افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیشہ ور رقص کرنے والا
زہرا تنویر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاہور پاکستان
کمرے میں مدھم موسیقی کے ساتھ ساتھ ایک بےچین روح خود آزاد پنچھی کی مانند اڑ رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کے ہوش و حواس جواب دینے لگتے، خود پر اختیار کھونے لگتا۔ بچپن میں سب اس کا مورنی سا ناچ دیکھ کر سراہتے اور لطف اندوز ہوتے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ناچ اس کی ذات کا حصہ بنتا گیا۔ جب تک وہ دن میں ایک دفعہ اپنا نشہ پورا نہ کرتا اس کو اپنا آپ ادھورا لگنے لگتا۔
نشہ کی لت بھی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ یہی حال نعمان عرف نومی کا تھا۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی گھر والوں کی سختی کا سامنا کرنا پڑا حالاں کہ وہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ لیکن اس کے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے کا انداز دوسروں کو فورا اپنی جانب متوجہ کرتا۔ نازک اندامی اس کی شخصیت کا خاصا تھی وہ اپنی اس خوبی یا خامی کو چاہ کر بھی بدلنے سے قاصر رہا۔ نومی کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے بھائی نے اس کے ہاتھ گٹار تھمائی تاکہ اس کی توجہ رقص سے ہٹائی جا سکے۔ لیکن نومی کی نہ تو گٹار سے دوستی ہو سکی نہ ہی اس طرح کے کسی اور فن سے۔ ایک وہ فن تھا جس سے اس نے نہیں بلکہ فن نے اس سے خود دوستی کی تھی۔ بغیر کسی محنت کے وہ اتنا کمال کا رقص کرتا کہ دیکھنے والے متحیر ہو جاتے۔
والدین نے شہر کے سب سے اچھے آرٹ کالج میں داخلہ بھی اس لیے دلوایا کہ اس شوق کے متبادل آرٹ سے وابستہ شعبے کا انتخاب کر سکے۔ وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ متبادل چیزیں اور رستے بہت کم لوگوں کو راس آتے ہیں۔ نومی کہ تو بات ہی الگ تھی جہاں سر تال چھڑتے وہیں اس کا وجود خودبخود جھومنے لگتا۔ کالج میں اس کے فن کو کافی سراہا گیا بلکہ رقص کے شوقین لڑکے لڑکیاں اس سے سیکھنے بھی لگے۔ متبادل آرٹ کہیں گم ہو کر بس پڑھائی کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ہمیشہ سے شوق و لگن جیتتے آ رہے تھے یہاں بھی جیت ان کی ہوئی۔ گھر والے ہار مان کر خاموش ہو گئے۔ محلے والے ہنسی مذاق اڑاتے۔ طرح طرح کی باتیں کرتے۔ بس کالج کی حدود تک قدر کی نگاہیں تھی باہر اس کی چال اور حرکات و سکنات کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا۔ جس کی نومی کو چنداں پرواہ نہ تھی، وہ اپنے حال میں مست رہ کر جینے والے لوگوں میں سے تھا۔ جو کسی کا برا نہیں چاہتے اور پیار کے دو بول بولنے والوں کے قدردان ہوتے ہیں۔
کالج کی لڑکیاں کوئی اسپیشل ایونٹ ہوتا تو اس سے ہی رقص سیکھتیں۔ جن میں ایک ماہا بھی تھی جس کا خواب کلاسیکل تھیٹر میں اپنے فن کا لوہا منوانا تھا۔ نومی کے دوستانہ مزاج کی وجہ سے ماہا نے دوستی کو مزید مضبوط کیا شاید اس کے پیچھے اس کی کوئی غرض چھپی تھی یا پھر مفاد۔ کیونکہ ماہا کسی ڈانس اکیڈمی کی بھاری بھر کم فیس بھرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اور نومی اپنے دوستوں کے لیے بغیر کسی معاوضے کے ہر وقت اپنا فن سکھانے کو تیار ہوتا۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے کالج کے بعد کبھی کسی اکیڈمی میں خدمات انجام دیتے گزرنے لگا کبھی پرائیویٹ ایونٹس کے لیے۔ نومی کو لگا وہ کسی اور پیشے میں نہ تو نام کما سکتا ہے اور نہ ہی پیسہ لہذا عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے اپنی ڈانس اکیڈمی بنا لی۔ جو بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ نومی کی کمائی سے گھر والے بھی بہت خوش تھے اب ان کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ لڑکا رقص کرتا ہے بلکہ اب تو وہ اپنی اکیڈمی چلانے لگا تھا اور اچھا خاصا کمانے لگ پڑا تھا۔ نومی سے بڑے تینوں بہن بھائیوں کی شادی ہو گئی تو اس کی باری پر ماں نے نومی سے اس کی پسند ناپسند پوچھی۔
“اماں فی الحال تو ایسی کوئی بات نہیں، نہ ہی کبھی اس طرف دھیان گیا”۔
“اچھا! میں سمجھی شاید کوئی پسند ہو تمہارا اتنی لڑکیوں سے ملنا جلنا جو ہے”۔ اماں بغیر کسی لگی پٹی کے بولیں۔
“لڑکیوں سے ملنے جلنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں لڑکیاں پسند کرنے کے لیے تاڑتا رہتا ہوں، کام تو کام ہوتا ہے ماں۔۔۔۔۔ آپ یہ کام خود کر لیں”۔ نومی لڑکی ڈھونڈنے کا ذمہ اماں کو تھماتے ہوئے بولا۔
اماں نے اپنے آس پاس اور رشتے داروں میں نظر دوڑائی۔ وہی سب لوگ جو نومی کو اور اس کے رقص اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ اماں نے سوچا اب تو نومی اتنا کماتا ہے پیسے میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ کیا پتا لوگوں کی نومی کے متعلق سوچ بدل گئی ہو۔ لیکن ہر جگہ سے منہ کی کھانی پڑی۔ جہاں بھی بات چلانے کی کوشش کی لوگوں کے منہ کے زاویے دیکھنے کے قابل تھے۔ اماں رشتے داروں اور جاننے والوں سے مایوس ہو کر رشتہ کروانے والی کو بلا بھیجا۔ کبھی اماں کو لڑکی پسند نہ آتی تو لڑکی والے ان کی طرف آنے سے محروم رہتے۔ شومئی قسمت سے اگر کوئی لڑکی اماں کے معیار پر پورا اترتی تو گھر آنے کی دعوت دے آتیں۔ لڑکی والوں کو ہمیشہ یہی بتایا جاتا کہ لڑکا آرٹسٹ ہے۔ جب وہ لوگ لڑکا دیکھنے آتے تو بات آگے نہ بڑھ پاتی۔ کافی سال یہ سلسلہ چلتا رہا آخر اماں تنگ آ گئیں اور بیٹے سے کہا وہ خود ہی اپنی دلہن ڈھونڈے اور ڈھونڈ کر بتا دے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ جو بھی ہوئی جیسی بھی ہوئی قبول ہو گی۔ نومی نے بہت سوچ بیچار کے بعد ماہا کو پرپوز کرنے کا سوچا اور اس کو کال کی۔
“ماہا! اتنا عرصہ ہو گیا ملاقات نہیں ہو سکی۔۔۔۔ کل سنڈے ہے فری ہو تو لنچ پر آ جانا”۔
“سوری نومی! میں مصروف ہوں شوٹ چل رہا ہے جیسے ہی کام ہوتا ہے ملتے ہیں۔۔۔ ویسے خیریت کوئی خاص بات ہے”۔ ماہا نے پوچھا۔
“ہاں خیریت ہے بس اماں کو میری شادی کی بہت فکر ہے اس حوالے سے بات کرنی تھی میرے ذہن میں تمہارا نام آیا”۔ نومی نے جس بات کے لیے ماہا سے ملنا تھا وہ کال پر ہی بتانے لگا۔
“میرا نام وہ کیوں”؟ ماہا نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“وہ ماہا مجھے لگتا ہے ہمارا پروفیشن ہے اگر تم چاہو تو ہم دونوں زندگی بھر کے ساتھی بن سکتے ہیں”۔ نومی نے ہمت کر کے دل کی بات کہہ دی۔
“یہ تم کیا کہہ رہے ہو نومی؟ میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا ہم بس اچھے دوست ہیں”۔
“سوچا تو میں نے بھی نہیں تھا لیکن مجھے لگتا ہے ہم ایک ساتھ اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔۔۔۔ اگر تمہیں برا لگا تو سوری۔ نومی معذرت کرنے لگا۔
“معذرت کی ضرورت نہیں نومی تم ایک اچھے اور مخلص دوست ہو لیکن میں ایک پیشہ ور رقص کرنے والے سے شادی کا کبھی سوچا نہیں۔