Skip to content

گذشتگان محبت

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 61
گذشتگان محبت
شاھین اشرف علی
کویت

طویل تنگ و تاریک سیلن زدہ سرنگ کے دھانے تک پہنچنے کی جاں لیوا جدوجہد ومشقت کی وجہ سے وہ تھک کر بے حال و مایوس ھو چکا تھا اس کا حوصلہ اور ھمت دونوں جواب دے چکی تھی دور دور تلک۔ اندھیرا تھا اور مایوسی کی سیاہ چادر نے اسے بولنے اور سننے کی قوت و طاقت سے محروم کر دیا تھا اس کا مرتعش جسم اور ڈوبتے ھوش و حواس گہری تاریکی میں اچانک بہت دور۔ تھوڑی سی روشنی نظر ای وہ ھمیشہ روشنی سے خائف اور نالاں رھتا تھامگر اسوقت زندہ رھنے کی خواھش نے اتنی شدت سے سر اٹھایاکہ اس کی ویران اور خشک آنکھیں وحشت سے لہو لہان ھوگی وہ بہت دیر تلک بلک بلک کر روتا رھا۔
اھستہ اھستہ سرمئی لطیف سی دھند نے اس کو اپنی گرفت میں لے لیا تھوڑی دیر پہلے جس روشنی نے اسکے مایوس و منجمد وجود کو زندگی اور امید کی حرارت سے سرشار کیا تھا یکایک اس کی گرفت سے نکل گی زندگی کئ آخری سرحد پر بنی اس نادیدہ کائنات میں داخلے سے قبل غم سے نڈھال ایک ناتواں اور پریشاں حال ضعیف عورت ھر فاصلے کو عبور کرتی اس کو سینے سے لگانے کو بےقرار ھو رھی تھی شاید اس بوڑھی اور کم زور عورت نے آنسووں سے رندھی گندھی اوازمیں۔ بیٹا کہہ کر پکارا تھا یہ حیات بخش روٹھی پکار تو اسکی سماعتوں کے اھنی صندوق میں کسی قیمتی خزانے کئ طرح محفوظ تھی
بیٹا بیٹا۔ مجھے کیوں بیٹا کہہ کر پکار رھی ھو
نہیں میں تمھارا بیٹا نہیں ھوں
تم کو یاد ھے جب اس ہرانے اور بوسیدہ گھر سے اپنے قیمتی اشیا ء سمیٹ کر لے جارھی تھیں میں ڈرا سہما ایک کونے میں کھڑا تم کو حیرت و حسرت سے دیکھ رھا تھا
میری آہ و بکاء
میری طویل ریاضت میری برسوں کی محنت و مشقت میری بے بسی میری بھوک و پیاس میری قربانی میری عاجزی میرا گڑگڑانا
میرا زمین بوس ھونا
میرا گر جانا
تم نے کسی چیز کی پروا نہیں کی تمھارے دل نے ایک بار بھی تمھاری ممتا کادامن نہیں پکڑا مجھے اب تمھاری اور یاسر کی کوی ضرورت نہیں مجھے جانے دو مجھے مت روکو
میں تمھارے سامنے ھاتھ جوڑتا ھوں۔ مجھے جانے دو مجھے مت روکو
اچانک کچھ۔ نوجوان بہت سارے پھول اور قندیلیں اٹھاے کہیں سے نمودار ھوے اور ناصر سے بولے نوجوان تم ھمارے ساتھ چلا یہاں بہت اندھیرا ھے ناصر حیران و پریشان ان اجنبی نوجوانوں کو دیکھ رھا تھا چلو ھم تم کو لینے اے ھیں۔ روشنی تیز ھو گی تھی ناصر کو بابا کی اواز بھی سنای دے رھی تھی او ناصر ھماری ساتھ چلو
ھم تم کو لینے اے ھیں
گمان و بدگمانی مایوسی گہری دھند۔ تیز روشنی
نامانوس خوشگوار سی مہک ناصر کا زرد ھوتا چہرہ لرزتے ھاتھ پاؤں ماوف دماغ منجمد ھوتا بدن بابا نے آگے بڑھ کر ناصر کو تھام لیا تھامگر اسی لمحے سفید بالوں والی گریئہ و ماتم کرتی وہ سیاہ پوش بوڑھی عورت پھر سامنے اگی
میرے والد مرحوم انتہای دیانت دار وضعدار نرم گو شگفتہ مزاج انسان۔ تھے ھر ایک کے کام آنے والے سب کے دکھ درد میں شامل و شریک وہ شعبہ درس و تدریس سے وابستہ تھے اور علم کو عبادت۔ کا درجہ دیتے تھے سب انکا بہت احترام کرتے تھے ھم ایک متوسط درجے کی آبادی والے پر رونق محلے میں رھتے تھے بابا نے بڑی محنت سے کے بعد یہ گھر بنایا تھا اور اس گھر میں بہت سارے پھول اور پودے بھی لگاے تھے اور ام اور پپیتے کے درخت بھی تھے میں ان دنوں ایف ایس سی کا امتحان دے رھا تھا
بابا میری تعلیم و تربیت میں گہری دلچسپی لیتے تھے فارغ اوقات میں مجھ سے مضامین لکھواتے
اماں نے مجھے قرآن پڑھنا سکھایا تھا اور بابا نے قرات کے آداب بتائے تھے اکثر مجھ سے فرمائش کر کے سورہ رحمن سنتے تھے اور خوش ھوکر ماتھا چوم کر بہت دعا دیتے تھے مجھے بابا سے دعا لیکر بہت خوشی ھوتی تھی
بس انھی دنوں۔ موت نے ھمارا گھر دیکھ لیا اور اجل نے ھمارے پیارے بابا کو ھم سے چھین لیا بابا ھمارے لیے کیا تھے یہ بتانا ممکن ھی نہ تھاھمارے لیے وہ سایہ و سائبان۔ سراہا شفقت و محبت تھے مجھے یاد نہیں کبھی بابا نے مجھے یا میرے چھوٹے بھای یاسر کو ڈانٹا ھے ھو یا کسی شرارت پر ھماری پٹای کی ھو میرا یاسر بھای تو بابا کی وفات کے بعد اتنا رویا کہ اس کی جان کے لالے پڑ گئیے میری پیاری ماں بیوگی کا غم بھول کر یاسر کی زندگی کے کیے دعایئں کرنے لگی مجھے اس مشکل وقت میں احساس ھوا کہ ماں اور یاسر کو میری بہت ضرورت ھے آزمائش سے کندن بننے والی عمر میں اپنے کنبے کی کفالت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے میری معصومیت پر کرختگی اور شگفتگی۔ ہر اشفتگی غالب اگی بابا کے بعد نہال ماموں نے مجھے ایک ھای اسکول میں لیبارٹری اسسٹنٹ کی نوکری پر لگوا دیا اور شام کو ماموں کی کتابوں کی دوکان پر رات گئیے کتابوں کی فروخت کا کام کرتا وھیں کتابوں سے میری دوستی ھوگی کتابوں کی دنیا میں بڑی دلچسپی اور سحر تھا میں تھکنے اور جلنے لگتا تو کبھی عبداللہ حسین۔ کی اداس نسلیں
ممتاز مفتی کا علی پور کا ایلی بانو قدسیہ کا راجہ گدھ
قراۂ العین حیدر کے ناولز اشفاق احمد قدرت اللہ شہاب شوکت صدیقی ممتاز مفتی کو پڑھتایہ اپنی میٹھی پھوار ست آتش غم کو مدھم کر دیتیں کم عمری میں احساس ذمہ داری نے چہرے پر بردباری کی گہری چھاپ ڈال دی تھکن سے بے حال جب رات گئیے گھر واہس اتاتو میری پیاری ماں اور میرا پیار ا بھای یاسر میرے انتظار میں جاگ رھے ھوتے میوے والی برفی کا شوقین یاسر کبھی کبھی مٹھای کی فرمائش
اور ماں سانچی پان کی دونوں اس دن بہت خوش ھوتے ماں تو ھر روز میرا اتنی محبت سے اور دعاوں سے میرا خیر مقدم کرتی کہ مجھے یہ دنیا بہت روشن اور خوبصورت لگتی ھر روز۔ نئیے عزم سے دن کا آغاز کرتا یاسر کو اچھے اسکول میں داخل کرایا۔
میں اور ماں ھمیشہ یاسر کی بھلای کے لیے سوچتے ھر مشکل میں اس کی مدد کرنا بڑے بھای کے پیار کے ساتھ باپ کی شفقت بھی دی میں تو مجبوری کی وجہ سے اپنی تعلیم۔ مکمل نہ کر سکا مگر یاسر کو بڑاادمی بنانے کے شوق و جنون نے سخت کوشی کی عادت ڈال دی میرے لیے اس پوری دنیا میں کوئ کشش نہ تھی میرے لیے اندھیروں میں روشنی کی کرن میری ماں اوریاسر ھی تھے ماں اور یاسر کو زیادہ سے زیادہ خوشی و آرام دینے کی لگن تھکنے کہاں دیتی تھی میری زندگی میں کسی فضولیات کی گنجائش نہ تھی ۔
ثمن کی بھی نہیں جانے وہ جاڑے کی کہرزدہ سست سی شام تھی یا کسی المیے سے زرد بدحال مرجھاے ھوے پھول پتوں کی حزن و شکستگی کا موسم تھا
ثمن کیسے اتنے مضبوط حصار کو توڑ کر میرے دل و نظر پر چھا گی وہ ھمارے پڑوس میں رھتی تھی مگر اماں کو ثمن سے زیادہ میل جول۔ پسند نہ تھا اکثر ثمن کا خیال مجھے ماں سے غافل کر دیتا مجھے ھر طرف ثمن دکھای دیتی اس کی باتوں میں بڑی مٹھاس اور رعنای تھی ثمن سراپا سحر تھی
بہت بیباک بھی اس کی وجہ سے مجھے بھی رومانی کہانیوں کا شوق اٹھا تھا اور ماموں کی کتاب پر رکھی بیشتر کتابیں میں ثمن کو لا کر دیتا تھا شاید ماں کو اس لیے بھی ثم سے بیر تھا ماں مجھے ثمن سے دور رکھتی تھی مجھے ماں کی ناراضگی سے خوف آتا تھا ماں تو میری پوری کائنات تھی ماں ھنستی تو گھر میں قوس و قزح پھیل جاتی
ماں مصلے پر ھوتی تو لگتا جیسے پورے چاند کی کرنوں سے بنی کسی باکمال مصور کی تصویر ھو میرا مقصد تو ماں کی خوشی اور خوشنودی تھی
ثمن نے بارھا بڑی مہارت سے مجھے گھیرنا چاھا اس کی راہ بڑی پر کشش تھی مگر خاردار بھی مجھ سے مایوس ھوکر ثمن پڑھنے کے لیے لاھور چلی گی بہت تکلیف دیتی ھے محبتجہد مسلسل کے برسوں بعد میری شبانہ روز کی محنت کا ثمر ملا یاسر نے اپنا ایم بی اے مکمل کر لیا بھای کی کامیابی نے میرے شکستہ تن بدن میں نیئ روح پھونک دی
ماں معلوم دنیا کے سات ارب انسانوں کے خالق کی بارگاہ میں شکرانے کی نماز اداکرتی اس کی آنکھیں آنے والے خوشگوار دنوں کے خوابوں کی روشنی سے منور تھیں یاسر میرا پیارا بھای تو ھمیشہ کا تیز رفتار اور قسمت کا دھنی بھی بہت جلد اسے اچھی نوکری مل گی اس کا قدو قامت مقام رتبہ لب و لہجہ اطوار و انداز بھی بدل گیے ماں اکثر ھم دونوں بھائیوں کی متضاد شخصیتوں پر حیران ھوتی میری سست روی پر یاسر کی تیز رفتاری پر میری تو ھمیشہ یہ خوشی اور خواھش رھی تھی کہ میرے لہو کا آخری قطرہ بھی میرے عزیز بھای یاسر کے کام اے میں اور ماں دونوں بھای کے لاڈ اٹھاتے اس کوخوش دیکھ کر جشن مناتے ھم تو اس کو چھوٹے بچے کی طرح سمجھتے مگر یاسر کب اتنا بڑا ھوگیا کہ ھم اس کو بونے اور کم قیمت لگنے لگے بھلا اس دکھ کی شدت کو کیسے بیان کیا جاے
جن کو اپ انگلی پکڑ کر چلنا بولنا پڑھنا سکھاتے ھیں دھوپ کی شدتوں سے بچانے میں اپنی عمر تمام کر دیتے ھیں جب وھی اپ کو روندتے ھوے کچلتے ھوے آگے نکل جاتے ھیں تو اپ کیسا محسوس کرتے ھیں اس درد کی ھجر و فراق کے زندان میں مقید زندانی کو کیا خبر یاسر کو میری موٹر سائیکل میرے کپڑے پسماندہ علاقہ کا بوسیدہ گھر میری سادگی ماں کی قناعت اور گھر کے در و دیوار سے وحشت ھونے لگی وہ گھر یاسر کوبرا لگتا جہاں بابا نے اپنے ھاتھوں سے انار و آم و امرود کےپودے لگاے تھے جو اب تناور درخت بن گیے تھے بابا کا بنایا گھر لاکھ پرانا سہی مگر یہ گھر تو میری سب سے مضبوط و محفوظ پناہ گاہ تھی اس کی ایک اک اینٹ پر میری جدوجہد و محنت کی داستاں رقم تھی میری دنیا تو اسی گھر سے شروع ھوکر اسی گھر پر ختم ھو جاتی تھی نہ کسی سے دوستی یاری کی نہ وقت نے اتنی مہلت دی میری نوجوانی میری کم عمری میری لعزشیں میرے گناہ و ثواب میرے خواب دھوپ تمازت وحشت دیوانگی اسی گھر کے ایک نیم تاریک کمرے میں ثمن کی یادیں وھیں کسی کونے میں انہونی سی خوشبو اور خوشی کو مٹھی میں دابے سر نہوڑاے پڑی ھونگی ۔
کبھی میں سوچتا اگر میرے دامن میں اس دلربا کے التفات کی چھاؤں نہ ھوتی تو میں مصائب کی شدید دھوپ میں اتنا لمبا سفر کیسے طے کرتا اسکی دنیا میری دنیا سے کتنی مختلف تھی ثمن کی دنیا میں روشنی خوش رنگ خواب موج مستی جوش و ولولہ میری دنیا میں تاریکی دکھ غربت کراھیت بیزاری تھکن انسو اور ذمہ داریاں تھی اتنی مختلف دنیا میں رھنے کے باوجود میں اس کے خیال سے دستبردار نہیں ھوا تھا یہ ماں کا حکم تھا میری ثمن مجھ سے روٹھ کرجاچکی تھی میں تو کبھی اس کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ پایا تھا میں نے خلش اور بے چینی کے ساتھ جینا سیکھ لیا تھا آدمی کو کبھی شیشہکبھی پتھر کبھی اگ کبھی خاک اور صد چاک آدمی کو راکھ بنتے کتنی دیر لگتی ھے التفات ھجر کے مارے ھیں ھم جسم و جاں اب درد کی املاک ھے محبت سے دست براری کا دکھ بہت تکلیف دہ ھوتا ھے یہ درد تو جسم کے ساتھ روح کو بھی گھائل کرتا ھے روز مارتا ھے روز زندہ کرتا ھے
