عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر86
پرت
ڈاکٹر مہ جبیں نجم غزال
میسور ( انڈیا )
اپنے مخصوص یونیفارم میں ملبوس، ٹرین کے بیرے نے میری سیٹ کے آگے کا اسٹینڈ کھول کر چائے اور ناشتے کی ٹرے دھردی تو میں چونکا اور مجھے احساس ہوا کہ میں کتنا اکیلاہوں۔ مجھے شمالی ہند کی ایک لسانی کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔
سلیپر کوچ کا ریزرویشن نہیں مل سکا تو مجبوراً چیر کار میں سفر کرنا پڑا۔ یعنی پورے پینتیس گھنٹے مجھے بیٹھے ہی رہنا تھا۔مسلسل بیٹھے بیٹھے جسم میں درد ہونے لگا تھا۔مگر مجھے درد کے احساس سے زیادہ اس بات کا خیال ستا رہا تھا کہ میں بہت تنہا ہوگیا ہوں !
میں نے بسکٹ، نمکین اور مٹھائی کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ اکتاہٹ سے اپنے بیگ میں رکھ دئیے ۔ پتہ نہیں یہ حقیقت تھی یا میرے احساس کی کڑواہٹ کا گمان کہ میں نے سوچا ٹکٹ سمیت کھلانے پلانے کے روپئے اینٹھنے کے بعد ہم مسافروں کو ضرورت سے زیادہ ہی کھلایا پلایا جارہا ہے۔ کسی محنت کے بغیر پہروں کرسی سے چمٹا ہوا انسان معمول کے کھانے کے ساتھ دودھ، مکھن، کریم والے بسکٹ، چاکلیٹ، مٹھائی، آئس کریم اور ٹھنڈے میٹھے مشروب لیتا رہے گا تو دو ہی دن میں اس کے وزن میں اضافہ ہو جائے گا۔شاید اسی لیے میرے پاس والی چیر پر بیٹھی ہوئی خوبصورت عورت جس نے رات کے کھانے کے لیے ویج فوڈ کا آرڈر دیا تھا، اب صرف سلاد کی فرمائش کررہی تھی۔
دوپہر تین بجے کے قریب جب ناگپور شہر کا اسٹیشن آیا تھا اور ٹرین پندرہ بیس منٹ تک رکی رہی تھی تو خواہش کے باوجود میں ٹرین سے اتر کر ٹہلا نہیں بلکہ دروازے میں کھڑا خالی خالی نظروں سے اسٹیشن کو دیکھتا رہا۔ دل ویران ہو تو خواہشیں بھی شاید ٹھنڈی پڑنے لگتی ہیں۔ اب شام کے ڈھلنے کے سا تھ اے سی کی ٹھنڈی ہوا سے جسم میں کپکپاہٹ سی محسوس ہونے لگی۔ سگریٹ پینے کی خواہش کو ترک کرتے ہوئے میں نے چینی اور دودھ کے پاؤڈر کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ کھول کر کپ میں چینی اور دودھ کا پاؤڈر ڈالا۔اب بیرا گرم پانی سے بھرا فلاسک بھی تمام مسافروں کی ٹرے میں رکھ گیا تھا۔میں نے چائے بنائی اور گرم گرم چائے کی چسکیاں لینے لگا ۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میری نظر پاس بیٹھے ہوئے تین مسافروں پر پڑی جن میں سے ایک نیا شادی شدہ جوڑا تھا اور دوسری خود میں کھوئی کھوئی سی ایک عورت۔ دولہا اپنی کمسن دلہن کی بجائے اس بڑی عمر کی پرکشش عورت کوکنکھیوں سے دیکھے جارہا تھا۔ وہ عورت اس سے بے خبر کوئی رسالہ پڑھے جارہی تھی۔ میری نظریں دولہے کی نظروں سے ٹکرا گئیں تو میں بے اختیار مسکرا دیا۔ دولہا سٹپٹایا اور اپنی دلہن سے کچھ کہنے لگا، غالبا” وہ اپنے لیے چائے بنانے کی فرمائش کررہا تھا کیونکہ اس کی دلہن نے فورا” چائے بنا کر پیالہ اس کی جانب بڑھا دیا۔ میں نے معنی خیز نگاہوں سے دولہے کو دیکھا گویا کہنا چاہ رہا ہوں کہ گھبراؤ مت، اس میں تمہاری کیا غلطی، ہلکے میک اپ اور پیازی ساڑھی والی وہ عورت ہے ہی غضب کی چیز ! کچھ لوگ ہوتے ہی ایسے ہیں کہ عمر رفتہ ان کے چہرہ کے نقوش کو بگاڑنے کی بجائے مزید نکھار دیتی ہےاوروہ ہر عمر میں جاذب نظر لگتے ہیں !
مگر میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں؟ میں تو بہت اکیلا پڑ گیا ہوں۔ ٹرین کا بیرا صبح جب اس چیر کار کے تمام مسافروں کو انگریزی اخبار کی ایک ایک کاپی دے گیا تھا اور تقریباً” سارے مسافر ایک ہی اخبار پڑھنے میں منہمک ہوگیے تھے، یا پھر جب تمام مسافر ایک ہی سا بریک فاسٹ، لنچ، اسنیاکس اور ڈنر لیتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے مجھے لگتا ہے جیسے ہم سب ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ ایک بڑا سا خاندان اس آرام دہ ٹرین کار میں سفرکررہا ہو۔ ورنہ دوسرے اوقات میں میں خود کو بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں۔
وہ خوبصورت اور پرکشش عورت بھلے ہی غضب کی چیز ہو، میری نازو سے زیادہ غضب کی چیز ہرگز نہیں۔ نازو تو میری بائک پر جس راستہ سے گزرتی اس راستہ کی کاروں کی رفتار دھیمی ہو جاتی۔ موٹر بائکس آگے بڑھنے کی بجائے اپنے منچلوں سمیت لوٹ آتیں اور حسرت سے اس کا تعاقب کرتیں۔ نازو سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنی رہتی۔ اس میں غضب کا ضبط اور وقار ہے۔ایسے لمحوں میں وہ اور زیادہ معصوم لگتی ۔صنف مخالف ہی نہیں، عورتیں اور بچے تک اس کے حسن ظاہر سے متاثر ہوجاتے۔ پھر میں تو اس کے حسن باطن سے بھی واقف تھا، کیسے نہ اس کا دیوانہ ہوتا۔ اس کا حسن لاجواب تھا تو میرا پیار بھی شاید بے مثال تھا۔ جب جب وہ اپنی چند کمزوریوں اور غلطیوں پر نادم ہوتی اس کے لیے میرا پیار اور بڑھ جاتا، بلکہ اس کا یوں نادم ہونا مجھ سے برداشت نہ ہوتا تھا۔ میں نے اس سے سینکڑوں بار کہا تھا کہ وہ اس دنیا کی مخلوق نہیں ہو سکتی۔ خدا نے اسے کچھ الگ ہی مٹی سے بنایا ہے۔ اسی لیے حسن سلوک سے بھری اس کی شخصیت کچھ اور ہی جادو جگاتی ہے اور کچھ لوگ اس پر بری طرح فدا ہوجاتے ہیں تو اس میں اس کا کیا قصور۔ اپنی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوئی ہمدردی کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ اپنے انداز میں چند احباب کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتی ہے تو کیا غلط کرتی ہے۔ کیوں نادم ہوتی ہے ۔یہ بھی اس کی خوبی ہے جو بھلائی کرکے شرمندہ ہوتی ہے۔شاید اسے میرے احساسات کے مجروح ہونے کا خیال آجاتا ہے۔ مگر میں خود بھی کچھ الگ ہی مٹی سے بنا ہوں۔ میں نے اسے اتنی چھوٹ دے رکھی ہے کہ اگر وہ سچ مچ کسی اور کو بھی پسند کرنے لگ جائے تو بھی مجھے گوارا ہے۔ میں اسے کسی بندش میں جکڑنا نہیں چاہتا کہ فلاں ہیرو تمہیں کیوں اس قدر پسند کہ اس کی تصویریں اکٹھی کرتے اور تعریفیں کرتے نہیں تھکتی ہو ( یہ اور بات کہ اس نے کبھی ایسا کچھ کیا ہی نہیں ) ۔اسے بالکل آزاد فضاؤں میں اوپر بہت اوپر اُڑتے دیکھ کرہی مجھے خوشی ہوتی ہے۔
نازو چمپئی رنگت، بڑی بڑی آنکھوں، ستواں ناک اور چھوٹے چھوٹے خوبصورت ہونٹوں ، دراز قد اور سڈول جسم کی مالک منکسرالمزاج لڑکی تھی ۔اس کا سراپا پرکشش اور اس کی آنکھیں نہایت جادو بھری تھیں۔اس پر اس کی سادگی ، معصومیت اور جذبہ ایثارکے ساتھ حسن سلوک نے مجھے اس کا غلام پھر دیوانہ بنادیا۔
میں نے اس کے ساتھ بہ حیثیت رفیق حیات پورے دس سال گزارے ہیں یعنی پوری ایک دہائی۔۔۔اور اس دوران ایک پل کے لیے بھی ایک دوسرے کے لیے ہمارے پیار میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ ہر پل اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ میرے لیے یہ احساس کچھ کم قابل فخر نہ تھا کہ اس نے میرے پیار کا جواب پیار سے دیا اور مجھے ایک ایسی وادی میں لے گئی جہاں محبت کے ہزار ہا خوبصورت پھول مہک رہے تھے۔ بلکہ وہ میرے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے ہر پل تیار رہتی۔ میں نے اپنے اور اس کے درمیان بچوں کی دیوار اٹھانی نہیں چاہی تو وہ اس کے لیے بھی بخوشی تیار ہوگئی۔ مگر پھر اس نے مجھے سمجھایا کہ بچے میاں بیوی کے درمیان کی دیوار نہیں بلکہ پل ہوتے ہیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ نازو کی خوبصورت دنیا میں اس پل کی تعمیر نہ کرکے میں اس کی دنیا کو ادھوری اور اس کی خوشی کو نامکمل رکھ رہا ہوں ۔ میں نے ایک بچے کے لیے حامی بھر لی۔ اس دن وہ گویا سچ مچ فضاؤں میں اڑنے لگی۔ اس نے یہ لالچ بھی دیا تھا کہ جب ہم عمررسیدہ اور کمزور ہونے لگیں گے تو ہماری اولاد ہمارے ہاتھ کی کم از کم ایسی لاٹھی تو ہوگی جس کے سہارے کوئی اندھا بھی اپنی منزل تلاش کر لیتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری محبتوں اور شفقتوں کا کوئی محور بھی تو ہونا چاہئے۔
اس مرحلہ سے گزر کر جب ہم نے فیملی پلان کرنی چاہی تو جھٹکا لگا کہ مسلسل حمل کو ٹالنے کی گولیاں کھانے کے سبب اب سچ مچ حمل ٹک نہیں پارہا۔ تب ہم نے دعا کی آرزو میں خانقاہوں اور درگاہوں کے چکر کاٹے۔آخر اس نے میرے جونیئر کو جنم دیا تو درحقیقت میرے دل میں خوف جاگا کہ کہیں اب وہ مجھے بھول کر صرف اس کی نہ ہوجائے۔ مجھے یہ یہ بات تو گوارا ہے کہ وہ میرے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی چاہے، مگر مجھے بھول جائے اور صرف کسی اور کی ہوجائے اس بات کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔نازو اب ایک باشعور عورت بھی ہے۔اس نے مجھے اور علی کو چاہنے میں توازن کا برابر خیال رکھا۔ مامتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی پلڑا ادھر جھک بھی جاتا تو جلد ہی سنبھل بھی جاتی اور میں مسکرا دیتا۔آخر اس نے مجھ سے پیار کیا ہے۔
مگر آج ہنستے ہنستے اس کے اس انکشاف پر کہ اسے مجھ سے کبھی پیار نہیں ہوا تھا بلکہ میری اس دھمکی سے گھبرا کر کہ اس نے مجھ سے شادی نہیں کی تو میں مرجاؤں گا، اس کی ہمدردی بھرے جذبات کے سمندر میں طوفان سا اٹھا اور اس نے حامی بھر لی تھی۔ پھر پورے دس سال برابر پیار سے میرا خیال رکھتی رہی اور ہمیشہ رکھے گی۔۔۔، میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔میں اس کے رفیق حیات کے قابل فخر منصب سے گر کر ایک بھکاری بن گیا ہوں جس کو وہ دس سال سے بڑے پیار سے خیرات دیتی رہی ہے اور ہمیشہ دیتے رہنے کا وعدہ بھی کررہی ہے۔ میں اس لمحہ سے خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہا ہوں۔ جیسے میں اچانک بے گھر ہو گیا ہوں۔ کاش وہ یہی کہہ دیتی کہ پہلے تو اسے پیار نہیں تھا پھر شادی کے بعد رفتہ رفتہ اسے مجھ سے پیار ہوگیا۔ دُکھی دل کے ساتھ میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ کیا کوئی مسلسل دس سال کے طویل عرصہ تک اداکاری کر سکتا ہے؟ میری نازو نے کی ہے۔ اس نے کبھی پل بھر کے لیے بھی مجھے یہ احساس نہ ہونے دیا کہ اسے مجھ سے پیار نہیں۔ میں اس کی عظمت کو سلام کرتا ہوں۔
مجھے اپنے اکیلے پڑ جانے کا جتنی شدت سے احساس ہورہا ہے، راجدھانی ایکسپریس کی رفتار بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ مگر سچ مچ ۔۔۔“ہنوز دلی دور است”۔ میں اداسی سے اپنے آپ مسکراتا ہوں اور کانوں میں ایر فون لگا کر ائی پیاڈ پر جگجیت سنگھ کی آواز میں غزلیں سننے لگتا ہوں۔ مگر جگجیت سنگھ کی آواز کے سوز سے گھبرا کر ایر فون کانوں سے نکال دیتا ہوں اور بٹن کی مدد سے اپنی سیٹ کو ایزی چیر کی شکل میں لاکر اس کی پشت سے سر ٹیک کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ذہن کے پردے پر ہمیشہ کی طرح مسکراتی ہوئی نازو کا چہرہ ابھر آتاہے۔ -“ پاگل”- یہ کس نے کہا؟ نازو نے مجھ سے کہا یا میں نے نازو سے ؟ مجھے کوئی جواب تو نہیں ملتا مگر پتہ نہیں کیوں ایک سکون سامحسوس ہوتا ہے ۔ جیسے طوفان کے تھمنے کے بعد کی کیفیت ہو۔
راجدھا نی ایکسپریس اب آہستہ آہستہ ڈول رہی ہے۔ اچانک میرے دل میں ایک سوال اٹھتا ہے اور میں تھرا جاتا ہوں کہ پورے دس سال نازو کتنی اکیلی رہی ہوگی۔ اس نےاس دوران میرے ہر فیصلے پر خوشی سے اثبات میں سر ہلایا ہے میری ہر مرضی کو دل سے قبول کیا ہے ۔ ہر معاملہ میں میری پسندکے آگے مسکرا کر یوں سر تسلیم خم کردیا ہے جیسے اس کے روشن ماتھے پر ذرا سا بھی بل آئے گا تو میں کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھرجاؤں گا۔۔۔ کیا یہ اس کی محبت نہیں ہے ؟
وہ تو آج ہنستے ہنستے اس کی زبان پر اس کا پرانا سچ آگیا تھا جس نے میرے وجود کو ہلاکر رکھ دیا۔ مگر اب ۔۔۔ احساس کی بس ایک پرت کے اترنے کے ساتھ ہی میں گویا پختہ دل و دماغ کا مالک ہوش مند انسان بن گیا ہوں اور میرا جی چاہ رہا ہے کہ ٹرین دہلی کی بجائے واپس بنگلور کی طرف پلٹ کر تیزی سے دوڑنے لگے اور میں اپنے گھر جا کر پوری شدت سے نازو لپٹ جاؤں اور اسے خوب پیار کروں، ہمیشہ کی طرح۔
نہیں، ہمیشہ سے کہیں زیادہ!