Skip to content

کون؟

عالمی افسانہ میلہ “2021”
افسانہ نمبر”10″
“کون؟”
افسانہ نگار”معظمہ تنویر (راولپنڈی پاکستان )
ٹائٹل” مریم ثمر

سرسراہٹ کی آہٹ پا کر میں چونکا تھا
کون؟
کون ہے؟
گو میں اسے پہچان چکا تھاپھر بھی انجان بن کر پوچھا۔
میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ میں!مجھے اپنی ہی آواز سے مشابہ آواز سنائی دی۔
یہ پھر آدھمکا۔جنجالی ،بلائے بے درماں ۔چھاتی پر جم کر بیٹھے گا،بھیجا کھائے گا،بھوت بن کر لپٹے گا۔
میری روح اس سے بھاگنے لگی۔وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ میں نہیں جانتا تھا اگر وہ اس قدر فرسودہ حال نہ ہوتااور ہر وقت وہی سر سراتا ہوابوسیدہ چوغہ نہ پہنتا ہوتا،تو دیکھنے میں ہو بہو میرے جیسا لگتا بل کہ میں ہی لگتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہمیشہ سے میرے ساتھ تھا ،ساتھ رہنے کی کوشش کرتا تھااور اس معاملے میں ڈھیٹ پنے پر اتر آتا تھا یہاں تک کہ اگر میں اسے چلتی گاڑی سے بھی دھکا دے کرباہر نکال دیتا توبھی وہ ہانپتا کانپتاگاڑی کے پیچھے بھاگتا رہتا۔ پھر کسی مصروف چوراہے پرضرور مجھے دکھائی دے جاتا اور اپنے دکھائی دیئے جانے کوجتلائے بغیر نہ رہتا۔ اس کی ایسی حرکتوں سے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو جایا کرتی ،اعتماد کا ستیا ناس ہو جاتا۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ تھی کہ اس کے پاس ایک ایسا آئینہ تھا جس میں صرف باطن دکھائی دیتا تھا جسے وہ موقع بمو قع میرے سامنے کر دیتا تھا۔
مجھے اس آئینے سے بلا کی چڑ تھی بھلا کسے یہ گوارا ہو سکتا ہےکہ وہ خود کو اندر سے دیکھ سکے؟ مجھے بارہا اپنے آپ سے ہی خوف آیا،اپنی اصلیت سے گھن آئی اور کئی مرتبہ تو میں خود کو پہچان ہی نہیں پایا۔ بھلااتنا کٹھور،وحشی،ہوس پرست،خودغرض،خودپسنداور پیٹ پالو میں کیسے ہو سکتا تھا؟ مگر اس نے کہا کہ مانو اور منوا کے ہی چھوڑا کمبخت کے پاس ایسا جاگتا جادو تھا کہ میں اس کے آگے تنکے چننے لگتا۔ ظالم ٹھنڈی مار دیتا تھا۔ بظاہر مجھ سے میل خاطر رکھتا،محبت سے بولتا۔
تم برے نہیں ہو یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس دنیا کے بھپارے میں آگئے ہو۔ اس فریب کی مثال جانو، طلسمی آئینے کی سی ہے جو چکا چوندھی مارتا ہے۔ آدمی اندھا ہو جاتا ہے ٹیڑھ کی چلتا ہے اورکھڈے میں جا گرتا ہے ۔
وہ جتنا قریب تھا اتنا رقیب تھا،اویر سویر بغل میں بیٹھتا کبھی یوں آشنائی نبھاتا۔
کیوں جان بوجھ کر کنوئیں میں گرتے ہو؟ اریب کی چال چلتے ہو اتنی جلدی میں ہو کہ ایک ہی بار سب کچھ سمیٹ لینا چاہتے ہو وہ ٹھٹا لگاتا۔
کس کی تلاش میں ٹپے ٹوئیے مارتے ہو؟ تمھیں اور کیا چاہیے؟ کتنا چاہیے؟ تمھارے پاس جتنا ہے وہ تمھاری اندازہ لگائی گئی باقی سانسوں سے کہیں زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔۔بہت زیادہ ہے یار۔۔۔۔۔۔۔۔اور لے کر کیا کرو گے؟ اتنا تو نہیں جینا ہے یار۔
میں اس کی حد شکنی سے نالاں تھا۔ وہ دوست نما بد خواہ میرے سر کو آجاتا۔ ہنستا چغل جھگڑا اٹھاتا،میرا خون جوش کھانے لگتا ہم دونوِں کے بیچ ٹھن جاتی، جھڑکا جھڑکی ہونے لگتی۔ میں اسے کہتا سنو! آگ اور پانی ایک جگہ نہیں رہ سکتے کیوں میرے دم کے ساتھ لگے ہو؟ ہمیشہ جائے اعتراض ڈھونڈتے ہو۔ بے وقت آدھمکتے ہو اور میں جو کچھ بھی کر رہا ہوتا ہوں اس میں سے مین میکھ نکالنے لگ پڑتے ہو ۔تم چاہتے ہو میں تکوں پر گزارا کروں۔ چکی پیسوں ،گاو خراس بنا رہوں ،تمھاری خواہش ہے کہ جل میں کھڑی پیاسوں مرے، یہاں سبھی داؤ دیتے ہیں اور میں جڑیا کے چھنالے میں پکڑا جاتا ہوں۔ جاؤ کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈو ۔تم ہوتے کون ہو مجھے روک ٹوک کرنے والے؟ میری ٹوہ میں رہنے والے ؟آخر کون ہو تم؟
میں اسے کھری سناتا، دھکے دیتا مگر وہ بھی بلا کا ہٹیلا تھا ۔جھڑ بیری کاکانٹا ٹالے نہ ٹلتا تھا۔ جی چاہتا تھا اسے مار ہی دوں ۔
اس شام بھی اسے دیکھتے ہی میرے تیور میلے ہو گئے ۔
آگئے تم پھر منطق چھانٹنے ۔۔۔۔۔۔۔روڑے اٹکانے۔۔۔۔۔میں زہر کے سے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
وہ ہونٹوں میں مسکرایا پھر نرم لہجے میں بولا۔
جب بوئے بیج ببول کے تو پھول کہاں سے ہوں؟ پھر وہیں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
کیوں لیک سے بے لیک ہوتے ہو؟ چھل کرتے ہو!
سب کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔میں ٹپ سے بول اٹھا۔
تم اپنی بات کرو وہ بائیں بائیں کرنے لگا۔
فرض کرو اگر دوسروں کو راج پھوڑا نکل آئے تو کیا تم بھی ایسا چاہو گے؟
میرے تلووں سے لگی سر میں جا بجھی۔
ہمارے درمیان تکرار ہونے لگی۔
اس نے مجھے بھونکایا۔ میں نے اسے دس طرح کی باتیں سنائیں ۔بودا اور سد راہ تک کہہ ڈالا وہ بھلک بھلک رونے لگا۔
یہ نئی افتاد آپڑی اس کے رونے سے میری جان پر بن جاتی تھی۔ نحوست کا مارا چپ ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔
ٹھیک ہے جیسا تم کہو گے میں ویسا ہی کروں گا میں ابھی تائب ہوتا ہوں میں نے اس کے آگے کان پکڑے۔
وہ ٹسکنے لگا سوچ لو ! تم توبہ توڑنے کے عادی ہو۔
تو کیا مچلکہ لکھواؤ گے؟ میں زچ ہو گیا۔ کہہ جو رہا ہوں اب ایسا نہیں ہو گا ۔میں نے اسے جھانسا دیا۔ وہ ایک بچے کی طرح خوش ہو گیا۔
ایک لمبی مدت گزر جانے کے بعد بھی وہ میرے سامنے نہیں آیا۔ میں سمجھا کہ اس کا تکلے سا بل نکل گیا۔ اس کے باوجود مجھے اس کے بوسیدہ چوغے کی سرسراہٹ کی منحوس آہٹ سنائی دیتی رہتی تھی۔ میں اس کے اچانک پلٹ آنے سے خوفزدہ تھا عجلت میں جو مجھے کرنا تھا، میں کررہا تھا۔
میں نے تلوے گرم کیے۔ چرخ سے ماہتاب توڑ لایا ،لہر بہر ہو گئی،ٹھاٹ بدل گئے،جھڑجھڑ روپیہ برسنے لگا۔
اس روز میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے موضوع پر بول رہا تھا میری تقریر کا لچھا بندھ گیا تھا۔ غریب غرباء مبہوت تھے۔ غریب غرباءتالیاں پیٹ رہے تھے ۔جوش میں آکر نعرے لگا رہے تھے۔ مجھے کاندھوں پر اٹھا رہے تھے۔ غریب غرباء مٹھائیاں کھا رہے تھے جشن مبارہے تھے میں کیمروں کے حصار میں تھا۔ مجھے پوری دنیا میں دیکھا اور سنا جارہا تھا۔
اچانک میری نظر اس پر پڑی۔
وہ سب سے آخری نشست پر بیٹھا تمسخرانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔ پھر ایک دم اس نے اپنے خاص آئینے کا رخ میری طرف کر دیا۔
