عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر :36
ڈینجر زون
طارق شبنم ، بانڈی پورہ، جموں کشمیر
”اے زمین والو……؟“
بل کینڈی اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھا کہ دفعتاً اس کے پیغام رسانی کے آلے پر کسی نا معلوم مقام سے پیغام موصول ہوا اور حیرت انگیز طور یہ الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرائے۔
”ہیلو…… ہیلو…… میں زمین سے بات کر رہا ہوں…… اوور“۔
اس نے آواز کا جواب دیتے ہوئے واپس تحریری پیغام بھی بھیج دیا اور جواب ملنے کا انتظار کرنے لگا، لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ وہ خلاء میں سگنل پہ سگنل بھیجتا رہا جس دوران اس نے اپنے تحقیقاتی ادارے کے اوپر سے چند اڑن طشتر یوں کو مسلسل پرواز کرتے ہوئے دیکھا۔ نامعلوم مقام سے ملے اس مختصر پیغام اور اڑن طشتریوں کے مسلسل پرواز سے تحقیقاتی ادارے میں ہلچل مچ گئی اور سارا عملہ متحرک ہوکر اڑن طشتریوں کی حرکات وسکنات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے لگا۔
مشہورخلائی سائینس دان بل کینڈی برسوں سے اپنی ٹیم کے ہمراہ پُر اسرار خلائی مخلوق کے بارے میں تحقیق کے ساتھ ساتھ خلا ء میں پیغامات بھیج کر اس پُر اسرار مخلوق سے رابطہ کرنے کے مشن اور سمندر کے اس حصے کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنا چاہتاتھا، جس طرف جانے والے بحری جہاز،کشتیا ں اور اس علاقے کے اوپر اڑان بھرنے والے ہوائی جہاز سینکڑوں مسافروں اور عملے سمیت غائب ہوجاتے تھے۔ تحقیقاتی ادارے کو نامعلوم جگہوں سے ایسے پیغامات پہلے بھی موصول ہو چکے تھے جن کا کافی کوششوں کے با وجود کچھ پتہ نہیں چلا تھا کہ یہ پیغامات کہاں سے اور کس نے بھیجے ہیں؟ لیکن نہ جانے کیوں بل کینڈی نے آج کے مختصر پیغام کو سنجیدگی سے لیا اور اُسے نا معلوم خلائی مخلوق کے ساتھ رابطے استوار ہونے اور اپنے مشن میں کامیابی کی امید پیدا ہوگئی۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ کیا واقعی ایک دن ایسا آئے گا جب ہم کسی اور کائینات کے مخلوق سے رابطے استوار کرنے میں کامیاب ہونگے؟ یہ نئی مخلوق کیسی ہوگی؟ان کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ ہونگے یا دشمنانہ؟ ان کے سبب ہماری ترقی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ دوران سفر غائیب ہوئے سینکڑوں لوگوں کا پتا ملے گا کہ نہیں ……؟
وہ پُر اسرار خلائی مخلوق سے رابطے کے فراق میں لگاتار کئی دنوں تک اس نا معلوم مقام،جہاں سے اس کو مختصر پیغام موصول ہوا تھا،کی طرف پیغامات اور سگنلز بھیجتا رہا،لیکن حسب معمول اُسے کوئی کامیابی نہیں ملی۔اس دوران اس کا حوصلہ یوں برقرار رہا کہ فضاء میں غیر معمولی طور اڑن طشتریاں لگاتارپرواز بھرتی رہیں،جس کا اس نے یہ مطلب نکالا کہ پرُ اسرار مخلوق کی غیر معمولی سرگرمیوں میں ضرور کوئی راز ہے جسے جاننے کے لئے اس کا تجسس ہر لمحہ کے ساتھ بڑھتا ہی گیا۔ کافی سوچ بچار کے بعد آخر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ایک بار پھر خلاء میں جاکے اس راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرے گا،حالانکہ ایک بار وہ خلائی سفر کے دوران بڑی مشکل سے جان بچا کر واپس آیا تھا۔ اس نے اپنی ٹیم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور سفر کی تیاری میں جُٹ گیا……
”سر…… یہ بہت ہی پر خطر سفر ہے اور آپ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے“۔
اپنے ایک قریبی ساتھی نے اس کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”میں جانتا ہوں لیکن اس پُر اسرار خلائی مخلوق سے رابطہ اور ان سینکڑوں لوگوں کی تلاش، جو اس جانب سفر کے دوران غائیب ہوگئے ہیں،کی تلاش ضروری ہے۔اس چلینج میں اگر میری جان بھی چلی جائے تو سودا مہنگا نہیں ہے، ویسے بھی لوگوں کے چلے جانے سے ارادے ختم نہیں ہوتے ۔“
اپنی ٹیم کے ساتھیوں سے صلاح مشورے کے بعد با لاآخر وہ تمام سہولیتوں سے لیس جدید ترین خلائی گاڑی میں بیٹھ کر سفر پر روانہ ہو گیا اور اپنے سفر کی پل پل کی خبریں اور تصویریں اپنے تحقیقاتی مرکز کو بھیجتا رہا۔اس دوران اچانک اس نے عجیب قسم کا خوف ناک شور سنا جیسے ہزاروں مرد وزن ایک ساتھ چیختے، چلاتے اور رو رہے ہوں۔اس نے جاننے کی بہت کوشش کی کہ اس ویرانے میں یہ شور کہاں سے اٹھ رہا ہے؟ لیکن اسے کوئی سراغ نہیں ملا۔ اسی لمحہ اس نے سمندر کی طرف نظر ڈالی تو سمندر کے ایک حصے کا پانی بالکل سفید تھا اور ایک بہت بڑی غار نما جگہ سے آگ کے بھیانک شعلے بلند ہو رہے تھے۔ یوں تو وہ ایک مضبوط دل کا انسان تھا لیکن یہ مناظر دیکھ کر اس پر خوف اور گھبراہٹ طاری ہوگی اور جسم سے ٹھنڈے پسینے کے قطرے چھوٹنے لگے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں سفر کے دوران جہاز اور کشتیاں مسافروں سمیت غائیب ہوجاتی ہیں اور پھران کا کوئی بھی اتہ پتہ نہیں چلتا۔اس نے خود کو خطرے میں محسوس کرتے ہوئے اپنے ادارے کو ساری صورت حال سے واقف کرانے کے لئے پیغام بھیجنا چاہا لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے جہاز میں نصب مواصلاتی نظام کے ساتھ ساتھ اس کی گھڑی اور کیمرہ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔اس کے خوف میں تب اور اضافہ ہوا جب اچانک اس کی خلائی گاڑی کو تیز آندھی اور چمکدار بادلوں نے گھیر لیا لیکن خوف کے باوجود اس کے حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس نے خلاء کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ خلاء میں اُڑان بھرتے ہوئے بہت دور پہنچ گیاتھا کہ دفعتاً اس کی خلائی گاڑی کو چند اُڑن طشتریوں نے گھیر لیا جن کے پائیلٹ خوفناک انداز میں اسے گھور رہے تھے اور اشاروں سے خلائی گاڑی کا رخ موڑنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ کچھ دیر تک وہ ان کے اشاروں کو نظر انداز کرتا رہا لیکن آخر ان کے تیور دیکھ کر اس نے خلائی گاڑی کا رُخ موڑا اور ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے نقش راہ کے مخالف سمت اپنا سفر جاری رکھا۔اب اسے پورا یقین ہو گیا کہ وہ بھی اس طرف سفر کرنے والے غائیب ہو چکے ان سینکڑوں لوگوں کی طرح اغوا ہو چکا ہے۔ اس کے اندازے کے مطابق بیسوں گھنٹوں کے سفر کے بعد اسے ایک جگہ، جو ایک نئی ہی دنیا تھی، ایک صاف وشفاف کھلے میدان میں،جہاں رنگا رنگ پانی کی نہریں بہتی تھیں،خلائی گاڑی اتارنے کی ہدایت دی گئی اور خلائی گاڑی سے نیچے آتے ہی اس کو ہتھیاروں سے لیس ایک نئی ہی مخلوق کے لوگوں نے گھیر لیا جنہیں دیکھ کر اسے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہی خلائی مخلوق (ایلین) ہے۔اس کے دل میں ایک طرف جہاں یہ خوشی تھی کہ برسوں بعد خلائی مخلوق سے رابطے کی اس کی کوششیں رنگ لانے والی ہیں وہیں طرح طرح کے وسوسے اور اندیشے بھی جنم لے رہے تھے کہ نہ جانے یہ اجنبی مخلوق اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی،واپس زمین پر جانا اس کے نصیب میں ہوگا بھی کہ نہیں۔ جامہ تلاشی کے بعد اسے پاس ہی واقع ایک عمارت میں لے جایا گیا اور پوچھ تاچھ شروع کی گئی۔اس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنے مشن کے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتایا، بہر حال کئی گھنٹوں کی سخت پوچھ تاچھ کے بعد بغیر کوئی اذیت پہنچائے اسے و ہاں سے واپس نکالا گیا اور آرام دہ سواری میں بٹھا کر پاس ہی واقع ایک عالیشان خوب صورت محل تک پہنچایا گیا جو ٹمٹماتی روشنیوں سے بقعئہ نور بنا ہوا تھا اور وہاں بھینی بھینی خوشبو کی فوار سی برس رہی تھی۔ کچھ لمحے صحن میں انتظار کرنے کے بعداس کو محل خانے کے اندر لے جایا گیا جہاں تخت پر براجمان ایک پر وقار حسینہ،جس پر سپیدہ سحر کا ہالہ چھایا ہوا تھا، وہاں موجود بیسوں دربار یوں سے محو گفتگو تھی، اس کے اندر جاتے ہی سارے درباری اس کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے اور ملکہ شرین لہجے میں گویا ہوئی۔
”خوش آمدید…اے اولاد آدم“۔
”بہت بہت شکریہ ملکہ صاحبہ“۔
اس نے ہاتھ جوڑ کر ملکہ کا شکریہ ادا کیا۔
”آپ ڈینجر زون کی طرف کس مقصد سے جا رہے تھے؟“
”ملکہ صاحبہ…. وہ….دراصل مجھے…..“۔
اس سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا کیوں کہ ڈینجر زون کے بارے میں اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا اور تھوڑی دیر پہلے ہوئی پوچھ تاچھ کے دوران ان ہی کی وساطت سے وہ اس بارے میں جان چکا تھا۔
”شکر کرو کہ ہمارے سرحدی محافظوں سے آپ کو وہاں جانے سے روکا، جہاں جانے والے کبھی واپس نہیں لوٹتے۔ آپ زمین والوں کا یہ المیہ ہے کہ آپ کارخانہ قدرت میں بے جا مداخلت کرکے اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہو“۔
اسے جب کوئی جواب نہیں بن پایا تو ملکہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے حکم صادر فرمایا۔
” اس خاص مہمان کو عزت و توقیر کے ساتھ مہمان خانے میں ٹھہرایا جائے،خیال رہے کہ اسے کوئی پریشانی نہ ہو“۔
اسے مہمان خانے میں لے جایا گیا جہاں ا س کی خدمت کے لئے کئی خادم موجود تھے، جنہونے اس کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھائے رکھی۔ انتہائی لذیذ پھل،مشروبات اور دیگر انواع قسم کی غذائیں لاکر اس کے سامنے رکھی گئیں۔ اسے چونکہ بہت بھوک لگی تھی سو اس نے بھی خوب پیٹ بھر کے کھا لیا اور تھکان دور کرنے کے لئے وہاں موجود انتہائی خوبصورت پلنگ پر بچھے نرم و گداز بستر پر لیٹتے ہی نیند کی میٹھی آغوش میں چلا گیا۔ نہ جانے کتنی دیر تک محو آرام رہنے کے بعد جب وہ جاگا تو سب کچھ ویسا ہی تھا،یعنی دن اور رات کا وہاں کوئی تصور نہیں تھا۔ کچھ دیر ادھر اُھر کا جائیزہ لینے کے بعد اس نے نہانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایک خادم اسے مہمان خانے کے اندر ہی موجود سوئیمنگ پُو ل تک لے گیا،نہانے کے بعد جب وہ واپس آیا تو خادموں نے اس کے سامنے انتہائی لذیذ قہوہ پیش کیا۔ قہوہ نوش کرنے کے بعد اس نے ملکہ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ایک خادم نے اس کی یہ خواہش ملکہ تک پہنچادی اور کچھ دیر بعد ہی اسے ملکہ کے سامنے پیش کیا گیا۔
”اے اولاد آدم…… کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟“
ملکہ نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پوچھا۔
اس نے اپنا تعارف دینے کے بعد اپنے مشن کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ اہل زمین کی ترقی کے بارے میں بھی تفصیل سے جانکاری دی اور زمین والوں کی اس خواہش کا اظہار کیا کہ زمین والے آپ کی دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات اور رشتے قائم کرنا چاہتے ہیں۔
”اولاد آدم …… ہمیں زمین پر رونما ہونے والے واقعات کی پل پل کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔اہل زمین کے ترقی کے سارے دعوے کھو کھلے ہیں۔ وسائیل کے فراونی کے باوجود وہاں بھوک ہے،غربت ہے اور اولاد آدم کی خود غرضیوں کے سبب فتنے فساد اور خون ریزی کے بے شمار واقعات رونما ہو رہے ہیں…… قدرت کا شاہکار سیارہ زمین ابن آدم کے خون سے ہی لال ہورہی ہے“۔
ملکہ نے بے رخی سے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ ملکہ کی باتیں پگھلا ہواسیسہ بن کر اس کے کانوں میں اتر گئیں۔ خفت اور خجالت سے اس کا سر جھک گیا۔
”ملکہ کا اقبال بلند ہو……. آپ نے میرے سوال کا پورا جواب نہیں دیا “
کچھ دیر انتظار کے بعد وہ ملکہ سے مخاطب ہوا۔
”کوئلے کی کان میں ایک بار بھی جانے والے کا مُنہ اور ہاتھ کالے ہو کے ہی رہتے ہیں“
”ملکہ صاحبہ…… میں کچھ سمجھا نہیں؟“
”آپ زمین والوں تک ہمارا یہ پیغام پہنچادو کہ جب تک وہاں امن و امان،آپسی بھائی چارہ،محبت،انصاف اور سچائی کا پرچم بلند نہیں ہوگا تب تک ہم یہاں کے قانون کے مطابق زمین والوں سے کوئی بھی تعلق یا رشتہ قائم نہیں کر سکتے۔آپ جب تک چاہو ہمارے مہمان بن کر رہ سکتے ہو ‘‘۔
ملکہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا اور اسے واپس مہمان خانے میں لے جایا گیا،جہاں کچھ دیر سنجیدگی سے غور فکر کرنے کے بعد اس نے واپس اپنے سیارے پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ملکہ سے اجازت لے کر کچھ لوگوں نے اسے اس کی خلائی گاڑی تک پہنچایا اور اڑن طشتریوں میں سوار ہو کراپنی نگرانی میں اس کو اپنے سیارے کی سرحد تک پہنچا کر واپس چلے گئے۔اسے اپنے مشن کی ناکامی کا سخت افسوس تھا اور وہ سوچوں کی بھول بھلیوں میں گم ہارے ہوئے جواری کی طرح زمین کی طرف واپس آنے لگا۔
”اہل زمین کے ترقی کے سارے دعوے کھو کھلے ہیں…… قدرت کا شاہکار سیارہ زمین ابن آدم کے خون سے ہی لال ہورہی ہے……..“۔
ملکہ کے کہے ہوئے یہ الفاظ اذیت بن کر اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ہی وہ اس جگہ پہنچ گیا جہاں ایک راستہ ڈینجر زون کی اور دوسرا زمین کی طرف جارہا تھا۔اس نے زمین کی طرف ایک بھر پور نفرت بھری نظر دوڑائی اور عالم یاس و اضطراب میں اچانک خلائی گاڑی کا رخ ڈینجر زون کی طرف موڈ دیا۔