Skip to content

چناب کے پار

عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 64
چناب کے پار
سائرہ ممتاز، کراچی ۔ پاکستان

دس جنوری کو انہوں نے بوگن ویلیا کی وہ بیل کاٹ دی جو اب بڑے کمرے کی دیوار پوری ڈھانپ کر بیٹھک کی چھت ٹاپنے جا رہی تھی. یوں اس کی جھاڑ جھنکاڑ کو سنبھالنا مختار بی بی کے بس سے باہر ہوتا جا رہا تھا. اس کی لمبی لمبی شاخیں مولا عباس کے علم سے لپٹ رہی تھیں اور جب مختار بی بی شام ڈھلے وہاں چراغ روشن کرنے جاتی تو بوگن ویلیا کے ساتھ لگے چھوٹے چھوٹے کانٹے اس کے دوپٹے، شلوار یا قمیض میں ننھے ننھے چھید کر دیتے تھے. پھر عین اسی بیل کے نیچے پانی کا کولر رکھا تھا اور پانی پینے والا ہر بندہ سر جھکا کر کھڑا ہوتا اس سے اکتاہٹ بڑھنے لگی تھی. اس پر چھوٹی مکھی کا شہد لگتا جو اکثر اتارنے سے پہلے ہی خراب ہو چکا ہوتا کیونکہ مختار بی بی کے شوہر کو کار زمانہ سے فرصت پاتے ادھر دھیان کرتے کئ کئ ہفتے گزر جاتے پھر اس پر بھور بھی ڈیرہ جما بیٹھتے. آخر کار سر جوڑ کر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اس کلموہی کو کاٹ پھینکا جائے. جب تک ہاڑ جیٹھ آئے گا پھر سے سایہ دار ہو جائے گی. اللہ اللہ خیر سلا.
اس مشورے کے بعد ٹنڈ منڈ شاخیں رہ گئیں. مختار کی بھتیجی جو دس سال بعد انگلینڈ سے واپس آنے والی تھی اس کے استقبال کی تیاریا‍ں شروع کی گئیں بھڑولوں کی صفائی سے لے کر پیٹوں بکسوں تک کو مانجھا گیا اور شیڈ پر سجے برتن تک دھو کر چمکا لئیے گئے. جس صبح اس کے بھائی کی اکلوتی نشانی نے یہاں پہنچنا تھا مختار بی بی کو اپنی جنت مکانی ساس بہت یاد آتی رہی.
آج ہوتی بے بے سردار بی بی تو دیکھتی کہ اس کی بھانجے کی بیٹی آ رہی جس کی راہیں تکتے تکتے اس بہشتن کی آنکھیں وٹا ہوگئ تھیں. جھٹ پل بعد دوپٹے کے کونے سے آنکھیں خشک کرتی پھر ویسے ہی کام کاج میں مصروف ہوجاتی. آنکھیں ہر بار اٹھتیں کہ شاید ابھی گیٹ پر گاڑی رکنے کی آواز آتی ہو لیکن وہ تو لشکارے مارتی دھوپ سے ٹکڑا کر اہرام مصر میں مدفون ممیوں جیسی بے رونقی لیے واپس لوٹ آتیں.

نام تو ان کا شہزاداں بی بی تھا. لیکن طبیعت میں فقر و فاقہ بہت نمایاں تھا کہ جس گھرانے کی گدی نشینی اور وراثت انہوں نے سنبھال رکھی تھی ان کی اولاد کا خاصہ رہا ہے خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانے کا . البتہ مزاج اور تیور جب جلال میں ہوتے تو خالص جاگیردارنی کے روپ میں ڈھل جاتے. ان کو زمین داری سے لے کر عزاداری تک اور گھر داری سے لے کر تعلق داری تک ہر مسئلے کا خیال رہتا. بلکہ شاید وہ ان سب کاجوں کے اندر بستی تھیں. سب بانوے تھا جب اگست کے موسم میں جہلم کی باڑھ ٹوٹ گئ اور ایسا سیلاب آیا کہ تاریخ میں مشہور ہوگیا. بھٹو کی بیٹی کی حکومت کسی ضیائی انقلاب کے پالے نے ختم کر دی تھی اس لیے جشن تازہ تھا جسے مزید نمایاں کرنے کے لیے غریب عوام میں راشن دالیں،. کپڑے لتے خوب بانٹے گئے لیکن اس باڑھ کا پانی شہزاداں بی بی کی حویلی میں دس پندرہ دن کھڑا رہا کہ شہر کی حدود کے شروع میں واقع ہونے کی وجہ سے کہ جہاں سے حد شروع ہوتی وہا‍ں مٹی کا ایک بڑا ٹبہ تھا جو ہمیشہ سیلابی پانیوں کے لیے بند ثابت ہوا کرتا تھا البتہ جو مکان اس سے نیچے بنے تھے وہ ہمیشہ باڑھوں کے نشانے پر رہے. تو اس مرتبہ بھی جہلم کا ملگجا پانی جس میں بے شمار کوڑیالے، پھنیر، قسم قسم کے رینگنے اڑنے اور تیرنے والے حشرات اور جانور بھی آئے تھے. جاٹوں کی بھوری بھینسوں سے لے کر قصائیوں کی بھیڑ بکریاں تک بہتی آئی تھیں، شہزاداں بی بی کے گھر کچھ نہیں تو پندرہ دن تک کھڑا رہا تھا جس نے اترنے میں تو وقت لیا لیکن ان کے اناج بھرے بھڑولوں میں رس گیا. اور پھر گزرتے کئ سالوں تک ان کے گھر کی دیواروں پر اس کے نشان پکے رہے ، اس برس تک جب تک انہوں نے اپنے بڑے پوتے کی شادی نا کردی.
بہت دیر گزری دھوپ ڈھلتے ڈھلتے دیوار کے پار چلی گئ اور یکدم ٹھنڈک بڑھنے لگی تو مختار بی بی کو شاہ حسین کی فکر نے گھیر لیا. وہ تو ماریہ کو لینے لاہور گیا ہوا تھا اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ابھی تک جو نہیں لوٹا تو اس کے لوٹنے میں کچھ ایسا ہے جو مختار بی بی پر گراں گزرنے والا ہے. اس رات نو بجے وہ لوٹا. مختار بی بی چل کر گیٹ کھولنے گئ اور لاک کھولنے سے پہلے ہی اس نے کہا ” اتنے ڈرامے نا کرتا اگر سیدھی طراں کہہ دیتا وہ نہیں آ رہی تو تیرا کیا جاتا تھا.؟ میں نے تجھے شوکت کے ساتھ دیکھ لیا تھا ڈیرے پر جاتے ہوئے” مختار بی بی کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ زبان بھی چلنے لگی تھی. اس نے مفلر گلے سے اتار پھینکا. وہ چپ تھا. خوشی آخری پل تک خوشی رہنی چاہئے وہ یہ بات اس وقت تاویلیں دے کر ماں کو سمجھانا نہیں چاہتا تھا ورنہ اسے چار روز قبل ہی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ نہیں آ رہی. اس نے سیٹ کینسل کروا دی ہے.
ماں نے بیٹے کے چہرے کو دیکھا، پھر دیکھا، پھر دیکھا اور گرم دودھ کا گلاس تپائی پر رکھ کر چلی گئ.
کچھ ادھوری باتیں صاحب حال و صاحب قال کے درمیان بھی ادھوری ہی رہ جاتی ہیں. احساس رکھنے والا سوچتا رہ جاتا ہے کہ بات کا سرا کہاں سے پکڑا جائے اور جس پر بیت رہی ہو وہ اس الجھن میں گْم رہتا ہے کہ کب تک سنایا جائے ان کہی باتیں کب تک دوہرائی جائیں. خاموشی کی بْکل میں بہت سے چور دبکے ہوتے ہیں. رازدان، ہم سفر، ہم جلیس سب اکٹھے ہو بیٹھتے ہیں. احساس اور مروت کے دو پاٹوں کے درمیان الفت پس جاتی ہے. ان کہی باتوں کی بازگشت ہوا میں معلق رہتی ہے.
صبح تڑکے اٹھ کر خلاف مزاج الیکٹرک بیٹر میں لسی بلوتی مختار بی بی کو کچھ نا سوجھا تو بات کرنے کا پھر سے یہی بہانہ ڈھونڈ بیٹھی.
” تو بے بتایا نہیں پتر وہ کیوں نہیں آ رہی”؟
“اماں ماریہ نے پی ایچ ڈی کے جس مضمون پر ریسرچ ورک کرنا تھا اس کے موضوع میں کچھ تبدیلی کی گئ ہے اس لیے اب اس کا کام کچھ لمبا ہوگیا ہے اب وہ چار پانچ ماہ بعد ہی آئے گی ”
مختار بی بی کو انگریزی کے استاد کا پتا تھا جنہوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد گریجویشن کے طالب علموں کو ٹیوشن دیتے تھے. اس نے پوچھا” پروفیسر ریاض کی طرح پڑھائے گی وہ؟ ”
” نہیں اماں انہوں نے انگریزی میں پی ایچ ڈی کی تھی،. ماریہ جیولوجی میں کر رہی ہے.”
“کس میں کر رہی ہے؟ ” مختار کے سر پر سے گزر گیا
“اماں زمین پر کر رہی ہے. زمین مٹی پہاڑ پتھر، پاتال ان سب پر ریسرچ کرے گی” شاہ حسین نے جھلا کر کہا. اندر جاری کشمکش سکوت تلاش کر رہی تھی. جھلاہٹ بڑھ گئ
” پتر یہ تو بڑی چوکھی بات ہے. یوں کہو نا اپنی بنیاد کھوج رہی ہے. مٹی انسان کا اصل ہے اسی سے انسان بنا ہے اور مٹی اوڑھ کر ہی سو جائے گا. دنیا میں ہر ذی روح کی اصل مٹی ہی تو ہے. لیکن تو کیوں جھنجھلا رہا ہے؟”
“کچھ نہیں اماں ، اس نے راوی، بیاس، جہلم اور چناب کے بارے میں کچھ مواد اکٹھا کرنا تھا وہاں جا کر دیکھنا تھا تو میں نے سوچا اس کے آنے سے پہلے ایک چکر چناب کا لگاتا آؤں، پر اماں وہاں تو دریا ہی نہیں ہے ”
” تو اپنی دنیا میں گم رہتا ہے بچے! تجھے کیا پتا تمہاری نسل کو تو ان باتوں سے ان چیزوں سے اپنے مآخذ سے پیار ہی. نہیں ہے چناں کے سوتے تو کب کے خشک پڑے ہیں. دریا اترتے چڑھتے رہتے ہیں اس میں کیا پریشانی” وہ اب پراٹھوں کو بل دے رہی تھی
اماں بات یہ بھی نہیں ہے پھر اس کے کام کا سوچ کر ہی مجھے دلچسپی ہوئی میں نے اخبار اور انٹرنیٹ کھنگالا تو معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنا ساڑ نکالا ہے، چناب کے سوتے خود ہی خشک نہیں ہوئے..”
شاہ حسین، تجھے پتا ہے پانی کو پانی کاٹتا ہے جیسے زہر کو زہر کاٹتا ہے ناں! بالکل ویسے لیکن پیاس کی کاٹ کسی کے پاس نہیں ہے.. تو چھوڑ ان باتوں کو مجھے پانی سے یاد آیا تو ایسا کر جا ماسی شہزاداں کے گھر اور بے بے سے پانی دم کروا لا میں نے ان سے ذکر کیا تھا انار کا پودا سوکھ گیا ہے وہ یسین دم کر کے دیں گی تو ہرا ہو جائے گا.
شاہ حسین کے حلق میں نوالہ پھنس گیا.. ” ماں زمانہ دیکھ اور اپنی باتیں دیکھ! پودوں کو مٹی پانی اور کھاد کی ضرورت ہوتی ہے تیرے دم درود سے پودے ہرے نہیں ہوتے نا تعویذ گنڈوں سے پھل لگتا ہے تم بھی حد کرتی ہو”
“وے میرے آگے زبان نا چلا. چپ کر کے وہ کر جو تجھے کہہ رہی ہوں اب تم لوگوں کے پاس یہ موئے موبائل اور نیٹ کیا آگئے ہیں تم لوگ خدا رسول کے ہی منکر ہوگئے ہو. تجھے معلوم بھی بے بے ماسی شہزاداں کی بیٹی ہے ان کی زبان میں جو تاثیر ہے تجھے اس کا کیا پتا. سوکھے ہرے ہوجاتے ہیں ، کوکھ اجڑیاں گابھنیں ہو جاتی ہیں، اور بد بختے. ہدایت یافتہ ہوجاتے ہیں ”
شاہ حسین جو پہلے ہی بیزار ہو چکا تھا اس نے چپ کر کے پانی دم کرا لانے میں ہی عافیت جانی اب کوئی کتنی بحث کرے معجزات کی دنیا کے باسیوں سے.
ان کہی باتیں جو دلوں کے اندر ہوتی ہیں ان کے بیج بہت جلدی پھوٹ نکلتے ہیں. ان کی ہریاول زیادہ خوشنما ہوتی ہے اور ان پر لگے پھولوں اور پھلوں سے خوشبو نکل کر زیادہ دور دور تک پھیل جاتی ہے. شاہ حسین کے دل میں بھی ایک ان کہی کا پودا اگ آیا تھا. اسے چناب، ستلج، راوی اور بیاس اچھے لگنے لگے تھے لیکن جب یہ ہوا تو ستم یہ تھا کہ ان سب کے پاس شاہ حسین کو دینے کے لیے کچھ بچا نہیں تھا.
وہ پانی دم کرا لایا تھا اور مختار بی بی کا چہرہ وفور جذبات سے کھلا پڑتا تھا اب تو دیکھنا انار پر کیسے سرخی چھاتی ہے، میں تیری ووہٹی کے لیے اناری رنگ کا سوٹ بنواؤں گی حسینا، مجھے یہ رنگ بہت اچھا لگتا ہے.
اندر اندر سے اسے اپنی ماں کی باتیں اچھی لگتی تھیں جو زمانے کی جدت سے خائف تھی اور پرانی باتیں پرانے لوگ اور پرانے قصے اس کی زبان پر ہر وقت ہوتے تھے جنھیں وہ دہراتے تو نہیں تھکتی تھی لیکن کسی کسی وقت شاہ حسین اکتا سا جاتا تھا. اس نے پوچھا ” اماں کل وہ جو تو بتا رہی تھی کہ دادی جی کے گھر سیلاب کا پانی کتنے ہی دن رکا رہا تھا وہ بات درمیان میں رہ گئ تھی.” خوشی کا ایک جلترنگ مختار بی بی کے گالوں سے پھوٹ نکلا پہلی بار حسین نے کسی بات میں اتنی دلچسپی لی تھی.
ہاں بیٹے میں صدقے ابھی سناتی ہوں وہ قصہ بھی. بانوے سن کی بات ہے جب تو بہت چھوٹا سا تھا تیری دادی ماسی شہزاداں کی قریبی سہیلی تھی وہ بتاتی ہے کہ ماسی ہر روز اپنے ڈیرے کی طرف کے کواڑ کھول کر کھڑی ہوجاتی اور صدا دیتی رہتی خواجہ خضر جی تسی آ رہے او؟ گھر والے کہتے کہ ابھی تک تو نا بارشیں ہوئی ہیں نا ہی انڈیا کی طرف سے پانی کھولنے کی ٹی وی پر خبر آئی ہے نا اخبار میں، تو ماسی روز خواجہ خضر کو صدائیں دیتی رہتیں تھی‍ں تیسرے چوتھے روز ابھی وہ آواز لگا کر مڑی ہی تھیں کہ پیچھے گیٹ سے سیلاب اندر آ گیا تھا پتر! یہ بزرگوں کی معرفت اور باطنی آنکھ کھلنے کی باتیں ہیں.
ادھوری باتوں کی بازگشت، مٹی پانی اور ہوا کے ساتھ مل کر صدیوں تک زندہ رہتی ہے. گم ہو چکے زمانوں کے خزانے ہوائیں اپنے ساتھ ساتھ اڑائے ہھرتی ہیں ان کے زر دانے جہاں جہاں گریں وہاں کی بوقلمونی بڑھ جاتی ہے نفوس ادراک کی وسعتیں پھلانگ کر بسیط خلاء میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں.
وہ تو ابھی نہیں آئی تھی لیکن ماگھ مہینے کہ شیت لہر شاہ حسین کو بوکھلائے پھرتی تھی. کبھی کسی در تو کبھی کسی در، پانی کی کہانی اس کے دل میں اتر کر گہرا گھاؤ کر چکی تھی. ایک دن وہ جہلم کے در پر جا پہنچا. اس کے ذہن میں کناروں تک بھرے چوڑے پاٹ والے جیسے چوڑے شانوں والا گھبرو ہوتا ہے ایسے دریا کی تصویر نقش تھی. جہا‍ں وہ اماں کے ساتھ بچپن میں جایا کرتا تھا. لیکن یہ تو ریت اور خاک کے گڑھے سینے میں سجائے ایک بوڑھا تھا جو مدقوق سی ہنسی ہنس رہا تھا شاید جاتے سمے سبھی ایسے ہنستے ہوں اس کے سینے میں سانس گھٹنے لگی تھی..
چیت آتے تک اناروں کے شگوفے کھل اٹھے تھے اور بوگن ویلیا کی ہریاول پہلے سے کہیں دوگنی ہو چکی تھی. اس نے بہت دنوں بعد سر اٹھا کر بہار کی خنکی محسوس کی. مختار بی بی نے فخر سے آنکھیں چمکا کر کہا، دیکھا پتر میں نے کہا تھا نا بزرگوں کی سانسیں بھی برکت والی ہوتی ہیں. پانی پر پھونک ماریں تو اناری رنگ دہکا دیتے ہیں. شاہ حسین پر کرب ترازو ہوگیا تھا. اماں میں اکثر چناب اور جہلم سے ملنے جاتا ہوں پانی سے باتیں کرتا ہوں ایک دن سوچا کہ کیوں ناں بے بے سے ان دریاؤں کے ہرا ہونے واسطے کچھ دم کروا لاؤں. مختار بی بی دم بخود اپنے جھلے ہوجانے والے بیٹے کی باتیں سن رہی تھی.
اماں میں جیسے ہی ڈیرے سے اندر داخل ہوا تو مجھے لگا دادی شہزاداں کواڑ کے پیچھے کھڑی ہو کر خواجہ خضر کو آواز دے رہی ہوں جیسے تو نے بتایا تھا نا کہ انھیں مرتے دم تک ہر سال کانگ آنے کا خطرہ رہتا تھا اور وہ اپنے بھڑولوں کی فکر میں ہلکان رہتی تھیں، جنھیں جہلم کے پانی نے نم دار کردیا تھا…
ہاں پتر، مختار نے آنکھوں کی تراوٹ کے پیچھے سے شاہ حسین کو دیکھ کر کہا. تو اماں میں نے دادی کو محسوس کیا انھیں کھڑے دیکھا تو مجھ سے رہا نہیں گیا میں ان کے گھر میں داخل ہوگیا اور کہا کہ دادی جی، جہلم تو مر گیا ہے اس کی کوکھ میں پانی ہی نہیں ہے آپ خواجہ خضر کو تکلیف نا دیں اب سیلاب نہیں آئے گا…
جو پتے ہرے کر سکتا ہے جو انار دانوں میں رس بھر سکتا ہے وہ پانیوں کو موڑنے پر بھی قدرت رکھتا ہے. لیکن اب وہ لوگ نہیں رہے جو سیلاب کا انتظار کرتے ہوں یا مدد کے لیے خواجہ خضر کو صدائیں دیتے ہوں

Published inسائرہ ممتازعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply