Skip to content

ڈوبتی نسلیں

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 120

ڈوبتی نسلیں

رینو بہل

(چندی گڑھ، بھارت)

سولہ سال کی عمر میں چار کہاروں والی پھُلکاری سے سجی ڈولی میں بیٹھ کر جب وہ اس گھر میں آئی تھی تو بابا کی بات پلّے باندھ کر آئی تھی کہ ڈولی میں جا رہی ہے اور ارتھی پر ہی اس گھر سے نکلنا ۔ اسے کیا پتا تھا کہ چونتیس سال بعد وہ کھنڈر نما گھر چھوڑ کر در در بھٹکنے کو مجبور ہو جائے گی ۔ دُھندلی آنکھوں سے آخری بار خستہ دیواروں پر گزرے لمحوں کے عکس تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔ یہ دیواریں راز دار ہیں اس کے دھڑکتے دل کی ، وصل کی سرشاری کی، برہ کے درد کی ۔ ان دیواروں نے اُسے ہواؤں کی طرح مچلتے، پھولوں کی طرح مہکتے، پتیوں کی طرح بکھرتے دیکھا ۔ یہ دیواریں ساتھی ہیں اُس کے سُکھ دکھ کی اور آج انہیں دیواروں سے بچھڑنے کا وقت آگیا ۔ دیواروں کی حالت اُس سے بہتر تو نہیں بے رنگ دیواروں سے پپٹری جگہ جگہ سے اکھڑ رہی ہے ۔ کمرے کی کھڑکیاں جس پر گہرے رنگ کے پردے سجے رہتے تھے، وہ بیوہ کی سونی مانگ کی طرح ویران پڑی ہیں ۔ کھڑکی کی سلاخیں گُم، پردے غائب، کھڑکی صرف نام کی رہ گئی جسے آسانی سے پھاند کر دروازے کا، کام لیا جا سکتا ہے ۔ یہ منظر صرف اُس کے کمرے کا نہیں پورے گھر کا ہے ۔

کتنے شوق سے اُس نے اپنا چھوٹا سا آشیانہ سجایا تھا ۔ کھیتوں کے بیچ و بیچ اُس کا یہ دو منزلہ گھر، اُ س کے خوابوں کی جنت تھی ۔ لہلہاتی فصلوں کے بیچ اُس کا گھر شاہانہ عظمت کے ساتھ اپنا وجود قائم کئے کھڑا تھا ۔ کرم چند نے بڑے چاؤ سے یہ گھر بنوایا تھا ۔ اسی گھر میں اُس کی تین بیٹیاں اور اُن سب سے چھوٹا بیٹا تاری کھیل کر جوان ہوئے ۔ بیٹیاں بیاہ کر بِدا کیں تو گھر سُونا سُونا لگنے لگا ۔ بیٹے کے سر پر سہرا باندھنے کی خواہش زور پکڑنے لگی تو پاس کے گاؤں کی نورا کو ڈولی میں بٹھا کر گھر کی رونق دو چند کر لی ۔ کچی عمر کی لڑکیاں کچی مٹی کی طرح ہوتی ہیں ، اُنہیں جس سانچے میں ڈھالو ڈھل جاتی ہیں ۔ نورا بھی بے بے کے رنگ میں جلد ہی رنگ گئی ۔ شوہر کی محبت، باپو کی شفقت اور بے بے کے لاڈنے اُس کے وجود کو ایسے پگھلا کر گھر میں رچا بسا دیا جیسے گھی میں شکر، دود ھ میں پانی ۔

پہلے پوتے کی پیدائش پر بے بے نے پورے گاؤں میں لڈو بانٹے ۔ چھنیدا ابھی چار سال کا تھا کہ دوسرے پوتے نے ان کی خوشیوں کو چار چاند لگا دئے ۔ لاڈسے اُس کا نام نِکا کیا پڑا پھر وہ جوان ہو کر بھی نِکا ہی رہا ۔ بچوں کی شرارتیں ، باپو جی کے ملنے والوں سے گھر بھر میں سارا دن رونق رہتی ۔ بے بے صبح سویرے اندھیرے منہ اُٹھ کر دودھ دوہنے کا کام کر لیتی اور خود لسی رڑک کر آنے جانے والوں کے لیے تیار رکھتی ۔ مکھن نکال کر الگ سے چھندے اور نِکے کے لیے رکھ لیتی ۔ تاری اگر بے بے سے مکھن کی فرمائش کرتاتو اس کا منہ بند کرنے کے لیے اُسے تھوڑا سا مکھن دیتے ہوئے کہہ دیتی:

’’نظر نہ رکھا کر میرے بچوں کی چیز پر‘‘

’’بے بے میں تیرا بچہ نہیں کیا؟‘

’’تو وی ہے پر اوہ پہلے‘‘ بے بے کا پیار دیکھ کر وہ مُسکرا دیتا ۔

فصلیں اُگتی رہیں کٹتی رہیں ، موسم آتے رہے بدلتے رہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں لڑکوں کے قد باپ سے بھی اونچے ہو گئے جسے دیکھ باپو کو سینہ خوشی سے پھیل جاتا اور بے بے گھبرو جوان پوتو کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے سو سو حیلے کرتی ۔ گھر سے باہر جاتے تو اُس کی نظریں دروازے پر لگی رہتیں ۔

پھر پنجاب میں ایسی زہریلی ہوا چلی کہ اپنے اپنوں سے خوف کھانے لگے ۔ بٹوارے کے بعد ایک بارپھر پنجاب کی زمین لہو کی پیاسی ہو گئی ۔ خالصتان کے نعرے گونجے لگے، دہشتگری نے سر اُٹھا یا ۔ ہندو سکھ جو کل تک شیر و شکر تھے اب اک دوسرے سے نظریں چرانے لگے ۔ رشتے سرد پڑ گئے ۔ گھر سے نکلنے سے پہلے بے بے کی ہدایتیں سُن کر ہی لڑکے باہر قدم رکھتے ۔ جب تک وہ گھر نہ لوٹ آتے بے بے بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپتی رہتی ۔

باپو اُن کی بے چینی دیکھ کر انہیں شرارت سے کہتے:

’’ میں تو تجھے شیرنی سمجھ کر ساری عمر ڈرتا رہا مگر تُو تو ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’تاری کے باپو میرا منہ مت کھُلانا ۔ اچھی طرح جانتی ہوں آپ کے ڈر کو بھی اور حوصلے کو بھی ۔ ‘‘

باپو حقہ گڑگڑاتے بیوی کی بات سن مسکرا دیتے ۔ اُسے تنگ کرنے میں انہیں بڑا مزا آتا تھا ۔ اُن دونوں کی صبح شام کی نوک جھوک سُن کر نورا مزے لیتی تھی ۔

پھر ایک روز یہ نوک جھوک ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ پہلی بار اُس نے اس گھر میں موت دیکھی تھی ۔ موت کے بجائے قتل کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ صبح شہر کسی کام کے لیے تاری گھر سے نکلنے لگا تو بے بے نے کہا:

’’میری داہنی آنکھ بہت پھڑک رہی ہے تو آج نہ جا‘‘

’’بے بے اب تیری آنکھ کے پیچھے میں کام روک دوں ۔ واہموں میں مت پڑا کر ۔ دنیا کے کاروبار بند نہیں ہوں گے ۔ سب چل رہے ہیں ۔ گھر میں بیٹھی پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہے ۔ ‘‘

اتنا کہہ کر وہ گھر سے نکل گیا ۔

آدھے گھنٹے بعد ہی خبر آگئی کہ دہشت گردوں نے راستے میں بس رکوا لی اور بنا دستار کی سواریوں کو نیچے اُتار کر ایک قطار میں کھڑا کر کے پانچ منٹ میں آٹھ لوگوں کی روحوں کو اُن کے جسم سے آزاد کر دیا ۔ تاری بھی اُن میں سے ایک تھا ۔ اس شام گھر سے ایک نہیں دو جنازے ایک ساتھ اُٹھے تھے ۔ دوسہاگنیں ایک ساتھ بیوہ ہوئیں تھیں ۔ بیٹے کی موت کی خبر باپو برداشت نہیں کر پائے تھے ۔

اس حادثے کے بعد گھر کا شیرازہ بکھر گیا ۔ نہ کہیں قہقہے گونجتے ، نہ ہنسی مذاق نہ نوک جھوک ۔ خاموشی کا گھُن لگ گیا تھا ۔ جوان خون اُبال کھا رہا تھا نفرت کی آندھی اُن کے وجود کو بکھیر رہی تھی ۔ نورا نے پل پل ٹوٹتی بے بے کو سہارا دینے کے لیے اپنے دُکھ اپنی تکلیف طاق پر رکھ کر خود کو مضبوط کرتے ہوئے بوڑھی ماں کو سنبھالا ۔ جوان لڑکوں کو انتقام کی تاریک راہوں پر بھٹکنے سے روک لیا ۔ سرکار کی کوششوں سے بہت جلد دہشت گردی کے اس دور کا خاتمہ ہو گیا ۔ امن کی ہوائیں پھر سے دلوں میں پیار بھرنے لگیں ۔ دھیرے دھیرے زندگی معمول پر آنے لگی ۔ بھائی چارے کا وہی دور پھر سے لوٹ آیا مگر اس گھر کی فضا میں ایک عجیب سی بے سکونی، بے چینی، بوسیدگی آ کر کبھی نہیں لوٹی ۔ اُن کی زندگیوں میں جو خلا پیدا ہوا تھا وہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی گیا ۔

سرد آہ بھرتی نورا کمرے سے نکل باہر چھت پر آئی تو آسمان کی دنیا چاند ستاروں سے روشن تھی ۔ پو پھٹنے میں ابھی وقت تھا ۔ ایک طائرانہ نظر گاؤں کی طرف ڈالی تو سینے سے ہُوک اٹھی ۔ کئی گھر اُس کی نظروں کے سامنے تھے جدھر اداسیوں کا مستقل ڈیرا جم چکا تھا ۔ دُور سے آتی بیلوں کے گلے کی گھنٹیوں کی آوازوں نے احساس دلایا کہ پو پھٹنے میں دیر نہیں ۔ دن کے اجالے سے پہلے ہی وہ گاؤں سے نکل جانا چاہتی تھی ۔ جانے سے پہلے نہ کسی سے ملنا چاہتی تھی نہ بتانا چاہتی تھی کہ وہ کدھر جا رہی ہے ۔ منزل کا پتا تو اسے بھی نہیں تھا بس یہ جانتی تھی کہ ادھر سے اُس کا دانا پانی اُٹھ چکا ہے ۔

پلٹ کر کمرے میں گئی چھوٹی سی کپڑوں کی گٹھڑی اُٹھائی آخری نظر کمرے پر ڈالی اور تیز قدموں سے زینہ اُتر آئی ۔ اُس کے دل نے چاہا کہ ایک بار یا شاید آخری بار نِکے کو دیکھ لے مگر اُس کے کمرے کی طرف جانے کی ہمت نہ ہوئی ۔ اس کی کوکھ میں بھانبھڑ بل رہے تھے جو نکِے کو دیکھ کر اور دہک اُٹھتے یہ ہی سوچ کر وہ تیز قدموں سے باہر دالان میں آگئی ۔ نیم تاریکی میں اُسے محسوس ہوا جیسے آم کے درخت کے نیچے باپو تخت پوش گاؤ تکیے پر کوہنی ٹکائے اپنے مخصوص انداز میں بیٹھے حقّہ پی رہے ہیں ۔ گھبرا کر اُس نے نظریں باڑے کی طرف پھیر لیں ۔ تاری گائے کو چارا ڈال کر اُس کی پیٹھ تھپتھپا رہا تھا تو بے بے دھیمی آواز میں گیت گاتی ہوئی لسی رڑک رہی تھی ۔ اُس کے پاؤں زمین میں گڑ گئے ۔ چھندا مونچھوں کو تاؤ دیتا بے بے کے پاس آ کر جھکا اور مٹکی میں ہاتھ ڈال کر مکھن کا گولا نکال سیدھے منہ میں ڈال کر مسکرانے لگا ۔ بے بے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے ’’ٹھہر تو‘‘ کہہ کر اُٹھی ۔ نورا کی دُھندلی آنکھیں مسکرانے لگیں ۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اُسے تخیل سے حقیقت کی دنیا میں لے آ;ئی ۔ دالان ویران تھا، اندھیرے میں ڈوبا ہوا ۔ اُسے لگا وہ تن تنہا کسی ویران کھنڈر میں کھڑی ہے یہ اس کا گھر نہیں ہو سکتا ۔ بے بسی سے نظر بھر کر دالان کے چاروں طرف دیکھا پھر بوجھل قدموں سے دہلیز پھلانگ آئی ۔ اس گھر سے اُسے ارتھی میں رخصت ہونا تھا اور وہ خود اپنا مردا جسم ڈھوتی کھیتوں کے بیچ بنی پگڈنڈی پر نکل آئی ۔

چاروں طرف سنّاٹا ۔ خاموشی کی چادر میں لپٹا گاؤں تاروں کی چھاؤں میں وہ پیچھے چھوڑ آئی ۔ گاؤں کی سرحد پار کرتے ہی بس سٹاپ پر پہنچ تو گئی مگر یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ اُسے کدھر جانا ہے ۔ میکہ تو ماں باپ کے ساتھ ہوتا ہے جو کب کا چھوٹ چکا تھا ۔ بھائی کے گھر جانا مناسب نہیں بھابی کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ۔ اکلوتی چھوٹی بہن نمو خود بیوہ ہے اور دو جوان بیٹوں کی ذمہ داری سر پر لیے نہ جانے کیسے گزر بسر کر رہی ہو گی ۔ شہر میں وہ کسی کو جانتی نہیں ۔ سر چھپانے کے لیے محفوظ چھت چاہیے اور پیٹ بھرنے کے لیے کام ۔ انجان شہر میں اجنبی لوگوں میں رہ کر عزت کی روٹی کماناآسان بھی نہیں ۔ بے شک وہ پچاس کی ہو گئی دو جوان بیٹوں کی ماں بن گئی مگر ہے تو عورت ذات ۔ اُنہیں بے باک نگاہوں کو اپنے جسم کا سکین کرتے محسوس کیا جن کی آنکھیں احترام سے اُس کے سامنے اُٹھتی نہیں تھیں اور زبان بھابی بھابی کہتے تھکتی نہیں تھی ۔ سر کا سائیں کیا گیا اُسے لنگر کا مال سمجھ لیا ۔ آج بھی وہ بنا دروازے دریچے کے مکان میں صرف چھت کے سہارے زندگی کاٹ لیتی اگر پچھلی صبح اپنے کمرے میں اپنی ہی چارپائی کے قریب زمین پر سکھ جیت سنگھ کو بے سدھ پڑے نہ دیکھا ہوتا ۔ جوان بیٹا دوسرے کمرے میں بے سدھ پڑا جسے یہ بھی ہوش نہیں کہ کون اُس کی ماں کے کمرے میں رات کے کس پہر پہنچ گیا ۔ بھلا اُس سے وہ کیا توقع کر سکتی ہے ۔ یہ بات وہ جان چکی تھی کہ اب اپنی حفاظت اُسے خود ہی کرنی ہو گی تبھی تو اُس نے لاٹھی سے سکھ جیت سنگھ کی ایسی دُھنائی کی کہ اُس کا سارا نشہ کافور ہو گیا ۔ مار مار کر اسے ادھ موا کر دیا ۔ گالیاں بکتا جا ن بچا کر وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگا ۔ یہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دوبارہ ادھر نہیں آئے گا جب گھر کے دریچے دروازے نہ ہوں تو لوگ اُسے راہ داری سمجھ لیتے ہیں ۔ کوئی بھی بنا روک ٹوک کبھی بھی آ جا سکتا ہے ۔ اتنا ہنگامہ ہوا صبح صبح مگر نِکا بے سدھ پڑا رہا ۔ نشے میں دھت آدمی اور مُردے میں کیا فرق ہوتا ہے۔

دن چڑھتے ہی سڑک پر گھما گہمی شروع ہو گئی ۔ دُور سے آتی بس کو دیکھ اُس نے طے کر لیا کہ بس جس طرف جائے گی وہ اُدھر ہی جائے گی ۔ بس امرتسر کی تھی ۔ ہاتھ کے اشارے سے بس رکوائی اور اُس میں سوار ہو گئی ۔ ٹکٹ لے کر کھڑکی کے پاس بیٹھ گئی ۔ بس اُسے نمو کی طرف لے جا رہی تھی ۔ کچھ دن اُس کے پاس رک کر شہر میں کام ڈھونڈنا آسان ہو جائے گا ۔ ماں کی ممتا نے دھیرے سے سرگوشی کی:

’’شاید نِکا مجھے تلاش کرتا نمو کے گھرآجائے ۔ شاید اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے ۔ وہ جانتا ہے کہ نمو کے علاوہ میرا اور کوئی نہیں ہے ۔ اگر سیدھے شہر چلی گئی تو وہ کہاں تلاش کرے گا ۔ ‘‘

