عالمی افسانہ میلہ 2021
دوسری نشست
افسانہ نمبر 41
پرکار
زادی زیب ۔ کراچی۔ پاکستان
برسات کے دن تھے ۔ دیکھتے دیکھتے ابر چھاتا اور جل تھل مچ جاتی ۔آج بھی دن چڑھتے بارش کا سماں بندھا ۔ گھٹا چھاٸی اور بادلوں نے اپنی اپنی چھاگل کا منہ کھول دیا ۔برسات کے ہنگامےمیں چہکتی ہوٸی انسانی آوازیں بھی شامل ہوگٸیں ۔ بچے پانی میں چَھپ چَھپ کرتے دوڑیں لگارہے تھے ۔ عورتوں اور لڑکوں کی ٹولیاں بنیں اِدھر اُدھر گھوم رہی تھیں ۔ نادیدہ حدّ فاصل کے پرے بارش ہر شے ، خیال اور لمس کو بھگو رہی تھی ۔
” توازن میں کتنی عافیت ہے ۔ مخلوق خدا کاٸناتی مظاہر کے ساتھ کتنی ہم آہنگ نظر آتی ہے “ ۔ مسرت کے اس اودھم کا یہ ایک خاصا معقول جواز تھا ، خاص کر جب گھر کےاندر ترتیب اور قرینے کی وجہ سے ایک عجیب سی سوگواری
چھاٸی ہوٸی ہو ، حتّٰی کہ شیلف میں رکھی کتابیں بھی دھول سے صاف ہوں ۔
میرے کمرے کی کھڑکی گو چھجے کی اوٹ میں تھی لیکن بارش نے اپنے زاویوں کے زور سے اس تک بھی رساٸی حاصل کرلی تھی ۔ ننھی ننھی بوندیں کھڑکی کے شیشے پر پھسل رہی تھیں ۔ آبگینے سی ایک بوند پر میری نظر رک گٸی ، وہ بوند بھاگ کر دوسری بوند سے جامِلی ۔ بوندوں کا یہ کھیل نوخیز لڑکیوں کی اٹھکھیلیوں کی طرح جاری تھا ۔ شرارت بھری یہ قلانچیں مجھے اپنے دل پر پڑتی نظر آرہی تھیں ۔ یکا یک سارا منظر ساکت ہوا ، جیسے ساری لڑکیاں اپنی مستی چھوڑ کر چوری سے تکنے والے نوجوان کو دیکھ کر حیرت سے اسے گھورنے لگی ہوں ، میں اگرچہ اس منظر کے پار جھانک سکتا تھا مگر میں اس منظر کو رُکا چھوڑ کر باہر نکل آیا ، جہاں پرنالوں سے گرتا پانی پختہ سڑک پر کوڑوں کی طرح برس رہا تھا ۔
بارش تھم گٸی تھی ۔ اجلی نرم سی گیلی گیلی روشنی میں منظر نامہ چاندی ایسا چمک رہا تھا ۔ ایک شفیق دن اس نکھرے ستھرے منظر کو اپنی آغوش میں لٸے تفاخر سے مسکرارہا تھا ۔ لوگ اب بھی موسم کے رنگ سمیٹ رہے تھے ۔ بچے ان میں پیش پیش تھے ۔ ان کی خوشی دیدنی تھی ، جو دیکھنے والوں کو بھی خوامخواہ ہی خوش ہونے پر اُکساتی تھی ۔ بھیگنے کی لذت ، خوشی کے اجتماعی مغالطے کی سازش کے طور پر ماحول میں پھیلی ہوٸی تھی ۔۔۔۔۔ اور مغالطے اپنے وقت کا مکمل سچ ہوتے ہیں ۔
چند بچے ایک غبارے والے کو گھیرے کھڑے تھے ۔ غبارے والا تندہی سے غباروں میں گیس بھر کر بچوں کو تھمارہا تھا ۔ ایک چھوٹے بچے سے غبارہ پکڑنے میں چُوک ہوگٸی اور غبارہ تیزی سے فضا میں بلند ہونے لگا ۔ بچے شور مچاتے غبارے کو پکڑنے کی کوشش میں اُچھل کود کرنے لگے ۔ میں اس منظر کو دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ یہ سن ہی نہ سکا کہ بچے غبارہ پکڑنے کے لٸے مجھے پکاررہے ہیں ۔ بعد میں ، میں نے ہوا میں ہاتھ گھمایا مگر غبارہ میری پہنچ سے بلند ہوچکا تھا ۔ ازالے کے طور پر میں نے ایک بے چارگی والی مسکراہٹ بچوں کی طرف اچھالی مگر بچے اتنی جلدی میں تھے کہ وہ میری اس غفلت کو سمجھے بغیر ہی ادھر اُدھر بھاگ گٸے ۔ میری نظریں دسترس سےدوری کے اس نظارے کو دور تک دیکھتی رہیں ، جبکہ درمیان میں کچھ بھی نہ تھا ۔۔۔۔۔ پرواز اور رفتار کا مسافر فاصلوں سے نہیں جھوج سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فضا ، خلا ، غیب ، نظر ۔۔۔۔ قلب ۔۔۔۔ میں فاصلوں کے نام رکھتے ہوٸے چلنے لگا ۔
میری جادہ پیماٸی کے ساتھ ہی پھوار بھی برسنے لگی ۔ ساری خلق خدا کو اپنے سنگی ساتھیوں کے ساتھ دیکھ کر میرے اکیلے پن نے مجھے چُٹکی بھری ۔ میں فوری طور پر برسات کے تصور کی ایک خوش خیال پرچھاٸیں میں سمٹ گیا ۔
” بارش کی ہلکی پھوار دل پر برستی ہے “ ۔
” گلابی موسم میں آنکھ روٸے بھی تو اشک ستارے دکھاٸی دیتے ہیں “ ۔ خوش خیالی کی دوسری پرچھاٸیں جو میری طرف لپکنے کو تھی ، کہ ۔۔۔ رم جھم کے اس ساز کو ایک سوز نے آلیا ۔۔۔۔ ایک کھنکتا ہوا لہجہ ٹھنڈے جھونکے کی طرح آکر مجھ سے ٹکرایا ۔
” مجھے نہ جانے کیوں خوابوں میں ساحل سے ٹکراتی لہریں دکھاٸی دیتی ہیں “ ؟
” تم اصل میں سمندر کے شہر کی باسی ہو تو یہ تلاطم تمہارے لاشعور کا حصہ بن گیا ہے “ ۔ میں نے انتہاٸی سنجیدگی سے اُس کے خواب کا بھید کھولا ۔
” اچھا !! تو تمہاری چھلکتی آنکھوں کا راز تمہارے شہر کی بارشوں میں چھُپا ہے “ ؟ اُس لہجے کی کھنک بہت قریب سے سناٸی دی ۔
” آہاں ۔۔۔ ہوسکتا ہے “ ۔ یاد کے اس جِلو میں آنکھوں میں بھیگے منظر کی سی نمی مسکرارہی تھی ۔ وہ آنکھیں میری تھیں ۔ میں جب بھی خوشی سے مسکراتا تھا ، میری آنکھیں سِیلنے لگتی تھیں ۔ یہ بات اُس کے علاوہ مجھ سے کسی نے نہ کہی تھی ۔
” کسی عورت سے محبت اور اس کو پانے کی خواہش خود مختاری کا سب سے خوش کن تجربہ ہے ، مگر قدرت ہماری قسمت کے سارے پتّے اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے “ ۔۔۔۔ سینے میں یخ بستگی کا انگار دہکا ۔ نظر نے نیلگوں شفاف آسمان کو تاکا ۔ نگاہ کے زمین تک واپسی کے سفر میں مجھے اس بروقت دھیان نے آلیا تھا کہ میری بیوی نے کچھ عرصہ پہلے ہی ایک صحت مند بچے کو جنم دیا ہے ۔۔ یقینناً یہ ایک بڑی خوشی ہے اور اب تو وہ قلقاریاں مارنے لگا ہے ۔۔۔۔ اور میں جب بھی اپنے بچے کو دیکھتا ہوں میرا دل ایک سرشاری سے بھر جاتا ہے ۔۔۔ میں سوچنے لگتا ہوں کہ یہ تخلیق ہی میرا اولین مقصد تھا ۔۔۔۔ میرا دل چاہا بھاگ کر جاٶں اور روٸی کے اُس گالے کو اپنی بانہوں میں بھرلوں ، ساتھ ہی محبت سے بھری گہری سیاہ آنکھیں بھی تصور میں ابھر آٸیں ۔ میں نے ارادہ کیا کہ واپس لوٹ کر زلفوں کی خوشبو کا بوسہ لوں گا ۔
” یہ چاٸے خانے بھی عجب جاٸے پناہ ہوتے ہیں “ ۔۔۔ میں نےچاٸے کیفے میں پڑاٶ ڈالنے کا قصد کیا ۔۔۔۔۔ خلاف معمول اُن بوڑھوں کی مخصوص میز پر آج وہ تین کے بجاٸے دو تھے ۔۔۔ وہ تینوں بوڑھے مہذب اور رکھ رکھاٶ کے حامل تھے ، مگر ان کی ہٸیت میں ایک پھسپھسا پن اور بکھراٶ تھا ، صرف ان کی آنکھیں ان کی سالمیت کا منظر پیش کرتی تھیں ۔۔۔۔ اظہار کے پیراٸے میں ان کے اتفاق اختلاف یوں آپس میں گڈمڈ ہوتے کہ تصویر بہرحال ایک سالمےکی شکل میں ابھرتی ۔۔۔۔ اس دماغ سوزی کی ہر مشقِ نو میں درحقیقت اپنے اپنے فہم کی گرد جھاڑ کر اسے دہرایاجاتا تھا ۔۔۔۔ تفہیم کے تازہ بیان میں ” پرانا پن “ اور ماضی سے ارتباط ایک حتمی نتیجے کے طور پر ہمیشہ ہی یکساں رہتا ۔۔۔۔ غالباً نتیجے کی یہی خاصیت انہیں آسودگی کی اُس مسرت سے ہمکنار کرتی تھی ، جس کے حصول کے لٸے بیٹھک کا یہ اجتماع برپا ہوتا تھا ۔۔۔۔ دونوں سر جھُکاٸے خاموش تھے ۔۔۔۔ ” موت تو زندگی کے اندر موجود ہوتی ہے ۔ ہم سب ہی آدھے پونے مرے ہوٸے لوگ ہیں“ ۔۔۔ ایک بوڑھے کی پژمردہ آواز بمشکل سناٸی دی ۔ سرد لہر کا ایک گولا میری ریڑھ کی ہڈی میں گردش کرنےلگا ۔ میں نے پہلو بدل لیا ۔ دماغ میں تیرنے لگے دھوٸیں کے مرغولوں نے پھر بھی ان کی گفتگو پر موت کا سیاہ عنوان لکھ دیا تھا ۔ دونوں بوڑھوں کی سرگوشیاں میرے دماغ میں گُھلنے لگیں ۔
موت سے میرا اولین تعارف ابتداٸی بچپن کے ان دنوں میں ہوا تھا جب میں نے علاقے میں ایک بچے کی میت کو چٹاٸی میں لپٹے دیکھا تھا ۔ موت کا یہ منظر اپنی کسی مذید توضیح کے بغیر میرے حافظے میں نقش رہا ۔ ہوش سنبھالتے ہوٸے کسی کے انتقال کا اعلان سنتے ہی میرا ذہن یہ منظر کشی کرلیتا کہ کسی زندگی کی بساط لپیٹ دی گٸی ہے ۔ بعد میں موت کی ایک واضح تصویر میں نے اس وقت تجربہ کی تھی ، جب دادا جی کا انتقال ہوا تھا ۔ ان کے انتقال سے قبل میں نے بارہا گھر والوں کو ان کی چارپاٸی کے گرد اکٹھے ہوتے دیکھا تھا ۔ لمبے چوڑے دادا جی چارپاٸی پر ایک گھٹڑی بن کر پڑے ہوتے ۔ لواحقین کی خاموشی اور ترحم آمیز نگاہیں اُس وقوعے کی منتظر دکھاٸی دیتیں ، جو کہ رونما ہونے والا تھا ۔ دادا جی کے بولنے کی قوت تمام ہوچکی تھی ۔ وہ باری باری سب کو نظر گھما کر دیکھتے رہتے ۔ ایک بار بابا نے ہاتھ پکڑ کر مجھے دادا جی کے سامنے کردیا اور دہرایا ” ابا جی یہ آپ کا پوتا ہاشم ہے “ دادا جی کی نظریں مجھ پر آکر رک گٸیں ۔ ان بجھتی ہوٸی آنکھوں کا خالی پن مجھے اچھے سے یاد تھا ۔ اگلے چند دنوں میں دادا جی کا انتقال ہوگیا ۔زندگی لپٹی ہوٸی بساط کی شکل میں میرے سامنے تھی ۔ بالکل سیدھی ۔۔۔۔ جیسے اس کی گرہ کُھل گٸی ہو۔۔۔
میرا پیٹ نامعلوم تناٶ سے پھولنے لگا ۔۔۔۔ میری آنکھیں میرے ہونے کی حیرت کے بوجھ سے کھنچ کر حلقوں سے باہر پھیل گٸ تھیں ۔۔۔ کپ کے گرد لپٹی میری انگلیاں چمڑے سے عاری تھیں ۔۔۔۔ سارا چاٸے خانہ مجھ ایسی استخوانی مخلوق سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔ نہ جانے پہلی جست کب شروع ہوٸی ؟؟؟ مگر اب سب ہی اپنے حصار کے متعین فاصلوں میں محبوس تھے ۔۔۔۔ ” انسان کے شش جہتی حواس کے شعور کی ساری پرتیں بھی ، ایک ہی داٸرے میں مقید ہیں وہ جیتے جی کبھی اپنے داٸرے سے باہر نہیں نکل سکتا “
۔۔۔۔۔۔ دادا جی کی آنکھوں کے داٸروں کا خلا اب میں دیکھ پارہا تھا ۔
واپس جاتے ہوٸے زرد روشنی میری آنکھوں میں چبھنے لگی تھی ۔۔۔۔ میں بھی چلتے چلتے کسی اندھیرے غار میں معدوم ہوجاٶں گا ۔۔۔۔ اندھیرا ہی کاٸنات کی اصلی سچاٸی ہے ،،،، باقی ہر سچ مشتبہ ہے ،،،، حتّیٰ کہ روشنی بھی ۔۔ میرا دل اس یقین کے اعادے سے بوجھل ہوا ۔۔۔ ڈھلتا ہوا دن بھی اس اعادے کی ساجھے داری میں شریک تھا ۔۔۔۔ سورج کا آتشیں نارنجی گولا غیر مُرٸی طاقت کے بَل پر خلا میں معلق تھا ۔ یہ منظر انسانی بساط سے قدرت کے از خود موازنے کا شاخسانہ معلوم ہوتا تھا ۔۔۔۔۔
۔۔۔ شفق کی سرخی سُرمٸی شام میں ڈھل کر سیاہ پڑنے لگی ۔ بارش کے آثار پھر نمودار ہورہے تھے ۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں بارش کے قطروں نے بوچھاڑ کی صورت اختیار کرلی ۔ بادلوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ بجلی بھی لپکے ماررہی تھی ۔ ماحول بارش کی شاں شاں سے گونج رہا تھا ۔ زمین اور آسمان کے بیچ در آنے والی تاریکی میں ہونے والی بارش قدرت کے جبر کا پُر ہیبت نظارہ پیش کررہی تھی ۔ جبروت کے اس تخت پر میری زندگی کا تحرک اس مراقبے میں گُم تھا کہ ” کاٸنات کے صرف دو ہی پنّے ہیں ، دن اور رات ، رات کی سیاہی دن کی روشنی کے ہر مفہوم کو اپنے رنگ میں بدل لیتی ہے “ ۔۔۔۔ موسلادھار بارش سے پانی اب نشیب کی طرف بہنے لگا تھا ۔ بہتے پانی کی چھلاچھل زمین کی تہہ کا کوٸی راز معلوم ہوتی تھی ۔۔۔۔ کاٸنات کی دو طاقتوں کے مظاہر میں زندگی مسلسل خاموش تھی ،۔۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے دونوں بازو کسی نامعلوم تقابل میں پھیلا دیٸے ۔ اس لمحے مجھے اپنا سینہ ایسا کُشادہ معلوم ہوا کہ جیسے پوری کاٸنات ایک نقطہ بن کر میری چھاتی میں سماگٸی ہے ۔ دل پہ لگے داغ میں ڈھل گٸی ہے ۔
Urdu short stories and writers
Comments are closed.