Skip to content

ڈائری کا ایک صفحہ

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 131

ڈائری کا ایک صفحہ
عبدالرحمٰن اختر۔مالیگاؤں۔مہا راشٹرہ ۔انڈیا

ایک معمولی حادثے کو فرقہ پرستوں نے فساد کا رخ دیکر ہر طرف خون خرابے کا بازار گرم کر دیا تھا. ہر طرف سے کمزور و بے بس لوگوں کی آہ و فریاد کا شور سنائی دے رہا تھا. آگ اور دھوئیں کی لپٹیں اُٹھ رہی تھیں. رحمِ مادر چاک ہورہا تھا. معصوموں کی پیدائش سے پہلے موت ہورہی تھی. مکانات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہورہے تھے. جابجا لاشوں کے انبار نظر آ رہے تھے جن پر کھڑے ہوکر جنونی اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے.
ایک مسلم نوجوان نے جو کہ میرا پڑوسی تھا خود مظلوم ہوتے ہوئے بھی اس نے مجھے ان انسان نما درندوں کی نظر سے بچا کر ممبئی پہنچا دیا تھا. ممبئی میں میرے سگے ماما نے بہ مشکل مجھے اپنے پاس دو تین ہفتہ رکھا ہوگا. اس دوران میں اپنے خاندان کی بربادی پر کئی مرتبہ ہوش کھوچکی تھی. میں گریجویٹ تھی اسلئے میرے ماما نے مجھے نوکری کے دھوکے میں، اپنی دنیا سنوارنے کے لیے ایک عالمی دلال کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا میں اس صدمے سے سنبھل بھی نہیں پائی تھی کہ اُس دلال (لڑکی سپلائر) نے مجھے زبردستی سجا سنوار کر ہال نما منڈی میں لے جا کر کھڑا کر دیا وہاں کا ماحول دیکھ کر مجھے زمانہ جاہلیت کی وہ داستانیں یاد آنے لگیں جن میں لڑکیوں کی خرید و فروخت کا ذکر تھا.
ہال میں خریدنے اور فروخت کرنے والوں کی بڑی جماعتیں موجود تھیں. فروخت کرنے والوں میں بڑے بڑے اناتھ آشرم اور یتیم خانوں کے وہ سرپرست بھی تھے جن کی تصاویر سے آج بھی اخبارات میں چار چاند لگ جاتے ہیں. خریدنے والوں میں قحبہ خانوں اور بار مالکوں کے ساتھ ہی ساتھ سدا کے بدنام عرب کے عیاش شیخ بھی تھے.
ایک عربی سب سے زیادہ بولی لگا کر مجھے خریدنے میں کامیاب ہو گیا تھا. اس کے چہرے پر عجیب سی چمک تھی. دوسروں کی طرح اس نے بولی لگاتے وقت میرے جسم کو چُھوا بھی نہ تھا اور نا ہی کسی طرح کی بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا. اُس کی عمر40یا44 کے درمیان رہی ہوگی. اُسکے عمل سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ مجھے جلد از جلد اس ماحول سے نکال لے جانا چاہتا ہو. میرے رونے اور چیخنے چلّانے پر اُس نے نہایت ہی نرم اور میٹھے لہجے میں کہا تھا…..
” سُنو سنگیتا….. مجھے تمہارے مالک نے تمہارے متعلق سب کچھ بتا دیا ہے. تم یتیم ہو اور حالات کی ماری ہوئی ہو مجھے احساس ہے کہ اِس وقت تمہارے دل و دماغ میں کیا ہلچل ہو رہی ہوگی…؟ لیکن تمہیں گھبرانے اور فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ تمہیں میری ذات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ ہی کبھی میں تمہاری مرضی کے خلاف کچھ کروں گا. تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں اپنے محل میں ایک شہزادی کی طرح رکھونگا.. ”
کوئی اور وقت ہوتا تو اُسکی زبان سے اردو کے جملے سن کر میں برابر اسے داد دیتی مگر اس روز اُسکی بات پوری ہوتے ہی میں بے اختیار اُسکے منہ پر تھوک دی لیکن اسنے کچھ ردّعمل نہیں کیا بلکہ بڑے تحمل کے ساتھ رومال سے اپنا چہرا صاف کیا تھا اور ہلکا سا مُسکرادیا اسکی مسکراہٹ سے میرے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگی تھیں… میں اسے گالیاں دینا چاہتی تھی لیکن میرے ہونٹ صرف کانپ کر رہ گئے تھے. میں نے اسے مارنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن اسنے مجھے اپنے قابو میں لے کر کسی چھوٹی بچّی کی طرح ہاتھوں میں اُٹھا لیا تھا…..
اُسی رات وہ عربی مجھے لیکر اپنے ملک کے سفارت خانے پہنچا تھا اور سفیر سے عربی میں بات کی تھی جبکہ مجھے سمجھاتے وقت اسنے اردو زبان استعمال کی تھی سفیر سے بات کرتے وقت بھی اُسنے دو تین جُملے اردو میں ادا کئے تھے جوکہ صرف مجھے سنانے کے لیے تھے ایک جملہ تھا…
” تم فکر مت کرو شیخ صاحب… اب یہ میری ذمہ داری ہے کہ اسے کسطرح راضی کر کے اپنے ساتھ رکھنا ہے.” اور بھی نا جانے اسنے کیا کیا کہا تھا اس وقت مجھے اس سے اتنی نفرت محسوس ہورہی تھی کہ جی چاہتا تھا اسے گولی مار دوں لیکن میں مجبور تھی اسلئے صرف خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی تھی.
اسکی باتیں سن کر سفیر نے میرے سر پر بہت محبت سے ہاتھ پھیرا تھا اور میں نے بڑی بے رُخی س اُسکا ہاتھ جھٹک دیا تھا. اسکے باوجود اس نے مجھے بڑی نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی تھی اور زبردستی کھانا بھی کِھلایا تھا. کھانا کھاتے وقت مجھ پر غنودگی طاری ہو گئی تھی اور وہ دونوں مجھے دیکھ کر مسکرا دیئے تھے.. سفیر نے اس عربی کی پیٹ تھپ تھپاتے ہوئے اردو میں کہا تھا…
“نعمان بن سعود… تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں یہ لڑکی اب بِنا گڑبڑ کئے آرام سے تمہارے ساتھ جائیگی.” ذہن تاریک ہوتے ہوئے میں صرف اتنا ہی سُن سکی تھی…
سعودی عرب کے ایک شاندار بنگلہ میں مجھے ہوش آیا تھا مجھے ہوش میں دیکھ کر قریب کھڑی خادمائیں بھاگتی ہوئی گئیں اور اسی عربی جسکا نام نعمان بن سعود ہے ساتھ لیکر آئیں تھیں. وہ جب آیا تو کافی دیر تک مجھے محبت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا تھا اور میں گردن جھکائے لاچاری سے اپنے ہونٹ دانتوں سے کاٹتی رہی تھی. پھر وہ میرے قریب بیٹھ کر آہستہ آہستہ سمجھا نے لگا تھا. اسکی اردو بڑی صاف تھی لہجے میں دھیما پن لیکن انداز تنبیہی تھا. اسنے کہا تھا…..
” دیکھو سنگیتا اب تمہیں اسی محل میں رہنا ہے. یہاں پر تمہاری حیثیت ایک شہزادی جیسی ہوگی بے شمار خادمائیں ہر وقت تمہارے حکم کی منتظر رہیں گی. تمہاری ہر جائز خواہش پوری کی جائے گی. میرے متعلق اپنے دل سے تمام خدشات کو نکال دو میں تمہارے ساتھ کوئی زور و زبردستی نہیں کرونگا. اس محل میں تم بالکل آزاد ہوگی لیکن کبھی بھول سے بھی اس محل سے باہر نکلنے کی کوشش مت کرنا کیونکہ تمہیں اس ملک کی زبان نہیں آتی اور میں نہیں چاہتا کہ تم کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ.”
اُسکی باتوں سے میں سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی.. واقعی اگر میں فرار ہونے کی کوشش بھی کرتی تو کہاں جاتی…. پرایا ملک، انجان زبان، پرائے لوگ کروڑوں کی آبادی والے ملک میں کوئی بھی میرا اپنا نہیں تھا. کئی دنوں تک میں عجیب سی کشمکش میں مبتلا تھی پھر یہ سوچ کر میں نے اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر دیا کہ اگر نعمان بن سعود نے میرے ساتھ کوئی غلط حرکت کرنی چاہی تو میں اپنی جان پر کھیل جاؤنگی.
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور دن و رات بڑے سکون سے گزرتے جا رہے تھے. نعمان بن سعود ہر روز میرے پاس آتا تھا اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا تھا. میری تمام خواہشیں پوری ہو رہی تھیں. عربی سیکھنے کی میری خواہش پر نعمان بن سعود مسکرایا تھا اور اسی دن ایک خاتون کو مجھے عربی سکھانے کے لئے لے آیا تھا.
آج مجھے اس محل میں نعمان بن سعود کے ساتھ رہتے ہوئے آٹھ مہینے کا طویل عرصہ ہو رہا ہے اور میرے دل پر چھائے ہوئے خوف و ڈر کے گھنے بادل کافی حد تک چھٹ چکے ہیں بلکہ ان کی جگہ اب اسکی چاہت اور محبت اپنا گھر بنا رہے ہیں. اسکے حُسنِ سلوک نے مجھے بہت متاثر کیا ہے. اسنے آج تک مجھ پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا ہے اور نہ ہی میرے مذہب پر اعتراض کیا ہے. میں کئی دفعہ یہ سوچ چکی ہوں کہ کس بنیاد پر مجھے خرید کر یہاں لایا ہے. جبکہ عربیوں کے لیے یہ مشہور ہے کہ وہ عورتوں کو اپنی حرم کی زینت بنانے کیلئے خریدتے ہیں. مجھے خادماؤں سے معلوم ہوا ہے کہ اسکی بیوی ایک بچی کو جنم دے کر فوت ہو گئی تھی اور گزشتہ سال کی شروعات میں اسکی لڑکی کا بھی انتقال ہوگیا تھا. لڑکی کی وفات کے بعد سے وہ اداس اداس سا رہنے لگا ہے.
یہ سب جاننے کے بعد میرے دل میں اس کی محبت بڑھ گئی ہے اور میں چاہنے لگی ہوں کہ وہ میرے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرے، میرے ساتھ باغوں میں جائے اور سنسان گوشے میں بیٹھ کر راز و نیاز کی باتیں کرے. جبکہ شروع میں مجھے اس سے بے پناہ نفرت محسوس ہوئی تھی لیکن اب میں خود بخود اسکی طرف مائل ہونے لگی ہوں مگر وہ میرے ان احساسات اور جذبات سے لاپرواہ نظر آتا ہے.
اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے میں قدِ آدم آئینہ کے سامنے کھڑی ہوکر بناؤ سنگھار کر رہی ہوں اور ساتھ ہی اپنا سراپا دیکھتے ہوئے سوچ رہی ہوں….، کیا کمی ہے مجھ میں…! ابھرتا ہوا قد…! کھلتی رنگت…! تیکھے نقوش….! بڑی بڑی کالی آنکھیں..! معصوم چہرہ…! یہ سب تو کسی بھی مرد کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے کافی ہے لیکن نہ جانے کیوں نعمان بن سعود مجھے نظر انداز کر رہا ہے…؟
شام ہورہی ہے. سورج دن بھر اپنا قہر دکھانے کے بعد اب پہاڑ کے پیچھے چھپتا جارہا ہے. محل کے باغ میں پرندوں کا شور بڑھتا جا رہا ہے. کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی ہے جس سے گزر کر فرحت بخش ہوائیں کمرے میں آرہی ہیں. میں کمرے میں کھڑکی کے پاس بن سنور کر کھڑی ہوں اور بار بار گھڑی دیکھ رہی ہوں. نعمان بن سعود کے آنے کا وقت ہورہا ہے اور میری بے چینی بڑھ رہی ہے. اب میں مضطرب ہوکر کمرے سے باہر آکر برآمدے میں ٹہل رہی ہوں. اچانک میری نظر اسکی خواب گاہ پر پڑی ہے اور میں اسے حیرت سے دیکھ رہی ہوں. وہ کُھلی ہوئی ہے جبکہ میں اسے ہمیشہ دن کے وقت بند حالت میں دیکھی ہوں. اسے اندر سے دیکھنے کی خواہش میرے دل میں پیدا ہوئی ہے اور میں بے اختیار اسکے دروازے کی طرف بڑھ گئی ہوں. اندر پہنچ کر میں ایک ایک چیز کو دلچسپی سے دیکھ رہی ہوں. خوابگاہ کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے. مخملی قالین بچھی ہوئی ہے. سامنے کی دیوار پر نایاب تصویریں لٹکی ہوئی ہیں دروازے کے دائیں طرف ایک لمبی الماری ہے جس میں کتابیں رکھی ہوئی ہیں بائیں طرف ایک پلنگ ہے جس پر ریشمی چادر بچھی ہوئی ہے اور دو تکیہ بھی رکھی ہوئی ہے. چھت سے ایک بڑا جھومر لٹک رہا ہے…
میں پلنگ پر بیٹھ کر تکیے کو اپنی گود میں رکھ لی ہوں جہاں سے تکیہ اُٹھائی ہوں وہاں پر کئی میگزین اور ایک گلابی رنگ کی ڈائری رکھی ہوئی ہے میں نے جھجھکتے ہوئے ڈائری کو اُٹھا لیا ہے. ڈائری کھولتے ہی دل کی دھڑکن بڑھ گئی ہے کیونکہ یہ نعمان بن سعود کی ذاتی ڈائری ہے. اِس میں اُسکے روزانہ کے کام لکھے ہوئے ہیں اسکے ذاتی خیالات درج ہیں. میں چور نظروں سے چاروں طرف دیکھنے کے بعد اسے پڑھنے لگی ہوں اور جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہوں میری حیرت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور میں سوچ رہی ہوں……
اپنی حرم میں پچیسوں کنیز رکھنے والا عیاش آدمی مجھ پر مہربان کیوں ہے…..!؟ کیوں میرے ساتھ اتنی شرافت کا برتاؤ کر رہا ہے….!؟ کہیں اسنے میرے خلاف کوئی بڑا منصوبہ تو نہیں بنایا ہے…. ؟؟ اپنے متعلق اُس کے خیالات جاننے کیلئے میں ورق پلٹ رہی ہوں. ایک صفحہ پر اسنے لکھا ہے…
” میں…… بیٹی مصباح فرحین کے انتقال پر چھ مہینہ غمگین و اداس رہنے کے بعد کل پہلی بار ہندوستان گیا تھا تاکہ اپنی حرم کے گلدستے میں لگانے کیلئے تازہ پھول لاسکوں…. آج میں ہندوستان سے واپس آ گیا ہوں لیکن وہاں پر میرے ساتھ ایک عجیب اتفاق ہوا جب نیلامی شروع ہوئی تو ایک لڑکی کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میری نظروں میں اپنی کینسر زدہ بیٹی کا چہرہ گھوم گیا اور میں تڑپ اُٹھا. اسوقت میرے اندر چھپے عیاش آدمی نے مجھ سے بہت بحث کی تھی لیکن جیت مشفق باپ کی حیثیت سے میری ہوئی تھی اور میں نے سب سے زیادہ قیمت دے کر اس لڑکی کو خرید لیا…. اب وہ میرے ساتھ یہاں رہ رہی ہے. میرے اندر اتنی ہمّت نہیں ہے کہ میں اُسے بیٹی کہہ کر پُکار سکوں کیونکہ وہ کبھی اس بات پر یقین نہیں کرے گی. ہماری قوم پوری دنیا میں عورتوں کے معاملے میں اتنی بدنام ہوچکی ہے کہ ہر کوئی ہمیں غلط نظر سے ہی دیکھتا ہے…. ”
حقیقت معلوم ہونے پر میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور میں نعمان بن سعود کو غلط سمجھنے پر اپنے آپ کو کوس رہی ہوں…. ڈائری کی تحریر دھندلی ہورہی ہے اور نعمان بن سعود کا مسکراتا ہوا چہرہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے جسے دیکھ کر میں شکایت بھرے لہجے میں کہہ رہی ہوں….
” نہیں ابو……! ہر عربی ایک جیسے نہیں ہیں….. کاش…!! مجھے آپ نے ایک بار تو بیٹی کہہ دیا ہوتا……”

Published inعالمی افسانہ فورمعبدالرحمن اختر

Be First to Comment

Leave a Reply