ثمن سے اس قدر ذھنی جذباتی وابستگی ھوگی مجھے اس کا علم نہ تھا گھر کی خاموش فضا میں یاسر کی اواز گونج رھی تھی گرمی ذلت گھٹن اور حبس بڑھ رھا تھا
بڑے بھای اور باپ کا درجہ دینے والا یاسر مجھے جھکی پاگل کہہ رھا تھا
میں نے حیرت سے ماں کی طرف دیکھا وہ خاموش کھڑی تھی اس وقت ماں کو بولنا چاھیے تھا ناں خوابوں کا یادوں کا اسیر۔ کبھی پاگل نہیں ھوتا ھے
مجھے لگا۔ ماں ایک دم بہت بوڑھی ھوگی ھے ماں کو کوی پرانی بات یاد نہیں رھی
ماں اس لیے خاموش و ساکت کھڑی رھی پھر بہت دن تک بحث و تکرار ھوتی رھی اس دن تو نوبت مار پیٹ تک اگی تھی یاسر کی گاڑی کا شیشہ کسی نے توڑ ڈالا تھا
یاسر میرا عزیز و چھوٹا بھای میرے بھای میں بہت جوش و طاقت تھی غصے میں اس کی اواز اور بلند ھو جاتی اور سارا محلہ سنتا تھا چھوٹے چھوٹے گھر تھے ماں نے تو مجھے اونچا بولنا بھی نہیں سکھایا تھا یاسر کو لاڈ و پیارکی وجہ سے بہت ساری مراعات حاصل تھی جس کا وہ خوب فائدہ اٹھاتا غصے میں تو اس کی اواز
بہت دور تک سنای دیتی تھی ماں ھمیشہ اس کے طوفانی تیوروں سے ڈر جاتی ماں کو کم زور دیکھ میری بھی ھمت ٹوٹ جاتی
بس یاسر اسی کم زور لمحات میں ماں کا ھاتھ پکڑ کر انھیں زبردستی گھر سے باھر لے گیا وہ دونوں گھر سے باھر نکل گیے تو مجھے اپنے وجود میں سناٹے کا احساس ھوا دونوں کو روکنے کی نیت سے گھر سے باھر نکلا۔ عجلت میں یاسر کی برق رفتار گاڑی کو نہ دیکھ سکا
عابدہ میموریل میڈیکل سینٹر کے آئ -سی-یو میں اپنی بقا کی جنگ لڑتا یہ ناصر احمد تھا شدید جسمانی دماغی چوٹوں کے باعث ڈاکٹرز اور ڈیوٹی پر موجود نرس اس کی زندگی کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں تھے
میں موت سے التجاء کرونگی ناصر کو مت لے جاو اس کی بدولت اس یخ بستہ کمرے میں کتنا نور اور زندگی پھیل گی ھے نرس کے لیے موت اور زندگی کوی نئی بات نہ تھی مگر اس حساس نرس کو موت ابدیدہ کر دیتی زندگی چونکا دیتی حادثے اسے اشکبار کرتے وہ سب کے لیے دعا کرتی جن کی زندگی سے ڈاکٹرز مایوس ھو چکے ھوتے اس کا اپنے مریضوں سے صرف انسانیت کا رشتے تھا کیا دعا مانگنے کے لیے یہ رشتہ و حوالہ کم تھا اس نے مریض کے ھاتھوں کو مضبوطی سے تھام لیا باھر یاسر اور ماں ،ناصر کے لیے خون ملنے پردعا کر رھے تھے ایک طرف بیٹے کی زندگی اور صحت و سلامتی کے لیے اشکبار ماں اور دیگر اقارب ناصر احمد کے بستر کے اردگر عرش کو ھلا دینے والی التجاوں دعاوں کا مضبوط حصار قایم ھو چکا تھا وہ طویل تاریک سیلن زدہ سرنگ کے دھانے پر پہنچ چکا تھا

Published inشاہین اشرف علیعالمی افسانہ فورم
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x