Skip to content

پہلی رات

عالمی افسانہ میلہ 2019

افسانہ نمبر 72

پہلی رات

رخشندہ نوید۔لا ھور ،پاکستان

سمیرا سہاگ رات کے تمام مضمرات کو سمجھتی تھی ۔ اسے بخوبی علم تھا شادی کس شے کا نام ھے ۔پچیس برس کی عمر ان پہیلیوں کو بوجھنے کے لیے کا فی ہوتی ہے جس عمل کے سبب خالق کائنات نے اس دنیا کا نظام آگے بڑھایا اور جو

جسے انسان کی تخلیق کا موجب بنایا ۔ مرد و عورت کے جسمانی ملاپ کا وہ سلسلہ جس کی گدگدی آغاز بلوغت سے ہی ہر لڑکی اور لڑکے کو رگ و پےمحسوس ہونے لگتی ہے ۔ جنس مخالف کے لئے انجانی کشش کا شعوراز خود بیدار ہو جاتا ہے ۔ میٹھے میٹھے خمار کا ذائقہ تقریبا ہرلڑکی خوابوں ہی خوابوں میں چکھ لیتی ہے ۔ سمیرا کی سہیلیوں نے بیچلرز نائٹ میں اسے رہی سہی تمام معلومات فراہم کر دی تھیں۔ رومانٹک فلمیں ، اوچھے لطیفے اور ا دھر ادھر کی نو بیاہتاوں کے قصے سن سنا کر وہ ذہنی طور پر ان دیکھے لمحات کے لئے تیار تھی۔

ضیغم کی بہنیں بھائی کی شادی کی تھکان سے عاری تھیں ، گھر میں موجود قریبی رشتہ دارو ں کی چہل پہل جاری تھی ۔مختلف ٹولیاں ابھی تمام کمروں میں موجود تھیں ۔ کوئی گروپ بھاری بھر کم لباس تبدیل کر رہا تھا تو کوئی بستروں پر نیم دراز دھیمی آوازوں میں دلہن اس کی فیملی کے بارے میں قیا س آرائیوں میں مصروف تھا۔ زیادہ شور بچوں کا تھا جن کو شائد نیند آ گئی تھی مگر ان کی ماوں کو ابھی انھیں سلانے کی فرصت نہیں مل رہی تھی ایک دو معصوم بچے نیند اور بد حواسی میں ڈھولک کو بے جا پیٹ رہے تھے ۔

سمیرا کو ڈھول ڈھمکے اور بھنگڑوں کے ساتھ نئے گھر میں سواگت کیے جانے کے بعد لاونج کے صوفے پر بٹھایا گیا تھا ۔ کھانے کا ایک دور گھر واپس آکر دوبارہ چلایا گیا ۔کھانے کے بعد چائے کے کپ لے کر پرانے ملازم سب کے آگے جھک جھک کر ٹریز پیش کر رہے تھے ۔ سمیرہ نے کھانے کی نہ تو اس ڈبل شفٹ میں حصہ لیا اور نہ ہی اس نے پنڈال میں لگنے والے اس وی آئی پی ٹیبل سے کچھ خاص کھایا پیا تھا جو ان کے لئیے بطور خا ص لگا تھا ۔ ان دنوں وہ بس ایک اشاروں پر گھومنے والی گڑیا بنی ہوئی تھی جسے دو تین دن سے دلہن کا رول بہت احسن طریقے سے ادا کرنا تھا۔

دولہا یعنی ضیغم ادھر ادھر پھرنے کے بعد کچھ زیادہ دیر برداشت نہ کر سکا ۔ اس نے اپنی شادی شدہ بہن راسمیہ کو کاندھوں سے پکڑا اور ایک طرف لے جا کر کہا راسی باجی دلہن تھک گئی ہو گی بیچاری۔ اسے آرام کرنے دیں ۔ راسی کی ہنسی چھوٹ گئی اس نے دبا دبا قہقہ لگا یا اور آنکھ مارتے ہوئے بولی اور ہمارے دولہا بھیا کی بتاو ؟

بحرحال راسی باجی نے دولہا کی وارننگ اور بے صبری کو بھانپ لینے کے بعد گھر میں ایسے حالات بنوائے کہ تھوڑا سا سکون پیدا ہو جائے ۔دولہا دلہن کا تازہ پھولوں سے مزین کمرہ تواوپر کی منزل پر واقع تھا جو کہ ضیغم نے ضد کر کے چھوٹے بھائی گلو سے بدلا تھا حالانکہ اس کا کمرہ نیچے کے بیڈ رومز میں سب سے کشادہ تھا ، اوپر کی منزل سے لپکتی عروسی کمرے کی دلفریب مہک دوسری تمام خوشبوں اور بد بوووں پر حاوی تھی ۔

آخرکار وہ لمحات آ پہنچے جس کے لئے کاغذ پر دستخط کیے گئے تھے اور جس کی گھڑیاں گنی گئیں تھیں ۔دلہا دلہن کو کمرے میں پہنچا دیا گیا ۔ ضیغم کا مورال بہت بلند تھا اس کے جذبات قابو سے باہر تھے لیکن وہ ٹھہری ہو ئی طبعت کا مالک تھا ۔سمیرہ اس وقت تک با لکل خالی الذ ہن تھی جب تک کہ ضیغم نے اسے مونہہ دکھائی کی رنگ پہنا ئی ، نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما ، ہاتھ پر اپنے مونچھوں بھرے لب مضبوطی سے رکھے ۔تب سمیرہ کو احساس ہوا کہ وہ کہاں ہے ،یہ زندگی کا کونسا دن ہے اور یہ کہ

سہاگ رات کے جملہ معاملات کا دلفریب آغاز ہوچکا ہے ۔ ضیغم نے کچھ دیر اس کے ہاتھ تھام کر اس کی ڈھیر ساری تعریفیں کیں ،اسکی تصویر دیکھ کر پہلی بار میں ہی اس نے ہاں کیوں کر دی اور کسی محفل میں اسے دور دور سے دیکھ کر اس کی حالت کیا ہوتی تھی اور اس کا دل کیا چاہتا تھا اور اپنی منگنی اور شادی کے بیچ اس پر گذرنے والی بےتاب گھڑیوں کا قصہ بھی ضیغم نےسمیرہ کو بہت پیا ر سے سنایا ۔ سمیرہ ضیغم کو گاہے گاہے پلکیں اٹھا کر دیکھتی رہی اور ہولے ہولے زندگی سے بھرپور خمار انگیز مسکراہٹ بکھیرتی رہی ۔ کچھ بھی بولنے کی ابھی اسے جیسے حاجت نہ تھی بس وہ ضیغم کے ہاتھوں میں چابی سے گھومنے والی خوبصورت نازک سی گڑیا بنی ہوئی تھی اس کی ہر بات کو سمجھنے اور اس کے اشاروں کے ساتھ حرکت کرنے والی ،گھومنے والی ۔۔۔۔ ضیغم نے محبت کا بے لاگ اظہار کرتے کرتے سمیرہ کے حسین زیور خود اتارے ۔نائٹ ڈریس تبدیل ہوئے اور آخر کارشب خوابی کے نرم لباسوں کی ڈوریاں دھیرے دھیرے کھلیں ،ابدی لمحات کے انوکھے لمس اور سرشاری سے سمیرا کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔

ضیغم کا ھاتھ سمیرا کی گردن کو سہلاتے ہوئے دھیرے دھیرے کندھوں سے ہوتا ہواسکی کمر اور پھر سینے پر آیا ۔ جونہی ضیغم کا ہاتھ اس کے بدن کے دونوں گلابوں کی گولائیوں تک آیا سمیرا کویکدم جھٹکا لگا ۔اس نے ضیغم کے ہاتھ کو پوری طاقت سے اپنے دونوں ھاتھوں سے پیچھے دھکیلا ۔اور ہلکی سی چیخ مار بستر پر اٹھ بیٹھی۔

ضیغم یکدم حیران و پریشا ن اور کھسیانہ سا ہو گیا کہ جانے اس نے کسی غلط جگہ ہاتھ رکھ دیا ۔ شائد یہ عورت کا کوئی شجر ممنوعہ ہے جس کو پہلی رات چھونا جرم ہوتا ہے ۔ ضیغم کا بھی دراصل کسی صنف نازک کو چھو کر دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا ۔۔ اس نے اپنی تعلیم مکمل کرنے پر دھیان مرکوز رکھا ۔ شریف لڑکوں کی طرح ماں باپ کی پسند سے شادی کی ۔ بات طے ہونے اور شادی کے بیچ ملنے والے چند ماہ میں ضیغم نے سمیرہ سے اکیلے میں ملنے کی بہت کوشش کی مگر چاہنے کے باوجود ایسا ممکن نہ ہوا ۔ ضیغم کو اپنا آپ اس دم اناڑی سا لگا ابھی تو اس نے سمیرا کی ذات کی انتہاوں تک پہنچنے کی کنجی پر ھاتھ ہی رکھا تھا۔

