عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 21
پنجرے کا دروازہ
ڈاکٹر جمیل حیات ، اٹک ، پاکستان ۔
وہ جاڑے کی شام تھی، اداس کر دینے والی، فضا میں خنکی کا راج تھا۔ شہرِ خموشاں میں ایک بوسیدہ سی لیکن پختہ قبر کے پائنتی وہ دوزانو بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے،جیسے کسی اعلیٰ کے آگے ادنیٰ معافی کا خواستگار ہو؛ آنکھیں بند کئے لیکن آنسو اس کی آنکھوں کے گوشوں سے نکل کر اس کے دامن کو بھگو رہے تھے۔ چاروں اور خاموشی کی دبیز ردا کا پردہ تھا۔کافی دیر بعد بالآخر اس نے آنکھیں کھولیں۔اس کا چہرہ تفکرات کے ساتھ ساتھ خوف کی دھول میں اٹاتھا۔ سکوت کو اس کی اضطراب بھری چیخ نے توڑا۔ خودکلامی واضح تھی:’’آخر اس صبح کا اختتام کیوں نہیں ہوتا، تم تو چلے گئے ہو لیکن اس صبح کی تلخ یادیں میرے بچپن اور میری جوانی کوعفریت بن کر نگل گئی ہیں اب تو واپسی کا سفر ہے اب تو معافی دے دو۔وہ غور سے قبر کے سرہانے لگے کتبے کو دیکھنے لگا، اس کے ذہن و دل پر جیسے آندھیاں سی چلنے لگی، وہ ایک دم پچیس برس پیچھے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے چہرے پر جتنا بھولپن تھا وہ اتنا ہی شرارتی تھا۔ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا جب اسے پتا چلا کہ اس کی امی کی بہن بیس برس کے طویل عرصے کے بعد اپنے میکے آئی تھیں ۔ وہ اپنی ماں جی کے ساتھ نانا ابو کے گھر چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک معصوم صورت لڑکی کو دیکھا جو اپنی امی کے ساتھ جڑ کے بیٹھی تھی اور اس کے ساتھ اس کے نانا ابو بیٹھے تھے۔ بعد میں اس کی ماں جی نے بتایا کہ خالہ کراچی رہتی تھی اور اب خالو کے نیوی سے ریٹائر ڈ ہونے کے بعد وہ لوگ حضرو میں اپنے آبائی گھر میں آگئے ہیں۔ نانا ابو کے گھر کے ساتھ ہی اس کی خالہ امینہ کا گھر تھا جس کے بیٹے سلیم کے ساتھ اس کی گاڑھی چھنتی تھی۔اس کے بعد تو ہر ماہ خالہ ثمینہ اپنے ابو کو ملنے آتیں تو صغریٰ ان کے ساتھ ہوتی۔ اس نے محسوس کیا کہ سلیم ، صغریٰ کے ساتھ کسی اور کو کھیلنے نہیں دیتا۔ اسے بڑی تکلیف ہوتی لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکتا ۔وہ صغریٰ کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہوتا اور ہر مہینے کی آخری جمعرات کا بے چینی سے انتظار کرتا جب خالہ کے ساتھ وہ بھی آتی۔ دوسرے دن جب وہ واپس جا رہی ہوتی تو وہ بس سٹاپ پر اس کے پیچھے پیچھے جاتا اور جب وہ گاڑی میں بیٹھ جاتی تو ایک بار وہ اپنی امی کی نظر بچا کر اس کی طرف دیکھتی اس وقت وہ ہاتھ ہلا کر اسے رخصت کرتا اس وقت اس کے چہرے پر مستقبل کا خوف جاگزیں ہوتا اور وہ خود کو ملبہ ہوتے دیکھتا اور دوبارہ اپنی تعمیر میں جُت جاتا۔
وہ ایک بے فیض دن تھا، فضا میں حبس کے موسم کی اجارہ داری تھی، ساون کا مہینہ تھا، بادل امڈ امڈ کر آتے اور اچانک بارش اپنی چھب دکھا جاتی، گزشتہ رات موسلا دھار بارش ہوئی تھی لیکن گاؤں کا پتن اپنی مخصوص چال کے ساتھ بہہ رہا تھا، اس دن سلیم نے اسے صغریٰ کی جھلک تک نہ دیکھنے دی ، ویسے تو وہ خاموش رہنے والا امن پسند لڑکا تھا لیکن اس نے خلافِ معمول سلیم کے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ سلیم کی دل والی جیب میں ایک روپیہ پڑا تھا جو اس دھینگا مشتی میں نیچے گرا تو اس نے اٹھا لیا۔ سلیم نے جب اپنی جمع پونچی لُٹتے دیکھی تو رونا شروع کر دیا۔ اس نے روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور سلیم کے رونے کی پروا ہ نہ کرتے ہویے گھر کی راہ لی۔ وہ پہلا موقع تھا کہ اس نے صغریٰ کو الوداع بھی نہ کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیم کی دادی بچوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتی تھیں۔ سلیم بھی ان کے پاس پڑھا کرتا۔ اس دن بھی اس نے حسبِ معمول قرآن پاک کی تلاوت کی اور پھر اس نے دادی کو کہا کہ وہ خالہ کے گھر جانا چاہتا ہے۔ صغریٰ اپنے نانا کے گھر میں تھی۔ سلیم کے ابو نے اسے کہا کہ جندر سے آٹا لے کر آتے ہیں اس لیے وہ بھی ان کے ساتھ چلے، سلیم نے ضد کی لیکن اس کے ابو نے زبردستی اسے اپنے ساتھ لیا اور گدھے کی رسی پکڑا دی۔وہ روتے ہوئے اپنے ابو کے ساتھ چلا گیا۔ جندر دریا کے دوسرے کنارے پر تھا، پانی میں سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق تھا اور پانی گھٹنے گھٹنے تھا اس لیے کوئی مسئلہ نہ ہوا۔ انہوں نے آٹا لیا گدھے پر لادا اور واپسی کی راہ لی۔ سلیم نے رسی پکڑی ہوئی تھی اور وہ آگے آگے تھا۔ جب وہ پتن کے درمیان میں پہنچے تو اچانک پانی کا ایک بڑا ریلا آیا۔ شاید کہیں بارش ہوئی تھی یا ڈیم کا پانی چھوڑا گیا تھا ، سلیم کے ہاتھ سے رسی نکل گئی۔ اس نے بچاؤ کے لیے ہاتھ بلند کیا، جندروئی دیکھ رہا تھا اس نے فوراً پانی میں چھلانگ لگائی اور سلیم کو پکڑنا چاہا جس کا صرف ہاتھ نظر آرہا تھا کہ اس نے دیکھا سلیم کا ابو بھی ڈوب رہا تھا ۔ سلیم اس کی پہنچ سے دور ہوا تو اس نے سلیم کے ابو کو پکڑ کر کنارے پر پھینکا اور پھر اس نے سلیم کو دوبارہ پکڑا اسی دوران سلیم کے ابو نے دوبارہ پانی میں چھلانگ لگائی۔ جندروئی کی توجہ کا بٹنا تھا کہ آن کی آن میں سلیم دریا بُرد ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اس نے ناشتہ کیا ہی تھا کہ اس کے گھر کوئی شور مچاتا ہوا آیا ۔ وہ اس کو پہچان نہ سکا لیکن وہ یہ اطلاع دے کر کہ خالہ امینہ کا بیٹا سلیم پتن میں ڈوب گیا ہے، جیسا آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔ اس کے ہاتھ میں روٹی کا نوالہ تھا وہ گر گیا۔ اس کی ماں جی کے رونے کی آواز سن کر ہمسائے بھی آگئے۔ جب انہیں صورتِ حال کا علم ہوا تو انہوں نے دلاسہ دیا ، پھر ماں جی تو نانا ابو کے گھر جانے کے لیے گھر سے نکلیں لیکن وہ تب تک نانا ابو کے گھر جا چکا تھا۔ اس کے دل و دماغ اس کے قدموں کو مات دے چکے تھے۔جب وہ نانا ابو کے گھر پہنچا تو اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ آہ و بکا کی آوازیں تو اسے دور سے سنائی دیں تھی۔ اس نے صغریٰ کو دیکھا اس کے زرد ہوتے چہرے نے گواہی دی کہ اس کے دل پر سلیم کے نام کی تختی لگی تھی اور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ صغریٰ اس کے نام کی مالا جپتی ہے۔وہ بہتر گھنٹے اس کے ننھیال نے جس عذاب میں گزارے ان کی یاد ہی اس کے مشامِ جاں میں کانٹے پرو دیتی۔ تیسرے دن لاش ملی۔ شام تک تدفین ہو چکی تھی۔
یہ ایک ہفتے بعد کا ذکر ہے جب اس نے صغریٰ کو نانا ابو کے گھر دیکھا۔ پاس کوئی نہیں تھااس نے بات کرنے کی کوشش کی تو صغریٰ کنی کترا کر گزرنے لگی۔ ا س نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو صغریٰ نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لیا۔ ’’تم بہت برے ہو۔‘‘وہ حیرت زدہ رہ گیا:’’کیا کِیا ہے میں نے ؟‘‘صغریٰ رونے لگی:’’تم نے سلیم کا روپیہ چھین لیا تھا ۔وہ کتنا رویا تھا، میں تمھیں معاف نہیں کروں گی اور آئندہ کبھی تمھارے ساتھ نہیں کھیلوں گی۔‘‘اس کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا:’’صغریٰ۔۔۔۔۔‘‘ وہ جا چکی تھی لیکن اس کی زندگی میں کانٹے بو گئی تھی۔ وہ پہلا دن تھا جب اس نے سوچا کہ وہ خیانت کا مرتکب ہوا تھا۔ اس دن وہ جی بھر کر رویا ۔اسے قرار نہ آیا تو وہ سلیم کی قبر پر چلا گیا۔ وہ روتا رہا لیکن قرار کہیں نہیں تھا۔اس کے والد گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے ۔ان کے گھر میں خوشحالی تھی۔ان دنوں اسے دو روپے روز کے ملا کرتے تھے۔ پانچ دن بعد اس نے دس روپے سلیم کے چھوٹے بھائی کے جیب میں کھیلتے کھیلتے ڈال دیے لیکن سکون اسے نہیں ملا۔ وہ بنٹے بہت شوق سے کھیلا کرتا تھا اور اس وقت اس کے پاس سولہ سو کے قریب بڑے خوبصورت اور آنکھوں کو دلکش لگنے والے بنٹے تھے۔ وہ خالہ کے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ نسیم رو رہا تھا۔ اس نے وجہ پوچھی تو خالہ نے بتایا کہ وہ بنٹے مانگ رہا تھا لیکن دکانیں بند تھیں ۔ اس سے نسیم کا رونا نہ دیکھا گیا۔ چپ چاپ اپنے گھر آیا، بنٹوں والی پتیلی اٹھائی اور دوڑتا ہو اخالہ کے گھر جا پہنچا۔اس وقت خالہ امینہ کے پاس اس کی ماں جی اور صغریٰ اور اس کی امی بیٹھی ہوئی تھیں۔ خالو نسیم کو چپ کرا رہے تھے لیکن وہ اونچی آواز میں رو رہا تھا۔وہ پاس پہنچ کے رکا اور نسیم کو مخاطب کر کے کہا:’’چھیمے ! یہ لے بنٹے۔ اس نے پتیلی کا ڈھکن اٹھایا اور پتیلی نسیم کی گود میں رکھ دی۔ سب سے زیادہ حیرانی اس کی ماں جی کو ہو رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ بنٹوں میں اس کی جان تھی۔ خالہ امینہ نے روتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا ۔صغریٰ حیرت سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ روتے ہوئے نسیم کو چپ لگ گئی تھی:’’بھائی! یہ سارے میرے ہیں۔‘‘اس نے خوشی سے کہا:’’ہاں ، سب لے لے۔‘‘پھر وہ خاموشی سے وہاں سے نکل آیا لیکن سکون اس کی زندگی سے رخصت ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خاندان بھر میں سب سے زیادہ ذہین تھا۔ اس نے اپنے معمولات میں تبدیلی کی۔ اب وہ نماز باقاعدگی سے پڑھتا، قرآن کی تلاوت کرتا اور اس کا ثواب سلیم کی روح کو بخش دیتا۔ اس نے بنٹے کھیلنے ترک کر دیے۔ صغریٰ کو الوداع کہنے کا کام جاری رکھا لیکن اب صغریٰ اس کو وقتِ رخصت دیکھتی نہیں تھی۔
وقت گزرتا رہا اس نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا ، اس کے بعد ایف ایس سی کی اور خاندان والوں کی توقعات کے مطابق میرٹ پر میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ان گزرتے چھ برسوں میں وہ روزانہ سلیم کی قبر پر حاضری دیتا، رو رو کر معافی مانگتا، اپنے جیب خرچ سے پیسے اس کے بھائی کو دیتا، لیکن اسے سکون نہ ملتا۔ وہ بے کل سا رہتا۔ میڈیکل کالج میں اس کی خوش لباسی، خوب صورتی اور اخلاق کو دیکھ کرمہ جبینوں نے قریب ہونے کی کوشش کی لیکن اس کے اپنے کام سے کام رکھنے کی عادت نے انہیں مزید خوار ہونے سے بچا لیا۔
سکون پانے کی خواہش اسے سائیں بھاگ سرکار کے دربار پر لے آئی تھی اور یہیں اس کی ملاقات اس دلکش آنکھوں والے ساحر سے ہوئی تھی جس نے اسے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا سبق دیا تھا کہ اس طرح اس کو اس عذاب سے نجات مل جائے گی۔ اسے کہا گیا کہ ان لوگوں کے گھروں کے چولہے جلاؤ جن کا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ وہ اس پر عمل پیرا ہو گیا۔ وہ پڑھتا رہا علم حاصل کرتا رہا اور سلیم کے نام پر خیرات کرتا رہا لیکن جو آگ اس کے اندر جل رہی تھی وہ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔
وقت گزرتارہا۔ایک دن وہ گھر آیا تو اسے ماں جی نے بتایا کہ کل صغریٰ کی مہندی ہے اس کی امی دعوت دے گئی ہیں دو دن بعد بارات ہے اس لیے ان دنوں وہ گھر میں ہی رہے۔ اس کے اندر کوئی چیز چھناکے سے ٹُوٹی۔ وقت جیسے تھم سا گیا۔ اسے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ماں جی تو اسے زہر کا پیالہ پینے کا حکم سنا کر چلی گئیں اس نے بمشکل ستون کے ساتھ ٹیک لگائی۔اجڑنے کا خوف اس کی رگوں میں سرایت کر گیا۔ کسی لمحے کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔وہ ایک پل کو سمیٹتا تو دوسرا پل اس کے سامنے پھیل جاتا۔بڑھاپے نے اسے ایک آن میں آلیا۔تھوڑی دیر بعد اس نے چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں ۔صدیوں کی تھکاوٹ اس کے بدن میں اترتی اسے روئی کی طرح دھنکتے چلی گئی۔
خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا کہ ابھی ایک روپے کا قرض نہیں اترا تو یہ دوسرا دکھ کہاں سے پال لیا تُونے؟ کون سا صغریٰ نے تم سے عہد و پیماں کئے تھے جو اب اجڑنے کا ماتم کر رہے ہو۔ اگر وہ گھر بسانا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے تم جیسے ہجر گزیدہ سے کون نبھا کرے گا؟
صغریٰ کی بارات والے دن اس کے دل میں اس کی قبر اُگ آئی۔ اس نے اس قبر میں اس شخص کو اتار اجو صغریٰ سے عشق کرتا تھا۔اس پر ترتیب سے پتھر رکھے اور پھر مٹی ڈال دی۔
وقت گزرتا رہا، وہ پڑھتا رہا اور سلیم کے نام پر خیرات کرتا رہا۔چھ برس مزید بِیت گئے،اس کا ایم بی بی ایس مکمل ہوا۔ اس کے بعد ہاؤس جاب کا عرصہ بِیتا تو اسے شہر کے سرکاری ہسپتال میں ملازمت مل گئی۔ اب اس کی ماں جی کو اس کے سر پر سہرہ سجانے کاخیال آیا۔ اس نے انکار کر دیا۔ ماں جی اپنی بھانجی سے اور ابو اپنی بھتیجی سے اس کی شادی کرناچاہتے تھے لیکن وہ انکاری تھا۔ اس نے کہا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا۔ خیال کیا گیا کہ شاید اس نے دل میں کسی کو بسایا ہوا ہے لیکن پوچھنے پر ہنس کے ٹال دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔ یوں چھوٹے بھائی کی اور پھر بہن کی شادی کرا دی گئی۔
اس کی پریکٹس خوب چل رہی تھی۔ شام کے وقت وہ ایک نجی ہسپتال میں بیٹھا کرتا ، وہ غریب مریضوں کا مفت علاج کرتا ، انہیں مفت دوائیں دیتا اور ثواب سلیم کے کھاتے میں جمع کرا دیتا۔ تنہائی میں اللہ سے کئے گئے مکالموں نے اسے ایک نئی دنیا کی سیر تو کرا دی لیکن اس کے دل کی بے کلی نہ گئی۔وہ ایک ایسا شخص تھا جس کی روح میں آبلے ہی آبلے تھے۔ جس نے اپنے بھائی کا ایک روپیہ چھینا تھا اور اس ایک روپے نے اسے ایک ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا تھا جس سے رہائی کی نوید اسے نہیں ملتی تھی۔ اس کے اندر ماضی کا ناسور پل رہا تھا۔وہ اندر سے گل سڑ گیا تھا لیکن باہر سے تندرست نظر آتا تھا۔
اس کی ماہانہ آمدنی لاکھوں میں تھی۔ اس نے اس آمدنی کے پانچ حصے کیے ہوئے تھے۔ ایک حصہ ماں جی کو دیتا ،ایک ابو کو، ایک بہن کو اور ایک سلیم کے نام پر خیرات کرتا، اس نے بہت سے سلسلے شروع کیے ، غریب نوجوان لڑکوں کو رکشے لے کر دیے کہ اپنا گھر سنواریں، ہر محلے میں پانی کا بور کرایا اور غریب بچوں کی پڑھائی کا خرچہ اٹھایا۔ اس کے باوجود جب وہ رات کو سونے کے لیے بستر پر لیٹتا تو دو معصوم سی نگاہیں قہرِ آتشیں بن کر اس کی روح تک میں چھید کر جاتیں:’’تم بہت برے ہو، تم نے سلیم کا ایک روپیہ چھینا۔‘‘وہ اٹھ کے بیٹھ جاتا اور اس کی نیند روٹھ جاتی۔ ماں جی شادی کا کہہ کہہ کر چُپ ہو گئیں۔
اس کے بالوں میں چاندی اتر آئی لیکن اس کی سزا ختم نہ ہوئی۔ یہ ایسی کسک تھی کہ جس کا کوئی کنارا نہیں تھا کہ اسے وہاں سے پکڑ کر روح بدر کیا جاتا کہ وہ سکون کا سانس لیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دریا کنارے کھڑا تھا دریا کا پانی اتنا دلنشیں تھا کہ وہ خود پر قابو نہ پا سکا اور دریا میں اتر گیا۔ پانی جتنا پیارا لگ رہا تھا اتنا ہی اس کے مشامِ جاں کو عطر بیز کر گیا۔ وہ پانی میں اترتا چلا گیا۔اچانک اس نے سلیم کو دیکھا وہ بھی اسی پانی میں موجود تھا ۔ لیکن یہ کیا۔۔۔اس کی جیب تو روپوں سے بھری ہوئی ہے۔اس نے حیرت سے سلیم کی طرف دیکھا۔
پانی کی بوندیں اس کے چہرے پر پڑیں تو اس نے آنکھیں کھولیں۔بارش ہو رہی تھی۔ وہ سلیم کی قبر پر بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا۔ پچیس برس کا طویل عرصہ بیت گیا لیکن اس قبر نے اسے رہائی نہ دی۔وہ گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک خاتون اس کی ماں جی کے پاس بیٹھی ہیں ۔وہ کمرے میں چلا گیا۔ اس کی ماں جی آئیں:’’بیٹا!رشیدہ کی بیٹی کی شادی ہے۔ لڑکے والے فرج اور موٹر سائیکل کا تقاضا کر رہے ہیں۔ تمھیں تو پتا ہی ہے کہ وہ مشکل سے زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔ بس اس کا بوجھ اتر جائے۔‘‘اس نے اتنا ہی کہا:’’ جی ماں جی !‘‘الماری کھولی، ہزار ہزار کے نوٹوں کی ایک گڈی پڑی تھی۔ اس نے ماں جی کو دے دی۔ وہ بستر پر لیٹا تو اس نے رشیدہ کی اونچی آواز میں دعائیں سنیں لیکن الماری کھلی رہ گئی تھی اور پرندہ پنجرے کا دروازہ کھول کر اڑ چکا تھا۔
Be First to Comment