دوڑتی بس کے ساتھ سڑک کنارے لگے پیڑ، کھیت کھلیان بھی دوڑنے لگے ۔ دوسرے صوبے سے آئے مزدوروں کو کھیتوں پر کام کرتے دیکھ کر اُسے وہ زمانہ یاد آگیا جب کسان اپنے کھیتوں پر کام کرنے پر فخر محسوس کرتا تھا ۔ مٹی سے مٹی ہو کر لہلہاتی فصلوں کو دیکھ خوشی سے جھوم اُٹھتا تھا اور اب جوان لڑکوں کو اپنے کھیتوں میں کام کرنے میں شرم آ;تی ہے ۔ چار کتابیں پڑھ کر نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے ۔ مٹی میں ہاتھ ڈال نہیں سکتے روزگار ملتا نہیں ۔ ماں باپ کو مجبور کر دیتے ہیں زمین بیچ کر بیرون ملک بھیجنے کو اور جو نہیں جا سکتے وہ اپنا غم غلط کرنے کے لیے نشے کا سہارا لیتے ہیں ۔ فراغت کا بہانہ تلاش کرتے ہیں ۔ مسئلے کاحل بے خودی کی انتہا تک پہنچ کر سب کچھ فراموش کرنے میں تلاش کرتے ہیں ۔ دہشت گردی پر تو سرکار نے قابو پا لیا مگر یہ نشے کی دہشت گردی نے پورے پنجاب کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ۔ یہ وبا اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ گھروں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں ۔ نئی نسل تباہ ہو رہی ہے ۔ تباہ نسل کے ساتھ پنجاب کی تہذیب بھی ختم ہو جائے گی ۔ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے پنجاب ۔ ایک زمانہ تھا جب پنجاب سب سے امیر ترقی یافتہ صوبہ ہوا کرتا تھا ۔ سبز انقلاب(;71;reen ;82;evolution) کے لیے مشہور تھا اور آج نمو کا گاؤں مقبول پورا ’’بیواؤں کے گاؤں ‘‘ کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے ۔ شاید ہی اُس گاؤں میں کوئی ایسا گھر ہو جس میں کوئی بیوہ نہ ہو ۔ ہر گھر سے کسی نہ کسی مرد نے نشے کی چپیٹ میں آکر اپنے جیون کی آہوتی دی ہے ۔ مردوں کو افیم، چرس، گانجھا نگل گیا ۔ نمو کے مرد کو بھی تو ’’چِٹّے‘‘ نے چاٹ لیا ۔ پیچھے رہ گئیں دو جوان بیٹیاں اور ایک بیوہ ۔ دس سال کی عمر سے لے کر چالیس سال کے مرد اس وبا سے نہیں بچ پائے ۔ اس کا خود کا گھر بھی کہاں بچ پایا اس بیماری سے ۔ جوان گیرو چھندے کو تِل تِل کرتے بھُرتے دیکھا ہے ۔ باپ اور دادا کی وفات کے بعد وہ خود کو سنبھال نہیں پایا ۔ کالج کے دوستوں کے ساتھ نشے کی لت کا شکار ہوا ۔ گھر پر پتا ہی نہیں چلا کہ بات اتنی آگے پہنچ گئی ہے ۔ حالانکہ بے بے اور وہ اس کے بدلتے رویے سے پریشان ضرور تھے ۔ زیادہ تر وقت وہ گھر سے باہر گزارتا اور جب گھر پر ہوتا تو سب سے کٹ کر کمرے میں تنہا پڑا رہتا ۔ ڈھنگ سے کھانا پینا چھوٹ گیا ۔ نہ سلیقے سے تیار ہوتا ۔ آنکھوں کے پپوٹے ایسے اُبھرے رہتے جیسے رات رات بھر جاگا ہو ۔ بے بے یا ماں اس سے بات کرنا چاہتے تو غصّے سے جواب دیتا ۔ بات بات پر چڑ جاتا ۔ دونوں خاموش ہو جاتیں ۔ اندر ہی اندر فکر انہیں کھائے جا رہی تھی حقیقت تو اس وقت کھُلی جب دو روز سے چھندا گھر نہ آیا تو نورا نِکے کو ساتھ لے کر اُسے ڈھونڈنے نکل پڑی ۔ پوچھتے پچھاتے شمشان گھاٹ کے پاس ویران عمارت تک پہنچ گئی ۔ ڈرتے ڈرتے اندر قدم رکھا تو تیز پیشاب کی بھبھک نے ناک کو دوپٹے سے بند کرنے پر مجبور کر دیا ۔ کمرے میں گندگی کے بیچ خالی دوائی کی شیشیاں اور سرنجیں بکھری پڑی تھیں اور کونے میں کم سن لڑکے کش پر کش لگا رہے تھے ۔ اُسے دیکھتے ہی ایک دو تو بھاگ کھڑے ہوئے اور دو مجرم شکل و صورت والے خونخوار نظروں سے انہیں دیکھنے لگے جیسے شکار پر ابھی جھپٹ پڑیں گے ۔ نِکے کا ہاتھ پکڑ کر جھٹ سے وہ باہر کی جانب بڑھ گئی ۔ گندگی اور بُو سے اُسے اُبکائی آ;نے لگی تو دوسری جانب بھاگی ۔ وہاں گندگی کے ڈھیر پر اُس کا چھندا مدہوش خود سے بے خبر پڑا تھا ۔ اُسے دیکھتے ہی سر سے پاؤں تک لرز گئی ۔ اُسے وہاں سے لانا اُس کے بس میں نہیں تھا ۔ سیدھی سرپنچ کے پاس مدد کے لیے پہنچی اور اُسے اپنا دُکھڑا سنا دیا ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سارے شہر کو جو خبر ہوتی ہے وہ گھر والوں تک آخر میں پہنچتی ہے ۔ گاؤں کے لوگ اُس کی عادت سے واقف تھے ۔ کئی لوگوں سے اُدھار لے چکا تھا اپنی قیمتی چیزیں بھی بیچ چکا تھا ۔ گھر پر تب پتا چلا جب پانی سر سے گزر چکا تھا ۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے ، در در کی ٹھوکریں کھائیں ، غصہ بھی کیا، ممتا کا واسطہ بھی دیا،علاج کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا دیا ۔ پرائیویٹ نشہ چھوڑو سینٹر میں بھرتی بھی کرایا ۔ زمین کا کچھ حصہ فروخت کر ڈالا مگر ہاتھ پلے کچھ نہ پڑا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی آنکھوں کے سامنے ریت کی طرح مُٹھی سے پھسل گیا ۔

جوان پوتے کی میت اُٹھتے دیکھ کربے بے پاگلوں کی طرح روتی رہی چلاتی رہی ۔ نشے کے دلالوں کو، سیاست دانوں کو کوستی رہی ۔ ایک مہینے بعد گھر میں پھر صفِ ماتم بچھ گئی ۔ بے بے بھی چھندے کے پیچھے ہولی ۔ گھر کے در و دیوار، گھر کا آنگن سُونا ہو گیا ۔ تنہائی، اداسی اور مایوسی نے اُسے اپنے حصار میں لے لیا ۔ بیٹیاں بھی اپنی گھر گرہستی چھوڑ کر کتنے دن رُک سکتی تھیں ۔ پورا گھر ایسے بکھر گیا جیسے مالا کا دھاگا ٹوٹنے سے موتی بکھر جاتے ہیں ۔

بس جھٹکے سے رُکی تو اُس کے خیالوں کا تانا بانا بھی ٹوٹ گیا ۔ بس اپنی منزل پر پہنچ کر رُک چکی تھی ۔ بس سے اتُرتے ہی اُسے مقبول پورے کے لیے سواری مل گئی ۔ آدھے گھنٹے بعد وہ نمو کے گھر کے باہر کھڑی تھی ۔

نمو نے دونوں باہیں پھیلا کر بڑی بہن کا استقبال کیا ۔ دیر تک گلے لگ کر دونوں بہنیں روتی رہیں ۔ برستی آنکھوں میں خوشی اور غم دونوں شامل تھے ۔ گھر میں اُسے اکیلے دیکھ کر نورا نے پوچھا:

’’لڑکیاں نظر نہیں آ رہیں چارپائی پر بیٹھتے ہی نظریں ادھر اُدھر گھوم رہی تھیں ۔

’’رتی تو کالج کے لیے ابھی گھر سے نکلی ہے ۔ وہ تو شام کو ہی لوٹے گی اور چنی صبح سے کھیتوں پر گئی ہے ۔ تھوڑی دیر میں لوٹ آئے گی ۔ ‘‘

’’کھیتوں پر

’’اپنے پاپا کے گزر جانے کے بعد اب وہ ہی کھیت سنبھالتی ہے ۔ سچ کہوں تو پورے گاؤں کے لیے مثال ہے میری بیٹی ۔ بیٹا بن کر سہارا دیا ہے ۔ نہیں تو ہم دانے دانے کو محتاج ہو جاتے ۔ ‘‘ فخر سے اُس کا سر تن گیا تھا ۔

’’قسمت والی ہے تو تجھے رب نے ایسی اولاد دی ۔ ‘‘ بے ساختہ سردآہ نکل گئی ۔

’’نکا کیسا ہے

نمو نے تو سرسری پوچھا تھا مگر نورا کے دل پر تیر کی طرح لگی ۔

’’میرا حال دیکھ کر تجھے پتا چل جانا چاہیے کہ وہ کیسا ہے ۔ ‘‘

’’سچ پوچھو تو اچانک اس وقت تمہیں یہاں دیکھ کر خوشی تو ہوئی ساتھ میں حیرانی اور ۔ ۔ ۔ ‘‘وہ خاموش ہو گئی ۔

’’اور ۔ ۔ ۔ ;

’’اور پریشانی بھی ۔ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ۔ ‘‘

’’ٹھیک کہتی ہے ۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے نورا چارپائی پر آنکھیں موند کر لیٹ گئی ۔

’’ میں ناشتہ لے کر آتی ہوں پھر آرام سے باتیں کریں گے ۔ ‘‘

نمو اٹھ کر اندر چلی گئی اور وہآنکھیں موندے سوچنے لگی کہ اُسے گھر پر نہ دیکھ کر نکِے کو فرق پڑے گا یا نہیں ;238; وہ ڈھونڈتا ہوا اِدھر آئے گا یا نہیں معلوم نہیں مکان بچ پائے گا یا وہ بھی نشے کے عوض فروخت کر دے گا; پتا نہیں وہ دوبارہ نکِے کو دیکھ پائے گی یا وہ بھی مٹی میں مل جائے گا انہیں سوالوں میں الجھی ہوئی تھی کہ نمو ناشتہ لے آئی ۔

پراٹھوں کی خوشبو سے اُسے خیال آیا کہ دو دن سے ایک نوالہ بھی اُس کے اندر نہیں گیا ۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔ پھر دونوں بہنوں نے مل کر ناشتہ کیا ۔ نمو اُسے چنی اور رتی کی باتیں سناتی رہی ۔ بیٹیوں سے کتنی رونق ہوتی ہے گھر میں ۔ بابل کے آنگن کی چڑیا جیسی ہوتی ہیں چہکتی پُھدکتی اپنے ہونے کا احساس دلاتی ۔

ناشتہ کر کے نمو اُسے آرام کرنے کا کہہ کر گھر کا کام نپٹانے میں لگ گئی اور وہ آنکھیں موند کر لیٹ گئی ۔

اگر تاری بے موت نہ مرا ہوتا تو باپو بھی زندہ ہوتے ۔ دونوں موجود ہوتے تو چھندا کبھی بھٹکنے کی ہمت نہ کرتا ۔ اُس کے گھر آنگن میں بہو کی پائل اور کھنکتی چوڑیوں کا سنگیت ہوتا ۔ بچے کلکاریاں لگاتے ۔ بے بے دیکھ دیکھ کرنہال ہوتی ۔ گھر میں بہار کاموسم ہوتا ۔

وہ سوچنے لگی نہ جانے کون لوگ ہیں جو اپنے منافع کے لیے ماؤں کی کوکھ اُجاڑ دیتے ہیں ، گھروں کو کھنڈر بنا دیتے ہیں ، نوجوانوں کو بنجر بنا دیتے ہیں ۔ چھندے کے علاج کے دوران ڈاکٹر سنگھ نے بتایا تھا کہ افغانستان سے ایک لاکھ روپے فی کلو میں ملنے والی منشیات پڑوسی ملک کے بارڈر سے ہندوستان پہنچتی ہے تو تیس لاکھ روپے فی کلو ہو جاتی ہے ۔ کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانے کا آسان طریقہ ہے ۔ انڈو پاک کا 553 کلو میٹر لمبا باڈر جن کے ہاتھوں میں حفاظت کے لیے دیا ہے وہ بھی لشکروں کے ساتھ ملے ہیں ۔ پولیس سے لے کر سیاسی لیڈر تک اس میں شامل ہیں ۔ سب کے ضمیر مر چکے ہیں ۔ کوئلے کی دلالی میں سب کا منہ کالا ہے ۔ کس سے فریاد کریں کس سے انصاف مانگیں جس ملک میں ہرروز دو ہزار کروڑ کی ڈرگز سمگل ہو گی اس کی نوجوان نسل کا کیا مستقبل ہو گا، خدا جانے ۔ دشمنوں کی سوچی سمجھی سازش ہے ، نئی نسل کو ایسے تباہ کر دو کہ مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ رہے ۔ اچھے بھلے انسان کو شکار بنا کر اُسے نشے کا ایسے عادی بنا دیتے ہیں کہ دھیرے دھیرے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے وہ جرم کی دنیا میں قدم رکھ لیتے ہیں ۔

اُس کے ساتھ بھی تو یہ ہی ہوا ۔ چھندے نے چوری چھپے اپنا قیمتی سامان بیچا اور نکِے نے ایک ایک کر کے گھر کا سامان چوری سے بیچنا شروع کر دیا ۔ اُس کی ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہا اور وہ کچھ کر ہی نہیں پائی ۔ کپڑے لتے ،چادر، بستر،برتن تو چھوڑو دروازے کھڑکیاں بھی بیچ ڈالیں ۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ وہ گھر چھوڑنے کو مجبور ہو گئی ۔ گھر سے بے گھر ہونے کا خیال آتے ہی وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔ ماتھے پر پسینے کی بوندےں لرزنے لگیں ۔ نمو نے اُسے اُٹھ کر بیٹھتے دیکھا تو دوپٹے سے ہاتھ پونچھتی اُس کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔

’’اب سُنا کیا ہوا

’’سُنانے کو کچھ بچا ہی نہیں ۔ دھیرے دھیرے سب ختم ہو گیا ۔ ‘‘

’’نکِے کو کیا ہو

’’وہی جو چنی کے پاپا کو ہوا، چھندے کو ہوا وہی نکِے کو ہوا ۔ ‘‘

’’اتنا سب دیکھ کر بھی سبق نہیں سیکھا

’’ہماری بدقسمتی ہے اپنی آنکھوں کے سامنے بے بسی سے اپنی کوکھ اُجڑتے دیکھ رہے ہیں ۔ اپنی اولاد کے وجود کو دیمک لگتے اُسے تنکا تنکا جھڑتے دیکھ رہے ہیں ۔ ہم لوگ زندہ لاشوں سے کم نہیں ۔ لاچار، مجبور ، بے بس سب کچھ ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ‘‘ کہتے کہتے اُس کا گلہ رُندھ گیا ، آنکھیں برسنے لگیں ۔ نمو نے بھی چپ کرانے کی کوشش نہیں کی ۔ اُس کی آنکھیں بھی تو بہن کا ساتھ دے رہی تھیں ۔ دل کا درد آنکھوں کے ذریعے جتنا بہہ جائے اچھا ہے ۔

’’کاش اوپر والے نے دل کی جگہ پتھر رکھ دیا ہوتا تو اتنا درد نہ سہنا پڑتا ۔ ‘‘ آنکھیں صاف کرتے نورا نے کہا ۔

دونوں خاموشی کی چادر میں لپٹی رہیں ۔ درد باتیں کر رہا تھا زبان خاموش تھی ۔ پھر نورا ہی چُپ کی چادر سے باہر نکلی:

’’تجھے کوئی شہر میں جانتا ہے;

’’کس لئے‘

’’کام چاہیے‘‘

’’کسے ؟‘

’’مجھے اور کسے‘

’’اس عمر میں کام کرو گی;

’’عمر کو کیا ہوا ہے کماؤں گی نہیں تو کھاؤں گی کہاں سے

’’کھیت ہیں ۔ اتنا بڑ ا مکان ہے ۔ تمہیں کمانے کی کیا ضرورت ہے;‘ نورا سُن کر طنزیہ انداز میں گویا ہوئی ۔

’’کھیت مکان; سب ختم ہو گیا ۔ سب کچھ بک گیا ۔ مکان کھنڈر ہو گیا ۔ گھر کی ایک ایک چیز یہاں تک کہ پردے، کھڑکیاں ، دروازے سب بیج دئے اُس جنم جلے نے ۔ ‘‘

’’مگر تمہیں اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ۔ کم سے کم اپنی چھت تو ہے سر پر ۔ اب تو وہ آسانی سے اُسے بھی بیچ دے گا ۔ ‘‘

’’جانتی ہوں ‘‘

’’پھر بھی اُس کے حوالے کر آئی;

’’ہاں ۔ ‘‘

’’مگر کیوں ‘

’’میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔ کیا کرتی اگر گھر چھوڑ کر نہ آتی ۔ مکان کے ساتھ ساتھ وہ میرا سودا بھی کر رہا تھا ۔ ماں کو بیچنے سے کچھ دن اور نشے کا انتظام ہو جاتا ۔ یہ دیمک میرے گھر کو چاٹ گئی ۔ تو ہی بتا نمو میں کیا کروں میری کوکھ جل رہی ہے میری روح سلگ رہی ہے اور میں نا چاہتے ہوئے بھی جینے پر مجبور ہوں ۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ پھپھک پھپھک کر رو پڑی ۔

Published inرینو بہلعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply