عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 147
پچھتاوا
رضوانہ پروین پٹنہ، انڈیا
تنہائ بہتر ہے
جھوٹے لوگوں سے
اور بے مقصد باتوں سے!!!
یقیناً!
ہاں ۔۔۔۔۔اب اسےاحساس ہو چلا تھا۔وقت کافی قریب سے اسے پیچھے چھوڑ کر گزر چکا تھا۔
اب وہ ان لمحوں کو یاد کر کے دل ہی دل میں کچوکے کھاتا۔۔۔۔۔۔۔کاش!!
مگر اب تو چڑیا کھیت چگ چکی تھی۔
اس پر عمر کی سیاہی ڈھل رہی تھی اور سفیدی نے قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔زلفوں میں چاندنی اترنے لگی تھی اور آنکھوں پر دبیز چشمے کا پہرہ تھا۔ چہرے پر سرخی کی جگہ زرد رنگ اتر آیا تھا۔پیشانی کی سلوٹیں گزرے ہوءے قافلے کی مٹتی ہوئ نشانیاں عیاں کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔اس کی سنجیدگی دیکھ کر وحشت ہونے لگتی۔
وہ تاسف سے ہاتھوں کو ملتا ۔۔۔۔۔۔۔ان دنوں کی یاد میں ڈوب جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔کس بے دردی کا مظاہرہ کیا تھا اس نے۔۔۔۔۔۔!
اس کی التجا کو کس بے حسی کے ساتھ ٹھکرا دی تھی اور اس کے آنسوو ں کو بارش کی بوند کے مانند جھٹک دیا تھا اپنی شفاف ہتھیلیوں سے۔۔۔۔۔!
اس کی وہ نمناک آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔آہ!!!
سمرن !میں تمہارا گنہگار ہوں!
تمہیں حق تھا۔۔۔۔۔۔تم نے یوں مجھے آسانی سے چھوڑ دیا۔۔۔۔۔؟؟
وہ یک لخت نفی میں سر دھن لیتا ہے۔
لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔نہیں!
تم سچ ہی تو کہتی تھیں”تم میرے پیار و اعتبار کی قدر نہیں کرتے نہ ۔۔۔۔۔سمجھوگے!جب میں نہ ہوں گی!!
ہاں!سمرن۔۔۔۔۔۔ہاں!
میں نے تمہارے خلوص کی ،بے لاگ محبت کی قدر نہ کی۔۔۔۔۔۔اسی کی سزا پا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔!
آجا ءو ۔۔۔۔۔کہیں سےوہ پیاری صورت دکھا دے مولٰی!
میری سمرن ۔۔۔۔۔وہ سسک پڑا۔
اکثر راتوں میں جب راتیں بڑی ہوا کرتی ہیں اور نیند زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے،لیکن سردی کی یہ خوش گوار راتیں بھی اسے کاٹنے اور ڈسنے کو دوڑتیں۔اب وہ اکیلا بھی نہیں تھا،لیکن سردیوں کی راتیں جب شباب پر ہوتیں تو اس کی یادیں بھی ان شباب کے دنوں کی یاد میں گم ہو جایا کرتیں۔اکثر ایسی لمبی راتوں میں وہ اپنی محبت کو یاد کرکے تڑپ اٹھتا۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کی آہ صحرا کی اذان کے مانند تھی۔نیند اب اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
تب جب سمرن اس سے بات کرنے ۔۔۔۔۔۔اس کی محبت و رفاقت کے لءے اپنی نیندیں قربان کر کے اس کا انتظار کیا کرتی تھی۔ان دنوں اسے نیند اتنی پیاری لگتی تھی گویا کائنات کی ہر چیز بیکار ہو۔۔۔۔۔۔اور وہ بے فکر فون سوئچ آف کر سو جایا کرتا۔یوں چھٹیاں ختم ہو جایا کرتیں۔دن گزتے ،ہفتے گزر جایا کرتے،ماہ و سال گزرگءے،لیکن سمرن کے التفات میں کمی نہ آئ۔۔۔۔۔۔۔سمرن یوں ہی ٹوٹ کر اسے چاہتی رہی۔۔۔۔۔۔اور اس نے اس کے خلوص کی قدر نہ کی۔
“دوری ، فرصت اور فرقت آج اسے سب میسر ہیں۔۔۔۔۔۔۔سوائے سمرن کی اس پر خلوص محبت کے۔۔۔۔۔۔!
سمرن کی سادگی نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔وہ اوروں سے بہت تو نہیں ،لیکن تھوڑی مختلف ضرور تھی۔کیا آج بھی لڑکیا صرف خلوص کے سہارے ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ سمرن کی بے لوث محبت کو یاد کرنے لگتا ہے۔۔۔۔۔ہاں !میری سمرن نے ایسا ہی کیا ۔۔۔۔۔جسے میں نادان سمجھ نہ سکا ۔اس کی قدر نہ کی ۔۔۔۔۔۔وہ ہمیشہ یہی کہا کرتی ۔۔۔۔۔۔
“تم مجھے یاد کروگے جب ہم نہ ہونگے!”
یہ فقر ا ادا کرتے ہوئے اس کی آنکھیں نم اور ہونٹ متبسم ہو جاتے۔تم سچ کہا کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔سو فیصدی سچ۔
اب تم میری نہیں ہو اور شاید کبھی ہو بھی نہیں سکتی،لیکن میرے جزبات پر تمہارا ہی حق ہے۔یہ دل اب بھی صرف تمہارے نام سے ہی دھڑکتا ہے۔
وہ خود سے گویا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن کیوں؟؟
اب جب کے تم میری نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔شاید اسی لئے؟؟؟
میں تمہارا گنہگار ہوں سمرن۔۔۔۔۔آءو سزا دو مجھے!
***
ندا بڑ بڑاتی ہوئ کمرے میں داخل ہوئ۔۔۔۔۔۔۔کھڑکیاں بند ہیں دھوپ سر پر آگئ۔۔۔۔۔۔۔اور ان جناب کی آنکھیں اب تک ۔۔۔۔۔۔کمبل کو سرکاتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ارے!اٹھ بھی جائے!!
وہ کمبل کو ہاتھوں سے پکڑ لیتا ہے۔۔۔۔۔۔سونے دو نہ !ابھی نیند پوری نہیں ہوئ۔کافی رات گئے تک پیپر تیار کرتا رہا۔۔۔۔۔!
ندا بدبدائ ۔۔۔۔۔گھر میں سبزی نہیں ہے اور مجھے لنچ بھی تیار کرنا ہے۔
وہ اس کی جانب دوبارہ متوجہ ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔اب آپ برائے مہربانی اٹھئے۔۔۔۔۔۔صدف کو اسکول کے لئے تیار کرنا ہے۔وہ آخری جملہ ادا کرتے ہوئے باورچی خانے کی جانب مڑ چکی تھی۔
وہ بد دلی سے کمبل کے باہر گھڑ ی دیکھنے کے لئے منھ نکالتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اوہ!
7:15 ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔زیر لب بدبداتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔ہو گئ مشینی زندگی کی شروعات!!
***
گلے سے ٹائ کے بند کو ڈھیلی کرتے ہوئےاس کی نظر اچانک اپنی شیلف پر پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔چیزیں یوں بے ترتیب۔۔۔۔۔۔یہ حماقت کس کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سوالیہ نظروں سے صدف کو دیکھتا ہے۔
قریب کھڑی صدف سہم جاتی ہے۔
ڈرتے ہو ئے۔۔۔۔۔۔ پاپا وہ میں نے نہیں۔۔۔۔۔ بولتے بولتے صدف کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔
وہ ایک نظر معصوم چارسالہ صدف کو دیکھتا ہے ۔اس کی معصومیت ہی اس کا جواب تھی۔وہ معصوم صدف کو قریب کر کے اس کی جبیں کا بوسہ لیتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔۔۔۔نہیں بیٹے!یہ آپ کی غلطی نہیں!
جائیے آپ اپنا ہوم ورک پورا کر لیجئے۔
صدف کے وہاں سے جانے کے بعد وہ پھر سے شیلف کا جایزہ لیتا ہے۔سب چیزیں تو ہیں۔۔۔۔۔۔خیر!
لیکن یہ “البم”!۔۔۔۔۔۔اسے میں نے کب نکالا۔۔۔۔۔. ؟؟؟
وہ خود سے سوال کرتا ہے۔البم کو الٹ پلٹ کرتے ہوئےاس کی نظر اس تصویر کی خالی جگہ پر پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ چونک پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس تصویر کو کس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ آواز لگاتا ہوا کمرے سے نکلنے ہی والا تھا اتنے میں ندا کمرے سے کھٹ پٹ کی آتی آواز پر کان دھرتی ہوئ باورچی خانے سے نکلی ہی تھی کہ اسے اپنی جانب آتا دیکھ کر رک گئ۔۔۔۔۔۔۔بولی کیا ہوا؟
صدف نے کچھ شرارت کی کیا؟؟
اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھ پاتا ،ندا تکئے کے نیچے رکھی تصویر کو اسے دکھاتے ہوئے بڑے استعجاب سے گویا ہوئ۔
سمرن کی تصویر اس پرانے البم میں ملی۔۔۔۔ مجھے یاد نہیں میں نے کب لگائ تھی اس البم میں ۔ذرا دیکھئے تو کتنی بھولی سی ہے میری دوست!
لفظ “دوست “سن کر وہ چونکا!
یہ سمرن تمہاری دوست ۔۔۔۔۔ ۔۔بولتے بولتے وہ جملہ ادھورا چھوڑ دیتا ہے۔
ہاں !کوئ تکلیف! اس نے شرارت سے کہا آپ تو ایسے چونک پڑے جیسے میں نے کسی مرد سے اپنی دیرینہ دوستی کا انکشاف کیا ہو۔وہ اس کے چہرے کی اڑتی رنگت کو دیکھ ہنس پڑی ،لیکن ایک ہی لمحے میں اس کی مسکراہٹ پر سنجیدگی نے پردہ کر دیا ۔ وہ متفکرانہ انداز میں بولی ۔۔۔۔۔۔۔اب سمرن پتہ نہیں کس حال میں ہے۔۔۔۔۔۔۔بیچاری!!
کیا ہوا تمہاری دوست کو ؟؟وہ اپنے جزبات کو چھپاتے ہوئے آہستگی سے پوچھ بیٹھا۔
ہونا کیا تھاوہی ہوا جو کسی سچے عاشق کا انجام ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔در بدری اورذلالت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا بولتے بولتے اس کی آواز کند ہونے لگی۔
وہ حیرت سے ندا کا چہرہ تکنے لگتا ہے۔چند لمحے خاموشی کے بعد وہ گویا ہوا۔جس راز کو اس نے اب تک اپنے سینے میں چھپائے رکھا تھا ۔اب اسے پچا پانا اس کے بس میں نہ تھا۔وہ تقریباً چیخ کر اپنا اقبال جرم کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ہاں ندا! ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تم دونوں کا گنہ گار ہوں !
سمرن نے مجھے ٹوٹ کر چاہا۔۔۔۔۔۔لیکن میں نے اس کی بے لوث محبت کی قدر نہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تب میری آنکھوں میں سپنے اور نیند سب تھے۔
ندا اپنی بہن سے بھی عزیز دوست سمرن کی محبت کے ٹوٹے کھنڈر پر اپنے مستقبل کی عمارت تعمیر کرنے میں اس قدر تھک چکی تھی کہ دو بوند آنسو کے بوجھ بھی اس کی پلکوں سے سنبھالے نہیں جا رہے تھے ۔وہ اپنے چہرے کو کھڑکی کی جانب گھما لیتی ہے اور انجانے ،ناکردہ گناہ کی سزاا کو دو بوند آنسو کا خراج عطا کرتی ہے۔
اپنے بھرے ہوئے دل ،پر نم آنکھوں اور تھر تھراتے کانپتے ہونٹوں سے سمرن کی بربادی کی داستان سناتی ہے۔
سمرن کو اس کے شوہر نے یہ کہ کر ٹھکرا دیا کہ “اس جسم کا میں کیا کروں جس میں دل ہی میرا نہیں۔”
آخری جملہ سن کر اس کا سر گھومنے لگا ۔آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔اور اس کا سر ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے سے جا ٹکرایا ۔شیشے کی کرچیاں ٹوٹ کر فرش پر بکھر گئ تھیں۔یقین، رشتے اور دل سبھی یکبارگی ٹوٹ کر اس کے اندرون میں کرچیاں چبھو رہے تھے اور وہ بے آواز رو رہا تھا۔
یاد ماضی عذاب ہےیارب!