مجھ جیسے خوش بیان کی زبان لڑکھڑا گئی۔ میں بھول گیا کہ مجھے کیا کہنا تھا سو میں طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر وہاں سے نکل آیا۔
کچھ دنوں کے بعد وہ میرے دولت کدے پر آیا۔
بڑی ٹیپ ٹاپ ہے۔ لگتا ہے سودائی ہو گئے ہو۔
مجھ سے فورا جواب نہ بن پڑا اگرچہ میرا خون کھول گیا ۔
نرا انگڑ کھنگڑ جمع کر رکھا ہے۔ کتنے دن رہو گے یہاں؟ وہ بیش قیمت سازو سامان کو گھورتے ہوئے بولا۔
کیا مطلب یہاں کتنے دن ریوں گا؟ یہ میرا گھر ہے اور میں اس میں رہوں گا۔ مجھے شدید اشتعال آگیا۔
میں دنیا میں رہنے کی بات کر رہا ہوں وہ عجب ڈراؤنے لہجےمیں بولا میں لرز گیا۔
سچ ہے جب باڑھ ہی کھیت کو کھائے تو رکھوالی کون کرے؟
سنو ! تمھارے اندر ہوس نے سیندھ لگائی ہے تم لٹ جاؤ گے۔
مجھے اس کی چبھتی نگاہوں سے وحشت ہونے لگی وہ دھرنا دے کر بیٹھ گیا۔
تم نے مجھے بسار ہی دیا۔ کب سے میری سدھ نہیں لی ۔کہاں پڑا ہوں، کس حال میں ہوں۔ آخر میں تمھیں اتنا برا کیوں لگتا ہوں کہ میرے سائے سے ہی بھاگتے پھرتے ہو۔ بھلا تم مجھ سے بھاگ سکتے ہو ؟
میں نے گردن جھکا لی.
میں تمھارے دماغ کے کیڑے جھاڑتے تھک گیا ہوں اور تم بھان متی کے سوانگ میں الجھ کر رہ گئے ہو سچ ہے جتنی لابھ اتنا لوبھ۔۔۔۔۔۔وہ بد لحاظی پر اتر آیا۔
آج جال مارتے ہو کل خود جال میں پھنسو گے۔ یہ جو تم جاپ کے برتے پاپ کرتے ہو جانتے ہو انجام کیا ہو گا؟ بدتمیز ،بے ہودہ چیچڑی ہو کر مجھ سے چمٹ گیا ۔
میں دیر سے نکتہ چیں کو برداشت کر رہا تھا۔ اب میرے سر پر جن چڑھ گیا میں نے چاہا کہ اب تو اسے مار ہی دوں ورنہ یہ مجھے جینے نہیں دے گا۔
تم یوں میرے پیچھے پڑے ہو جیسے فقط میں ہی گنہگار ہوں۔ گویا مولی کے چور کو سولی! اور طرف بھی نگاہ کرو باقی سب دودھ کے دھلے ہیں کیا؟
تمھیں کسی سے کیا لینا دینا؟ مجھے بگڑتا دیکھ کر وہ نرم پڑ گیا؛ تمھارے سر پہ بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ اتنا بھاری گٹھڑ کیسے اٹھاؤ گے؟ جاتی دنیا دیکھو ۔۔۔۔ جا کر کھنڈرات دیکھو ۔۔۔۔۔سوچو کیا تم زندوں میں ہو؟
میں بھڑک اٹھا میں مرگیا ہوں کیا؟
مرے نہیں ہو مگر جی بھی نہیں رہے ہو البتہ میں تمھیں زندہ رکھنے کی سر توڑ کوشش میں ہوں۔ وہ دھیمے پن سے بولا ۔
ایسی تیسی میں جائے تمھاری سر توڑ کوشش اور بھاڑ میں جاؤ تم۔۔۔۔۔۔میں اس کی بھونڈی باتوں سے دق ہو گیا۔ خواہ مخواہ پخ پھیلا رہا تھا
کیوں آجاتے ہو میرے راستے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔رکاوٹیں کھڑی کرتے ہو۔۔۔۔۔تمھارا کیا خیال ہے میں تمھارے دام میں آجاؤں گا؟
اس نے کچھ کہنا چاہا مگر میں نے گرج کر اسے خاموش کر دیا۔
چپ۔۔۔۔۔۔۔چپ۔۔۔۔۔۔۔۔بس چپ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے واقعی چپ سادھ لی خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا ۔
کچھ عرصے کے بعد وہ پھر لوٹ آیا۔ میرے سامنے پٹاری کھول کر بیٹھ گیا۔ پندو نصائح کے سانپ مجھے ڈسنے لگے۔ زہر میرے رگ وریشے میں اتر گیا میری نیندیں حرام ہو گئیں۔ تن پھن جاتی رہی۔ منہ لپیٹ کر پڑا رہتا میرے اندر واقعی ہوس نے سیندھ لگائی تھی۔ میں لٹ گیا تھا!
گرچہ میرے پاس دولت کی فراوانی تھی، وسائل بے حساب تھےپھر بھی میں تہی دامن تھا میرے ہاتھ خالی تھے اس سے بڑھ کر انسان کی بے بسی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ سو نہ سکے۔ اس کے مطابق مجھے کوئی بد دعا لگ گئی تھی۔ اب میں سر نیہوڑائے اسی کی سنتا رہتا وہ مجھے طعنے دیتا ،کچوکے لگاتا، یہاں تک کہ مجھ پر چلانے لگتا مگر میں اسے پلٹ کر جواب نہ دیتا کئی بار تو وہ مجھے اتنا برا بھلا کہتا کہ میں سہار ہی نہ پاتا میں اس کے آگے گڑ گڑاتا ، ہاتھ پاؤں پڑتا، مگر میری پیش نہ جاتی ۔
میری حالت روز بروز بگڑنے لگی گٹھر بہت بھاری ہوگیا تھا اور میں بوجھ تلے دب چلا تھا ساری دنیامیں کوئی ایساگوشہ نہ تھا جہاں میں گھڑی بھر کے لیے سوسکتا۔ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ کوئ مجھ سے سب کچھ لے لے اور بدلے میں مجھے نیند دے دے۔ایسے میں اس نے مجھے جنگل کی راہ دکھائی ۔وہاں کے پر سکوت ماحول اور پرندوں کی چہچہاہٹ کے بارے میں بتایااس نے گھاس پھونس سے بنی ایک جھونپڑی کا بھی ذکر کیا جس کے اندر ایک کھری چارپائی رکھی تھی۔ اس پر میں میٹھی نیند سو سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔جتنی دیر چاہتا سویا رہ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مخل ہونے والا نہیں تھا!
جنگل، جھونپڑی، چارپائی ، نیند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مچل گیا۔
ایک ننھے بچے کی طرح ضد کرنے لگا۔ میں نے اس کی ساری شرائط مان لیں۔ سکھ بھری نیند کے عوض سب کچھ تیاگ دینے پر آمادہ ہو گیا ۔
میرے خاص احباب کو بھنک پڑی تو خبر گیری دوڑے چلے آئے۔ پہلے تو وہ میری باتیں سن کر خوب ہنسے،دیر تک مخول کرتے رہے لیکن جب انھیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا تو انھوں نے مجھے میرے اندرونی دشمن سے نجات پانے کا مشورہ دیا۔ پھر میرے ہمدردوں نے مجھے اس بھوت بلا سے نجات دلانے میں ہر طرح کی معاونت کی اور مجھے ان تمام حربوں سے آگاہ کیا جو ان کے آزمودہ تھے۔
اس کی مت سنو۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ہر گز دھیان نہ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پروار کرو،بار بار وارکرو۔۔۔۔۔۔۔۔بھر پور ضرب لگاؤ۔۔۔۔۔اسے مارو،آخر کار مار دو۔۔۔۔۔۔۔میرے مخلصوں نے مجھے بڑھاوا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میں نے بڑے پر اسرار انداز میں مار ڈالا۔
وہ مر چکا ہے! مگر کبھی کبھار اس کے بو سیدہ چوغے کی سر سراہٹ کی آہٹ اب بھی مجھے سنائی دیتی ہے اور میں بیٹھے بٹھائے چونک پڑتا ہوں۔
کون؟
کون ہے؟

Published inعالمی افسانہ فورممعظمہ تنویر

Comments are closed.