Skip to content

گدھ

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر 66
“گدھ “
افشاں شاھد ، کراچی ۔پاکستان

“میں شہر کا ایک جانا مانا نفسیاتی ڈاکٹر ہوں چٹکیوں میں، میں انسان کے ڈپریشن کی وجہ جان کر اس کے اندر کے راز اگُلوا لیتا ہوں لیکن چندا ایک ایسا کیس ہے جس کی گھتی میں سلجھا ہی نہیں پارہا۔ چھ ماہ بیت گئے لیکن وہ لڑکی ایک حرف بھی نہیں بولی اس کا درد اسکی آنکھوں سے چھلکتا ہے لیکن لفظوں میں نہیں ڈھلتا اس کے سسرال والو کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے شوہر کا قتل کیا ہے اسی لیے اسکو میرے پاس لائے ہیں کہ میں اس سے اعتراف جُرم کروا سکوں وہ مجھے قاتل نہیں لگتی بچوں کی طرح معصوم دکھتی ہے اسے جینے کی کوئی امنگ نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک مکمل زندگی جیے کیونکہ وہ ابھی صرف اٹھارہ سال کی ہے
آج اس نے خود کشی کی کوشش کی کانچ کے گلاس سے اپنی نس کاٹ لی
آج مجھے اس پر بہت غصہ آیا اور میں نے بھی اسے کس کر تھپڑ لگا دیا
“تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو میں تمہیں جتنا زندگی کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہوں تم۔اپنے آپ کو اس قدر موت کی وادیوں میں دھکیلتی ہو اس حسین اور رنگین دنیا سے کوئی جانا نہیں چاہتا اور ایک تم ہو بیوقوف، جو اس دنیا سے رخصت ہونے کے لیے بےچین ہو رہی ہو ۔
وہ مجھے کچھ لمحوں کے لیے گھورتی رہی
“کیونکہ میں اس حسین دنیا میں گِدھوں کے درمیان نہیں رہنا چاہتی میں اپنا جسم تار تار نہیں کروانا چاہتی میں نے انسان کے جو روپ دیکھے ہیں وہ آپ دیکھتے تو آپ بھی اس دنیا سے اور زندگی سے نفرت کرنے لگتے “
آج وہ اپنی گھٹن کو باہر نکالنے کے لیے تیار تھی آج اس نے خاموشی کا قفل توڑ دیا تھا
مجھے اسی لمحے کا انتظار تھا میں اس سے سوال کرنے لگا
“کونسے ایسے بھیانک روپ دیکھے ہیں تم نے انسان کے، انسان کو تو اس کرہ ارض پر اللہ نےاپنا سفیر بنا کر بھیجا ہے”
وہ ہنسنے لگی
“بھیجا تو انسان کو امن اور محبت پھیلانے کے لیے ہی تھا لیکن وہ شر پھیلانے لگا اپنی بھوک مٹانے کے لیے ہر حد سے گزرنے لگا “
“تم مجھے بتاؤ شاید میں تمہارے درد کی کچھ دوا کرسکوں”
میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا
“میں چندا بالکل چاند جیسی شاید چاند سے بھی خوبصورت کیونکہ چاند میں تو داغ ہے نا مجھ میں کوئی داغ نہیں تھا میں شیشے کی طرح صاف تھی میرا ظاہر باطن دونوں اجلا تھا بغض ،کینہ، حسد ،جھوٹ ان لفظوں سے میں نا آشنا تھی لیکن میری ماں کو میری یہی خوبیاں خامیاں لگتی تھیں وہ روز مجھے عقل کے پاٹ پڑھاتی
“اے چندا ! کچھ تو عقل سے کام لے سب کے سامنے اپنا دل نکال کر بیٹھ جاتی ہے ہر کوئی ہمارا سگا نہیں ہوتا جانے کب دنیاداری سیکھے گی کب تو سیانی بنے گی “
اور مجھے ،جسے اماں کی باتیں کبھی سمجھ نہیں آتی تھیں۔ ہمیشہ اماں کا دل رکھنے کے لیے اس سے وعدہ کر لیتی
“اماں تو ناراض نا ہو تیرے سر کی قسم اب سے میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتاؤنگی اور سمجھداری اور عقل والی باتیں بھی سیکھونگی لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے
“”لیکن وقت کو مجھے سمجھدار بنانا تھا یہ دنیا جو مجھے بہت حسین لگتی تھی اس میں بسنے والے انسان جو مجھے فرشتے لگتے تھے ان کا مکروہ چہرہ مجھھے دکھانا تھا تو اس نے مجھ سے میری ماں چھین لی”
وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوگئ اس کی آنکھوں سے بہنےوالے آنسو اس کے گالوں پر موتی کی طرح چمک رہے تھے
“پھر کیا ہوا اسکی خاموشی مجھے گھل رہی تھی میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ پھر سے اپنے لب سی لے
ماں گئ تھی باپ تو زندہ تھا نا”
وہ زور زور سے ہنسنے لگی “
“باپ ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وہ لوگ کہتے ہیں نا کہ باپ مر جائے تو بچہ یتیم ہو جاتا ہے لیکن میں کہتی ہوں ماں مرتی ہے تو بچے کا ہر رشتہ بھی دم توڑ جاتا ہے وہ بے آسرا ہوجاتا ہے بھری دنیا میں وہ اکیلا ہو جاتا ہے سرد گرم کا جب پتا چلتا ہے جب ماں کی آنکھ بند ہوتی ہے “
“کیا تمہیں اپنے باپ سے محبت نہیں تھی “
میں نے اسے کریدا
“اس محبت نے ہی تو مجھے اجاڑ دیا
ماں چلی گئ تو ساری امیدیں میں نے ابا سے وابستہ کرلی کہ وہ بھی میرا یونہی دھیان رکھے گا جس طرح اماں رکھتی تھی یونہی لاڈ اٹھائے گا جیسے اماں اٹھاتی تھی لیکن میں ٹھری ناسمجھ ، بھول گئی ماں کی محبت خدا کی محبت جیسی ہوتی ہے ہر وقت برسنے والی باپ کہاں ایسی بےغرض محبت کر پاتے ہیں ماں کے مرتے ہی ابا کے رویے میں بدلاؤ آنے لگا
اس نے اپنی ذات کا سونا پن دور کرنے کے لیے میری بلی چڑھا دی۔
“میں سمجھا نہیں ؟”
“سمجھی تو میں بھی نہیں تھی سمجھ تو جب آئی جب شادی کی رات میرے باپ کی عمر کے شوہر نے مجھ پر انکشاف کیا کہ میری بہن سے شادی کرنے کے لیے تیرے باپ نے تیرا سودا کیا ہے
اس رات میں نے پہلی بار خودکشی کی کوشش کی تھی لیکن میری تقدیر میں ابھی دکھ جھیلنا باقی تھا کہ موت نے بھی مجھے اپنی آغوش میں لینے سے انکار کردیا میں ہر روز لٹتی رہی میری ذات کہیں حصوں میں بٹتی رہی ایک سال بعد پھر شوہر کا انتقال ہوگیا میں سمجھی میری اذیت ختم ہوئی لیکن اس کے مرنے کے بعد تکلیف کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا میرے باپ نے اپنی بیوی کے کہنے پر گھر لے جانے سے انکار کردیا شوہر کا چھوٹا بھائی جو شہر سے آیا تھا مجھے عجیب نظروں سے دیکھتا میرا دل کرتا زمین پھٹ جائے اور میں اس میں پناہ لے لوں
“تو مجھ سے کیوں ڈرتی ہے میں تو تیرا خیر خواہ ہوں تجھ سے شادی کر کے تجھے رانی بنا کر رکھونگا”
“اب لوگوں کی باتیں سمجھ آنے لگی تھیں سچ اور جھوٹ کی پہچان ہونے لگی تھی مجھے، لیکن جب کوئی آسرا ہی نہ ہو تو جھوٹ پر ہی یقین کرنا پڑتا ہے وہ مجھے شہر لے گیا مجھے لگا دکھ کی شام ڈھل گئ میں بہت خوش تھی کہ ماں بننے کے عمل سے گزرنے والی تھی لیکن خوشی تو بےوفا ہوتی ہے پل دو پل کا ہی ساتھ نبھاتی ہے
“میں تمہیں اپنی نسل بڑھانے کے لیے یہاں نہیں لایا””
“تو کس مقصد کے لیے لائے ہو تم”؟
” سب سے پہلے کل ہسپتال جا کر اس قصے کو ختم کرو باقی باتیں بعد میں کرینگے”
“نہیں میں ننھے وجود کی قاتل نہیں بنونگی “
وہ بالکل چپ ہوگئ جیسے کوئی انسان سکتے میں چلا گیا ہو
“پھر کیا وہ بچہ دنیا میں آیا “
“نہیں میں نہ بچا پائی میں منتیں سماجتیں کرتی رہیں لیکن سب بےسود گئیں”
“تمہارے شوہر کا کیا مقصد تھا تمہیں پتا چلا ؟”
“وہ میرے بل بوتے پر کامیاب ہونا چاہتا تھا وہ گدھ کے سامنے مجھے گوشت بنا کر پیش کرنا چاہتا تھا لیکن اب میں تھک گئ تھی میں دوسروں کی بھوک مٹانے کا ذریعہ نہیں بننا چاہتی تھی اس لیے میں نے اپنی بھوک مٹا لی اپنے دکھ کا مداوہ کر لیا
اس دھرتی کو ایک گدھ سے پاک کردیا
“ڈاکٹر صاحب چندا نے اپنا جرم قبول کر لیا اسی نے میرے بھائی کا قتل کیا ہے نا “
“نہیں وہ اپنی یادداشت کھو چکی ہے”
میں نے پہلی بار جھوٹ بولا
“کیونکہ میں گدھ نہیں بننا چاہتا تھا”.

Published inافسانچہافشاں شاہدعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply