عالمی افسانہ میلہ 2021
دوسری نشست کا پہلا افسانہ
افسانہ نمبر 21
پس دیوار دل
احسان بن مجید
اٹک ۔ پاکستان
ٹھک ٹھک فرش پر پڑتے بُوٹوں کی ایڑیاں جیسے فرش پر نہیں، اس کے دل پر پڑ رہی تھیں اور اسی چاپ کے ساتھ سیج پر بکھری بے قراری سمٹ کر اس کے وجود کا حصہ بن گئی تھی، ایک نا معلوم سا لرزہ اس کے تن بدن پر طاری ہو گیا، دل کے قریب کہیں میٹھے سے درد نے انگڑائی لی، اسے اپنا چہرہ تو دکھائی نہیں دیا لیکن دھڑکنیں گواہی دے رہی تھیں کہ اس کا ایک رنگ آ، ایک جا رہا تھا۔ آج شب اسے نئی زندگی کا آغاز کرنا تھا، سکھیوں نے جانے اس کے کان میں کیا پھونک دیا تھا کہ ہر گزرتا لمحہ اس کے اعصاب پر جیسےایک خوف کی تہہ چڑھا رہا تھا، خدشے اور وسوسے دائیں بائیں کھڑے اس کا پہرہ دے رہے تھے۔
چاپ حجلہء عروسی کے دروازے تک آ کر چند لمحوں کے لئے خاموش ہو گئی تھی، وہ گھونگٹ نکالے پہلے ہی سمٹی بیٹھی تھی، کچھ اور سمٹ گئی اور آنے والے لمحوں کے لئے خود کو مجتمع کرنے لگی۔ حجلہء عروسی کا دروازہ کھُلا اور ایڑیوں کی ٹھک ٹھک کمرے میں داخل ہو کر سیج تک آ کر رُک گئی، اس کی پلکوں نے مزید جھُک کر اس کی نظروں کو گود تک محدود کر دیا تھا، سیج کی چند لڑیاں اُٹھیں اور وہ اس کے قریب بیٹھ گیا، اس نے کوٹ کی جیب سے ایک خوبصورت پیکٹ نکالا اور کھول کر ہیرا جڑی انگوٹھی نکالی، اس کا ہاتھ پکڑا اور ایک انگلی میں پہنا دی، پہلی بار کسی مرد نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا، اس کے جسم پر جیسے ایک دم کئی چیونٹیاں رینگ گئیں۔
کچھ باتیں کر لیں! اس نے سیج میں بیٹی دلہن کو مخاطب کیا۔
جی ! اس نے پلکوں کی چلمن اٹھا کر اپنے جسم و جاں کے مالک، اپنے مجازی خدا کو دیکھا تو فخر سے جیسے سیج چھوٹی پڑ گئی، اس کا رنگ گورا، بال سیاہ کالے لہریں بناتے ہوئے، آنکھیں اتنی خوبصورت کہ کسی عورت کی کم ہوں گی، کلین شیو لیکن شیو کی جگہ سرمئی رنگت بہت اچھی لگ رہی تھی، رانوں پر کَسی پتلون سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کھڑا ہو کر کتنا سمارٹ نظر آئے گا اور پھر اس کے اندر بے چینی کی سی کیفیت یوں پیدا ہو گئی کہ کب دو دن گزریں اور وہ اس کو ساتھ لے کر میکے جائے، اس کی سہیلیاں اس دیکھنے آئیں اور اپنے سینوں میں حسد و رشک کی بوریاں بھر کے لے جائیں، وہ ان کے سامنے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے اوپر والے پاؤں کو جنبش دیتی رہے۔
پھر باتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، وہ پاؤں لٹکائے بیٹھا رہا اور دلہن سمٹی بیٹھی رہی، نصف شب باتوں میں بیت گئی اور کمرے میں یوں خاموشی چھا گئی جیسے یہ حجلہء عروسی نہ ہو اور نہ ہی اس میں کوئی نوبیاہتا جوڑا ۔۔۔۔۔ اس کے اندر آندھیاں چلنے لگیں، اسے یقین ہو چلا تھا کہ یہ جھکڑ ابھی اسے اُڑا لے جائیں گے اور وہ ٹُوٹ پھُوٹ کر بکھر جائے گی، پہلے اس نے ایک بات سوچی، نہیں یہ نہیں، پھر دوسری بات، نہیں یہ بھی نہیں، تیسری، یہ تو بالکل نہیں، یہ صرف باتیں ہی نہیں تھیں فیصلے بھی تھے لیکن یہ وقت ان فیصلوں کا نہیں تھا، اس نے اپنے ذرے یکجا کئیے اور عذاب سوچوں سے نجات پا کر ذہنی طور پر آسُودہ ہو گئی، اسے نہیں پتہ چلا کب وہ سیج سے اُٹھ کر کپڑے بدلنے کے بعد ساتھ پڑے بیڈ پر سو گیا، سوگیا یا وہ بھی اپنے ذرے اکٹھے کرتا رہا۔
صبح ولیمے کا جھمیلا تھا، وہ اٹھ کر اس کے پاس گئی، پہلے آپ واش روم سے آ کر کپڑے بدل لیں پھر مَیں، وہ کپڑے بدلتا رہا اور دلہن اس کا کوٹ پکڑے کھڑی رہی، اس نے پہلے ایک بازو پہنا پھر دوسرا، دلہن نے اس کی پیٹھ پر اپنے ہاتھوں سے ساری سلوٹیں درست کیں، برش اٹھا کر اس کے ہاتھوں میں دیا، وہ بال سنوار کر ایک طرف بیٹھ گیا تھا، تھوڑی دیر میں دلہن بھی سنگھار کر کے اس کے پاس آ بیٹھی تھی، دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور نظریں جھُکا لیں، شاید کوئی سوچ دونوں کو کھُرچ رہی تھی، کمرے میں ایک اٹُوٹ اور حیران کُن خاموشی تھی، دروازے پر آہستہ سے دستک ہُوئی۔
کون! اس نے اندر سے پوچھا۔
صاحب جی مَیں نواز آپ کا ناشتہ لایا ہُوں، نوکر نے باہر سے نام اور کام بتایا۔
اس نے دروازہ کھول دیا، نواز نے اندر آ کر نئی بیگم صاحب کو سلام کیا اور ناشتے کی ٹرے ٹرالی پر رکھتے ہوئے دھکیل کر ان کے سامنے کر دی اور سلام کرتے ہوئے کمرے سے نکل گیا لیکن اپنا سراپا بیگم صاحب کی آنکھوں میں چھوڑ گیا۔
نواز چودہ پندرہ سال کا لڑکا تھا جس کی مَسیں بھیگ رہی تھیں، رنگت صاف اور خطوط تیکھے تھے، نوجوانی اس کے جسم پر دستک دے رہی تھی، اس لئے اس کے جسم پر ابھی ماس آ رہا تھا، قد بڑھنے کے ساتھ اس کی چال میں بھی ایک ٹھہراؤ سا آ گیا تھا۔
نواز ہمارا بہت پرانا نمک خوار ہے، غریب والدین کا بچہ ہے، اس کی ماں اسے پانچ سال کی عمر میں یہاں چھوڑ گئی تھی، جب سے اب تک ہمیں اس سے کوئی شکایت نہیں، گھر کا سارا کام اسی کے سپرد ہے، ہم بھی اسے گھر کا فرد سمجھتے ہیں لیکن اس کی ایک عادت اچھی نہیں، صاف نہیں رہتا، اس نے گردن گھما کر دلہن کو دیکھا، دونوں کے چہروں پر ایک سوگوار سی مسکراہٹ آ کر چلی گئی تھی۔
شادی کا ہنگامہ پرانا ہو چکا تھا اور اب وہ نواز کے ساتھ گھر کا اکا دکا کام کرنے لگی تھی، کئی کئی دن ایک ہی لباس اس کے زیبِ تن رہتا، سر کے بال الجھنے کو آ جاتے، اس کے اندر تو ایک ہی موسم آ کر رک گیا تھا، اس تو صرف اس کا خیال رکھنا تھا جس کے ساتھ بیاہ کر آئی تھی اور وہ اس کا پورا خیال رکھ رہی تھی۔
نواز ، صاحب کا سُوٹ آئرن کرنا ہے، صاحب کے بُوٹ پالش کرنے ہیں، صاحب کے کھانے کو دیر نہیں ہونی چاہئیے، نواز چائے کے لئے پانی رکھ دو صاحب آنے والے ہیں اور گاڑی کا ہارن سنتے ہی وہ سارے کام چھوڑ کر اس کے استقبال کے لئے گیٹ پر پہنچ جاتی، اس کے ہاتھ سے بریف کیس لیتی اور دونوں اپنے کمرے میں آ جاتے، ایک دوسرے کو یوں دیکھتے جیسے نہ دیکھنا چاہتے ہوں۔
صاحب کے لئے چائے لاؤ، اس نے نواز کو پکارا۔
مَیں ایک میٹنگ کے سلسلہ میں ملتان جا رہا ہُوں رات واپس نہیں آسکوں گا بلکہ کل شام پانچ بجے تک، اد نے چائے کا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
نواز گھر جانے کے لئے چھٹی مانگ رہا تھا، اس نے بھی خالی کپ میز پر رکھ دیا۔
آج روک لیتے ہیں، کل چلا جائے گا، بلاؤ نواز کو، وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہُوا تھا۔
تم کل شام چلے جانا، آج رات مَیں گھر نہیں ہُوں، نواز خود ہی چائے کے برتن اٹھانے اندر آ گیا تھا۔
جی صاحب، اس نے تعمیلا” اپنی نظریں جھکا لیں، اس نے بریف کیس اٹھایا اور ملتان کے لئے روانہ ہو گیا، اگلی شام پانچ بجے گاڑی کا ہارن بجا تو وہ گیٹ تک نہیں گئی بلکہ خوبصورت چست لباس پہنے، سلیقے سے بالوں کا جُوڑا بنائے، چہرے پر ہلکا سا سنگھار کئیے برآمدے میں کھڑی رہی، وہ برآمدے میں پہنچا تو اس نے اس کے ہاتھ سے بریف کیس نہیں لیا، دونوں کمرے میں آ گئے۔
آج بہت خوبصورت لگ رہی ہو، اس کی نظریں اس کے چہرے پر جم کر رہ گئی تھیں۔
نواز بھی یہی کہہ رہا تھا، اس کے لبوں پر ایک البیلی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.