہقہہ لگاتے ہوئے بولا ۔
’’نہیں نہیں وہ والی نہیں ‘‘
میں بھی کھسیانی سی ہنسی ہنستا اُس کے آفس سے نکل آیا۔ گھر پہنچا تو میری بیوی نے حسب روایت جھٹ سے میرا بیگ پکڑا اور باتھ روم چپل سامنے لارکھے۔ میں نے کپڑے تبدیل کئے تو کھانا میز پر چن دیا گیا تھا۔
’’ آج کھانا ہوٹل میں کھائیں گے؟‘‘
’’ہوٹل میں؟‘‘
میری بیوی اس طنز پر سر سے پاؤں تک لرزاُٹھی۔
’’لایے میں کچھ اور بنا۔۔۔‘‘
’’میں نے کہانا آج ہوٹل میں کھائیں گے ‘‘
شادی کے ان تین برس میں پہلی بار میرے اعلان پر اُسے کیونکر یقین آتا۔ اور پھر ہوٹل کی ایک ریزرو ٹیبل پر ویٹر ہمارے آرڈر کا منتظر تھا اور وہ مینو کارڈ پکڑے بوکھلاہٹ سے اپنی پسند کا تعین ہی نہیں کر پا رہی تھی مگر میری ضد تھی کہ آج کھانا بیگم صاحبہ کی پسند کا ہی کھایا جائے گا۔
Urdu short stories and writers
Be First to Comment