عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر ۔ 2
چاند گرہن کے بعد
ترنم جہاں شبنم، نئی دہلی، انڈیا
’’نور ۔۔اُو نور۔۔۔ ‘‘ اسے پکارتی وہی مدھر سریلی آواز کانوں میں گونجی ۔ گھبرا کے اس نے چاروں طرف دیکھا مگر دور تک وہی تنہائی اور ویرانی کا راج ۔۔۔۔ اس ویرانے میں جہاں آج کل اس کا سایہ بھی اس سے خوفزدہ ہے۔ اس کا پیچھا کرتی اسے پکارتی یہ آواز کہاں سے چلی آئی ہے؟ یہ آواز جسے وہ برسوں سے سنتی آئی ہے کس کی ہے، کہاں سے آتی ہے؟ اسے نہیں معلوم۔ مگر یہ جب بھی آتی اسے بے چین کر جاتی ۔ کبھی اسے ایسا بھی لگتا کہ جیسے یہ آواز کہیں اس کے اندر سے ہی آتی ہے۔ گھبرا کے وہ اسے خود میں تلاش کرتی۔
’’نور۔۔اُو نور ۔۔‘‘ کی گونج کے ساتھ ہی وہ پھر سے ادھر اُدھر دیکھنے لگتی ۔ نجانے کب سے وہ اس آواز کے صحرا میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ ایک عرصے سے اس نے یہ آواز نہیں سنی تھی مگر آج اچانک برسوں بعد اسے بے چین کرتی یہ آواز پھر سے کانوں میں گونجی۔ اب جبکہ وہ اپنی زندگی کی سیاہی اور تنہائی کے درمیان گھری ہے۔ ایسے میں اس کا تعاقب کرتی یہ آواز کہاں سے چلی آئی ہے؟ جہاں اب اس کے پاس زندگی کی وحشتوں کے سوا کچھ نہیں، ہاں اگر کچھ ہے تو وہ ہے اس کے احساس میں پلتا ایک آس کا پرندہ، جو اسے نا اُمید نہیں ہونے دیتا۔ اُف کتنے خوفناک ہیں اس کے یہ دن و رات ۔ جہاں نہ دن چہکتے ہیں اور نہ راتیں مہکتی ہیں ۔ دن کا شور کان کے پردے پھاڑتا ہے تو راتیں خاموش چیختی رہتی ہیں۔ کسی چاند گرہن والی رات کی طرح جس میں کبھی خوفناک تاریکی کا راج ہوتا ہے تو کبھی بے نور چاند کی چاندنی اپنا رنگ دکھاتی ہے ۔ تب اس گرہن والی رات میں غم کے ٹوٹے پہاڑ کے ملبے پہ گھسٹتی ہوئی وہ اپنی سفید دبیز رِدا میں بچوں کو سنبھالے اپنی تنہائی اور بے سائبانی سے جب خوفزدہ ہوتی ہے تو اپنی نگاہیں اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر خدائے برتر سے رحم، رحم، رحم کی پکار لگاتی ہے، کہ کہیں سے وہ آس کا پرندہ اس کی مدد کے لئے آ جائے جو اسے رحیم و کریم کی عظمتوں کا احساس کرانے والا ہے۔ جو اس کے احساس میں تو کہیں ہے مگر آنکھوں سے اوجھل ہے۔
’’نور۔۔ اُو نور۔۔۔‘‘ من موہنی آواز پھر کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے تڑپ کے آواز کی سمت دیکھا مگر دور تک وہ ہی پہلے جیسا سناٹا جس میں خوف کے کالے سائے اپنی وحشتوں کے ساتھ مٹر گشتی کر رہے تھے۔ پر اُمید نگاہوں سے وہ آسمان کو تکتی رہی۔ اچانک رات کی تاریکی میں بے نور چاند کی چاندنی کے اس پار سے رات کی خاموش چیخوں کو چیرتی ہوئی اُمید کی چادر اُوڑھے نور کی ایک کرن اسے اپنی طرف آتی دکھائی دی ۔ اسے لگا جیسے اس کی پکار ساتویں آسمان تک سن لی گئی ہو۔ لمحہ لمحہ نزدیک بہت نزدیک آتی وہ نور کی کرن اس تک آتے آتے سفید براق لباس میں ملبوس فرشتے کا روپ دھارن کر لیتی ہے ۔ جو اس کے بہت قریب پہنچ کر اپنے دونوں بازو پھیلا کر اسے اور بچوں کو اپنے باہوں میں سمیٹ لیتا ہے ۔ بازوٗں کے ساتھ پھیلی اس کی چادر کے حصار میں آتے ہی وہ اور بچے کچھ نئے کچھ پرانے ،ملے جلے احساس سے اچھل پڑتے ہیں۔ کسی سے بچھڑ کر ملنے جیسا احساس، خود سے خود کی ملاقات جیسا احساس اس کی روح تک کو سیراب کر جاتا ہے۔
’’نور۔۔ اُو نور۔۔۔‘‘ اس کی سماعتوں میں رسیلی آواز پھر رس گھولتی ہے اور وہ اس آواز پر چونک پڑتی ہے۔
’’تم! کون ہو تم۔۔؟‘‘
’’تم نے مجھے نہیں پہچانا نور۔۔؟ میں تو نجانے کب سے تمہیں پکارتا آیا ہوں، میں ہی تو تمہارا لاشعور اور تمہاری آس کا پرندہ ہوں ۔ سنو نور! اب تم خود کو تنہا مت سمجھنا، میں ہر قدم پہ تمہارے ساتھ ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے اور بچوں کے تحفظ کے کئے بھیجا ہے۔ میں تمہارا محافظ ، ر ہبر اور سرپرست بن کے آیا ہوں، تمہاری بے رنگ زندگی میں حیات کے خوش رنگ بھرنے آیا ہوں۔ یوں تو میں ہمیشہ سے تمہارے احساس میں رہا مگر برجستہ میری یہ تم سے پہلی ملاقات ہے ۔ ‘‘
نظر اٹھا کر اس نے مدھر ، سریلی، رسیلی اور من مو ہنی آواز والے اس فرشتے کی طرف دیکھا شناسائی کی چمک اس کی آنکھوں میں بھی پھیل گئی۔ فرشتے کا روپ دھارن کئے اس کی آس کا پرندہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہی جو اس کے احساس میں پلتا آیا تھا جس کی اسے تلاش تھی۔ تو کیا یہ آواز اسی کی تھی؟ جو کہیں اس کے اپنے اندر سے ہی آتی تھی؟
’’ارے تم! تمہاری تلاش میں تو میں کب سے بھٹک رہی ہوں کہاں کہاں تلاش نہیں کیا ہے میں نے تمہیں ۔ کبھی تمہاری تلاش میں تاج محل کے ایک مینار سے دوسری مینار تک گئی ہوں تو کبھی مسجد اور درگاہوں میں تمہیں ڈھونڈا ہے ۔ اے میرے احساس کے پھول ، میرے دل کے سکون اب تک کہاں تھے تم۔۔۔؟‘‘
اس کی بات پر فرشتہ روپی آس کے پرندہ نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ایک محبت بھری نگاہ ان سب پر ڈ الی اور ایک بار پھر انہیں اپنے آغوش میں لے لیا۔ وہ سب اس کی محبت پر نثار ہوتے گئے۔
’’سنو فرشتے ! تمہیں معلوم ہے ایک بیوہ کے لئے چار مہینے کچھ دن کا عرصہ چار صدیوں سے بڑا ہوتا ہے۔ غم کالے ناگ کی طرح کمر سے لپٹ جاتا ہے نہ مارتا ہے اور نہ مرنے دیتا ہے ۔ ‘‘
فرشتے کی محبت نے کچھ حوصلہ دیا تو اس نے اپنے غم کی رُوداد سنانی شروع کی۔
’’ دیکھو فرشتے! ان یتیم بچوں کی معصوم اور اُداس شکلیں، جو مجھ پہ قہر ڈھاتی ہیں اور اس پر ان کی وہ چیخیں جب اپنے باپ کے مردہ جسم چھو کر یہ چلاّئے تھے ، ’’اب ہمارا کیا ہوگا ۔‘‘ ان چیخوں کی گونج ہر وقت میرے کانوں میں تڑپتی ہیں۔ او ر اب ان کی ذمہ داریاں مجھے بے چین کئے ہوئے ہیں ۔ میں نے تو اپنی زندگی میں بہت سے خوبصورت رنگ دیکھے ہیں مگر اب ان بچوں کے روشن مستقبل کو لے کر پریشان ہوں۔ ڈرتی ہوں کہ زمانے کی روش کہیں انہیں بھٹکا نہ دے ۔ کبھی سوچتی ہوں کیا میں ان ذمہ داریوں کو ٹھیک سے نبھا بھی پاوٗں گی؟ تو گھبرا جاتی ہوں بڑی سخت اور دشوار کن نظر آتی ہے یہ زندگی مجھے ۔ کن کن مصیبتوں کا ذکر کروں اے فرشتے؟ گھبرا کے آسمان کی طرف دیکھنے لگتی ہوں کہ شاید وہاں سے میرے لئے کوئی غیبی مدد آ جائے۔ اللہ تعالیٰ سے بھی میرا دکھ دیکھا نہیں گیا تب ہی تو انہوں نے تمہیں میری مدد کے لئے بھیجا ہے ۔ تمہیں معلوم نہیں فرشتے اسے بھی یہ لوگ بیوہ کے ارمان کا نام دیتے ہیں ۔ وہ لوگ کیا جانے بے سائبانی اور بے سروسامانی کے بیچ کا خوف کیا ہوتا ہے؟ جو ہرقت ہمیں ڈستا رہتا ہے۔ بولو فی! کیا بچوں کے روشن مستقبل کی تعمیر میں میرا ساتھ دوں گے؟ ‘‘
اس بار فرشتے کو پیار سے ‘فی’ پکارتے ہوئے اس نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا ۔ اس کی بات پہ فرشتے نے ایک مست نگاہ ان سب پر ڈال کر اپنی بانہیں ایک بار پھر پھیلا کر ان سب کو اس میں سمیٹتے ہوئے خمار سے آنکھیں موند لیں۔ ملن نے ا س قدر مدہوش کیا کہ ایک دوسرے میں کھوئے انہیں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔
’’فرشتے ! یہ کیسا شور ہے؟ ‘‘
چیختے چلاتے بوئے ،جوانوں، مردوں، عورتوں اور بچوں کے شور نے انہیں جاگنے پر مجبور کیا۔ شور سے بے چین ہو کر دونوں ہاتھ دونوں کانوں پر رکھتے ہوئے وہ گھُٹ کے چلاّئی۔
’’ بتاؤ نا فرشتے! یہ کیسا شور ہے؟ جو کان پھاڑتے دن کے شور سے اور خاموش چیختی رات کے شور سے زیادہ خوفناک ہے ۔‘‘
گھبرا کے اس نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں بچوں کو اور خود کو فرشتے کے ساتھ ایک چوراہے کے بیچ وبیچ کھڑا پایا۔ چوراہے سے ہو کر گزرنے والی چار سڑکوں میں سے ایک سڑک کے کنارے کچھ دانشور لوگوں کا مجمع تھا جس میں صوفی ،فلسفی، شاعر اور ادیب وغیرہ سبھی شامل تھے جو فرشتے کو بہت ادب و احترام کے ساتھ خوش کن اور خاموش نظروں سے اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہے تھے ۔ فرشتہ کی آنکھوں میں بھی انہیں دیکھ کر نور کی شعاعِ روشن ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے فرشتے سے ان کا بہت پرانا اور گہرا رشتہ ہو۔ چوراہے سے گزرنے والی دوسری سڑک پر کچھ مجبور اور ضرورت مند لوگ تھے جو اپنے غم اور ضرورتوں کا بوجھ ڈھوتے ہوئے زندگی کی اس جدوجہد میں خود کو بھی بھول چکے تھے۔ تیسری سڑک پہ چیختے چلاتے بوڑھے، جوان مرد ،عورت اور بچے تھے جن کے شور سے اس کے کان کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ چوراہے سے جانے والی چوتھی سڑک سنسان تھی جس پر دور تک کسی کا پتہ نہ تھا مگر صاف شفّاف اور پر نور تھی۔
”بولو فرشتے ! یہ سب کون لوگ ہیں؟ اور یہ کیوں شور کر رہے ہیں ؟‘‘ جواب میں فرشتہ ابھی بھی خاموش اور کچھ فکرمند سا تھا ۔
’’بولو نہ فرشتے بولو ۔ ‘‘
اس کے بار بار اصرار کرنے پر فرشتے نے آہستہ سے لب کھولے۔
’’سنو نور ! تم بہت بھولی ہو ۔ اور میں اس بات کو لے کر ہی فکرمند ہوں کیونکہ تم جس دنیا میں رہتی ہو وہ دنیا انسانوں کی ہے، جہاں غموں کے ساتھ رہتے ہوئے انسان کو اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں ہمّت ہار کے تم کیسے زندگی گزارو گی؟ وہ دیکھو سامنے جو دانشور حضرات نظر آ رہے ہیں وہ ہمیشہ سے ایسے ہی خوش خرم نہیں تھے۔ بہت سی محرومیوں کے ساتھ محنت مشقّت کرکے وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔ غم اور محرومی کے آگے انہوں نے کبھی ہمّت نہیں ہاری، محنت سے نہیں بھاگے۔ دوسرے طرف سامنے وہ جو لوگ ہیں جو اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کو جٹانے میں کولہو کے بیل کی طرح جٹے ہوئے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے تمہاری دنیا میں سب سے زیادہ استحصال ان ہی لوگوں کا ہو تا ہے اور یہ معصوم اس بات سے واقف بھی نہیں۔ میں ان لوگوں کی طرف سے بہت غم زدہ اور فکرمند ہوں ، اگر تمہیں اپنا غم بڑا لگتا ہے تو چلو میرے ساتھ ان کی بستی میں کچھ اپنا کچھ ان کا غم بٹاؤ۔ تیسرے شور کرتے وہ لوگ ہیں جن کے شور سے تم پریشان ہو، وہ بوڑھے ،جوان ، مرد ، عورت اور بچے ۔ تمہیں معلوم ہے کون ہیں وہ؟ نہیں معلوم نا۔ سنو وہ تمہاری دنیا کا سیاسی نظام اور ٹوٹا پھوٹا سماج ہیں وہ ۔ جو ہمیشہ سے بس شور کرتا آیا ہے جو صرف اپنے مفاد کو سمجھتا ہے۔ اور اس وقت وہ مجھے اور تمہیں ساتھ دیکھ کر پریشان ہیں ۔ اس لئے وہ شور کر رہے ہیں ۔‘‘
’’لیکن کیوں فرشتے ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘
“مجھ میں ان کا بہت کچھ بگاڑنے کی طاقت ہے ۔ اس لئے سب سے بڑا خطرہ انہیں مجھ سے ہے ۔ ان کو کرارہ جواب دینے والوں میں صرف میں ہوں۔ اب انہیں یہ خوف ہے کہ استحصال کا شکار ان لوگوں کی طرف سے میں تمہیں ان کے خلاف کھڑا نہ کر دوں یا دانشوروں کی صف میں نہ پہنچا دوں کیونکہ دونوں صورت میں جیت میری ہے۔ میں تمھارا رہبر اورسرپرست بن کر آیا ہوں۔ راہ دکھانا میرا کام ہے راستہ چُننا تمہارا کام۔ میں ہمیشہ سے تمہارے ساتھ تھا، ساتھ ہوں اور ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔
بتاوٗ نور ! تمہیں اپنے غموں کے ساتھ یونہی روتے رہنا ہے یا میرے ساتھ ایک نئی دنیا کی تلاش کرنی ہے؟ صاف شفّاف پر نور راہیں تمہاری منتظر ہیں۔ جہاں سکون ہی سکون ہے۔ بولو! نور۔ ۔ ۔اُو ۔ ۔ نور ۔ ۔‘‘ کی گونج پہ اس نے ایک بار پھرسے آسمان کی طرف دیکھا ۔ جہاں گرہن کے بعد چاند پہلے سے زیادہ روشن اور پر نور تھا