Skip to content

پیار

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 128
پیار
نشاط پروین
پیار ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو کمزور کر دیتا ہے۔اسے بے بس اور مجبور کر دیتا ہے۔جب انسان کسی کے پیار میں دیوانہ ہو جاتا ہے تو اسے کسی کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ اسے اچھے برے اور صحیح غلط کی تمیز نہیں ہوتی۔وہ اپنے آپا کھو بیٹھتا ہے ۔ پھر اسے اپنا خیال رہتا ہے نہ اپنے گھر والوں کا۔اسے کسی بات کی فکر نہیں رہتی ۔اسے بس ایک ہی فکر ستاتی ہے کہ وہ جس سے پیار کرتا ہے وہ اس کا ہو جائے۔اور پھر وہ اسے پانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔اور یہی سب کچھ ہوا صنوبر کے بیٹے شاہدکے ساتھ۔اس کا شوہر حامد کسی دفتر میں تیسرے درجے کا ملازم تھا۔آدمی ایماندار تھا لہذا بالائی آمدنی سے گریز کرتا تھا۔ شاہد کے بعد تین بیٹیاں اور تھیں۔لیکن صنوبر کا سارا دھیان بیٹے پر ہی تھا۔ اس نے کیا کیا جتن نہیں کئے اسے پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانے کے لئے ۔شوہر کی کم آمدنی کے با وجود اس نے پیسے بچا بچا کر اسے پڑھایا لکھایا۔ انٹر کرنے کے بعد اس کا داخلہ بنگلور کے ایک انجینئرنگ کالج میں کر وا دیا اور اس کا خرچ پورا کرنے کے لئے خود بھی کپڑے سینے کا کام شروع کر دیا۔کپڑے سیتے سیتے اس کی آنکھوں کے گِرد سیاہ حلقے پڑ گئے مگر انہی آنکھوں میں مستقبل کے سنہرے خواب بھی سجنے لگے۔لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب اس کا بیٹا پڑھ لکھ کر بر سر روزگار ہو گیا تو اسے کسی امیر زادی سے عشق ہو گیا۔اس کا نام شادماں تھا ۔اس کی نظر میں زندگی کا مقصد صرف عیش کرنا تھا۔ اس امیر زادی کے شوق بھی بڑے مہنگے تھے۔ شاہد اپنی ساری تنخواہ اس کے شوق پورے کرنے میں اُڑا دیتا اور اس کے والدین تہی دامن ہی رہ گئے۔اس عرصے میں حامد بھی ملازمت سے سبک دوش ہو چکا تھا۔ اب صرف پنشن پر گزارا تھا۔ گھر کی مالی حالت اور خراب ہو گئی۔ مگر شاہد ان باتوں سے بے پروا عشق کے گھوڑے پر سوار خیالوں کی دنیا میں اُڑا جا رہا تھا۔ اسے اپنے والدین کا خیال تھا نہ بہنوں کی فکر۔
صنوبر اب زیادہ تر بیمار رہنے لگی تھی۔ اس سے اب سِلائی کا کام بھی نہیں ہو پاتا تھا۔بیٹے کو فون کرتی تو وہ زیادہ بات نہیں کرتا۔اسے ہر وقت اسی کی فکر لگی رہتی۔ پتہ نہیں کیسے رہتا ہے،کہاں کھاتا ہے؟ ہوٹل کا کھانا کھا کر کہیں بیمار نہ پڑ جائے۔ اب وہ جلد از جلد اس کی شادی کر دینا چاہتی تھی لیکن پھر بیٹیوں کا خیال آ جاتا۔ پہلے ان کی شادی ہو جاتی تو بہتر تھا۔ وہ ہر نماز میں دعائیں مانگتی لیکن اس کی ہر دعا آسمان سے پلٹ آتی۔پھر بھی وہ مایوس نہیں تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مایوسی کفر ہے۔
ٓ اُدھر شاہد کے لئے ہر دن عید اور ہر رات شب براءت تھی۔راوی عیش ہی عیش لکھتا ہے لیکن عیش و عشرت کے روز و شب اسے پھیکے لگتے ۔اب وہ شادماں سے شادی کر کے اسے ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنا بنانا چاہتا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے اس نے اپنے گھر کا سفر اختیار کیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب اس کے والدین نے اسے اپنے سامنے دیکھا تو خوشی کے مارے ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ بہنیں بھی فرط جذبات میں رو پڑیں۔ لیکن جب اس نے اپنے آنے کا مقصد بتایا تو سبھوں کے سر پر گویا بجلی سی گر پڑی۔ماں باپ اور بہنیں سبھوں کو چُپ سی لگ گئی۔شاہد شادی کرنا چاہتا ہے ۔ایک ایسی لڑکی سے جسے ان لوگوں نے دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ لوگ اسے روک بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جوانی بے لگام ہوتی ہے اور پیار اندھا ہوتا ہے۔بھاری دل سے ماں نے کہا۔
”ٹھیک ہے بیٹا! جیسی تمہاری مرضی ۔لیکن ہم لوگ تمہارے سر پر سہرا بندھا ہوا د یکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم خودسے شادی کر لو اور ہمارے دل کے ارمان دل ہی میں رہ جائیں۔ ہم لوگ تمہاری شادی کی تیاری کرتے ہیں۔ تم یہاں سے بارات لے کر جائیں گے اور دلہن کو رخصت کرا کے پہلے یہاں لے آئیں گے۔ اس کے بعد پھر جہاں مرضی ہو جا کر بس جانا۔“
شاہد کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ویسے وہ چاہتا تو بغیر اپنے گھر والوں کو اطلاع دئے بھی یہ کام کر سکتا تھا لیکن شاید تھوڑی بہت تمیز اس کے اندر باقی تھی۔ وہ دوسرے ہی روز واپس ہو گیا۔ وہ جلد از جلد شادماں کو یہ خوش خبری سنانا چاہتا تھا۔ اس نے فون پر یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ لیکن جب وہ شادماں کے پاس پہنچا اور اسے یہ بتایا کہ اس کے والدین اس کی شادی کے لئے راضی ہو گئی ہیں تو پہلے تو وہ بھونچکی ہو کر اسے دیکھتی رہی ، پھر دھیرے سے بولی۔
”شادی؟ کس کی شادی؟؟“شاہد نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
”میری شادی، ہم دونوں کی شادی۔“شادماں کچھ دیر تو حیران نظروں سے اسے دیکھتی رہی ۔پھر اس کے چہرے پر حقارت کے جذبات اُبھر آئے۔
”شادی اور تم سے؟ تمہیں یہ خوش فہمی کیسے ہو گئی کہ میں تم سے شادی کروں گی۔اپنی حیثیت دیکھی ہے کبھی۔صرف انجینئر بن جانے اور پیسے کما لینے سے کوئی بڑا نہیں بن جاتا۔ مجھے معلوم ہے کہ تم ایک نہایت غریب اور پسماندہ خاندان سے تعلق رکھتے ہو۔ میری فیملی اور تمہاری فیملی کا کوئی جوڑ نہیں ۔“شاہد پر تو جیسے بجلی سی گر پڑی۔ اسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہوا۔ زبان گنگ ہو گئی اور پورے جسم سے پسینہ پھوٹ پڑا۔ اپنی ہمت یکجا کر کے وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا۔
”پھر وہ سب کیا تھا۔ وہ پیار محبت کی باتیں ،وہ قسمیں وہ وعدے؟“شادماں زور سے ہنس پڑی اور پھر ہنستی ہی چلی گئی۔شاہد اسے حیران نظروں سے دیکھتا رہا۔ شادماں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکی اور کہنے لگی۔”ارے میرے بھولے راجا! وہ سب وقت گزاری کا مشغلہ تھا۔ ٹائم پاس ۔کیا سمجھے۔“
شاہدکا سر بہت زور سے چکرایا اور وہ ڈھرام سے زمین پر گر گیا۔شادماں نے ایک مسکراتی نظر اس پر ڈالی اور واپسی کے لئے مڑ گئی۔

Published inافسانچہعالمی افسانہ فورمنشاط پروین

Be First to Comment

Leave a Reply