ڈپٹی صاحب کا کتا
از۔ قاضی عبدالغفار
داروغا جی محلے کی سڑک پر خراماں خراماں تشریف لے جارہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بید کا ٹکڑا ہے، جس کی دم میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگے ہوئے ہیں وہ اس کو اس طرح ہلاتے اور گھماتے چلے جاتے ہیں کہ چمڑے کے ٹکڑوں کا ایک پھول ہوا میں جن جاتا ہے۔ سیاہ فام چہرے گھنی مونچھوں سے ڈھکے ہوئے موٹے موٹے ہونٹ ہیں۔ جس کی گرفت میں ایک سلگتا ہوا سگریٹ ہے، اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے وہ ہر طرف دیکھتے جاتے ہیں گویا محلے کے ہر درو دیوار پر اور ہر دروازے میں دو نہیں ایک چھپا ہوا چور نظر آنے والا ہے!
سڑک پر کھیلتے ہوئے بچے داروغا جی کو دیکھ کر اپنے اپنے گھروں کے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے!
محلہ کی پنہاریوں نے راستا چھوڑ کر اپنے گھونگھٹ لمبے کر لئے!۔ اس طرح داروغا جی محلے میں شام کا پہرا لگا رہے ہیں!!
’’کیوں بے دیکھتا نہیں!‘‘
بھنگی نے جھاڑو چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے سلام کیا۔ داروغا جی نے جیب سے رومال نکال کر اپنی ناک کو لگایا تاکہ سڑک پر بھنگی کی جھاڑو سے جو خاک اڑ رہی تھی وہ ان کے سریع الحس ناک میں داخل نہ ہونے پائے۔
”خاں صاحب! ہم دیکھتے ہیں تمہارے ہاں اب تاش بہت کھیلا جاتا ہے۔‘‘ خاں صاحب معہ اپنے احباب کے گھبرا کر چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔“
”آئیے داروغا جی! آئیے حُقّا تو پیتے جایئے۔‘‘
”کیوں جی! گیہوں کا بھائو پھر تم نے بڑھا دیا؟‘‘
بنیا دکان سے اتر کر سڑک پر آگیا:۔
’’نہیں تو ہجور!‘‘ اس نے گڑگڑا کر کہا۔‘‘ بھلا سرکاروں سے بھائو تائو کیا۔
’’ادہر آبے!‘‘ داروغا جی نے ایک لونڈے کو، گائیں ہکائے لئے جارہا تھا، بلایا ’’دیکھ! تیرے گھر تازا مکھن ہو تو اپنی ماں سے کہنا۔ ایک پائو بھر تھانے میں پہنچا دے!۔‘‘
داروغا جی اپنے چمڑے کا ٹکڑا گھماتے ہوئے چلے جارہے ہیں! خان بائی کے دکان کے سامنے ایک کتا بیٹھا ہوا تھا۔ کیا جانے کیا سمجھ کر وہ بھوکنے لگا۔
’’کیوں بے!‘‘ داروغا جی کُتّے سے مخاطب ہوئے ’’بہت دانت نکالتا ہے۔‘‘ ایک چابک لگا کر:۔
’’اور لے گا؟‘‘ محلے والوں کی طرف مخاطب ہوکر۔ ’’کیوں جی۔ تم لوگ ان کٹکھنے کتوں کو مارتے بھی نہیں۔ عجیب لوگ ہیں اس محلے کے۔ کیوں جی! معلوم ہے قانون کیا کہتا ہے؟ قانون کہتا ہے کہ کاٹنے والے کتے کو فوراً مار دیا جائے۔ مارنا تو ذرا دو لاتیں اس مردود کے! بھونکے جاتا ہے! بھونکے جاتا ہے۔‘‘
دو ایک آدمی دوڑ پڑے۔ کتے کا پٹا پکڑ کر اس کو دھپانا شروع کیا۔ کتا ٹیائوں ٹیائوں کر رہا ہے۔ داروغا جی نے اپنا چمڑے کا ٹکڑا بغل میں اور سگریٹ منھ سے نکال کر انگلیوں میں دبا لیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں روشنی بڑھ گئ ہے!
’’مارو بہت گلا پھاڑتا ہے، موذی ہے!۔‘‘
اب تو محلے کے بچے بوڑھے، جوان سب ہی سمٹ آئے۔ دکان دار بھی اپنی دکانوں کے تختوں سے اٹھ کر سڑک پر آگئے۔ داروغا جی کے حکم سے کتا پٹیا جارہا ہے!
محلے کے دوسرے سرے کی دکان پر ایک ’’جُوآن‘‘ بھی بیٹھا ہوا حقا پی رہا تھا، اس نے جو سنا کہ داروغا جی محلے میں آگئے تو وہ بھی اپنی پیٹی کمر میں اور صافا سر پر درست کرتا ہوا اٹھا، محلے والے جمع ہیں۔ داروغا جی پہلا سگریٹ ختم کرکے دوسرا سلگا رہے ہیں۔ اور کتا پٹ رہا ہے!
کتا چھوٹی نسل کا بھورے بالوں والا۔ خاصا خوبصورت کتا تھا۔ کبھی نان بائی کی دکان کے سامنے آجایا کرتا تھا۔ مزاج کا ذرا کڑوا تھا اور کم بخت کو داروغا اور غیر داروغا کی پہچان نہ تھی۔
اس وقت اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں دم ٹانگوں کے اندر مڑ کر گویا چپک گئی تھی زبان ایک انچ سے زیادہ باہر نکلی ہوئی تھی، اس کا ہر انداز رحم طلب تھا!
’’یہ کتا کہیں چھوٹے صاحب کا نہ ہو۔‘‘ کانسٹبل نے داروغا کے کان سے منھ ملا کر کہا۔
’’ارے کس کا ہے یہ کتا؟۔‘‘ داروغا جی نے محلے والوں سے سوال کیا۔ مار پیٹ اب بند ہوگئی۔
شیخ جی! جو ابھی ابھی شور پکار سن کر مسجد سے نکلے تھے۔ دبی زبان سے کہنے لگے:۔
’’یہ کتا تو، صاحب میرے، وہی نا، جو نئے ڈپٹی صاحب آئے ہیں ان کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
ایک لونڈا بول پڑا۔
دیکھا تو ان ہی کے دروازے پر ہے داروغا جی،
داروغا جی نے سگریٹ کی جلتی ہوئی دم نالی کی طرف پھینک دی۔ کچھ کھانسے۔
’’بھئی کتا تو اچھی نسل کا ہے۔ ہو نہ ہو ڈپٹی صاحب ہی کا ہوگا۔ ذرا ادھر تو لائو اس کو‘‘ کتے کے سر پر انہوں نے ہاتھ پھیرا۔
’’اچھا کتا ہے۔ نئے ڈپٹی صاحب آدمی شوقین ہیں۔‘‘
پھر کتے کے سر پر تھپکی دی۔ وہ مانوس نہیں ہوتا دم اس کی ابھی تک ٹانگوں کے اندر ہے۔ اب وہ چیختا تو نہیں۔ مگر غرائے جاتا ہے۔
’’مزاج کا ذرا گرم ہے یہ کتا۔ یہی تو علامت ہے اس بات کی کہ اچھی نسل کا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر داروغا جی نے محلے والوں کی طرف دیکھا گویا اپنی پہچان اور شناخت کی داد چاہتے ہیں۔ کلو نان بائی نے اپنی دکان کے تختے پر سے پکارا۔
’’اجی نہیں، داروغا جی! یہ سسرا تو روز میری دکان کے سامنے بیٹھا رہتا ہے، بھلا ڈپٹی صاحب کا کتا ایسا کیوں ہونے لگا۔‘‘
کسی نے جواب دیا۔
’’نہیں جی، پاگل ہو، اس کا پٹا نہیں دیکھا، پالتو ہے جی، بازاری نہیں ہے۔‘‘ داروغا جی نے تیسرا سگریٹ سلگایا۔ ان کا پارا ذرا چڑھنے لگا۔
’’ارے یہاں! تم اتنے محلے والے ہو کسی کو معلوم نہیں کہ کتا کس کا ہے۔ عجب بے خبر لوگ ہو تم! اس محلے کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
’’ہاں صاحب! ہاں صاحب! ہمیں معلوم ہے یہ کتا ڈپٹی صاحب کا ہے۔ ہم نے ہزار دفعہ اس کو ان کی کرسی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
’’ارے میاں! تم بھی عجیب آدمی ہو خاں صاحب‘‘داروغا جی نے جلدی سے فرمایا۔ ’’کھڑے دیکھ رہے ہو۔ کتا غریب پٹ رہا ہے۔ اور روکتے بھی نہیں۔ بھلا یہ کیا ظلم ہے کہ سب کے سب غریب کتے پر ٹوٹ پڑیں۔ چھوڑ دو، اس کا پٹا چھوڑ دو جی! معلوم نہیں کہاں سے گھیر گھار کر اس کو لے آئے۔ اور کہتے ہو کہ دکان کے سامنے پڑا رہتا ہے! معلوم نہیں تم لوگوں کو؟ جانوروں پر ظلم کرنے کے متعلق کس قدر سخت قانون ہے، ابھی چاہوں تو دو چار کا چالان کردوں! غضب خدا کا، غریب کتا کس بری طرح پیٹا گیا ہے۔ تم لوگ انسان ہو یا جانور بے زبان جانوروں پر یہ ظلم؟ اس وقت میں نہ آگیا ہوتا تو تم لوگ تو مار ہی ڈالتے ڈپٹی صاحب کے کتے کو!‘‘
کانسٹبل کی مخاطب ہوکر فرمانے لگے۔
’’لے بھئی، ذرا اٹھا تو لے اس غریب کو سنبھال کر، چل ڈپٹی صاحب کے یہاں پہنچا دیں۔‘‘
محلے والوں کی طرف رخ کرکے۔
’’دیکھو جی! خبردار، آئندہ ایسی حرکت نہ کی جائے۔ ورنا باندھ لے جائوں گا دس پانچ کو۔‘‘