Skip to content

پناہ

عالمی افسانہ میلہ 2015

افسانہ نمبر 107
صدف زبیری
”پناہ ”

پھر کیا ہوا تھا ؟
ہاں ! اس نے کبوتر جیسے نرم و نازک سفید پاؤں میں چاندی کی سرخ موتیوں والی پازیب پہنی تھی ۔ صرف ایک ۔۔۔ دوسری تو وہ ہاتھ میں لئے کھڑے تھے ۔ روشن چمکدار پیشانی پر بندیا کا سرخ پتھر لشکارے مار رہا تھا ۔ گوٹے والا ریشمی غرارہ پنڈلی سے ذرا اوپر اٹھا ہوا تھا پازیب جو پہنی جا رہی تھی ۔ تلّی کے کام والا سلور کھسّہ پاس ہی پڑا تھا ۔ وہی کھسّہ جو ابّا کے ساتھ عید پر تایا جی کے گاؤں میں لگنے والے بڑے بازار سے وہ خود جا کر لائی تھی۔ ابّا سائیکل پر روئی کی نرم گدّی رکھ کر اسے آگے بٹھا لیتے ۔ آپا پیچھے اسٹینڈ پر بیٹھ جاتی پھر ابّا بڑی احتیاط اور مہارت سے اونچے نیچے راستوں پر سائیکل چلاتے یوں پانچ کوس کا فاصلہ طے کرتے گھنٹوں لگ جاتے۔ پھر تایا جی کے گھر اتنا مزہ آتا کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتایوں واپسی رات گئے ہوتی۔ اماں کی خفگی کی ابّا کو ذرہ جو رتی بھر پرواہ ہو ۔ انکے پاس بڑا سادہ اور مستند جواب ہوتا ” بیٹیاں شیشے کی طرح ہوتی ہیں اب میں انور اور راشد کی طرح اونچے نیچے راستوں پر سائیکل نہیں دوڑا سکتا ۔ آخر پانچ کوس دور ہے ۔۔۔۔ پورے پانچ کوس “

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

وہ اندھا دھند بھاگتے بھاگتے رُکی ۔ پانچ کوس کتنے ہوتے ہیں ؟ انگلیوں پر حساب لگانے کی کوشش کی نظر یونہی پاؤں پر پڑ گئی ۔ گندی مَٹی اور کیچڑ میں لتھڑے پاؤں ۔۔۔ دائیں پاؤں کی تیسری انگلی کا ناخن علیحدہ ہو چکا تھا ۔دونوں انگوٹھوں کے ناخن گوشت کے ساتھ لٹکے ہوئے کسی بھی لمحے جدا ہونے کو تیار تھے اور پازیب !

اس نے جھک کر دیکھنا چاہا مگر سانس دھونکی کی طرح چل رہی تھی ۔ اسے لگا وہ رکی تو دل پھٹ کر باہر نکل آئے گا سو چہرے پر بکھرے اُلجھے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سر کے پیچھے دھکیلا اور دوبارہ بھاگنے لگی ۔ سوچوں کا ٹوٹا ہوا سلسلہ ایک بار پھر جڑا۔

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

دوسری پازیب وہ ہاتھ میں لئے کھڑے تھے ۔ محمود بھائی ۔ اس نے دوبار ان سے چھیننے کی کوشش کی اور ہاتھ ہوا میں لہرا کے رہ گئی غصہ تو یوں بھی ناک پر دھرا رہتا تھا ۔ کاجل بھری آنکھیں پہلے خفگی پھر پانیوں سے بھر گئیں یوں وہ آرام سے رونے والوں میں سے نہ تھی کسی کی مجال جو اسے رُلا سکے مگر یہ محمود بھائی تھے شہر کے سب سے بڑے کالج میں پڑھ رہے تھے پینٹ شرٹ پہنتے ، صاف ستھرے ، چمکدار دانتوں کے بیچ دھیمی دھیمی مسکرایٹ ۔ آنکھوں میں نرمی کاتاثر ۔ ماموں اور خالہ کے گندے سندے بیٹوں جیسے تو بالکل نہ تھے ۔ آپا ان کی بچپن کی منگ تھی اور یہ واحد معقول وجہ تھی آپا سے نفرت کرنے کی ۔ ورنہ چھوٹی موٹی وجوہات کا تو ایک ڈھیر تھا اسکے پاس ۔ لیکن خیر محمود بھائی اسکی ذاتی ملکیت تھے اس نے ان کی گود میں آنکھ کھولی تھی ۔ لاڈ ، فرمائشیں ، نخرے سب ان سے اُٹھوائے تھے پھر وہ بڑے شہر چلے گئے موٹی موٹی کتابیں پڑھنے ۔ ادھر نانا کے انتقال کے بعد ماموں نے اماں کی زمینوں کی دیکھ بھال سے ہاتھ اُٹھا لیا تو ابّا کو یہاں شفٹ ہونا پڑا ۔ ابّا نوکری پیشہ آدمی تھے لیکن انور اور راشد دونوں بھائیوں کو زمینداری سے عشق تھا سو بادل نا خواستہ اپنا گاؤں چھوڑ کر انہیں یہاں منتقل ہونا پڑا ۔ اسے یہاں کی ہر چیز سے نفرت تھی ، ماموں کے بچوں سے ، اس گاؤں سے ، یہاں کے لوگوں سے ، غصہ ہر وقت اس پر سوار رہتا ۔ وہاں تو پورا مہینہ وہ محمود بھائی کا رستہ دیکھتی تاکہ ان سے آپا کی شکایتیں لگا سکے۔ اور وہ اتنے ذوق و شوق سے سنتے اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتے کہ اسے پکا یقین ہو جاتاکہ ایک دن وہ بھی اسکی طرح آپا کو ناپسند کرنے لگیں گے ، پھر آپا کی جگہ وہ محمود بھائی کے ساتھ تایا جی کے گھر چلی جائے گی۔ آج اس کا قرآن پاک ختم ہوا تھا پورا گھر برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا ۔ سرخ گوٹے والے سفید ریشمی غرارے میں سج دھج سے تیار وہ کوئی ننھی پری لگ رہی تھی مگر صبح سے ہر پانچ منٹ بعد رونے ، کانچ کی آدھی سے زیادہ چوڑیاں توڑنے اور خواہ مخواہ کئی بار دانت کچکچانے کے بعدوہ پازیب پہن رہی تھی جب وہ چلے آئے اور اب بلا وجہ دوسری پازیب ہاتھ میں لئے اسے تنگ کر رہے تھے خوشی سے مسکراتے چہرے کے ساتھ وہ اتنے خوبصورت لگ رہے تھے کہ دکھ کے مارے اس نے بے اختیار فرش پر بیٹھ کر رونا شروع کر دیا

ارے ! ارے ! وہ گھبرا گئے ” میں مذاق کر رہا تھا “

جھوٹ مت بولیں آپ سچ مچ آپا سے شادی کر رہے ہیں ۔۔۔۔

اس سے زیادہ برداشت نہیں تھی اس میں ۔۔۔ وہ پل بھر کو حیران رہ گئے

شادی ؟ کس نے کہا ؟ آج تو صرف نکاح ہے شادی میں تو ابھی کئی سال ہیں ۔۔۔

ہاں مگر ! وہ اتنی بُری ہے میں نے آپ کو بتایا بھی تھا ۔۔۔۔

اپنی بے وقعتی کے احساس سے اس نے دوبارہ رونا شروع کر دیا بال پنوں میں سمٹے سمٹائے بال چہرے پر بکھرنے لگے، کاجل بہہ کر رخساروں تک آگیا ۔ بال پیچھے کرنے کے چکر میں بندیا الجھے بالوں میں پھنس کر رہ گئی ۔ وہ خاموشی سے کچھ دیر اسے دیکھتے رہے پھر وہی شفقت بھرا انداز

تو نہ کروں آپا سے شادی ؟

نہیں ! وہ منہ بسور کر بولی

پھر کس سے کروں ؟

اس نے ذرا کی ذرا آنکھیں اُٹھا کر ان کی سوالیہ نظروں کو دیکھا پھر ۔۔۔۔۔۔۔

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

زور کی ٹھوکر لگی اور انگوٹھے سے جھولتا ناخن جدا ہو گیا۔ وہ پل بھر کو رکی ۔ حلق میں کانٹے نہیں کیکر اُگ آیا تھا ۔ اس نے پاؤں سے رِستے خون اور انگوٹھے سے جدا ہوئے ناخن کو خالی خالی نظروں سے دیکھا ۔ تکلیف کا تو کہیں نام نہیں تھا اسے تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا ہے ؟ سینہ آٹا پیسنے والی چّکی کی طرح گھرر گھرر آوازیں نکال رہا تھا قدموں کے ساتھ گویا لوہے کے من من وزنی باٹ بندھے تھے ہر عضو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا بس اب نہیں ۔۔۔ اور نہیں ، مگر وہ کیسے رک سکتی تھی اسے چلتے رہنا ہی نہیں بھاگنا تھا ، گنّے کے کھیت شروع ہو چکے تھے اور وہ پھر گویا سائیکل کی نرم روئی والی گدی پر جا بیٹھی پیچھے سے ابّا اس کے کان میں بولے

” بس تھوڑی دور اور ۔۔۔ گنّے کے کھیت آگئے نا ! اب ہم آنکھیں بند کر کے کھولیں گے تو سامنے تایا جی کا گھر ۔۔۔۔

اس نے آنکھیں بند کیں اور خود کو دوبارہ بھاگنے پر مجبور پایا ۔

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

آپ مجھ سے شادی کرلیں ۔ میں آپا کی طرح بالکل بھی نہیں ہوں کالی کلوٹی ۔۔۔ آپ کی برائیاں بھی نہیں کرتی کسی سے اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ وہ بولتے بولتے رکی

اور کیا ؟

انہوں نے معصوم چھوٹی سے بچی کی شکوہ بھری آنکھوں کو محبت سے دیکھا

کچھ نہیں !

اسے یکدم ادراک ہوا کہ بس اور کچھ نہیں کہنا ۔ انہوں نے اصرار بھی نہیں کیا ۔ کچھ دیر رُکے پھر بولے

ابھی تو تم بہت چھوٹی ہو نا ! ایسا کرتے ہیں ابھی آپا سے نکاح کرلیتا ہوں سب لوگ آگئے ہیں نا اب ۔۔۔ تو اب اگر میں نے منع کیا تو کتنی ڈانٹ پڑے گی ۔۔۔ ہے نا ؟

یہ بات ٹھیک تھی ۔ تایا ابّو کے غصے سے پورا خاندان واقف تھا ۔ لیکن کوئی حل بھی نکالا جا سکتا تھا جیسے ۔۔۔ ؟ جیسے ۔۔۔۔ جیسے ۔۔۔۔

آپ آپا سے پہلے مجھ سے شادی کر لیں ابھی !

کیا ؟ وہ حیرت سے بھونچکے رہ گئے ، مگر وہ اطمینان سے بولی جیسے ہم گڑیا کی شادی میں بولتے ہیں نا قبول ہے قبول ہے ایسے آپ بھی بول دیں ۔

ارے ! وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے

ٹھیک ہے بھئی ۔۔۔ قبول ہے ، قبول ہے ، قبول ہے ۔۔۔ اب ٹھیک ؟ چلو اب منہ صاف کرو پازیب پہنو اور جلدی سے باہر آجاؤ ۔ وہ عجلت میں کہتے باہر نکل گئے ۔۔۔۔

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

وہ بھاگتی رہی ، گنّے کے کھیت اتنے طویل تو کبھی نہ تھے اور اتنے خاردار بھی ۔۔۔ یوں جیسے بڑے بڑے سوئے جسم کے پار ہوئے جا رہے ہوں ۔ سورج کی تپش آگ کو مات دے رہی تھی ۔ مساموں سے پانی کی طرح پھوٹنے والی دھاریں بھی بدن کی حّدت کو کم کرنے میں ناکام تھیں ، یہ کیسی آتشِ زیرپاتھی ۔ جلتے انگارے تلوؤں سے بندھے تھے ۔ پھیپھڑوں میں یکدم ھی آگ دہک اُٹھی سینے میں دھواں بھرنے لگا بالکل ویسا دھواں جیسا اس رات امّاں کی آنکھوں میں تھا۔

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

یہ پازیب والے واقعے کے دو دن بعد کی بات تھی وہ صبح اٹھی تو آپا غائب تھی ۔ ابا مہینہ ختم ہونے سے پہلے گھر پر موجود تھے اور راشد اور انور کے ساتھ سر جوڑے بیٹھے تھے ۔ حالانکہ اسے کسی نے ایک لفظ نہیں کہا تھا لیکن سب کی آنکھیں بدل گئی تھیں ان میں سرخ گاڑھا دھواں جو بھر گیا تھا ، وہ چپ چاپ کمرے میں منہ چھپائے سہمی ہوئی بیٹھی رہتی ۔ گھر کی دیواریں اور دروازے دھواں بھری آنکھوں سے بھر گئے تھے ۔ پھر ان کی زبانیں نکلنے لگیں ، جیسے ہی سورج کی روشنی نکلتی یہ آنکھیں اپنی زبانوں سے لپک کر اسے چاٹ جاتیں ۔ کھکھلاتی آوازیں وحشت بھری سرگوشیوں میں تبدیل ہو گئیں ۔ تین دن بعد راشد ایک رات آپا کو بڑی سے سیاہ چادر میں لپیٹ کر لے آیا ۔ پہلی بار اسے آپا اچھی لگی اب کم از کم یہ منحوس دھواں تو ختم ہو گا ۔ دوبارہ سورج نکلے گا ۔ روشنی ہو گی ۔ سب پہلے جیسا ہو جائے گا ۔ مطمئن ، خوش وہ خوابوں میں نرم نرم بادلوں میں محوِ پرواز تھی کہ اچانک جیسے کسی جلتی صور پھونکتی آواز نے اسے قیامت میں جگایا ۔ سہمے سہمے قدموں سے اس نے دروازے کی جھّری سے باہر جھانکا ۔ انور اور راشدآپا کا منہ دبوچے کھڑے تھے ۔ امّاں نے فصل کاٹنے والی درانتی بھاگ کر ابّا کو تھمائی اور پھر آپا کی گردن سے بہتے سرخ دھوئیں سے پورا آنگن بھر گیا ۔ اسنے روکتے روکتے بھی زور کی ابکائی لی ۔ شعلوں سے گھرے سیاہ وحشت ناک لبادے میں لپٹی امّاں اس پر جُھکی ہوئی تھی

” آپا پر چڑیل آگئی تھی ۔ ہم نے چڑیل کو مار دیا ۔ ورنہ وہ ہم سب کا خون پی جاتی “

اب دیکھ ! خیال کر یہ چڑیل تجھ پر نہ آجائے

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

نہیں نہیں نہیں میں چڑیل نہیں ہوں ۔۔۔۔ سوئے ہوئے سناٹے کو اسکی بے ساختہ چیخوں نے جھنجوڑ کر جگایا ۔ گھبرا کر اس نے رک جانا چاہا مگر اب وہ خود اپنے اختیار میں نہیں تھی ۔ پورا بدن ضد پر آگیا تھا ۔ قدم رکنے سے انکاری ہو گئے ۔ اس نے پوری شدت سے یاد کرنے کی کوشش کی پھر کیا ہوا تھا ؟ وہ کیوں بھاگ رہی تھی ۔ وہ تو آپا جیسی بالکل نہیں تھی کیسے بتائے ؟ کِسے بتائے ؟ امّاں کو ؟ وہ اماں کو پکارنا چاہتی تھی مگر درانتی پکڑاتے وہ ہاتھ ۔۔۔ وہ ان ہاتھوں سے بھی بھاگ رہی تھی ۔۔۔ راشد اور انور اسکا منہ دبوچنے آجاتے تو ؟ نہیں اس سے پہلے وہ بھاگ جائے گی ۔ کوئی ہے جو اسے پناہ دے گا ۔

جس نے اسے قبول کیا تھا !!!

جسکا لباس بے داغ اور مسکراہٹ روشن تھی ۔ وہ اوروں جیسے تو بالکل نہیں ۔ ۔۔۔ بالکل بھی نہیں ۔ تیزی سے اندھا دھند گزرتے منظروں کے بیچ تایا ابو کا گاؤں نظر آرہا تھا ، ذرا فاصلے پر انکا گھر تھا ۔ بس اب وہ وہیں رہے گی سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اس منحوس گاڑھے سرخ دھوئیں بھرے گھر میں کبھی نہیں جائے گی ۔ پھیپھڑوں کے انگارے شدت سے دہک رہے تھے ۔ سینہ آتش فشاں بن چکا تھا ۔ سانسیں گویا لاوے کی صورت ابل رہی تھیں ۔ چار قدم اور اس نے تایا ابوکی گلی کو پہچاننے کی کوشش کی ۔ سہارے کیلئے ہاتھ ہوا میں لہرائے اور دھڑام سے نیچے ۔۔۔۔

*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*

کم سن بچوں کے شور اور بہوؤں کی چیخ و پکار پر محمود صاحب نے گلی میں نکل کر دیکھا تو وہاں ادھیڑ عمر ہاجراں بی بی کی دھونکنی کی طرح چلتی سانسیں دھیرے دھیرے دم توڑ رہی تھیں ۔ الجھے بالوں ، پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں ، مٹی سے اٹا جسم اور زخمی پیروں سے رستہ خون جس سے بندھی زنجیر کی غائب کڑیاں بتا رہی تھیں کہ پگلی آج زنجیر توڑ کر بھاگ آئی تھی ۔۔

Published inصدف زبیریعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply