Skip to content

کنگن

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 2
کنگن
شبیر احمد ، کولکاتا ۔ انڈیا

اس نے دروازے پر لٹکے کڑوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔ پھرڈور بیل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
ویسے بھی اب کنڈیاں کھڑکانے کا دورکہاں رہا؟ کڑے کھنکانے اور ان سے جھول جانے کا زمانہ تو وہ بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔
وہ توان کڑوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا۔ مگر ان کی میخیں کواڑ میں اس قدر پیوست تھیں کہ بڑھئی کو کہنا پڑا،’’ بابوجی، رہنے دیجئے ۔ پلّا کمزور ہو جائے گا۔ آج کل کے ہینڈل والے تالوں کا کیا بھروسہ۔ انھیں رہنے دیجئے گھر سرکچھت(محفوظ) رہے گا۔‘‘
اور اسے بڑھئی کی بات مان لینی پڑی تھی۔
بچپن میں جب وہ کھیل کود کر گھر لوٹتا تودروازے پر کچھ دیر ٹھہر جاتا تھا۔ ان کڑوں کو نچاتا، کھنکاتا اور اکثر انھیں پکڑ کر جھول جاتا۔
ماں آہٹ پہچان لیتی۔’ کھٹ‘ سے کواڑکھول دیتی۔ وہ بانہیں پھیلا دیتا۔ ماں جگر پارے کو چھاتی سے چمٹا لیتی۔
لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ آہٹ پہچاننے والی ماں بھی نہیں رہی۔ اب تو تریشا ہے جو محض گھنٹی کی آوازپہچانتی ہے۔ اسے سننے کے بعد ہی دروازہ کھولتی ہے۔
دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ ببھاش کے گھر کا نقشہ بھی بدل گیا ہے۔ سیمنٹ کی فرش کی جگہ رخام اور گرینٹ بچھ گئے ہیں۔ چھت، دیواراورستون پر چونے کا وہ لیپ نہیں رہے، روغناب چڑھ گئے ہیں۔ اب کہیں جھولتے ہوئے تار دکھائی نہیں دیتے۔ سب دیواروں میں مدفون ہو گئے ہیں۔ چھت سے لٹکنے والے بلب کی جگہ بریکیٹ پر نصب خوشنما قمقمے اور پنکھے کی جگہ اے سی لگ گئے ہیں۔ غسل خانے میں ٹائلس، بیسن، کموڈ، جھرنا، شیشہ، گیزراورمختلف شکلوں کے چاندی جیسے چمکیلے نل فٹ ہوگئے ہیں۔ اب تو غسل خانے کا نام بھی بدل گیا ہے۔ واش روم کہلانے لگا ہے۔ پلائی ووڈ، سن مائیکااور پینل چپکا کر میز، کرسی، ٹیبل، الماری سبھوں کو نئے سانچے میں ڈھال دیا گیا۔ کھڑکیاں بھی نقرئی ہوگئی ہیں۔
مگر یہ سب یوں ہی نہیں ہوئے۔ اس کے لیے بھاری قیمت چکانی پڑی ہے اسے۔ اب تک چکا رہا ہے۔ پروڈینٹ فنڈ کی تہ ٹوٹ چکی ہے۔ ہرماہ تنخواہ کا بڑا حصہ قسطوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ مہنگائی بھی اس قدربڑھ رہی ہے کہ بچی کھچی رقم سے کھینچ تان کے ہی کسی طرح گزارا ہوجاتا ہے۔ مگر اس پر اب تریشا کی یہ نئی فرمائش! خدا خیر کرے!
اس نے کندھا اچکا کرجھولے کوسنبھالادیا۔ ڈوربیل پرانگلی رکھی۔ بٹن دبتے ہی چڑیوں کی چہچہاہٹ سے پوراگھر گونج اٹھا۔
اورجب دروازہ کھلا تو تریشا بنی سنوری، نیلی پیلی بنگلہ تانت ساڑی کا آنچل سنبھالے تبسم افساں کھڑی تھی۔ ببھاش نے اسے دیکھااورمسکرایا اور دبے بیر اندر آگیا۔
اندر آیا تو دیکھا، رسوئی میں ماسی برتن سینت رہی ہیں۔ کندھے سے لٹکا ہوا جھولا ایک طرف رکھا، ماسی کو کنکھیوں سے دیکھا اور کھسیاتا ہوا غسل خانے میں داخل ہو گیا۔
تریشا رسوئی میں چلی گئی اور ماسی کو معنی خیز نظروں سے تکنے لگی۔ ماسی کچھ دیر خاموش اسے گھورتی رہیں۔ پھر المونیم کی ایک دھلی ہوئی کڑھائی اٹھا کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولیں ،’’ باچھا، لے، شروع ہوجا۔ ‘‘
ماسی بھی عجیب خلقت تھیں۔ بوڑھی ہو گئی تھیں، بیوہ تھیں اوربیوگی کی تمام رسمیں نبھاتی تھیں۔ سفید ساڑی، ترشے ہوئے بال، تلسی کی مالا! یہاں تک کہ کھان پان میں بھی احتیاط برتتی تھیں۔ لیکن لگائی بجھائی میں نارد منی کی تائی تھیں۔ اِس گھر کی اُس گھر اور اُس گھر کی اِس گھر، کرنے میں ایسی طاق تھیں کہ رائی کو پربت بنا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ان کی یہی فطرت ببھاش کوایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔
اور اس دن تو ہتّے سے اکھڑ گیا تھا جب دیکھا کہ ہاتھ چمکا کر، ہونٹ بچکا کر، دیدے مٹکامٹکا کر تریشا سے کہہ رہی ہیں،’’ باچھا، کتنی سندر رسوئی ہے اُن لوگوں کی! جھانس، دھوئیں کا جھنجٹ نہیں۔ نہ آنسو، نہ کھانسی! گھر کی شوبھا بھی بڑھ گئی ہے، اور سمّان بھی۔ بجلی، گیس، سمے، پریشرم سب بچتے ہیں۔۔۔!!‘‘
وہ اپنی باتیں اس ڈرامائی انداز میں کہا کرتی تھیں کہ سننے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ان کی باتیں سن کر تریشا ایسی مچل اٹھی کہ دوسرے ہی دن گنگولی باڑی جا پہنچی۔ گنگولی دیدی نے بھی اپنی نئی رسوئی کی جی بھر کےتعریفیں کیں۔ الفاظ ماسی جیسے تھے، مگر انداز میں تھوڑی شائستگی تھی، ’’ جھانس ، دھوئیں کا جھنجٹ نہیں۔ نہ آنسو نہ کھانسی، گھر کی شوبھا بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اورسمّان بھی۔ بجلی،گیس، سمے ، پریشرم سبھی بچتے ہیں۔۔۔!!!‘
اور پھر تریشا اور گنگولی دیدی کے تعلقات پروان چڑھتے گئے۔ فون پر گھنٹوں باتیں ہونے لگیں۔ اور ماسی بھی ہاتھ چمکا کر،ہونٹ بچکا کر، دیدے مٹکامٹکا کر ان کی باتوں کو تقویت بخشتی رہی تھیں۔ اِس کی کہی اُسے اور اُس کی سنی اِسے مرچ مسالہ کے ساتھ لگاتی رہیں۔
اب تریشا جھلّانے لگی تھی ۔ایک دن ببھاش پر برس پڑی،’’ لوگ کیا کیا خریدرہے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ ۔۔۔‘‘
شکست خوردہ سپاہی کی طرح ببھاش کو خاموش یہ سب سننا پڑتا تھا۔ چون و چرا کرتے نہیں بنتا۔
تریشا کے اس احساس کو حسد کہنا مناسب نہیں۔ ہاں، رشک کہا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس کی بنیاد دوسروں کی خوش حالی نہیں، اپنی کم مائیگی ہے۔ اور ببھاش تریشا کی کم مائیگی کو چوٹالنا نہیں چاہتا۔ اسے پیارسے سمجھاتا ہے،’’ دیکھو میری جان، مکان میں کتنے پیسے خرچ ہوگئے ہیں۔ کس قدر قرض بڑھ گیا ہے! بس کچھ دن ٹھہرجاؤ۔۔۔‘‘
تریشا اندر ہی اندربھبک اٹھتی تھی۔ لال پیلی ہوجاتی اور کبھی کبھار ایک آدھ تجویز بھی پیش کردیتی تھی، ’’ ایسا ہے تو میں اس سال پوجا میں ساڑی نہیں لوں گی۔ اس بار گھومنے بھی نہیں جاؤں گی ۔ پندرہ بیس ہزار تو بچ ہی جائیں گے۔۔۔‘‘
۔دو۔
ببھاش ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ اس نئے مسئلے کا حل ڈھونڈ رہا تھا کہ تریشا آئی ۔ ٹیبل پر ٹرے رکھ کراٹھلا تے ہوئے بولی،’’مچھلی کے انڈے کی کچوری۔ لیجیے،آپ کا پسندیدہ ناشتہ۔‘‘
بیوی کی اس بے وقت دل جوئی سے ببھاش ڈر گیا۔ سیانی عورتیں اکثر پیٹ کے راستے بھی مردوں کے دل تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ اور مرد اگر ببھاش جیسا شوہر ہو تو عقلمندی کا یہی تقاضہ ہوا کرتا ہے کہ وہ قفل بر لب بیوی کو راستہ فراہم کرتا جائے۔
ببھاش نے بھی اب یہی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ بیوی سے الجھنا نہیں چاہتا تھا۔ ویسے بھی سمجھ دار شوہر بیوی کی دلفریب مسکراہٹ کا تجزیہ نہیں کرتے ہیں، لطف لیتے ہیں۔ دلفریب مسکراہٹ کے درپردہ دل خراش مطلب بھانپ لیتے ہیں۔ ببھاش نے بھی بھانپ لیا تھا۔ تریشا کی مسکراہٹ میں چھپی ماڈولر کچن کی چاہت کو۔ سو اس نے قطعی برا نہ مانا۔ ہاں، من ہی من اپنی بے بسی اور کم مائیگی کا نوحہ گرضروربن گیا تھا۔
اوردوسرے دن تو وہ بھونچکا رہ گیا تھا ، جب اس نے ڈور بیل پر انگلی رکھی تھی۔ تریشا کے بجائے دروازہ کوٹ پینٹ پہنے ایک نوخیز حسینہ نے کھولا تھا۔ اسی کے گھر میں اس گوری چٹی سڈول جسم والی خندہ رو حسینہ نے اس کا استقبال کیا۔ گرم جوشی سے کہا،’’ہیلو، آئم ، مس آرتی شرما! ‘‘
اس سے پہلے کہ وہ تجسس کے سمندر میں غرق ہوجاتا، بیوی کی آواز نے اسے سنبھالا دیا،’’ ٹی وی پر ہوم شاپنگ کا ایڈ آرہا تھا۔ میں نے فون کردیا۔ یہ وہیں سے آئے ہیں ۔ ڈیمو دکھانے۔‘‘
ایک نوجوان سوٹ بوٹ میں ملبوس تریشا کے پاس کھڑا تھا۔ آگے بڑھ کر ہینڈ شیک کیا۔ بولا،’’ ہیلو سر،آیم، سوربھ مکھرجی، سنیئر سیلس ایکزکیوٹو فرام کچنس اینڈ گیجٹس، شیز مائی کولیگ ،مس آرتی شرما۔‘‘
ببھاش من ہی من جھنجھلایا۔ اس نے جھولا ایک کونے میں رکھا اور بوجھل انداز میں کہا،’’ٹھیک ہے ،دکھایئے۔‘‘
لڑکے نے کہا،’’ سر، آج باورچی خانے کا کانسپٹ ہی بدل گیا ہے۔ پہلے باورچی خانہ گھر سے باہر ایک کونے میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج یہ ہمارے گھر کا ایک امپورٹنٹ پارٹ بن گیا ہے۔ ویسٹرن کنٹریزمیں تو اس کی ڈیکوریشن پرخاص دھیان دیا جاتاہے۔ وہاں نئے نئے کنسپٹس آرہے ہیں۔اب وہ لوگ باورچی خانہ کو کچن نہیں کہتے، ماڈولر کچن کہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ الگ الگ موڈیولس سے بنے ہوتے ہیں۔ دیکھئے اس فوٹو گراف میں۔‘‘
اور مس آرتی ایک البم پیش کرتے ہوئے بولی،’’سر، دیکھئے یہ الگ الگ موڈیولس ہیں۔ چیمنی، شٹر، شیلف، کبینٹ، سینک، باسکیٹ اینڈ پُل آؤٹ! یہ سب مل کرکتنا مارویلس کچن بن گیا ہے،جو گھرکے انوئرنمنٹ کو گلمرس ٹچ دیتا ہے۔۔۔۔ ‘‘
تمام ڈیزائنس اورماڈلس دیکھ لینے اور ان کی خوبیاں جان لینے کے بعد تریشا کوایک ماڈل بھا گیا۔ ببھاش نے قیمت پوچھی تو لڑکے نے سلری سلپ کی کاپی مانگی۔ قرضوں اور قسطوں کی رقمیں دریافت کی۔ اور پھر سر ہلاتے ہوئے کہا،’’سر، آپ کا پے پکیج تو ٹھیک ہے لیکن ہوم ٹیک سفیسنٹ نہیں۔ آپ کو کم سے کم سکسٹی پرسنٹ ڈان کرنے پڑیں گے۔ یعنی راؤنڈ اباؤٹ سیونٹی تھاؤزنٹ۔ اور باقی چھ انسٹالمنٹس میں۔
سچ پوچھئے توببھاش کو بھی وہ ماڈل پسند آگیا تھا، مگربات قیمت اور ادائیگی کی شرائط پر آ ٹکی تھی۔ اس نے ہکلاہٹ بھرے انداز میں کہا،’’ ٹھ، ٹھیک ہے، ہم مشورہ کر کے آپ کو فون کردیں گے۔‘‘
وہ لوگ چلے گئے ۔ ببھاش غسل خانے میں داخل ہوگیا۔ جی تو چاہا کہ بیوی کو جھڑک کر اس کے سر سے ماڈولر کچن کا بھوت ہی اتاردیں۔
وہ غسل خانے سے نکل آیا، مگر تریشا کو جھڑکنے کی ہمت نہ جٹا پایا۔ خود پر قابو پا کر اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں،بولا،’’آج باس اور ٹائم کے لیے کہہ رہے تھے۔ آئندہ ماہ سے انکرمنٹ بھی مل جائے گا۔ بینک مینیجر کو راضی کر کے دو چار قسطیں ملتوی کروادوں گا۔ بس دو چار مہینے۔۔۔‘‘
تریشا خاموش کھڑی رہی۔ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔ اس سے پہلے کہ وہ ابل پڑتی، فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
ببھاش نے فون اٹھایا اور اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا،’’ تمہاری گنگولی دیدی! ‘‘
اسے ببھاش کے لہجے میں طنز کے نشتر محسوس ہورہے تھے۔ جھپٹ کر فون لیااور صوفے پر زور سے دے مارا۔ مگر فون بجتارہا۔
ببھاش نے غور کیا کہ تریشا کی پیشانی پر ایک ساتھ بہت ساری لکیریں ابھر آئی ہیں، مگر اس با ت کا اندازہ لگانے سے قاصر رہا کہ یہ لکیریں مایوسی کی ہیں یا غصے کی۔
اورپھروہ دیکھتے ہی دیکھتے بادلوں کی مانند پھٹ پڑی،’’ کہہ تو دیا کہ پوجا میں کپڑے نہیں لوں گی۔ گھومنے بھی نہیں جاؤں گی۔ پھر بھی ۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ سسکیاں بھرنے لگی۔ آنکھ کے کونوں سے آنسو کی دھار پھوٹنے لگی تھیں۔
آنسوکی یہ دھارنسوانی شکست کا پرتو نہیں، مجروح انا کا آئینہ دار تھیں۔ صبح کو ماسی نے پھر گنگولی دی کا ذکر چھیڑا تھا۔ تریشا نے لہک کر کہہ دیا تھا ، آج ڈیمو کے لیے لوگ آئیں گے اور کل ہم بھی خرید لیں گے۔ پرسوں تک ڈلیوری ہوجائے گی۔‘‘
اور اس کی زبان سے جب لفظ ’ڈلیوری‘ ادا ہوا تھا تو اس کے اندرایک ساتھ خوشی کی کئی ترنگیں ابھرآئی تھیں جنھیں ماسی نے بھی محسوس کر لیا تھا۔
مگر ببھاش کی بات سن کر تریشا افسردہ ہو گئی۔ سوچنے لگی،’’ اتنی بے عزتی کیسے برداشت کروں گی؟‘‘
وہ بپھرگئی۔ اس کے اندر ضد اور انا کا ایک پُرزورطوفان اٹھا۔ اور دیکھتے دیکھتے اس سرگردان طوفان نے تریشا کواپنے نرغے میں لے لیا۔ اس نے فیصلہ کرلیا ،’’جو بھی ہو، میں اپنا سر نیچا ہونے نہیں دوں گی۔ کچھ بھی کرنا پڑے۔ ضرورت پڑی تو اپنے زیورات بیچ دوں گی۔ مگر ہار نہیں مانوں گی۔‘‘
اورزیورات کا خیال آتے ہی اسے وہ کنگن یاد آگئے،جو مرتے وقت ساس نے اس کے ہاتھوں میں ڈالے تھے، کہا تھا،’’بیٹی، میری ساس نے مجھے یہ سونپے تھے۔ میں نے اب تک سنبھالا ہے، لے اب تو اسے سنبھال ۔‘‘
مگرکیا کیجئے انسانی خواہش تو پانی کی طرح ہوتی ہے۔ حد سے تجاوز کر تی ہے تو تکمیل کی کوئی نہ کوئی راہ تلاش کر لیتی ہے۔ صحیح غلط، جائزناجائز، اچھے برے تمام بندشوں کو پاس پاس کر دیتی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا تھا۔
رات کوجب ببھاش گہری فکر میں ڈوبا ہوا تھا تو تریشا دبے پاؤں اندر والے کمرے میں داخل ہوئی اور الماری سے زیورات کا ڈبہ نکال لائی۔ ببھاش کے سامنے رکھ کر پُرمعنی انداز میں تکنے لگی۔
ببھاش نے ڈبے پر سوالیہ نگاہ ڈالی۔ بھوئیں جوڑ کرپوچھا،’’ کہیں سے دعوت آئی ہے کیا ؟‘‘
تریشا لمحہ بھر خاموش کھڑی رہی ،پھرہونٹ پر دانت دباکر، ببھاش کی گردن پر گوری گوری بانہیں ڈال دیں۔ چپک کر سینے پر رخساررکھتے ہوئے معشوقانہ انداز میں بدبدائی،’’اس میں کچھ زیورات ایسے ہیں جو ہمارے کسی کام کے نہیں۔‘‘
’’ہاں،تو؟‘‘ اس نے تریشا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے پوچھا۔
تریشا اب نئی نویلی دلہن نہیں کہ زلفوں سے سوندھی میٹھی خوشبو آتی اور ببھاش ہوش کھوکراس کی نازبرداری میں لگ جاتا۔ ادھیڑعمری کو پہنچتی ہوئی دس سال پرانی بیوی تھی۔ لہٰذااس نے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھانے کا منصوبہ بنایا۔ اسے پتہ تھا کہ اس کی زلفیں دلہن کی زلفوں کی طرح معطر نہیں مگرگھنی کالی ریشم جیسی چکنی ضرور ہیں جن پر بہر حال ببھاش جیسے گھریلو مرد کی انگلیا ں آسانی سے پھسل سکتی ہیں۔ ویسے بھی اس عمر میں عورتیں مردوں کو شیشے میں اتارنے کا گُرسیکھ ہی لیتی ہیں۔
اس نے ببھاش کی روئیں دار چھاتی پراپنے گداز رخساررگڑے ۔ پلکوں کے تیر چھوڑے، تیغ ابرو سے نشانہ سادھ کرکہا،’’ساٹھ ستر ہزار تو مل ہی جائیں گے۔ آرام سے آجائے گا اپنا اسمارٹ کچن ۔‘‘ ،’’جھانس ، دھوئیں کا جھنجٹ نہیں۔ نہ آنسو نہ کھانسی ،گھر کی شوبھا بھی بڑھ جائے گی ۔ اورسمّان بھی ۔ بجلی،گیس، سمے ،پریشرم سبھی بچیں گے ۔۔۔!‘‘
وہ حیرت و استعجاب کے سمندرمیں غوطے لگانے لگا۔ سوچنے لگا، ’’آخر اس ڈبے میں وہ کون سا زیور ہے جسے بیچ کر اتنے سارے روپے مل سکتے ہیں۔‘‘
وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اچانک اس کے اندرایک بجلی سی کوند گئی، ’’کہیں، اس کی نظرماں کے کنگن پر تو۔۔۔؟‘‘
آخر کاراس کا شک سچ ثابت ہوا۔ تریشا نے ڈبے سے کنگن کاجوڑا نکالا اور کھنکاتے ہوئے اس کے آگے کردیا،’’دیکھ رہے ہو انھیں؟‘‘
ببھاش کی نگاہ کنگن کی جوڑی پرجم گئی۔ وہ ہکلایا،’’ مگر۔۔۔ یہ تو ۔۔۔ماں کے ۔۔۔‘‘
’’ ماں کے تھے۔ لیکن انھیں سینت رکھنے سے کیا فائدہ؟ ‘‘وہ تلخ الفاظ کو شیریں لہجے میں انڈیلتی گئی،’’اولڈ فیشن کے ہیں۔ ایسے ہیں کہ میں تو پہننے سے رہی۔ بس بکسے میں ہی پڑے رہتے ہیں۔‘‘
’’ تو اس کا مطلب۔۔۔ انھیں بیچ دیں؟‘‘
تریشا میٹھی ہنسی ہنس کربولی،’’نہیں،انھیں رہنے دیں۔ بکسے میں پڑے پڑے دو کے چار ہو جائیں گے۔ ہے نا؟ اوراگر چور ڈاکوؤں کو بھنک مل گئی تو۔۔۔؟‘‘
’’مگر۔۔۔‘‘ببھاش پھر ہکلایااوراس مرتبہ اس کی ہکلاہٹ دیکھ کرتریشا بھانپ گئی، لوہا گرم ہورہا ہے۔ بس دھونکنی پھونکنے کی ضرورت ہے۔
اس نے مزید کچھ کہا مناسب نہیں سمجھا۔ دھیرے سے اٹھی اور اسے گھورتی ہوئی اندر والے کمرے میں چلی گئی۔
ببھاش اکیلا بیٹھا سوچنے لگا۔ اور جب آدمی سوچنے لگتا ہے تو دماغ بھی الٹی سیدھی منطقیں پیش کرنے لگتا ہے۔ اور یہ منطقیں دھیرے دھیرے دل پر حاوی ہوتی چلی جاتی ہیں۔
ببھاش سوچتا رہا۔ دماغ نے بچپن کا منظر اس کے سامنے پھیردیا۔
۔تین۔
ماں کے گورے اجلے ہاتھ۔ ہاتھوں میں لال سفید سنکھ والی چوڑیاں۔ درمیان ڈولتے چمکدار کنگن۔ جھن جھن بجتے ہوئے، کھن کھن کرتے ہوئے خوبصورت کنگن۔ اس وقت بابا بھی زندہ تھے۔
ماں جب شفقت بھراہاتھ اس کے سر پرپھیرتی تھی تو کنگن اس کے بالوں کو چھوجاتا تھا۔ جیسے ماں کی محبت ،اس کا پیاران گنگنوں میں سمٹ آئے ہوں ۔
وہ ماں کا ہاتھ تھام لیتا تھا۔ انھیں نچاتا، کھنکاتا اور کبھی کبھی انھیں پکڑ کرجھول جاتا تھا۔
ماں کہتی تھی،’’بِبھو، شام کے وقت جب سنکھ کی آوازسنائی دے اور پرندے چہکارتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹنے لگیں تو سمجھ لینا کہ سورج ڈوب گیا ہے۔ اب اندھیرا ہونے والا ہے۔ تیرے با با کام سے لوٹتے ہوں گے۔ تو بھی گھر لوٹ آنا۔ تیرے بابا آتے ہی تیرے بارے میں پوچھتے ہیں۔‘‘
اور کھیلتے کھیلتے جب اس کے کان میں سنکھ کی آوازآتی تو ماں کا چمکتا ہوا چہرہ نظروں کے آگے پھرنے لگتا۔ اس سے پہلے کہ آس پاس کے مناظررات کی سیاہی میں گم ہوجائیں وہ بھاگتا ہوا گھرلوٹ آتا تھا۔
ماں آہٹ پہچان جاتی تھی۔ فوراً کواڑ کھول دیتی۔ وہ بھی بانہیں پھیلا دیتا۔ ماں اسے اپنی کلیجے سے لگا لیتی تھی۔
اس وقت وہ پسلیوں پر کنگنوں کی میٹھی میٹھی چبھن محسوس کرتا۔ اسے یوں لگتا، اس کی تمام تھکن ان کنگنوں میں جذب ہوتی جارہی ہے۔
’’ مجھے پوچھنے والا بابا نہیں رہا۔ ممتانچھاور کرنے والے وہ ہاتھ بھی نہیں رہے۔ بس یہ کنگن ہیں، جواب چمکتے نہیں ہیں، کھنکتے بھی نہیں ہیں۔ بس ڈبے میں بند پڑے رہتے تھے۔ تریشا کہتی ہے اولڈ فیشن کے ہیں۔ سائز بھی بے ڈھب سا ہے۔ اس لیے وہ انھیں نہیں پہن سکتی۔ بات یہاں تک توٹھیک ہے، مگر۔۔۔۔؟‘‘
مگراب ببھاش کویہ اندیشہ ہوچلاتھا کہ ماں کے یہ کنگن کہیں فساد کی جڑ نہ بن جائیں۔ لٹ لٹاجانے کا خطرہ تو لاحق تھا ہی۔
ادھر ببھاش ان خیالوں میں الجھا ہواتھا، اُدھر تریشا ہوشیار شکاری کی طرح جال بچھائے ایک کونے میں دبک گئی۔ کہہ گئی تھی،’’ مجھے جو کہنا تھا کہہ دیا، اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔‘‘
ببھاش سوچتا رہا۔ دیر رات تک سوچتا رہا۔ تریشا نے بظاہر فیصلہ اس پر چھوڑ دیا تھا مگر اندر ہی اندر سوزشِ شوق میں تپ رہی تھی۔ اسے موڈولر کچن چاہیے ہی چاہیے۔
اس نے دور سے ببھاش پر نگاہ ڈالی، مسکرا کر اپنی سوزشِ شوق کا رخ موڑااورببھاش کی روح کو اس کی گرمی سے پگھلا دینے کا تہیہ کرلیا۔
ببھاش ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا۔ آنکھیں موندے، پیشانی پر سینکڑوں سلوٹیں ڈالے، سوچ رہا تھا کہ اچانک اسے ٹی وی کی آوازسنائی دی۔ دیکھا، تریشا نیم عریاں کھڑی ہے۔ڈی وی ڈی آن ہے۔ اسکرین پرنظر پڑتے ہی سوچنے کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ رگِ مردانگی پھڑک اٹھی۔
ایسی نازک گھڑی میں عورت اکثر اپنی پیٹھ بسترسے ٹیک دیتی ہے۔ چاہتی ہے، مالِ غنیمت سمجھ کرمرد اس پر ٹوٹ پڑے۔ مگر یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی تھی۔ تریشا ببھاش ہی کو مالِ غنیمت سمجھ رہی تھی۔
۔ چار۔
دوسرے دن شام سے پہلے ہی سارا سامان آگیا۔ مسٹرمکھرجی اور مس شرما بھی ساتھ آئے تھے۔ مسٹر مکھرجی اور مس شرما نے مل جل کر کبینٹ لگائی، ریک، چیمنی، اسٹو، واش بیسن تمام چیزیں فٹ کردیں۔ ببھاش بھی وقفے وقفے سے ان کا ہاتھ بٹا رہا۔ کبھی ریک پکڑتا، کبھی اوون اٹھاتا اور کبھی چیمنی کو سہارا دیتا۔ اس پکڑ دھکڑ کے دوران اس نے سینے پردفعتاً ایک بوجھ سا محسوس کیا۔ دل میں ایک ٹیس سی اٹھی ۔
تریشا تو اپنی ہی دھن میں کھوئی تھی۔ جوش و ولولہ سے پھٹی جارہی تھی۔ ہونٹ دبائے مسکرارہی تھی، ’’اب جھانس اور دھوئیں کا جھنجٹ نہیں رہا۔ آنسو تھے نہ کھانسی۔گھر کی رونق بڑھ گئی تھی ، اورسماج میں مرتبہ بھی ۔ بجلی،گیس، وقت ، محنت سبھی بچنے لگے ۔۔۔ ‘‘
مگر ببھاش کے سینے کا بوجھ اور دل میں اٹھنے والی ٹیس برقرار رہے۔
دوسرے دن صبح ہی سے اس کی طبیعت الجھنے لگی تھی۔ سینے پر بوجھ بھی بڑھتا جارہاتھا۔ دل کی ٹیس بھی شدید ہوگئی۔ شام ہونے سے پہلے دفتر سے لوٹ آیا تھا۔ دروازے سے سر ٹکائے کچھ دیر نڈھال کھڑا رہا۔ کندھے سے لٹکتے جھولے کو انگلی سے سرکا کر نیچے گرا دیا۔ ہتھیلی سے چھاتی دبا کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ دو چار بار لمبی لمبی سانسیں لیں۔ بیل بجانے کے لیے بایاں ہاتھ اوپراٹھایا۔ مگرہاتھ بیل تک نہ پہنچ سکا۔
اس نے دائیں ہاتھ سے کوشش کی۔ پھر بھی ناکام رہا۔ ایڑیاں اٹھائیں مگر بیل تک ہاتھ نہ پہنچ سکا۔
جب نگاہیں اٹھائیں تو ایسا لگا کہ بیل کچھ زیادہ ہی اونچائی پر پہنچ گیا ہے۔
کچھ دیرمایوس نگاہوں سے تکتا رہا۔ پھر بائیں پسلی جھکاکر دائیں پسلی جس قدر چڑھ سکتی تھی چڑھالی۔ بازوں کو اوپر کی جانب اس قدر لمبا کیا کہ بغل کی ہڈیاں چٹخ گئیں۔ پھربھی بیل پہنچ سے باہر رہا۔
اس کی مایوسی بڑھتی گئی۔ دروازے سے جسم ٹیکے شکستہ حال کھڑا رہا۔ زمین پر پڑے جھولے کو پاؤں سے ایک طرف ڈھکیلا اور پوری توانائی سمیٹ کراچھلا۔ مگردوسرے ہی پل دھپ سے زمین پرآ گرا۔ سرچکرانے لگا تھا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا۔ پیٹ اور چھاتی دبائے اکڑوں بیٹھارہا۔ جبھی اسے ایک آواز سنائی دی۔ دور سے آتی ہوئی سنکھ کی آواز !
وہ بے قرار ہوگیا۔ دروازے پر جھولتے کڑوں پرنظرُڑی توآنکھیں بھر آئیں۔
سنکھ کی آواز تیز ہوگئی۔ پرندے چہکارتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹنے لگے تھے۔ سورج ڈوبنے کے تمام آثار نمایاں ہو گئے تھے۔
دھندلائی نظروں سے ان کڑوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتارہا، پھر ہمک کر بانہیں ان کی طرف پھیلا دیں۔

Published inشبیر احمدعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply