عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر :48
کلائمکس
فیصل سعید ضرغام ۔ کراچی۔ پاکستان
ہم دونوں گرجا گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے ۔
ہمارے عقب میں ایک دیو قامت مجسمہ نصب تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ مجسمہ میری بہ نسبت میری بغل میں بیٹھے شخص پر زیادہ مہربان تھا، اس مجسمےکے سائے نے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو مکمل طور پر اپنے سائے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ ۔ میرا جسم سورج کی حدت سے سرخ ہونے لگا۔ اُس شخص نے اپنا قصہ اول تا آخر کہہ سنایا۔ اُس کی آواز میں نمکین پانیوں کا دکھ تیر رہاتھا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر انتہائی تاسف بھرے لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔۔
مجھے نہیں سنا گیا۔
مجھے افسوس رہے گا کہ میری باتیں جو حق پر تھیں، انہیں سمجھے بغیر ہی جُھٹلا دیا گیا۔
یا ۔۔۔یا پھر شایدوہ سمجھ چکے تھے کہ میری باتوں میں ان کے لیے دردناک انجام پوشیدہ ہے۔اسی لیے اُن کے دلوں میں موجود خو ف، فیصلے میں تبدیل ہو گیا ۔ مجھے کانٹوں کا تاج پہنا دیا گیا۔ جنون سر چڑھ کر بولنے لگا۔ تماشہ عروج کی حدوں کو چھورہا تھا۔ لوہے کی موٹی کیل میری ہتھیلی میں اتاری جانے والی تھی کہ ۔۔۔
کہ ۔۔
کلائیمکس سے ذرا دیر پہلے مجھے زندہ اُٹھا لیا گیا۔
وہ شخص پھر خاموش ہوگیا۔اپنی کہانی کہتے ہوئے وہ اور بھی رنجور معلوم ہورہا تھا۔ اس کے چہرے پر خوف نہ تھا لیکن اپنا کام ادھورا رہ جانے کے باعث وہ خود کو ملامت کرتا اور اپنا چہرہ ہتھلیوں میں چھپا کر رونے لگتا۔ وہ کچھ دیر تک ایسا ہی کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے خود پر کسی حد تک قابو کرتے ہوئے اپنا چہرہ میری جانب کرتے ہو پوچھا۔۔۔۔
تمہارا دکھ کیا ہے ؟
میں نے گہری سانس لی اور کہا۔
’ ہم دونوں کا دکھ سانجھا ہے۔‘‘
مجھے بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔۔۔
میری باتوں کو بھی رد کیے جانے کا امکان روشن ہے۔
دوستوں نے ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے پیغام کہلا بھیجا ہے کہ جس درخت کی لکڑی سے صلیب تیار کی جانی ہے اُسے کاٹ لیا گیا ہے۔ لوہا آگ کی بھٹی میں پگھلا کر مِیخیں تیار کی جانے لگی ہیں۔ قالین بُننے والے ہاتھوں کو پھانسی کا پھندہ تیار کرنے کے لیے جبری مشقت پر رکھا جاچکا ہے۔ چھری، چاقو ، تلوار، بندوق غرض جن جن ہتھیاروں سے مجھے مارا جاسکتا ہے انہیں چمکایا جا رہا ہے۔ آگ چاروں جانب بھڑک اٹھی ہے ۔اُس کی پیاس میرے لہو سے بجھایا جانا طے پا گیا ہے۔
میں یہ جانتا ہوں۔۔!
مجھے تماش بینوں اور عجلت پسندوںکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ میں کسی خوش فہمی کے عارضے میں مبتلا نہیں کہ مجھے بھی زندہ اُٹھا لیا جائے گا۔
میں نےاپنی بات مکمل کی اور خاموش ہوگیا۔پھر ہم دونوں بہت دیر تک خاموش رہے۔
اچانک !
میرےبغل میں بیٹھےشخص کی آنکھیںکسی فلم کے پردے کی طرح چمکنے لگیں اس کی آنکھوں میں میرے قتل کیے جانے کا منظر دوڑنے لگا۔ ایک خنجر میری شہ رگ تک پہنچنے ہی والاتھا کہ میرے ساتھ بیٹھے شخص نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ میں جھنجھلا گیا ۔ اور بلند آواز میں چلاتے ہوئے بولا ۔۔۔
تم نے اپنی آنکھیں کیوں بند کرلیں، میں اپنے گلے پر خنجر چلتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔
اُس شخص نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کہا ۔۔۔۔
تمہاری شہہ رگ بس کٹنے ہی والی تھی، یہ انتہائی دردناک منظر تھا۔ مجھے لگا کہ کہیں تم خوفزدہ نہ ہوجاو۔ بس اس لیے یہی مناسب سمجھا۔
میں یہ بات سن کر مزید جھنجھلا گیا اور شکایت آمیز لہجے میں کہا ۔۔
میں اپنے انجام سے واقف ہوں میرے رفیق !
اگر خوفزدہ ہوتا تو یہاں سکون سے تمہارے ساتھ نہ بیٹھا ہوتا۔ اے میرے مونس و ہمدم کا ش تم اپنی آنکھیں نہ بند کرتے اور میں اپنی کٹی ہوئی شہہ رگ میں خدا کی ایک جھلک پا لیتا۔
وہ شخص مسکرا کر مجھے دیکھنے لگا پھر میرے کندھے کو اپنی زخمی ہتھیلی سے دبا کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا
کیا تم مجھ سے پہلے بھی کسی ایسے شخص سے ملے کہ جس کا کلیجہ بارہا چبایا گیا ہو۔
میں نے کچھ لمحوں کا توقف کیا اور بولا
’’ہاں۔۔۔! تم سے پہلے میں ایک شخص سے ملا تھا۔ اس نے ریت پر بیٹھ کر مجھے اپنی داستان سنائی۔ وہ بھی میرے انجام سے واقف تھا، لیکن میں اس کی آنکھوں میں خود کو قتل ہوتا نہیں دیکھ پایا۔ کیوں کہ اس کی آنکھیں موجود ہی نہ تھیں۔ ۔
کیا تمہیں اس کا چہرہ یاد ہے ؟
نہیں میں اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھ پایا۔۔۔! اس شخص کا چہرہ آنکھوں سمیت کہیں اوردفن تھا۔۔۔ بس اس سربریدہ شخص نے مجھ سے اپنی کہانی کہی اور کپڑوں سے ریت جھاڑ کر اپنے سر کی تلاش میں نکل پڑا۔
میرے بغل میں بیٹھا شخص میری بات سن کر رونے لگا ۔۔ وہ روتا جاتا اور کہتا جاتا
’’ہاں میں اس شخص کو جانتا ہوں۔ ۔۔
ہاں میں اس شخص کو جانتا ہوں۔۔۔اُس کا دکھ بھی ہمارے دکھ جیسا ہے۔ اُس کا کلیجہ بھی بارہا چبایا گیا ۔۔۔۔
اُسے بھی نہیں سنا گیا، اُسے بھی جھٹلا دیا گیا۔۔۔۔
وہ شخص بلک بلک کر رونے لگایہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں
ہمارے عقب میں ایستادہ مجسمہ جو میرے ساتھ بیٹھے شخص پر زیادہ مہربان تھا۔ وہ مجسمہ جھکا اور اسے اپنی گود میں بھر لیا۔۔۔۔۔
میں۔۔۔!
گرجا گھر کی سیڑھیوں پر اکیلا بیٹھا اپنے قتل کیے جانے کا منتظر ہوں۔
میرے عقب میں عورت کا مجسمہ اب بھی موجود ہے لیکن اس کی گود اب خالی نہیں۔میرا جسم اب بھی دھوپ میں ہے اور اس کی تمازت سے مزید سرخ ہو کر جل رہا ہے۔ میں اپنی جانب بڑھتے ہوئے بلوائیوں کو دیکھ رہا ہوں۔ سب کے چہرے دھندلے ہیں لیکن ان کے ہتھیار دھوپ کی روشنی سے چمک رہے ہیں۔
’’اب کی بار کلائمکس کو ترسے ہوئے لوگ انجام سے بھی مَحْظُوظ ہوسکیں گے۔۔۔ـ‘‘