یہ بات اس دور کی ہے جب سمیرہ کا کالج میں فرسٹ ائر ختم ہونے کے قریب تھا ۔ سمیرہ باقی لڑکیوں کی نسبت زرا شرمیلی اور کم سوشل تھی اس نے بہت زیادہ دوست بھی نہیں بنائیں ۔ اس دن روز کی طرح سمیرہ نعرے لگاتی امی امی کا شور مچاتی گھر میں داخل نہیں ہوئی تھی۔بلکہ سر جھکا ئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی تھی۔

سمیرہ کی امی بھاگ کر اس کے پیچھے آئیں کیونکہ سمیرہ ہمیشہ آتے ہی یا تو ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتی یا پھر کوئی اور پیاربھرا ایسا کام کرتی جس سے اس کی امی اور وہ دونوں بچھڑے ہووں کی طرح روزانہ زور سے گلے ملتیں ۔۔ آج ایسا نہیں ہوا سمیرہ کی امی نے کمرے میں آ کر پیار کیا گلے لگایا کہ شائد سمیرہ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ۔ اس کے چہرے سے بال ہٹا کر سمیرہ کی امی نے دیکھا کہ اس کا رنگ اس دم ہلدی کے مانند زرد تھا ۔ ۔ اورسمیرہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی ۔ امی نے اس کا تکئے میں دھنسا مونہہ اوپر کیا تو سمیراان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ کیا ہوا ببلی؟ اس کی امی نے

پیا رسے اس کے بال سہلائے ۔ ماتھا چوما ۔آ ٓج پھر لگتا ھے سمانا سے تیری کھٹ پھٹ ہو گئی ھے۔ کس بات پہ جھگڑا ہواہے ۔ امی نے ہنس کر پوچھا ۔۔ چلو میں روزی کو فون کرتی ہوں اور تم دونوں کی صلح کا بندوبست کرتی ہوں ۔۔

لیکن سمیرا کا رونا آج اور ہی قسم کا تھا۔

سمانا اور سمیرا نہ صرف کالج میں کلاس فیلو اور گہری دوست تھیں بلکہ ان دونوں کی مائیں بھی پرانی سہیلیاں تھیں اور انہوں نے سوچ سمجھ کر دونوں کو ایک ہی کالج میں داخل کروایا تھا ۔ کسی ایک کے روٹھنے پر یہ ایکسرسائز ہر تھوڑے دن کے بعد ان دونوں لڑکیوں میں سے کسی ایک کی ماں کو سر انجام دینی ہی پڑتی اور ان کی دوستی میں ثالث کا کردار ادا کرنا پڑتا ۔مگر آج سمیرا کا رونا ہلکی ہلکی ہچکیوں سے تواتر پکڑتا رہا۔ سمیرہ کا چہرہ کسی پشیمانی اور ندامت سے سرخ تھا ۔اور وہ سختی سے آنکھیں بھینچے ہوئے تھی

سمیرا کی امی نے نہائت فکرمند ہوتے ہوئے اسے بستر پر لٹا کر کمبل دیا اور وہیں بستر پہ کھانا کھلاتے ہوئے سمیرا سے اس کے رونے کی وجہ پوچھنے کی کوشش کی۔ مگر سمیرا کا بدن جھٹکوں سے کانپتا رھا ۔ ہچکیوں کی وجہ سے وہ ایک لفظ بولنے کے قابل نہ تھی یا اس میں اتنی سکت ہی نہ تھی ۔ ا گلے دو دن سمیرا ۱۰۴ بخار میں پھنکتی رہی۔نہ کالج گئی نہ کسی دوست سے بات کی حتی کہ سمانا کو بھی فون نہیں کیا ۔ ورنہ یہ دونوں سہیلیاں اپنی روزانہ کی کمنٹری ایک دوسرے کو سنائے بغیر سوتی نہیں تھی ۔

سمیرہ کی امی اس کی اچانک ایسی بگڑتی حالت دیکھ دیکھ کر ہلکان ہو رہی تھیں تیز بخار کی حالت میں سمیرہ کے مونہہ سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ کچھ بربڑاتی رہی تھی انہوں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو محسوس ہوا شائد سمیرہ کے لبوں پر بے ہوشی کی حالت میں جو بڑبڑاہٹ ہے وہ گا لیاں ہیں۔ کتے ،کمینے، حرامی اور اس سے بھی بڑی گالیاں جو شائد سمیرہ کی ڈکشنری میں بھی نہ ہوں ۔سمیرہ کی امی حیرت زدہ تھیں انہوں نے شہر کے بڑے ڈاکٹر کو بلایا مگر ڈاکٹر نے یہ کہ ہ کر تسلی کرا دی کہ بخار اترنے کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گی تیز بخار میں ایسا ہو جاتا ہے ۔

سمیرہ کو بار بار اپنی کالج بس کے کنڈکٹر کا ھاتھ اپنے وجود پر بھاری پتھر کی طرح محسوس ہوتا رھا جو اس نے شدید رش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استعمال کیا ۔بس کنڈکٹر نےاپنے جوتے برابر لمبے ھاتھ سے سولہ سالہ سمیرا کے بدن پر کھلے دونوں گلابوںمیں سے باہنی طرف کے گلاب کو ،جو دوپٹے ، یونیفارم کی موٹی قمیض اور باریک سویٹر کی تہہ میں تھا ، اتنی زور سے دبایا کہ سمیرا ایک سیکنڈ کو بےہوش ہونے لگی۔

وہ لمبا چوڑا کنڈکٹر کچھ دن پہلے تبدیل ہو کر اس بس میں آیا تھا ۔ اس سے پہلے جیدی بھائی تھے جن سے تمام بس کی لڑکیاں بہت مانوس تھیں خوب ہنسی مذاق میں سفر کٹتا تھا ۔گانے گاتے ۔ڈانس کرتے ۔کھاتے پیتے ۔ کئی بار جیدی بھائی بس رکوا کر کھڑکیوں سے راستے میں سٹے ّ اور شقرقندی بھی لے دیتے ۔انہوں نے اکثر لڑکیوں کے نام رکھے ہوئے تھے ،کسی کو بلی ،کسی کو نکی اور جانے کیا کیا کہہ کر آوازیں لگاتے ۔

معلوم نہیں کس وجہ سے جیدی بھائی کو گلبرگ جانے والی بس سے ہٹا کر اسلام پورہ کی بس کا روٹ دے دیا گیا ۔اور گلبرگ کی بس میں یہ درمیانی عمر کا کنڈیکٹر لگا دیا گیا ۔

وہ دیکھنے میں ہی پراسرار ساتھا ۔ اکثر کھلی سی سلیٹی ڈھیلی پینٹ ،اور اونچی قمیض پہنتا جس پر ضرور یا تو جانوروں کی تصاویر ہوتیں یا پھر سمجھ میں نہ آنے والا کچھ لکھا ہوتا ۔۔

سمیرا کے کالج کا پہلاسال یعنی فرسٹ ائر پلک جھپکتے میں گذر گیا تھا سمیرہ ابھی نبھی دوسری لڑکیوں کی نسبت بھولی بھالی تھی کم گو تھی ۔ اسے کنڈیکٹر کی سرمہ بھری آنکھوں سے پہلے دن بھی خوف آیا تھا ۔ اس برے دن بھی ہمیشہ کی طرح وہ بھاگی بھاگی بس میں چڑھی ۔ لیکن اس سے بھی پہلے پہنچ کر لڑکیوں نے تمام سیٹوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ اس دن بس میں معمول سے زیادہ رش تھا۔ کبھی کبھی دوسری بسوں میں تعطل کی وجہ سے لڑکیاں تعداد میں ڈبل ہو جا یا کرتی تھیں ۔وہ کہیں راستے میں اتر جانے کی غرض سے اس بس میں سوار ہو جایا کرتی تھیں ۔

اس دن نیا کنڈکٹر ایک گیٹ سے دوسرے گیٹ کی طرف ٹکٹیں کاٹتا ہوا سخت رش میں تیزی سے گزر رہا تھا ۔۔سمیرا کے بہت پاس سے گزرتے ہوتےاس نے اپنا آج کا شکار یعنی سمیرا کو ہاتھ کی زد میں پا کر اپنا مقصد حاصل کر لیا ۔ جگہ کم ہونے کے باعث لڑکیاں لاکھ سمٹنے کے باجود کنڈیکٹر سے فاصلہ رکھنے سے معذور تھیں ۔ سمیرا کے ساتھ گھسٹ کرگذرتے ہوئے کنڈکٹر نےاپنے غلیظ ھاتھ سے سمیرا کے بدن پر کھلے نرم حسین گداز پھول کو مروڑتے ہوئے ایسے دبایا جیسے کوئی واٹر بال کو مسلتا ہے۔

اگلے کئی دنوں تک سمیرا نے ہر روز اس کنڈکٹرسے بدلہ لینے کا ایک نیا طریقہ سوچا

کبھی وہ بیگ میں لمبی باریک سوئی ڈال کر لے جاتی کہ آج اس خبیث کے پیٹ میں اتار دوں گی ۔ کبھی وہ امی کی اونچی پنسل ہیل والا جوتا پہن کر اسکول جاتی رہی کہ آج اس حرام خور کے پاوں پہ ہیل والا جوتالے کر کھڑی ہو جاوں گی۔

حتی کہ گھر میں بابا کی رکھی پسٹل کو بھی ڈھونڈتی رہی۔

سمیرہ نے اس واقعے کے بعد گھر میں بہت بہانے بنائے کہ بس میں چکر آتے ہیں ، لڑکیون سے پسینے کی باس برداشت نہیں ہوتی،سیٹ نہیں ملتی کھڑے ہو کر آنا پڑتا ہے مگرگھر میں چونکہ ایک ہی گاڑی تھی جو ڈیڈی صبح دفتر لے جاتے ۔اور شام کو واپس آتے تھے ۔سمیرہ کی امی ویسے ہی سمیرہ کی عجیب سی طبیعت سے پریشان تھیں انھوں نے سمیرہ کے ڈیڈی پر ڈرائیور رکھنے اور بچی کی بات ماننے پر بہت زور دیا مگر سمیرہ کے ڈیڈی نے کالج بس کو سب سے محفوظ ذریعہ ٹرانسپورٹ گردانتے ہوئے اس آئیڈیا کو یکسر مسترد کر دیا ۔ اور یوں بات آئی گئی کر

کر دی جیسے یہ زیر بحث لانے والا موضوع ہی نہ ہو ۔چار وناچار سمیرہ روزانہ بس میں سانس روکے چڑھتی اور جلدی سے کسی سیٹ پر بیٹھ جاتی ۔ یہ سوچ کر اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرہ چھا جاتا کہ آج منحوس جانے کس کے ساتھ وہی حرکت کر ے۔

سمیرہ خود سوکھ کر کانٹا ہونے کے سوا ، شرم کے مارے کسی کو کچھ بتا نہ سکی۔ سوچتی رہی مگر اس سے بدلہ بھی نہ لے سکی ۔ اس نے بہانے بہانے بس کی لڑکیوں سے اس کنڈیکٹر کی برائیاں کیں کہ شکل سے ہی بدمعاش لگتا ہے ۔ اس سے بچ کے گزرنا ۔ ہر روز سمیرہ اس کنڈیکٹر سے گھن کھاتی رہی ، اور ڈرتی رہی کہ جانے آج وہ کس لڑکی کے ساتھ سے گزرتے ہوئے اپنے لکڑی جیسے ہاتھ سے کس پھول کو پامال کرے ۔مونہہ ہی مونہہ میں سمیرہ پورے سفر کے دوران گھر پہنچنے تک آئتیں پڑھتی رہتی ۔اللہ کی طرف سے

چند روز بعد اس نئے کنڈیکٹر کی ڈیوٹی بدل گئی ۔ اور وہ پھر کہیں دکھائی نہ دیا ۔ عین ممکن ہے اس نے ان چند دنوں میں بس کی تمام معصوم لڑکیوں یا بہت سی لڑکیوں کے نرم و نازک ان چھوئے جسموں کو اپنے سخت ہاتھوں سے مسل کر دیکھ لیا ہو ۔ عین ممکن ہے کسی نے اس کی شکائت کر دی ہو ۔

بحرحال دن، مہینوں سالوں میں بدلتے ہوئے گزرتے رہے ۔۔۔سمیرہ بھی وقت کے ساتھ سب بھول بھال گئی ۔ سمیرا نے اسکول سے کالج ، اور پھر یونیورسٹی میں ایم فل کرتے ہوئے اپنی عمر کے حسین دور میں قدم رکھا اپنی آنکھوں سے اپنے بدن پر کھلنے والے پھولوں کو روز بروز مہکتے دیکھا ۔ کبھی کبھی نہاتے سمے برسوں پہلے کے اس واقعے سے اسے اپنی ذات کے سب سے نازک اور حسین جزو سے گھن آتی رہی ،نفرت محسوس ہوتی رہی۔

سمیرہ کی آنکھ کھلی تو اس کا سر ضیغم کے بازو پر تھا اور سمیرہ اسکے ساتھ زندگی کی پہلی رات گزار چکی تھی۔ ضیغم نے اس کے ماتھے سےبہت پیار سے بال ہٹاتے ہوئے اس کا مونہہ اپنی طرف کیا اور شرارت بھری مسکان سے آنکھ مارتے ہوئے پوچھا ، مائی ڈئر سومی ۔۔۔ اتنی نستعلیق گالیاں مری جان نے کہاں سے سیکھیں!

Published inرخشندہ نویدعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply