عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 6
پُشپا اور ثریا
نیلم احمد بشیر
1965 ء کی جنگ شروع ہوئے قریبا پندرہ روز ہوچکے تھے ۔ مگر ہار جیت کا کوئی فیصلہ ہوتا نظر نہ آرہا تھا ۔ ہندوستان اور پاکستان آپس میں برسر پیکار ، زور شور سے لڑائی میں مصروف تھے ۔
واہگہ ، اٹاری بارڈر کے گرد جنگل کافی گہرا تھا ۔ صلح کے دنوں میں اسی جنگل سے سُور اٹاری کی طرف آنکلتے تو ہندوستان والوں کے وارے نیارے ہوجاتے وہ سوروں کو ہنکا کر اپنی طرف لے آتے اور مفت گوشت کے مزے اڑاتے مگر مُسلوں کو بھی خوب پتہ تھا کہ اس صورتحال کا فائدہ کیسے اٹھانا ہے ۔ ہندووں کو سور پیسے لئے بغیر نہ لینے دیتے ۔ چپکے سے سودا طے کرتے اور رقم وصول کرکے ان کے حوالے کرتے ، یوں دنوں میں مزے رہتے مگر اب تو منظر ہی کچھ اور تھا ۔ سبھی سور بنے ہوئے تھے ۔ گولہ بارود سے ایک دوسرے کا سواگت کرتے تھکتے نہ تھے ۔ سرسبز زمینوں کو روند کر اپنے حق جتائے جارہے تھے ۔اور امن پامال ہورہا تھا۔
مادام نور جہاں اپنے ملی نغموں سے سپاہیوں کے حوصلے بڑھا رہی تھیں اور کٹے ہوئے جسموں سے بہتا ہوا لہو پیاسی زمین کی پیاس بجھانے سے انکار کرتا چلا جارہاتھا
سرکنڈوں کے جُھنڈ ادھر بھی تھے میلوں تک ایک جیسے درختون پر ایک جیسی چڑیاں چہچہا رہی تھیں
نہ جانے کس کا نام ثریا او ر کس کا نام پُشپا تھا ۔ اِ دھر سے اُدھرپھدکتے دیکھ کر ان کے دھرم کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔ دونوں طرف کی چڑیوں کی شکل و صورت ، جسمانی ہیت کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز بھی ان میں مشترک نظر آتی تھی ۔ گولہ بارود کی آواز سے سبھی خوفزدہ ہوکر ایک دم سے پرواز لے لیتی تھیں ۔ ان کی معصوم دل یہ سوچ کر حیران ہوتے تھے کہ انسان اس دھرتی اور ان کے ماحول میں کیوں خلل ڈالتا رہتا ہے ؟دونوں ملکوں کے لوگ شکل و صورت ، تہذیب،تاریخ ،عادات و اطوار سے ایک جیسے ہیں تو ایک دوسرے کو چین سے کیوں نہیں جینے دیتے ؟ کیوں مارنا چاہتے ہیں ؟ چڑیاں اس سے آگے سوچنے کی فرصت اور صلاحیت نہیں رکھتی تھیں کہ انہیں دونوں طرف کے کھلیانوں سے اپنے حصے کا دانہ چُننا ہوتا تھا ۔ وہ جہاں سے جی چاہے چک لیتیں اور انہیں اس بات سے کوئی روک نہیں سکتا تھا ۔ ان کے نزدیک جنگ اور امن بے معنی تھے دانہ ہی اہم تھا
پشپا اور ثریا نے دیکھا ، دو فوجی جوان کیچڑ میں سنی یونیفارم پہنے اپنے سروں پر سخت قسم کی ٹوپیاں چڑھائے ، دھیرے دھیرے سر کنڈوں اور گھاس کی لمبی لمبی ڈنٹھلیں ہٹائے ، ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کو پیٹ کے بل آگے سرکتے جارہے تھے ۔ دونوں کی بندوق تن کر اپنا جوبن دکھا رہی تھیں ۔ ستمبر کی شام جھینگروں کو اپنے نغمے الاپتے بار بار رکنا پڑتا جس سے فضا میں ایک دم خاموشی چھا جاتی اور پھر چند لمحوں بعد وہی چِک مِک شروع ہوجاتی ۔ بارود کی آوازیں انہیں بھی اچھنبے میں ڈال دیتی تھیں ۔
میجر ٹوانہ کے نام کی پتلی سی پِن اس فوجی کے سینے کے بٹن کے داہنی طرف سجی تھی ۔ جو واہگہ بارڈر سےآیا تھا ۔ میجر ٹوانہ اکثر اس بات پر اپنے دوستوں سے اپنا مزاق اڑواتا تھا کہ ٹوانہ دراصل کوئی ذات نہیں بلکہ انگریزوں کا دیا ہوا نام ہے ۔ یہ کہانی بہرحال اس نے بھی سن رکھی تھی ۔کہ ایک انگریز کسی مقامی کو نہر یا جوہڑ میں ڈبکی لگوا کر کچھ لانے پر کہتے،” ہیر بوائے ٹو آنہ ۔ ٹوآنہ ”
یعنی کچھ لاو گے تو ہم تمہیں دو آنے دیں گے ۔ بس اس بات پر ان کا نام ٹوانہ پڑ گیا اور یہ ایک ذات کہلائی ۔
میجر اکرم ٹوانہ اس بات کو ہمیشہ جھٹلاتا اور ماننے سے انکار کرتا مگر اس کے دوست اسے چھیڑنے سے باز نہ آتے تھے ۔ خدا جانے سچ کیا تھا ۔
میجر ٹوانہ اور دشمن آپس میں گتھم گتھا ہوکر ایک دوسرے کو چت کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔ اچانک دونوں نے ایک دوسرے کے سینوں پر لگی ہوئی نام کی تختی پڑھ لی ۔ دوسرا بھی ٹوانہ ہی تھا ۔
پشپا اور ثریا کی چونچوں میں دبا دانہ یکدم باپر کو جاگرا وہ حیرت زدہ ہوکر دیکھنے لگیں
فوجیوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سلیوٹ مارا اور چند لمحے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے کے بعد پھر پل پڑے۔
” اوئے دو آنے کے لئے انگریزوں کے کہنے پر پانی میں ڈبکی لگانے والے بزدل تونے میرے ملک کی طرف آنے کی جرات کیسے کی ؟
ہندو ٹوانہ مسلم ٹوانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیخا ۔ چند لمحوں بعد گولیوں کی آوازیں آنےسے چھینگروں کو ایک بار پھر کچھ دیر کے لئے رک جانا پڑا ۔ کیچڑ میں سرخ رنگ گھلنا شروع ہوچکا تھا ۔ خاکستری رنگ کی وردیاں اب خاکستری نہ رہی تھیں ۔
ثریا اور پشپا دونوں اڑ کر بے جان جسموں کے قریب آگئیں ۔ انہیں پتہ تھا انسان اپنے کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ پاس ضرور رکھتا ہے ۔ سوچا کچھ ذرے خوراک کے ہمیں بھی شاید مل جائیں ۔ انہیں گمان تو تھا مگر یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کہ وہاں ان کے لئے کچھ نظر نہ آتا تھا ۔ ایک میچر کی جیب سے چھلکتے خون میں سے سکے البتہ ضرور باہر ان گرے تھے اور چڑیوں کو سکوں کی گنتی نہ آتی تھی ۔
Urdu short stories and writers
Be First to Comment