عالمی افسانہ میلہ ۲۰۱۸
افسانہ نمبر22
کنیادان
عادل فراز، لکھنؤ ۔ انڈیا
ہمیشہ کی طرح کانتا نے اپنے باپ کے سامنے وہی رٹا رٹایا سوال دہرا یا جس پراکثر اسکاباپ گھیسو ہتھے سے اکھڑ جاتا تھا ۔
’’ بابا یہ جو مندر میں دیوی ماں ہیں انکے کپڑے کون بدلتا ہے ؟دیکھو نا آج پھر کسی نے انکے کپڑے بد لے ہیں ۔مگر کس نے ؟‘‘
بیٹی کے برجستہ سوال پر گھیسو بغلیں جھانکنے لگتا۔جواب تو کیا سجھائی دیتا اسکے حواس باختہ ہوجاتے ۔جھینپ اتارنے کی غرض سے گھیسوبیٹی کو ڈپٹ دیتا۔
’’ تیرا بھیجا پھر گوا ہے کا۔جب دیکھو الٹے پلٹے پرسن پوچھا کرت ہے۔دیوی دیوتائوں کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کرتے ،بس سردھاسے درسن کرت ہیں اور آسرواد لیت ہیں ؟‘‘
’’ بابا کوئی تو ہوگا جو دیوی ماں کے کپڑے بدلتا ہو،انکا سنگھار کرتا ہو ؟یا پھر سنویم سب کچھ ہوجاتا ہے چمتکار سے ‘‘کانتا نے پھر سوال کیا
’’ ہاں ہا ں ۔۔۔۔چمتکار ہی سمجھ ۔۔۔۔دیوی ماں سے کونو بات اسمبھوئو ہے کا ؟جلدی جلدی درسن کر دیر ہوت ہے ‘‘گھیسو نے آس پاس نظریں دوڑاتے ہوئے جواب دیا ۔
’’بابا ہم لوگ مندرکے اندر جاکر درشن کیوں نہیں کرسکتے؟،کیا بھگوان کیول ایک ورگ یا ایک جات کے ہوتے ہیں ‘‘ کانتا کے اس سوال پر گھیسو خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔
’’ دھیرے بول کانتا دھیرے ،تو کسی دن میراانت کرواکے دم لیگی ،کسی نے سن لیا نا تو آپھت آجائیگی ‘‘ گھیسو ڈرا سہما آس پاس کا جائزہ لینے لگا ۔کہیں خدا نخواستہ کسی نے انکی باتیں نہ سن لی ہوں۔
’’ با با کیا کچھ غلط پوچھا ہے ہم نے ‘‘کانتا باپ کےفق چہرہ کو دیکھ کر حیران تھی۔
’’ ارے بٹیا تونے کچھ گلت ناہی پوچھا ،گلت تو ہم ہیں،سسری ہمری پوری جات گلت ہے ،ہمری برادری کا بجود ایک گلتی ہے ،اب تونے آگے کچھوپوچھا تو تیری کھیر نہیں ‘‘گھیسو نے جھلا ہٹ میں جواب دیا،مگر کانتا اب بھی اپنے سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہی تھی۔’’ تو کیا دیوی ماں کا سنگھار بھی کوئی اونچی جات کا دیوتا کرتاہے یا کوئی دیوی کرتی ہے ؟‘‘
’’ دیوی دیوتا سب اونچی جات کے ہوت ہیں بٹیا ،جات تو بس ہمری گری ہوئی ہوت ہے ۔اب بھگوان کھاطر اپنی جبان بند کرلے بٹیا ‘‘ گھیسو کی جھلاہٹ مزید بڑھ گئی تھی۔
بچپن سے کانتا کے ذہن میں اسی طرح کے سوال گردش کرتے رہتے تھے ۔مندر میں بھگوان کے سنگھاسن کے برابر میں دیوی ماں کا سنگھاسن کیوں ہوتاہے ؟ بھگوان راجا ہے تو کیا آج بھی اسکا راج پاٹ باقی ہے ؟بھگوان اعلیٰ ذات کاہے یا پھر انکی طرح نیچ ذات سے تعلق رکھتاہے ؟بھگوا ن آج بھی زندہ ہے یا مرکے امر ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
صبح سویرے جب وہ مندر دیوی ماں کے درشن کے لئے جاتی تو دیوی ماں کی مورتی دیکھ کر اسے حیرت ہوتی ۔ دیوی ماں کے کپڑے اور سنگھار پہلے دن سے مختلف ہوتا۔اکثر ایسا ہوتاکہ مورتی کے کپڑے ہفتہ میں ایک دن بدلے جاتے۔بڑے منگل کے دن دیوی ماں کی مورتی کو خوب سجایا جاتا ،رنگ برنگے گل بوٹوں والے کپڑے پہنائے جاتے ،ہونٹوں پر لال رنگ کو کچھ اور گہرا کیا جاتا ،مانگ میں سندور بھرا ہوتا اور گالوں کی سرخی میں مزید اضافہ ہوجاتا۔وہ جب بھی دیوی ماں کے بدلے ہوئے روپ سروپ اور زعفرانی کپڑوں کو دیکھتی تو اس کا من بھی ویسے ہی کپڑے پہننے کو کرتا ۔وہ بھی چاہتی تھی کہ دیوی ماں جیسا سنگھار کرے ،ہونٹوں پر سرخی لگائے ،گالوں کو گلابی کرے اور مانگ میں سندور سجائے ۔سندور توخیر ایک رواج ہے کہ بیاہ کے بعد ہی مانگ میں سجا سکتے ہیں ۔دوسرے ہی لمحے اس کے ذہن میں خیال کوندتا کہ آخر دیوی ماں کو اتنے رنگ برنگے بیش قیمت کپڑے کون پہناتاہے ؟ان کی مانگ میں سندور کون سجاتا ہے ؟ہونٹوں پر سرخ رنگ کی افشاں کون بکھیرتا ہے اور انکے رخساروں کو گلابی کرنے کی سعادت کسے نصیب ہوتی ہے ۔یہ ادھیکار تو کیول انکے پتی کا ہے ۔تو پھر کوئی دوسرا ان ادھیکاروں کا استعمال کیسے کرسکتاہے ؟تو کیا رات کے اندھیرے میں جب مندر کے پٹ بند ہوجاتے ہیں ،بتیاں بجھادی جاتی ہیں اس وقت بھگوان سویم اپنی پتنی کا سنگھار کرتے ہیں ؟ اپنے اس معصوم خیال پر وہ احساس ندامت کے ساتھ مسکراتی ،لجاتی اور پھر دونوں آنکھیں بند کرکے اپنے بیاہ کے لئے پرارتھنا کرتی ۔پھر وہ سوچتی کہ کیا بیاہ کے بعد اسکا پتی رات کے اندھیرے میں اسی طرح اسکا سنگھار کرے گا ،اسکے کپڑے بدلے گا اور قیمتی زیور پہنایے گا ۔وہ نہیں جانتی تھی کہ رات کے اندھیرے میں پتی پتنی کا سنگھار نہیں کرتابلکہ سنگھار کو بھنگ کرتاہے ،ہونٹوں کی سرخی بکھر جاتی ہے اور مانگ کا سندور پتی کی انگلیاں بکھیر دیتی ہیں ۔
دیوی ماں کے درشن کے بعد وہ گھر کے کام کاج میں مصروف ہوجاتی۔باپ نمبردار کے یہاں صاف صفائی کی ڈیوٹی پر چلا جاتا ۔دن چڑھے ہی اسکی واپسی ہوتی تھی ۔اس سمے تک کانتا باپ کے لئے روٹی بنالیتی تھی ۔پیٹ پوجا کے بعد گھیسو نمبردار کے کھیتوں کی دیکھ ریکھ کے لئے نکل جاتا ۔دن بھر وہیں کام کرتا ،دوپہر میں بھی کام ختم کرکے ادھر ہی کسی پیڑ کی چھاں میں پڑا رہتا ۔بھوک لگی تو گنا کھالیا ،مولی اور شلجم پر گزارا کرلیا یا پھر کسی کے کھیت سے شکر قند اکھاڑ کر بھون لیے ۔نمبردار کے کھیتوں کا سارا کام کاج گھیسو ہی دیکھتا تھا ۔یوں توکھیتوں کا کا م کرنے کے لئے دوسرے مزدور بھی تھے مگر ان کے کام گھیسو ہی معین کرتا تھا ۔نمبردار کبھی کبھار کھیتوںکی طرف رخ کرتے ۔عام طور پر یہ دورہ اس وقت ہوتا کہ جب فصلیں پک کر تیار ہوتی تھیں ۔نمبردار کے بیٹے تو کبھی کھیتوں کا رخ ہی نہیں کرتے تھے ۔سارا دن یا تو حویلی میں اودھم مچاتے پھرتے یا پھر موج مستی کے لئے شہر چلے جاتے ۔سنا تھا کہ شہر میں بھی نمبردار کی عالیشان کوٹھی ہے ۔ہاں نمبردار کا منجھلا بیٹا سکھی کچھ دنوں سے کھیتوں کا رخ کرنے لگا تھا ۔گھیسو نے محسوس کیا کہ سکھی اکثر اسی سمے کھیتوں پر آتا ہے جب کانتا اسکے ساتھ ہوتی ہے ۔کبھی کانتا سے کچھ دیر پہلے تو کبھی کانتا سے کچھ دیر کے بعد وہ کھیتوں پر آجاتا تھا ۔گھیسو سے یونہی کھیتی پر تبادلہ ٔ خیال کرتا رہتا ،بیجوں کے بارے میں معلومات لیتا،کھاد کی مقدار بیگھہ کے لحاظ سے کتنی ہوتی ہے ،ایک فصل کو پانی کی کتنی ضرورت ہوتی ہے ،کونسی دوائی کب کھیتوں میں ڈالیں تو فصل رنگ پکڑتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔گھیسو اسکے بے تکے سوالوں کے جی لگاکر جواب دیتا ۔مگراس نے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے تھے ۔اسکی بوڑھی آنکھیں سکھی کی چور نگاہوں کا تعاقب کرتی رہتیں ۔اسکی نگاہوں کا محور کانتا کا بدن ہوتا تھا۔
وقت کے ساتھ سکھی کی ہوس کا لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا ۔اب یہ لاوا فطری شگاف سے باہر نکلنا چاہتا تھا ۔کئی بار اس نے گھیسو کی غیر موجودگی میں کانتا کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی ۔کھیتوں پر بگار کے سمے وہ کانتا کے آس پاس ہی رہتا ۔ کانتا کے اسپرش کا وہ کوئی موقع نہیں چوکتا تھا ۔کانتا اسکی چھچھوری حرکتوں سے عاجز آچکی تھی ۔مگر نمبردار کے منہ چڑھے بیٹے پر کیچڑاچھالنا اپنی موت کو دعوت دینے جیسا تھا ۔گائوں کا گائوں انکے خلاف ہوجاتا ۔بھلا اونچی جات کا لونڈا گری ہوئی جات کی لونڈیا کے ساتھ ایسی حرکت کریگا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔مگر عشق اور ہوس کے سر پر آنکھیں نہیں ہوتیں۔بس اسی ڈر سے کانتا سکھی کی ہر بد تمیزی کو چپ چاپ برداشت کرتی رہتی ۔کھیتوں پر آتے جاتے سمے وہ جب بھی اسکا راستہ روکتا اور دست درازی کی کوشش کرتا تو کاتنا اسے پھوہڑ سی گالی دیکر تیزی سے آگے نکل جاتی ۔سکھی دیر تک اسکی بکی ہوئی گالی کی تشریح کرکے ہنستا رہتا اور اس پر پھبتیاں کستا ۔
کانتا کی عمر اس وقت پندرہ سال رہی ہوگی جب وہ پہلی بار بار جنسی مرحلے سے گذری ۔سکھی نے اسکے ساتھ باجرے کے کھیت میں منہ کالا کیا تھا ۔مگر منہ کالا کرنے کے بعد اسکے چہرے کی رنگت مزید نکھر گئی تھی ۔جیسے وہ ہارا ہوا میدان جیت گیا ہو ۔ہلکا ملگجی اندھیرا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا ۔جھینگر وں کی جھیں جھیں اور مینڈکوں کی ٹرٹر اب بند ہوچکی تھی ۔ہا ں پھونس کے چھپروں کے نیچے بندھے ہوئے جانور وں کے گلے کی بجتی ہوئی گھنٹیاں بتارہی تھیں کہ وہ جاگ رہے ہیں ۔سڑک کے کنارے ٹھٹروں میں آرام کررہے بزرگوں کا کھانسنا انکی زندگی کی خبر دے رہا تھا ۔ کتے بھی رات بھر کی بھوں بھوں کے بعدنالیوں میں پڑے ہوئے ہونک رہے تھے ۔کانتا ہرروز شوچ کے لئے اسی وقت نکلتی تھی ۔یہ وہ سمے ہوتا تھاکہ جب گائوں کے لونڈے لپاڑے بستروں میں دھنسے ہوتے تھے ۔اس سمے کچھ عورتیں اور لڑکیاں ہی کھیتوں میں شوچ کے لئے جاتی تھیں ۔نزدیک ہی نمبردار کے کھیتوں کا دور تک پھیلا ہوا سلسلہ تھا ۔جانوروں کے چارے کے لئے باجرے کی فصل کھڑی تھی ۔کانتا نے کھیت میں گھسنے سے پہلے اپنی دھوتی پنڈلیوں سے اوپر کھینچ لی تاکہ اسکی دھوتی اوس اور اوس سے سنی ہوئی مٹی سے بچی رہے ۔کھیت کے اندر پہونچ کر اس نے لٹیا زمین پر رکھی اور خود بھی اکڑوں زمین پر بیٹھ گئی ۔تبھی اسے کھیت کے بیچ ایک سایہ لہرا تا ہوا محسوس ہوا ۔ہلکا اندھیر ا ہونے کی وجہ سے وہ ٹھیک سے اس سایہ کو نہ پہچان سکی ۔ایک لمحہ کے لئے اسکے پورے بدن میں خوف کی بجلی کوند گئی ۔دوسرے ہی لمحہ اسے لگا کہ جیسے وہ کوئی جانور تھا جو اسے کھیت میں دیکھ کر ڈر کر باہر بھاگ گیا ہے ۔شاید کتا یا بلی ہو۔مگر اسکا یہ خیال اس وقت غلط ثابت ہوا جب پیچھے سے دو مضبوط بازوں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا ۔ایک ہلکی سی چیخ اسکے منہ سے نکلی مگر اسکے بعد وہ چیخ نہیں سکی ۔اسکے منہ پر کسی نے کپڑا باندھ دیا تھا ۔سکھی وحشی جانور کی طرح اسکے ادھ پکے جسم کو بھنبھوڑ رہا تھا ۔اور پھر وہ بیہوش ہوگئی ۔بیہوشی کے عالم میں اسکے ساتھ کیا ہوا،اسکا جسم کن تجربوں سے گذرا اسے علم نہیں تھا ۔جب اسے ہوش آیا تو اسکی ٹانگوں کے درمیان درد کی ٹیسیں ابھر رہی تھیں ۔جیسے کسی نے ادھ پکے پھوڑے میں نشتر چبھو دیا ہو ۔
آخر کسی طرح لڑکھڑاتی لرزتی کانپتی وہ گھر پہونچی ۔گھیسو نیند سے بیدار ہوچکا تھا ۔اسکی آنکھوں میں غصہ کی سرخی صاف دیکھی جاسکتی تھی ۔اس نے غصیلے لہجہ میں سوال کیا ۔
’’ شوچ گئی تھی کہ مرگئی تھی وہاں ،کب سے تیری راہ دیکھت ہوں ۔چل کچھ چائے پانی بنادے ،پھر نمبردار کے یہاں جانا ہے جب تک گھر میں جھاڑو نہیں لگت ہے اس سمے تک ان کے یہاں کوئی چائے بھی نہیں پیتا ،بڑی جات والے صاپبھ سپھائی والے لوگ ہوت ہیں ہمری طرح گندھیڑے نہیں ہوتے ۔‘‘
’’ با با ،وہ آج سکھی نے ،بابا ۔۔۔اس نے ۔۔۔میرے ساتھ ۔۔۔‘‘ ان آدھے ادھورے جملوں کے ساتھ کانتا پھبک پھبک کر روپڑی ۔گھیسوگھبرا گیا ۔کانتا کے چلنے کے اندازاور اسکے کپڑوں کی حالت دیکھ کر سارا ماجرا اسکی سمجھ میں آچکا تھا ۔بیٹی کی حالت زار دیکھ کر اسکی آنکھوں میں آنسو امڈ پڑے ۔گھیسو کچھ دیر پتھر کی طرح خاموش رہا ۔دوسرے ہی لمحے و ہ تیزی کے ساتھ اٹھا اور کانتا کے پاس پلنگ پر آکر بیٹھ گیا ۔اس نے بیٹی کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔
’’ کانتا اس جہر کو پی جا بٹیا ،ہمری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ ساری جندگی نمبردار جیسے بڑے لوگوں کے نیچے رہیں ۔تو گھبرا مت میں جلدی تیرا بیاہ کردونگا ۔بس تو کسی سے اس بات کا جکر مت کرنا بٹیا ،تو سمجھ رہی ہے نا ‘‘ کانتا کو لگا کہ جیسے سکھی کے بعد اسکے پتا نے اسکا بلتکار کردیا ہو ۔بلتکار صرف جسم کا تو نہیں ہوتا روح کا بلتکا ر بھی تو ہوتاہے ۔اسکی روح بھی اسکے جسم کی طرح درد سے کراہ اٹھی تھی ۔اس نے حقارت آمیز نظروں سے باپ کے مکروہ چہرے کو دیکھا اور پلنگ سے اٹھ کر گھر کے اندر چلی گئی ۔گھیسو کچھ دیر یونہی بے حس و حرکت پلنگ پر بیٹھا رہا جیسے وہ کچھ سوچ رہا ہو ۔آخر وہ اٹھا اور دروازے کے باہر نکل گیا ۔
کانتا دن بھر پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی روتی رہی ۔اسکا پورا جسم درد سے کراہ رہا تھا ۔نہ اس نے کچھ کھایا نہ کچھ پیا۔آج اس نے اپنے پتاکے لئے بھی روٹی نہیں بنائی ۔گھیسوعموما دوپہر تک گھر آجایا کرتا تھا مگر آج وہ بھی کہیں لمبی راہ پر نکل گیا تھا ۔سانجھ ہونے کو تھی جب گھیسو گھر میں داخل ہوا۔اسکے چہرہ پر بیٹی کی آبرو لٹ جانے کا ذرہ برابر دکھ نہیں تھا ۔کانتا باپ کے قدموں کی آہٹ پر بھی متوجہ نہیں ہوئی ۔وہ یونہی اوندھے منہ لیٹی سبکتی رہی ۔شاید اب اسکا گلا خشک ہوچکا تھا ۔آنکھوں میں آنسوئوں کا دریا سوکھ گیا تھا ۔گھیسو کچھ دیر تک یونہی کھڑا اسے دیکھتا رہا اور پھر سرپر بندھا گمچھا کھول کر اسکے پلنگ کے قریب ہی زمین پر بیٹھ گیا ۔کانتا بھی اب سیدھی ہوچکی تھی ۔گھیسو نے میلی کچیلی جیب سے نوٹوں کی کئی گڈیاں نکالیں اورپلنگ پر ڈال دیں ۔
’’ یہ دیکھ کانتا ،تیری سادی کے لئے کتنے پیسوں کابندوبست کرکے آیا ہوں ،اتنے پیسوں میں تو تجھے رانی بناکر بدا کروں گا ‘‘ گھیسونے نوٹوں کی کئی گڈیاں کانتا کے سامنے ڈال دیں ۔اتنے سارے پیسے ایک ساتھ دیکھ کر کانتا کے حواس باختہ ہوگئے ۔اس نے کبھی گھر میں اتنے نوٹ نہیں دیکھے تھے ۔اسکے باپ کی مزدوری دو تین ہزار روپے ماہانہ ہوتی تھی ۔آخر اتنے پیسے آئے کہاں سے ۔اس نے سوالیہ نگاہوں سے باپ کے چہرے کی طرف دیکھا ۔جہاں شرمندگی کی جگہ حرص و ہوس کے سائے لہرا رہے تھے ۔
’’ یہ سارے پیسے نمبردار نے دیے ہیں ،تیرے بیاہ کی کھاطر،بس تو بتادے کہ تجھے دہیج میں کیا کا چاہی ‘‘گھیسو نے نوٹوں کے بنڈلوں کی طرف پتلیاں نچاتے ہوئے کہا
’’ نمبردار نے اتنے پیسے کیسے دیدیے بابا،کہیں تم نے ۔۔۔۔‘‘وہ متحیر تھی۔
’’ ارے ناہی پگلی ‘‘ گھیسونے بیٹی کی بات اچکتے ہوئے بیچ میں لقمہ دیا ’’ تو پہلے پوری بات سمجھ پگلی ۔انہیں سکھی کی جلیل حرکتوں کا پتہ چل گواتھا ۔تیرے ساتھ جو اتیا چار ہوا نا وہ جان گئے تھے اس لئے جب ہم نے ان سے سکھی کی سکایت کی نا تو انہوں نے بیت سے سکھی کی بہت دھنائی کی ۔مگر اسکی دھنائی سے کا پھائدہ ہوتا ۔ہم نے کہا مالک ہمری اجت تو گئی اب کرپا کرکے کانتا کا بیاہ کرادو ۔کہیں برادری والوں کو اس گھٹنا کی جانکاری ہوگئی تو ہم تو جیتے جی مرجائیں گے ،بس پھر کا تھا نمبردار نے تیرے بیاہ کی کھاطر یہ پیسے ہمکو دیدیے ‘‘۔گھیسو کی نگاہیں اب بھی بیٹی کے چہرے سے زیادہ نوٹوں کے بنڈلوں پر مرکوز تھیں ۔
کئی دنوں تک کانتا جھونپڑے سے باہر نہیں نکلی ۔گھیسو صبح سویرے اٹھ کر کام پر چلا جاتا ۔اور کانتا دن بھر پلنگ پر پڑی ٹیسوے بہاتی رہتی ۔وہ چاہتی کہ اسکاباپ ترنت اسکا بیاہ کردے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ سکھی کا انش اسکے پیٹ میں پنپنے لگے ۔کئی بار اس نے دبی زبان میں پتا سے اپنے بیاہ کی بات کہی تو گھیسو کانتا کی بات ٹال کر گھر سے باہر نکل گیا ۔کانتا کو محسوس ہوا کہ اسکے پتا کو اسکے بیاہ کی چنتا ہی نہیں ہے ۔شاید وہ نمبردار کا دیا ہوا سارا پیسہ شراب اور جوا میں گنوا چکا تھا ۔
اس دن گھیسوصبح سویرے نہیں اٹھا تھا ۔کانتا نے کئی بار پتا کو جگانے کی غرض سے آواز بھی دی مگر اس نے ’’ہوں ‘‘ میں جواب دیکر پھر کروٹ بد ل لی ۔کانتا کو محسوس ہوا کہ جیسے پتا کی طبیعیت خراب ہے ۔اس نے پاس جاکر پتا کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو ماتھا برف کی طرح ٹھنڈا تھا ۔
’’ بابا کیا بات ہے آج کام پر نہیں جانا ہے کیا ؟تم ہی تو کہتے ہو کہ جب تک گھر بھر میں جھاڑو نہ لگ جائے نمبردار صاحب چائے بھی نہیں پیتے ؟‘‘
’’ ہاں بات تو ٹھیک ہے مگر آج ہمری کمر میں بہت درد ہے بٹیا ۔میں کام پر نہیں جاسکتا ۔‘‘گھیسو نے کراہتے ہوئے کہا
’’میں کمر کی مالش کردوں بابا ،کچھ ہی دیر میں درد ٹھیک ہوجائیگا ‘‘
’’ نہیں کانتا ۔اگر تو آج نمبردار کے ہاں بگار پر چلی جائے تو مجوری نہیں کٹے گی ۔جھاڑو اور گوبر کا ہی تو کام ہے بس ‘‘کانتا باپ کی بات ٹال نہیں سکی ۔ٹالتی بھی کیسے وہ درد سے کراہ رہا تھا ۔ایسے وقت میں بیٹی باپ کے کام نہیں آتی کب آتی ۔
’’ ٹھیک ہے بابا ،میں کام پر چلی جاتی ہوں ‘‘ گھیسونے اثبات میں جواب سن کر آنکھیں بند کرلیں اور مزید کراہنے لگا ۔
کانتا جیسے ہی نمبردار صاحب کی حوایلی میں داخل ہوئی سامنے ہی سکھی کھڑا ہوا تھا ۔کانتا کو دیکھ کر اسکے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ پھیل گئی ۔ایک لمحہ کے لئے کانتا خوف و دہشت سے لرز اٹھی ۔اس نے جھاڑواٹھائی اور آنگن کی صفائی میں مصروف ہوگئی ۔سکھی اسکے آس پاس منڈلاتا رہا ،آہستہ آہستہ پھبتیاں کستا رہا مگر اس نے کوئی توجہ نہیں کی ۔تبھی آنگن میں نمبردار آگئے ،انہوں نے سکھی کی حرکتوں کو دیکھ لیا تھا ۔نمبردار بیٹے پر برس پرے،خوب کھری کھوٹی سنائی ۔سکھی باپ کی ڈانٹ سے گھبراکر اندر چلا گیا ۔نمبردار نے کانتا کو تسلی دی اورپھر اپنے کمرہ کی طرف بڑھ گئے ۔جاتے جاتے وہ اچانک مڑے اور کانتا سے کہنے لگے ’’ ارے بٹیا یہ آنگن وانگن تو صاف ہوتا رہیگا ،پہلے تم میرا کمرہ صاف کردو ،کبھی کوئی بھی ملاقات کے لئے آسکتاہے ‘‘
’’ جی مالک ‘‘ اور کانتا جھاڑو اٹھائے ہوئے انکے پیچھے انکے کمرے میں چلی آئی ۔نمبردار باتھ روم میں گھس گئے اور وہ انکے کمرے کی صفائی میں مصروف ہوگئی ۔پلنگ کے نیچے جھاڑو لگاتے ہوئے اسے احساس ہواا کہ جیسے کسی نے کمرہ کا ددروازہ بند کردیا ہے ۔وہ تیزی کے ساتھ پلنگ کے نیچے سے نکلنا چاہتی تھی کہ اسکا سر پلنگ سے جا ٹکرایا ۔سر زخمی ہواتو خون کا رسائو اسکے بالوں سے زمین پر ٹپکنے لگا ۔کانتا کی آنکھوں کے سامنے اندھیر ا چھاگیا ۔سرگھومنے لگا اور وہ سرپر دوپٹا لپیٹتے ہوئے نمبردار کے پلنگ پر ڈھیر ہوگئی ۔ادھ کھلی آنکھوں کے پٹوں کے پیچھے سے اس نے دیکھا ۔نمبردار صاحب کے جسم پر کپڑ ے کا لتا تک نہیں ہے ۔کمرے کا دروازہ اسکی تقدیر کی طرح بند ہوچکا تھا ۔نمبردار کی آنکھوں میں وحشت ناچ رہی تھی ۔کانتا کو احساس بھی نہیں تھا کہ اسکی دھوتی اسکی رانوں سے اوپر الٹی ہوئی ہے ۔نمبردار کا پہلا حملہ اسکی رانوں پر ہوا اور اسکے بعد وہ نمبردار کے حملوں کے دیکھنے کے لئے ہوش میں نہیں رہی ۔
جب اسے ہوش آیا تو ڈاکٹر انل اسکی مرہم پٹی میں مصروف تھے ۔حویلی کے سبھی لوگ اسکے اطراف جمع تھے ۔نمبردار صاحب کھدر کے سفید کپڑوں میں نہادھوکر تیار کھڑے تھے ۔شاید انکی میٹنگ کا وقت ہوچکا تھا ۔انہوں نے جاتے ہوئے ڈاکٹر انل کو نصیحت کی ۔
’’ ڈاکٹر ایک دو بار پھر کانتا کو دیکھ لینا ،اپنی ہی بچی ہے ۔چوٹ زیادہ آئی ہے اسے ۔‘‘نمبردار کی بیوی کی آنکھوں میں نفرت کی فصل پروان چڑھ رہی تھی ۔مگر وہ نمبردار کے خوف یا اولاد کے سامنے انکی پول کھولنا نہیں چاہتی تھیں ۔کچھ دیر تک کانتا یونہی بے حس و حرکت پڑی رہی ۔ڈاکٹر مرہم پٹی کے بعد جاچکا تھا ۔کمرے میں سوائے ایک نوکرانی کے اب کوئی اور نہیں تھا ۔کانتا بستر سے اٹھی اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئی ۔نوکرانی نے پیچھے سے آکر اسے روکنا چاہا۔
’’ مالک کہہ گئے ہیں کہ جب تک پوری طرح سوستھ نہ ہوجائے جانے مت دینا ‘‘
’’ میں ٹھیک ہوں مجھے گھر جاناہے ‘‘ کانتا نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔
’’ ویسے یہ چوٹ لگی کیسے تمہیں ؟‘‘نوکرانی نے شوخ لہجہ میں سوال کیا۔
’’ پلنگ کے نیچے جھاڑو لگارہی تھی اچانک سر اوپر اٹھایا تو پلنگ سے جاٹکرایا ‘‘
’’ اوہ ،اچھا ۔ویسے اس کمرہ میں اکثرایسی چوٹیں آتی رہتی ہیں ۔‘‘ نوکرانی مسکراتے ہوئے کہا اور واپس نمبردار کے کمرہ میں چلی گئی ۔
کانتا لڑکھڑاتی ہوئی حویلی کے آنگن میں آئی تو دیکھا کہ اسکا باپ بھینسوں کے تبیلے کے پرچھتے کے نیچے بیٹھابیڑی پھونک رہا ہے ۔کانتا کو آتا دیکھ کر اس نے بیڑی کو جوتی کے نیچے مسلا اور اسکے پاس آکر فکرمند لہجہ میں گویا ہوا۔’’ ارے بٹیا سنا ہے تجھے چوٹ آگئی تھی ،میں تو یہاں کب سے تیری راہ دیکھت ہوں ۔چل گھر چل‘‘ ۔اس نے دھوپ سے بچنے کے لئے گمچھا اپنے سر پر ڈالا تو گھچے میں بندھے ہوئے نوٹ زمین پر بکھر گئے ۔گھیسو کا رنگ زرد پڑ گیا۔کاٹو تو خون نہیں ۔اس نے جھینپ مٹانے کے لئے زمین پر بکھرے ہوئے نوٹ سمیٹنا شروع کیے ۔
’’ یہ دیکھ مالک نے تیرے بیاہ کے لئے اور کتنے پیسے دیے ہیں بٹیا ۔اور تیرا بیاہ بھی رام سروپ کے بیٹے کے ساتھ طے کردیا ہے ۔اب تیری سادی ہوجائیگی ۔‘‘
کانتا نے باپ پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور زمین پر بکھرے ہوئے پیسوں کو روندتی ہوئی حویلی کے باہر نکل گئی ۔
اس دن کانتا رات بھر آنسو بہاتی رہی ۔اسکا پتا بیٹی کی سسکیاں سنتا رہا مگر اسکی ہمت نہ ہوئی کہ ایک بار بیٹی کو تسلی دیدے ۔آج گھر میں رات کا کھانا بھی نہیں پکا تھا ۔گھیسو کے پیٹ میں بھوک کی وجہ سے اینٹھن شروع ہوئی تو اس نے بھوبھل میں آلو بھون کر پیٹ کی آگ کو بجھانے کی کوشش کی ۔
کانتا کو پہلی با ر پیٹ میں کسی کیڑے کے رینگنے کا احساس ہو اتھا ۔پہلے پہلے تو اسے لگا کہ شاید بد ہضمی کی وجہ سے ایسا ہو یا پھر پیٹ میں واقعی کیڑے ہوگئے ہوں مگر کچھ دنوں کے بعد اسے یقین ہوگیا کہ وہ کیڑا کسی آدمی کے نطفہ کا نتیجہ ہے ۔اسے اپنے وجود سے کراہیت ہونے لگی تھی ۔دن بھر روتی رہتی اور اسکا باپ گھیسو اسکی گھٹی گھٹی چیخوں کو ان سنا کرکے کروٹ بدل کر لیٹ جاتا ۔سال بھر گذرجانے کے بعد بھی اس کے باپ نے اسکے بیاہ کی چنتا نہیں کی تھی ۔نمبردار کا دیا ہوا سارا پیسہ دارو کی بھینٹ چڑھ گیا تھا ۔
وہ رات بھر اپنی بے بسی کا ماتم مناتی رہی ۔رات کے ڈھلنے کے ساتھ ہی اسکی بے چینی اور کرب میں بھی اضافہ ہوتا رہا ۔وہ ذہنی اذیتوں کا شکار تھی ۔پھر اس نے فیصلہ کیا کہ و ہ ندی میں کود کر اپنی جان دیدیگی ۔’’ ہاں میں اپنی جان دیدون گی ‘‘ وہ زیر لب بڑبڑائی ’’ ایسی اتیار چار بھری جندگی سے تو اچھا ہے آتم دہا کرلیں ،یہ جندگی کیا جندگی ہے نا اجت نا مان سمان ۔‘‘ اس نے پلنگ سے اٹھ کر اپنے پتا کے چہرہ پر آخری نگاہ کی ۔وہ بھانگ کے نشہ میں دھت کھردرے بستر پر سکون کی نیند سورہا تھا ۔سکھی باپ کو حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی گھر سے باہر نکل گئی ۔ندی کی طرف بڑھتے قدم بے خیالی میں مندر کی طرف مڑگئے ۔وہ آخری بار دیوی ماں کے درشن کرنا چاہتی تھی ۔آج وہ دیوی ماں سے اپنی بے بسی اور لاچارگی کا دکھڑا رونے نہیں آئی تھی ۔آج تو وہ دیوی ماں کی مجبوری اور بے بسی پر انہیں کوسنا چاہتی تھی ۔آخر دیوی ماں اتنی مجبور ہے تو ہماری جات والوں کا کیا، ؟‘‘غصہ اور تھکاوٹ نے اسکے قدم منوں وزنی کردیے تھے ۔
کسی طرح کانتا مندر کی سیڑھیوں تک پہونچی ۔اسکا پورا بدن پسینہ میں شرابور تھا ۔آج وہ بے خوف مندر کی سیڑھیاں عبور کر کے مندر کے احاطہ میں پہونچ گئی ۔دور دور تک سنا ٹا پسرا ہوا تھا ۔مندر میں صرف پجاری جی کے کھانسنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ا س نے دیکھا دیوی ماں کی مورتی کے سامنے پجاری جی جھکے ہوئے کسی کام میں مصروف ہیں ۔اس نے سوچاشاید بھور کے سمے پجاری جی پوچا پاٹ کررہے ہو نگے ۔وہ پالتھی مار کر مندر کے فرش پر بیٹھ گئی ۔اب اسکی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہوچکی تھیں ۔اس نے دیکھا پجاری جی نے بھگوان کی پرتیما کو اسنان کرایا اور پھر انکے کپڑے بدلے ۔زعفرانی رنگ کا جوڑا ان پر کس قدر پھب رہا تھا ۔دوسرے ہی لمحہ اس نے دیکھا کہ پجاری جی نے دیوی ماں کے وستروں کو اتارنا شروع کیا ۔دیوی ماں پجاری کے سامنے بغیر وستروں کے خاموش پتھر کی مورت بنی ہوئی تھیں ۔بھگوان بھی واقعی پتھر کے ہوچکے تھے ۔ پجاری نے دیوی ماں کو اسنان کرایا،انکے بدن کے ہر حصہ کو اپنے ہاتھوں سے دھویا۔ دیوی ماں کے کپڑے بد ل کر انکی مانگ میں سندور بھرا ،گالوں کی لالی کو مزید گہرا کیا اور ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی کی طرح سرخ کردیا۔کانتا کے بدن پر کپکپی طاری ہوچکی تھی ۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا ۔وہ لرزتے کانپتے قدموں کے ساتھ واپس مڑی اور مندر کی سیڑھیوں پر آکر ڈھیر ہوگئی ۔انہی سیڑھیوں پر جہاں وہ ہر روز اپنے پتا گھیسو کے ساتھ درسن کے سمے بیٹھ کر سوال پوچھتی تھی ۔
’’با با دیوی ماں کے کپڑے کون بدلتا ہے ۔دیوی ماں کے پتی پرمیشور یا پھر کوئی دیوتا انکا سنگھار کرتا ہے ‘‘
شکوک کے بادل چھٹ چکے تھے ۔دل و دماغ پر چھائی ہوئی گمان کی دھند زائل ہوچکی تھی۔حقیقت مجسم روپ میں اسکے سامنے کھڑی تھی اور وہ تحیر زدہ نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی ۔ مندر کے کلش کے اوپر سوریہ دیوتا براجمان ہوچکے تھے ۔ہر طرف اجالے کا راج تھا ۔
اندھیرا کہیں نہیں تھا ،کہیں بھی نہیں۔
کانتا نے آخری بار دیوی ماں کے درشن کئے اور پھر غیر ارادی طورپر اسکے قدم نمبردار کی کوٹھی کی طرف بڑھتے گئے ۔