عالمی افسانہ میلہ 2021
دوسری نشست
افسانہ نمبر 27
پگلی
غزالہ قمراعجاز ۔ دہلی ، انڈیا
“
مارچ کے آخری ہفتےمیں اس بارٹھنڈ زیادہ تھی۔۔پگلی نے پھٹی چننی کو گردن کےگردکس کرلپیٹا اورلکڑی کا پٹ ہٹا کر بیٹھےبیٹھےگردن باہرنکالی،دائیں بائیں نظریں گھمائیں مگر وقت کا اندازہ نہیں ہوا – ہرطرف سناٹا تھا…پتہ نہیں کیوں؟
سامنےریل کی پٹری تھی جہاں سے ہروقت گا ڑی کی آوا جاہی لگی رہتی تھی مگر پتا نہیں کیا ہوا تھا کہ کل سے اسے کوئی آواز سنائی نہیں دی ..”وہ سوتی رہی ہے یا پھرکہیں بہری تو نہیں ہوگئی”؟
اس نے کان میں انگلی ڈال کرزورسےہلایا
“مائی بهوک لاگی”
ببوا اٹھ چکا تھا اورپیٹ پرہاتھ رکھ کربولا – “وہ بہری نہیں ہے”
“تو پھرریل گاڑی کی آوازاس نے کیوں نہیں سنی”؟ وہ اسی سوچ میں تھی کہ ببوا نے اس کوہلاتے ہوئے اپنا سوال دوہرایا “چل “
کھلے میں آکر گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے تھیلا زمین پررکھا اورہاتھ اٹھاکر جمائی لی ۔۔۔ببوا نے تھیلا زمین پر الٹ دیا- عجیب سی بدبو چاروں طرف پھیل گئی …جس سے بےخبر وہ دونوں کھانے کی چیزیں چھانٹ چھانٹ کراپنے پیٹ کی دوزخ کو بھرتے رہے- وہاں سے کچھ دوری پرایک “شادی گھر” تھا جہاں روزکوئی نا کوئی بیاہ ہوتا- بھیڑبھاڑ ،شور شرابہ،چمکیلےسرسراتے ہوئے کپڑے،زیور،دولہا دلہن،گانا بجانا وغیرہ ۔۔
پیچھے کی طرف سے ہوتے ہوئے ایک دن وہ دونوں ٹینٹ کے با لکل پاس پہنچ گئے اورایک سوراخ سے سارا منظر دیکھنے لگے۔۔ ہر طرف گہماگہمی تھی ،سب خوش تھے، چہل پہل ، ہنسی قہقہے۔۔ سارے مناظر دیکھتے ہوئے دونوں کو خوب مزہ آ رہا تھا -پھرکھانا شروع ہوا۔طرح طرح کےکھانے سے لوگ اپنی اپنی پلیٹیں بھرنے لگے۔ کھانےکی خوشبو ان کی ناک سے ہوتی ہو ئی پیٹ تک پہنچی توآنکھوں کی چمک دھیرے دھیرے غائب ہوگئی اور دونوں ٹنٹ کی دیوارسے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئے- یوں توبھوکے رہنا فا قے کرنا انکی عادت تھی مگر بھری بھری پلیٹیں سامنے دیکھ کر جی بے قابوہو رہا تھا..دو دن سے پیٹ بھرکھایا بھی نہیں تھا – ببوا کو اپنے پاس کھینچ کر اس نے پیروں پر لٹا لیا اور اس کا سرسہلاتے ہوئےبہلانے لگی۔
“ببوا کے لئے کھانا آ ئیگا…روٹی ..پوری…سبزی..مٹھائی…سب آئیگا۔۔اتنااااااااااا ساراااااا “اس نے دونوں ہاتھوں کوہوا میں پھیلایا اور پیارسے ببوا کا گال زور سے کھینچا..وہ ہنس پڑا- تبھی پلیٹیں الٹنے کی تیز آواز قریب سے آئی تو اس نےگردن موڑ کر دیکھا – ایک ٹب میں کوئی برتن ڈال کر جا چکا تھا ادھر روشنی بہت ہلکی تھی – دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کھسکتے کھسکتےوہاں پہنچ گئے۔۔
وہی خوشبو …پوری …سبزی ..دہی ..پلاؤ سب کچھ تھا ۔۔دونوں ہاتھ ڈال ڈال کر نکالتے رہے اور پیٹ بھرتے رہے – اس بیچ دو اور ٹب بھی برتنوں سے بھر چکے تھے-اتنا کھانا۔۔۔ان کی آنکھوں میں روشنی چمک اٹھی۔وہ دوڑتے ہوئے سڑک پر آئے…ادھر ادھر تلاش کرنے کے بعد ایک خالی تھیلا لیکر واپس آئے اور جلدی جلدی اس میں کھانا بھرنے لگے ۔اور۔۔۔خوشی خوشی ،جھومتے گاتے واپس اپنے ٹھکانے پر آگئے۔ پیٹ بھر ا تھا ۔۔۔بہت دنوں کے بعد اتنی اچھی نیند آئی ۔۔۔آدھی رات کو جب اس کی آنکھ کھلی تو ببوا تھیلے میں ہاتھ ڈال کر پھر سے اپنا پیٹ بھر رہا تھا۔وہ اسے دیکھ کر جی سی اٹھی –دو چار نوالے خود بھی کھائےاور پھر سو گئی –
دوسرے دن شام ہوتے ہی دونوں پھر ٹنٹ کی جھری سے آنکھ لگا ئےکسی اور کی شادی کا نظارہ دیکھ رہے تھے ۔۔ پھر کھانا کھایا ،تھیلے میں بھرا اور واپس آگئے – یہ اب ان کا معمول سا بن گیا تھا۔۔۔مگر اس دن کھڑے کھڑے بہت دیرہوگئی – اندر بیٹھے مہمان بھی اکتا سے گئے تھے اور بے چینی سے ٹہل رہے۔ تھے۔۔ایسا ہی شمیم باجی کی شادی میں بھی ہوا تھا۔۔۔ اسے یاد آیا۔سرخ رنگ کا لہنگا ہاتھوں میں مہندی چوڑی …ہار بندے پہنے فل میک اپ میں وہ بڑے سے شادی گھرمیں گھوم گھوم کر تھک چکی تھی – زور کی بھوک بھی لگ گئ – “ارے بارات تو آنے دو” – ممانی نے کہا تھا ۔ صوفے پر بیٹھے بیٹھے ہی اسکی آنکھ لگ گئی – شور ہوا تو ہڑبڑا کر وہ جلدی سے اٹھی- برات آچکی تھی … پھر …پھر – ببوا نے اسے کھینچا-
“ما ئی دیکھ ”
مٹھائی کے ڈبے اور طرح طرح کے پھل رکھے جا رہے تھے – کئی سو ٹ کیس اور دوسرے بہت سے سامان بھی تھے جو وہ دور سے دیکھ نہیں سکی- تبھی ٹب میں پلٹیں گرنے کی کھڑکھڑ کی آواز نے اس کی توجہ ادھر کھینچی اور دونوں جلدی جلدی اپنا پیٹ اور تھیلا بھرنے لگے – واپسی پر ہمیشہ کی طرح ببوا خوش تھا مگر اس کا ہاتھ بار بار سر پر جا رہا تھا جہاں عجیب سی ہل چل مچی تھی –سو ٹ کیس میں بھرے دلہن کے کپڑے …زیور..پھل مٹھائی ..یہ سب اس نے بہت قریب سے دیکھے تھے – کہاں ….پھر شمیم باجی کی شادی …کون شمیم باجی …اس کے دماغ نے یکایک کا م کرنا بند کردیا …اور وہ فٹ پا تھ پر بیٹھ کر اپنا سر زور زور سے ہلانے لگی- رات زیا دہ ہوچکی تھی – سڑک سنسان تھی – ببوا ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ مچا رہا تھا –اور اسکا دما غ عجیب سی بےبسی کا شکار تھا – تبھی ایک پولیس والا سیٹی بجاتے ہوئے اسکے سامنے آگیا – وہ جلدی سے کھڑی ہوگئی –
“کیوں آج یار نہیں آ یا کیا –”
ببوا …او ببوا ..آ ..چل جلدی ”
“ارے ببوا کو کا ہے بلاتی ہو-چل ہم ہیں نا-”
اس نے زور سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف ایک جھٹکے سے کھینچا …تو وہ اسکے سینے سے آلگی –
“کیا گرمی ہے سالی تیرے میں ”
لمبی سانس کھیچتے ہوئے اس نے دوسرا ہاتھ اسکے جسم پر پھیرا –
“چھوڑ دو صاحب …جانے دو …ببوا”
بے ربط سے الفاظ ا سکے منھ سےنکلے – ببوا ما ئی ما ئی چلاتے ہوئے رونے لگا – وہ خود کو چھڑا نے کی کوشش کرتے ہوئے تھر تھر کانپ رہی تھی …اور پولیس والا اس کی حالت پر ہنس رہا تھا- تبھی دور سے ہو ٹربجا تی گاڑی قریب آتی محسوس ہوئی …پولیس والے نے ایک گندی سی گا لی دیتے ہوئے دھکا دیکراسے اپنے سے الگ کیا – وہ گری اور جلدی سے کھڑی ہوکر ببوا کا ہاتھ پکڑکر بھاگی – گاڑی کے ہوٹر کی آواز سن کر پولیس والےنے اسے چھوڈ دیا …اگر وہ اسے گاڑی میں بیٹھا دیتا تو …کھولی میں گھستے ہی ایک نیا خیا ل اسکے دما غ میں کوندا…جیسے اس دن اس کو اور روبینہ کو …وہ گھبراکر کھولی سے باہر نکلی …جسم پسینے پسینے ہوگیا – رو بینہ …کون روبینہ …پتہ نہیں کون کون سے نام ا چانک اسکے ذہن میں آرہے تھے – دماغ کی نسیں سا ئیں سا ئیں کرنے لگیں …جیسے وہاں بہت سے کیڑے ایک ساتھ رینگ رہے ہوں – اسکا چہرہ آنسوؤ ں سے تر تھا…اور ہچکیوں سے روتےروتے وہ بےحال ہو رہی تھی – “اور کھا ئیگی مائی “-
ببوا پریشان سا تھیلا لیکر اسکے سا منے کھڑا تھا – اس نے تھیلا اور ببوا دونوں کواجنبی نظروں سے دیکھا …جیسے پہلے کبھی ان سے واسطہ ہی نارہا ہو۔
پھر. ..نظریں کھولی پر ٹھہر گئیں….دھیرے دھیرے منظرتبدیل ہونے لگا ….پھٹے پرانے کپڑوں اور رنگ برنگی تھیلیوں سے بنی کھولی ہوا میں اڑنے لگی اور اسکی جگہ دو منزلہ پختہ مکان نے لے لی –” امی ..امی..”وہ بھاگنے کے لئے کھڑی ہی ہوئی کی اچانک سب کچھ نظروں سے اوجھل ہو گیا …دور سے آتی روشنی میں ببوا کا گھبرایا گھبرایا سا چہرہ اسے بہت اپنا سا لگا اور وہ اسے گلے سے لگا کرزور زور سے رونے لگی – آ س پاس سو رہے لوگ کچی نیند سے اٹھنے لگے –
“کوئی مر گوا ہے کا ”
“نا ہی… دونوں تو جندا کھڑے ہیں ”
“پھر بیچ رات میں بھو بھو کا ہے کرت ہیں-”
سوتے سوتے سب نے اپنی ناگواری جتائ- اسکی سسکیاں تھم گئیں …مگر دماغ کی نسیں سا ئیں سا ئیں کرتی رہیں – شادی گھر سے اتنا کھانا مل جاتا کی وہ دونوں دن بھر کھاتے اور باقی بچا کھانا پڑوسن شمو کو دے دیتے- بیچاری نے آ ڑے وقت میں اس کی بہت مدد کی تھی – ببوا کا ہاتھ تھامے بھوک سے نڈھال وہ ریل کی پٹری پر بیٹھی مر نے کا انتظار کر رہی تھی کی شمو نے پیچھےسے آکر اسے کھیچا تھا –
“ای کا کرنے جا رہی تھی – مرے گی … لے ہم تجھے ما رتے ہیں ”
شمو نے دو تمانچہ مارا…وہ چپ چاپ کھڑی رہی – “چل “… اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی اور یہاں آگئی – شمونے کھولی بنانے کے لئے سامان ا کھٹا کیا- ایک پھٹی چادر اور پلاسٹک سے اس کے لئے کھولی بنائی ..دال بھا ت کھانے کو دیا … مگر اس سے پہلے وہ کہاں رہتی تھی …کیسے ادھر آئ …اور کیوں … اس سوال کا جواب اسے کھانا کھانے کے بعد بھی یاد نہیں آیا … اور وہ پتھرائی آنکھوں سے ادھرادھر دیکھتی رہی – “پگلی ہے پگلی ”
یو ں اسکا نام پگلی پڑگیا…جس پر اسے کبھی کوئی اعترض نہیں ہوا …اور وہ اس نام کے ساتھ جینے کی عادی ہو گئی – شمو نے ہی اسے کوڑا بیننا بھی سکھایا- وہ ببوا کو ساتھ لئے دن بھرگھومتی رہتی ..کبھی کبھی تو کھانے کے لئے بھی کچھ نا ملتا اور دونوں کئی کئی دن بھوکے رہ کر گزاردیتے – مگر شادی گھرکا پتہ ملتے ہی انکی زندگی بدل گئی … روزا چھا اچھا کھانا پیٹ بھر ملنے لگا تھا – دونوں خوش تھے …اور بہت خوش – دھیرے دھیرے ان کے اندر تبدیلی آنے لگی – سرکاری نل پر وہ ببواکو رگڑ رگڑ کر نہلاتی اور خود بھی نہا تی – جانے سے پہلے دونوں صاف کپڑے پہنتے – بہت دن بعد اس نے کونے میں رکھی پوٹلی کھولی- کوڑا بینتے ہوئے اسے لپ اسٹک اور کریم کی ڈبیا ملی تھی – ٹوٹا ہوا شیشہ اور کلپ بھی تھا جو اس پوٹلی میں اس نے رکھ دیا تھا اور آج اسکے کام آنے والا تھا – اس نے لپ اسٹک کا ڈھکن کھولا اور شیشے میں دیکھتے ہوئے لگانے لگی –
“ارے یہ نہیں بہت ہلکا شیڈ ہے …تمہاری ڈریس کے ساتھ نہیں جائیگا… یہ لو”
شیبہ کی آواز پر اس نے ہاتھ بڑھایا …مگر وہاں کوئی نہیں تھا – ببوا سوکھی کریم اپنے چہرے پرمل رہا تھا – اس نے سامان پوٹلی میں بھرا – تھیلا اٹھایا اور جلدی جلدی شادی گھر آگئی – برتن ٹب میں ڈالتے ہوئے نوکر نے اسے دیکھ لیا –
“فری میں ہی مال ہضم کروگی یا کچھ کا م وام بھی کروگی -”
یوں وہ برتن دھونے کے کا م پر لگ گئی – سلیم پلیٹ کا کھانا ٹب میں ڈالنے سے پہلے اسے دے دیتا ..جسے ببوا الگ الگ تھیلی میں بھرتا – اورپھروہ دونوں آ رام سے کھاتے- –
“زردہ ” بہت دن کے بعداس نے زردہ دیکھا تھا –
“مجھے زردے کو بریانی کے سا تھ ملاکرکھانا بہت اچھا لگتا ہے ”
روبی نے معصومیت سے کہا –
” نان کے ساتھ کھا کر دیکھو اور اچھا لگےگا- ”
عدنان بھائی نے نان کا ٹکڑا اسکی پلیٹ میں ڈالا – وہ ناراض ہوگئی –
“ٹرائی تو کرو”
اس نے نان کے ٹکرے سے زردہ کھایا – عدنان بھائی آپ بھی – اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی – چھن سے اندر کچھ ٹوٹا – پتہ نہیں آج کل اسے کیا ہوتا جا رہا ہے … عجیب عجیب سی باتیں اسکے کانوں میں گونجتی ہیں … اس نے سر جھٹکا اور کام پر لگ گئی … ببوا وہیں کنارے سو گیا تھا – وہ برتن دھو کر اٹھی- . “آئیس کریم کھاؤ گی -”
نوکر سلیم دانت نکالے اسے گھور رہا تھا – نہیں کہتے ہوئے وہ تھیلا اٹھانے کے لئے جھکی –
“ارے چل تو اندر ”
وہ اسکا ہاتھ کھیچتے ہوئے بولا جسے ایک جھٹکے سے چھڑاتے ہوئے اس نے دوسرے ہاتھ سے ببوا کو اٹھا نے کی کوشش کی-
“ارے ایسی بھی کیا جلدی ہے ”
وہ اسے پکڑکر پتلے راستے کی طرف لے جا نے لگا –
“روز طرح طرح کا کھانا ملتا ہے تب تو نا نہیں کہتیں ”
پتہ نہیں کون سا شیطان اسکے سرپر سوار تھا جو اسکی مننتوں کا کوئی بھی اثر اس پر نہیں ہورہا تھا – وہ تیزی سے اسے کھیچنے جا رہا تھا –
“ببوا …ببوا ” وہ چللائی – پروگرام ختم ہو چکا تھا اور مہمان جا چکے تھے – آگ دھیرے دھیرے سلگ رہی تھی – سلیم کی گرفت کچھ ہلکی پڑی تو اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑا یا اور جلتی ہو ئی لکڑی اٹھا کر اسکی طرف پھیکی جو سیدھے سلیم کے پیر پر لگی – ایک کے بعد ایک لکڑیا ں اٹھا اٹھا کروہ پھیکنے لگی – ببوا نےایک لکڑی اٹھا کر ٹنٹ پر پھیک دیا – ریشمی کپڑے کی لٹکتی جھالر نے آگ پکڑ لی – افراتفری مچ گئی – ببوا کا ہاتھ پکڑ ے تھیلا اٹھاۓ وہ بھاگنے لگی – مگر آگ کے شعلے اسے چاروں طرف سے گھیرے رہے … ہاپنتے ہا پنتے وہ سہمی ہوئی کھولی کے پاس آکر بیٹھ گئی – لوٹ مار…گولی چلنے کی خوفنا ک آ واز … پھر… آگ – پتہ نہیں سبکو گو لی لگی تھی یا پھر آگ میں جھلس گئے ….وہ بھاگی اور پھر بھاگتی ہی رہی …پتہ نہیں کہاں کہاں… کبھی پو لیس کی گا ڑی ..کبھی کوئی کیمپ … بھوک لگنے پر لوگ روٹی ضرور دیتے مگر پہلے اپنے جسم کی آگ بجھا تے – وہ لٹتی رہی … خون اسکے جسم سے رستا رہا … خرا شیں ناسور بن گئیں …مگر وہ بھا گتی رہی …پتہ نہیں کہاں کہاں … اور کب تک – پھر ببوا اسکے پاس آ گیا – کب کیسے … اسے کچھ یاد نہیں تھا –
-” ما ئی …ما ئی ” ببوا نے اسکا ہاتھ ہلا یا
” آگ …آگ ..جل جا ئیگا تو-” اس نے جلدی سے اسے کھینچا-
“پا گل ہو گئی ہے ما ئی – یہاں آگ کہاں ہے- ”
ببوا نے اسے زور زور سے ہلایا … یکایک دماغ کی نسیں تھم گئیں – آگ نہیں ہے …اسے اطمنان ہوا اور وہ ببوا کو گلے سے لگاۓ سمٹ کر سوگئی …دو دن تک وہ کہیں نہیں گئی – آگ کے شعلے جب سو تے سے جگا دیتے تب وہ ا ندھیری رات میں آکر تاروں میں کچھ تلاش کرتی رہتی … اورپھر تھک کر سو جاتی – کل سے ریل نہیں گزری تھی …موسم ٹھنڈا تھا پھر ہلکی دھوپ نکلی – سب لوگ باہر اکھٹا تھے اور حیران تھے تبھی کلوا نے آکر بتایا کی سڑک پر پولیس لگی ہے اور آنے جانے سے روک رہی ہے – فساد … سبکے چہرے اتر گئے – اب کیا ہوگا – اسکے دماغ کی نسیں پھر چٹکنے لگیں … اور وہ دبک کر لیٹی رہی – ببوا اٹھتا … تھیلے میں ہاتھ ڈال کر کھانا نکالتا کھاتا اور پھر سو جاتا – تھیلا خالی ہوگیا … ببوا بھوک سے نڈھال ہونے لگا تو وہ باہر آئی – شموتھیلی میں کھانا لیکر آرہی تھی – اسے دیکھتے ہی رک گئی- –
“ادھر کھانا بٹ رہا ہے جا تو بھی لے آ – ”
مگر ا سکے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھکر شمو نے اسکی کشمکش بھانپ لی –
“فساد نہیں ہے … کرونا آیا ہے اس لئے سب بند ہے- چنتا مت کر ”
ببوا کا ہاتھ پکڑے وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی …سب دکانیں بند تھیں …گھروں کے باہر سننا ٹا تھا … نا کوئی شور نا شرابہ … نا کہیں آگ اور نا ہی جلے ہوئے مکان …اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا…پتہ نہیں کرونا کہاں تھا – تھوڑی دور پر ایک پولیس والا کھڑا تھا – کیا کرے.. پوچھے …یا …مگر ببوا بھوک سے بےحال تھا- اس نے ہمت کی اور آگے بڑھی-
“پولیس والے بھیا …وہ کھانا ”
قریب جا کر پو چھا ہی تھا کی اس نے ڈنڈا دکھا کراسے دور رہنے کے لئے کہا اور سڑک کے دوسری طرف جانے کا اشارہ کیا – اسے عجیب لگا ..دھیرے دھیرے وہ اس کے بتا ئے راستے پرپہنچی جہاں گا ڑی کے نیچے کھانے کے برتن رکھے تھے … وہ آگے بڑ ھی مگر وہاں موجود لوگوں نے اسے دور کھڑے رہنے کے لئے کہا اور منھہ پر روپٹہ لپیٹنے کا اشارہ کیا –اسکے دماغ کی نسیں پھر چٹکنے لگیں – کیا ماجرہ ہے اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا – اس سے پہلے جب بھی اس نے کھانا ما نگا … کسی نے اسکا آ نچل کھچا تو کسی نے اسکا ہاتھ …کسی نے گا لوں کو سہلایا تو کو ئی گردن پر ہاتھ پھیرتا… مگر آج …کھانے کی تھیلی رکھنے کے بعد اسے اٹھانے کے لئے کہا گیا – وہ ڈرتے ڈرتے جھکی … کھانا اٹھا یا … وہیں سے ہی اسے واپس جا نے کا اشارہ ہوا … اس نے ادھر ادھر ایک بار پھر دیکھا اور ببوا کا ہاتھ پکڑ کر بھاگی – اسکے بدن کو کیا ہوگیا جو سب اس سے دور بھاگ رہے ہیں … دماغ کی نسیں ایک بار پھر چٹکنے لگیں – شمو نے اسے دیکھا –
“کھانا ملا ”
پگلی نے ہاں میں سر ہلایا – اسے خاموش دیکھکرشمو اسکے پاس بیٹھ گئی- “ای کرونا بھی پتہ نہیں کون سی بلا ہے نا ریل چلے نا دکان کھلے نا کچھ کام دھام ۔۔۔
” اور تو اور کھانا بھی دور سے ملے ”
“نا مرد لاگے سا لا ”
شمو نے دونوں ہاتھوں سے اسے ٹھہو کا لگایا – اورپھر کھلکھلا کر ہسنی … وہ پہلے مسکرائی پھر ہنسی تو دونوں ہنستی ہی رہیں –
“پگلا گئی ہیں ”
انکے ارد گرد لوگوں کی بھیڑجمع ہوگئی – سب ایک ہی بات کہ رہے تھے…
” پگلی ہیں دونوں پگلی
Urdu short stories and writers
Comments are closed.