عالمی افسانہ فورم 2021″
تیسری نشست”
افسانہ نمبر “52”
“کہانی کے اس پار”
افسانہ نگار .زویا حسن (سیالکوٹ،پاکستان)
میرے چہرے پر یہ لکیریں جو زاویے بناتی ہیں ، یہ زاویے پچھلے برسوں میں ہرگز ایسے نہیں تھے ۔ ان لکیروں میں وقت بہا ہے تو انہوں نے اپنے رخ بدل لیے ہیں ۔ یہ آنکھیں جو تم دیکھتے ہو ان میں پہلے تجسس کے رنگ سب سے زیادہ نمایاں تھے ۔ اب دیکھو نہ تجسس رہا نہ حیرت! سب دیکھ جو لیا انہوں نے، اس لیے اب یہ چونکتی نہیں ہیں ۔ اسی لیے عرصے سے ان میں مُردنی کا ایک رنگ ٹھہر سا گیا ہے ۔ اب چونکنے کی باری لوگوں کی ہے ۔ ہاہاہا ۔ ۔ ۔
میں محسن نقوی کا کلام پڑھنے لگتا ہوں :
” ٹھہر جاؤ کہ حیرانی تو جائے۔ ۔ ۔
تمہاری شکل پہچانی تو جائے۔ ۔ ۔
تمہاری شکل پہچانی تو جائے۔ ۔ ۔”
اور پھر میں گنگناتے گنگناتے ، طویل سڑک پہ ، دور نظریں مرکوز کرتے ہوئے رک جاتا ہوں اور وہ مجھے اکتاہٹ سے دیکھنے لگتا ہے اور کہتا ہے ؛
” بابا لوک چلو رک کیوں گئے ۔ ابھی نہ تم خود کو پا سکے ہو نہ میں خود کو۔ تو رکنے کا جواز نہیں۔ میں تو اس ارادے سے آیا تھا کہ تم سے سیکھ لوں کہ خود کو کیسے ڈھونڈتے ہیں ۔ لیکن تم تو خود میں مزید گم ہوتے جا رہے ہو اور اب رک بھی گئے ہو ۔ چلو ابھی رکنے کا جواز نہیں ۔ “
میں مفلر کو کانوں کے گرد لپیٹتے ہوئے اپنا چشمہ درست کرتا ہوں اور سرد ہوتے ہاتھوں کو کوٹ کی جیب میں ٹھونستے ہوئے مٹھیاں بھینچ لیتا ہوں ۔ گہری ہوتی دھند قدرت کی سازش جیسی لگتی ہے جیسے وہ چھپ کر کوئی کھیل کھیلنا چاہتی ہو ۔ ایک ایسا کھیل جس میں دھند کے پار جانے والے کو خود کے سوا اور کچھ بھی نہ ملے ۔ وہ میرے ساتھ پھر سے چلنے لگتا ہے ۔
”مجھے پانے سے پہلے یہ زہن میں رکھ لو میرے دوست کہ میں ایک کہانی کار ہوں اور کہانیاں لکھنے سے پہلے میری ذاتی کہانی میں مجھے دوسرے کردار مار دیتے ہیں ان کرداروں کے معیار ہم کہانی کاروں کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈال کر کسی من چاہی صورت میں ڈھالنے تک ہم پر کام کرتے ہیں میری کہانی بھی کچھ ایسی ہے ۔ہاں تو میں کہہ رہا تھا یہ جو تم زاویے دیکھتے ہو یہ پہلے پہل ایسے نہیں تھے ۔ پہلے پہل سے میرا مطلب ہے جب میں پیدا ہوا تھا ۔ تب میرے زاویے ویسے تھے جیسے ہونے چاہیں مطلب مکمل ۔ مجھے مکمل بنا کر بھیجا گیا تھا ۔ ۔ ۔ اے میرے دوست مکمل ۔ ۔ ۔ میں خدا کا حرف آخر تھا ۔ پھر کچھ لوگ جو آدم خور تھے اور انسان کے شکار پہ نکلے ہوئے تھے ، انہوں نے اپنے نظریات اور عقائد کا تھری پیس سوٹ پہنا کر میرا شکار کیا ۔ میری اصل نظر کھرونچ کر ان میں نفرت، حسد، لالچ اور بد امنی کو شامل کر دیا اور پھر مجھے سکھایا کہ ان کی سوسائٹی میں چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کے کیا طور طریقے تھے ۔ کیا کھانا ہے کب کھانا ہے، کیسے اٹھنا ہے کیسے بیٹھنا ہے کہاں جانا ہے اور کہاں قدم تک نہیں رکھنا ۔”
وہاں لمحہ با لمحہ دھند کی پھوار سےگیلی ہوتی سڑک پہ، گل چین کے پھول بکھرے تھے جو ماحول کو مانوس سا بناتے تھے ۔ مجھے اپنا بھکڑ یاد آیا جہاں ایسے ہی گل چین کے پھول تھے اور جس کی سڑکوں نے میرے جوان ہوتے قدموں کی تھاپ سُنی تھی اور جن کےخوابوں کا بوجھ اس کی کوکھ نے برداشت کیا تھا، مگر جب وہ خواب زندگی ہوئے تو انہوں نے اپنا شہر چھوڑ دیا۔
“بھکڑ ایسا نہیں تھا میرے دوست کے چھوڑا جاتا ۔ مگر میں نے چھوڑ دیا ۔ رزق اور پہچان کے خدا نے مجھے آواز دی تھی تو میں نے گل چین کے پھولوں سے مہکتا بھکڑ چھوڑ دیا۔ لوگ میرے باپ کو شیدا نائی کہتے تھے۔صبح صادق ہی سورج کی پہلی حرارت، جب کسی اوس کے قطرے پہ پڑتی ہے اور وہ چمکنے لگتا ہے، کسی کے دھیان کی لو سے، جیسے کوئی ناری شعلہ جوالہ بن جاتی ہے ناں، ویسے وہ چمکتا تھا تب اپنے سرہانے پڑی اپنی غریب سی عزت والی پگڑی سر پہ باندھتا، ہاتھ میں ایک صندوقچی پکڑ کر جس میں استرا، قینچیاں، بلیڈ، نشستر، سینگیں اور جی حضوری کے اوزار ہوتے، وہ چوہدریوں کے گھر کی راہ لیتا۔ چوہدری اور اس کے بیٹے بیٹیاں، سب ابا سے بال ترشواتےتھے اور بدلے میں جھولی بھر آٹا یا چاول مل جاتے۔ جس نےسالہا سال میرے اور میرے بہن بھائیوں کے شکم پُر رکھے۔ابا گاوں کی ہر شادی پہ ہر ہر گھر شادی کا پیغام پہنچانے میں اپنا کھانا پینا بھی بھول جاتا تھا۔دیگیں اور دیگچے پکاتا،اور پھر میلے کچیلے کپڑوں میں ایک کونے میں بیٹھ کر سب کو کھاتا دیکھتا جاتا اورخدا کا شکر ادا کرتا جاتا، وہ گھوڑے یا خچر کا مہار پکڑکر نائیک کی زنانی کو میکے سے صحیح سالم گھر پہنچانے کا کام بھی کرتا تھا اور خیرات، شادی اور ختنہ وغیرہ میں چاول پکاتا تھا۔ بعض موقعوں پر ابا اور ہمارے وارے نیارے ہوجاتے تھے جب وہ زیرے، سنڈے( بچوں کے سر کے بال لینے )، لوگے کول (دونی دینے )اور معاوضہ مہار لینے (جلب) کی رقم گھر لاتا تو اس دن ہمارے گھر مرغی کا سالن بنتا تھا۔اماں اس دن ابا کی پگڑی اپنے سر پہ باندھ کر، جھومڑ گاتی اور ناچتی تھی ۔مگر ابا کی پگڑی کبھی بھی چوہدریوں کی پگڑی کے برابر نہ ہوسکی ۔ وہ اسے شیدا نائی کہہ کر پکارتے اور مجھے شیدا نائی کا پلہ۔ پھر مجھے شہر کے نجی سکول میں داخل کروانے کے لیے بھی، اسے چوہدری سلامت حسین سے ادھار مانگنا پڑا تھا اور جب میں نے ایم اے کا امتحان پاس کیا تھا ناں، میرے دوست! اس دن میرا ابا چوپال میں بھنگڑے ڈالتا تھاتو چوہدریوں کے بیٹے ابا اور مجھ پہ ویل کراتے کہتے تھے;
”پنج روپے دی ویل شیدے نائی تے شیدے دے ایم اے پاس پلے دی، پنج روپے دی ویل ”
” پنج روپے دی ویل، پنڈ دے اگلے ویلیاں دے ایم اے پاس نائی دی، پنج روپے دی ویل۔ ”
ابا کو قرض اسی شرط پر تو ملا تھا کہ میں ایم اے کرنے کے بعد دس سال تک وہیں گاوں میں چوہدریوں کے بچوں کے بال تراشوں گا۔
تویہ پہچان اور رزق کی چاہ تھی اور میری انا تھی اور وہ لوگ تھے جنہوں نے مجھ سے میرا اصل چھینا اور اپنے بنائے عزتوں کے معیار مجھ پہ تھوپے جو مجھے اپنے بھکڑ سے دور لے آئے ۔لاہور گو کہ میرے جیسے خواب پالنے والوں کی زمین ہے اور اس کے پانی امیر غریب کی تفریق کیے بغیر ہر ایک کو خود میں جگہ دیتے ہیں، مگر میرے بھکڑ کے گل چین زیادہ خوشبو دیتے تھے میرے دوست، زیادہ خوشبو دیتے تھے۔”
میں کچھ پھول اکٹھے کرتا ہوں اور ان کو دیر تک اپنے نتھنوں سے لگا کر ان میں اپنے بھکڑ کی خوشبو ڈھونڈتا ہوں۔ مگر ۔۔۔
“مگر رہنے دیں ۔”
میں گل چین کے کچھ پھول اسکے ہاتھوں میں دیتا ہوں اور اسے لاہور کے کسی ویرانے میں دفنانے کی التجا کرتا ہوں۔ تاکہ ‘بھکڑ’ کے باسی کی آنکھوں سے نکلے آنسو جو ان پھولوں پہ پڑے تھے لاہور کی کوکھ میں نمو پاکر جنم لے سکیں کہ یہ اس پردیسی کا لاہور شہر پہ حق تھا کہ اس کے آنسو وہ سنبھال کر رکھے اور آئندہ کبھی کوئی آنکھوں میں خواب لئےاس کے پانیوں میں جگہ بنائے تو وہ اپنی وراثت میں ان پھولوں کو بھی دکھا سکے جن میں ‘بھکڑ’ کے پھولوں کی مہک آتی ہو ۔
“اچھا سنو یہ بات مجھے سمجھنے میں بہت وقت لگ گیا کہ ہر شے، ہر ایک کے سمجھنے کی نہیں ہوتی۔ ہر تحریر کا ابلاغ، ہر کسی پہ الگ ہوتا ہے۔ خدا بھی تو ہر ایک کو، اس کے گماں کے مطابق ملتا ہے تو انسان کیوں نہیں ۔میں نے بڑا وقت ضائع کیا، ہر ایک کو اپنا آپ سمجھانے میں ۔وہ کہتے تھےتم نے ایسا کیوں کیا، تو میں ویسا کر کے دکھا نے لگتا، جب ویسا کرنے پہ انگلیاں اٹھیں تو میں ایسا کرکے دکھانے لگتا ۔میں نے ساری زندگی لوگوں کے معیار کے لیے ترازو کی اور پھر زندگی ہی میرے لیے ترازو ہو گئی۔میں ہر جگہ پر اپنا اصل ان لوگوں کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا کر کے چھوڑتا چلا گیا ۔”
وہ شدید سردی کی وجہ سے ہانپنے لگا تھا اورمیرے الفاظ کی کڑواہٹ اس کے گلے کی پھانس بن گئی تھی تو وہ دوہرا ہوتا کھانسنے لگا تھا ۔ میں نے اس کی پیٹھ پہ دھپ لگاتے اسے اپنے وجود کا سہارا دیا۔ ابھی مجھے اس کی ضرورت تھی۔ میری آواز کو کوئی سننے والا چاہیے تھا تو میں نے دھند میں لپٹی خود کی کہانی کو، اپنے کُن سے رونما کردیا تھا۔ اب وہاں وہ ہی تو تھا جو میری کہانی سن سکتا تھا۔ مگروہ اب ہانپنے لگا تھا اس لیے سڑک کے بیچوں بیچ ہی میں نے آلتی پالتی مارتے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔
اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے میں گنگنانے لگا تھا ۔
”آو گے جب تم او ساجنا۔۔۔
انگنا پھول کھلیں گے۔۔۔” دوبار دہراتا ہوں
وہ ساون کی طرح برسنے لگا تھا اور میں اسے چپ کراتے خود بھی رونے لگا ۔طویل سڑک کے گرد کھڑے درختوں نے، سر اونچے کرکے ہمیں دیکھا تھا اور اندھیرے نے اپنی آنکھیں کھول کھول خود کو روشن کرنا چاہا تھا کہ دیکھ سکے کہ اب کی بار رونے کی باری کس کی ہے۔ مگر اندھیرے کے نصیب میں کچھ راز تھے جن کو چھپانے کے لیے اسے روشنی سے محروم رکھا گیا تھا سو وہ نہ دیکھ سکی۔
زرا دیر رونے کے بعد، جیسے دل پھر سے کسی غم کو سہہ جانے کے لیے بہلنے لگا تھا۔ میں نے اسے اپنی بانہوں کا سہارا دے کر، اپنے قدموں پہ کھڑا کیا اور پھر سے قدم چلنے لگے ۔درختوں کے پتے کسی انہونی سے مایوس ہوتے پھر سے اونگنے لگے تھے۔
”شہر آ کر سرکار کی نوکری مقدر میں آئی تو جو تھوڑی بہت انابچی تھی اس کی چاکری بھی، دھیرے دھیرے خون سے نکلتی چلی گئی۔ آدھی عمر اسی کی چاکری کرتے کیا ملا تھا مجھے ۔گردش آیام مجھ پہ مسلط ہوئے۔ میں مزید کسی گرداب کا حصہ بننا نہیں چاہتا تھا، سو ہونٹ سی لیے اور وقت کے چرخے پہ، اپنا آپ نئے سرے سے بُننے لگا۔ جس میں اپنے سر کو، زمین کی طرف خمیدہ بُنا تھا میں نے۔ پھر قدرت کے بقائی پہیے کو دھکیلنے کے لیے میں بھی آگے بڑھا اور اپنے نصیب کے جوڑے سے، اپنے چار عکس نکالے اور تمہیں پتہ ہے اب کی بار میرا سر پاوں ہی دیکھتا تھا ۔میرے عکس مجھ سے آگےنکلنے کی چاہ میں تھے اور کئی بار اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے مجھے روندا بھی۔ مگر میرے لب نہ ہلے، میرا سر نہ اٹھا ۔ہاں قلم اٹھ گیا اور یوں ہی اکثر سر جھکتے جھکتے قلم اٹھ جایا کرتے ہیں، کبھی خود کا جھکا سر دیکھ کر تو کبھی دوسرے کا، کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ نیم مردہ خلیے پیدا ہوتے ہی ہم لکھنے والوں کے ساتھ پیدا ہوجاتے ہیں جو اپنا تنفس بحال رکھنے کی خاطر کوئی روزن تلاش کرتے ہیں، تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔بات بس یہ ہے میرے دوست کہ میں اپنی کھوج میں تھا تو میں اپنی ہڈ بیٹیاں، جگ بیتیوں میں لکھ کر بیچنے لگا تو یہ وقت تھا کہ میرا سر اٹھنے لگا تھا، مگر تم جانتے ہو پھر کیا ہوا”
میں جیسے اسے بالکل فراموش کرتےہوئے، خود سے ہی مخاطب تھا ۔ ایک بار پھر رک کر، اس کی طرف دیکھنے لگا تھا ۔
اس کے چہرے پہ مجھے کرب بہتا نظر آیا۔ میں نے اس کی کیفیت کو نظر انداز کرتے، بات جاری رکھی۔
“پھر یہ ہوا کہ ہم کہانیاں لکھنے والے کہانیاں لکھتے تھےمگر کوئی پڑھنے والا نہ رہا۔یہاں بھی مجھے دوسروں کے بنائے معیارات سے سامنا ہوا ۔ میں نے کئی سال کئی دروازوں پہ اپنی کہانی کی دستک دی، مگر دھتکارا گیا۔ وہ کہتے تھے، تم لوگ قدیم دور کے باسی ہو وہ لکھو جو ہم پڑھنا چاہتے ہیں۔آہ میرے دوست میں تو وہ ہی لکھتا تھا جس کا زہر انہوں نے میری رگوں میں اتارا ۔کئی سال ایک لکھاری کسی نہ کسی چرخے پر اپنے آپ کو کاٹتا ہے ان کے معیاروں کو اپنے خون سے سینچتا ہے ۔قلم اٹھانے سے پہلے خود کو کئی بار مارتا ہے ۔۔۔
وہ کہتے تھےتمہارے لکھے میں جدیدیت نہیں.وہ مردے میں جدیدیت ڈھونڈتے تھے ۔ وہ روح کو چھوڑ کر جسم کی طرف لپکتے تھے اور ہر شے خرید لیتے تھے۔ہر شے میرے دوست ۔ہاں قلم بھی ۔۔آہ! اور جب انہوں نے میرے سانس لینے کے آخری راستے پر بھی قدغن لگائے اور وہاں بھی اپنے معیار مقرر کیے تو ایک دن میں اپنا آپ لے کر یوں ادھر نکل آیا۔ مگر تم شاید سن نہیں رہے، تمہیں مزید سننا ہو گا میرے دوست کہانی ابھی باقی ہے۔ “
مگروہ اب سنتا نہ تھااور مسلسل کھانستا ہی چلا جاتا تھا ۔میں نے اس کی اکھڑتی سانسوں کو، خود کے پھیپھڑوں سے سانس دینے کی بھی کوشش کی مگر وہ سنبھلتا نہ تھا۔ مجھے اپنی کہانی ادھوری رہ جانے کا احساس ہوا تو میں نے اسے اپنے گلے لگا لیا۔ اس کا سینہ میرے سینے میں پیوست تھا۔ میں نے ساری کہانی اس کے سینے میں منتقل کردی تو وہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ اب وہ میری کہانی سنانے سڑکوں پہ گھومتا ہے مگر اسے وہ کہانی سنانے کے لیے خود کے سوا کوئی میسر نہیں۔میں دھند کے پار پہنچ گیا ہوں اور وہاں بھی صرف میں ہوں