عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 22
پُرانا بیڈ
قُربِ عّباس، لاہور، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فطرت ۔۔۔ بہت کمینی گھوڑی ہے۔ لاکھ لگام کو ہاتھ میں رکھو، مگر کسی مقام پر تو ایسے منہ زور ہو جاتی ہے کہ اپنی مرضی کی راہ پر سر پٹ بھاگنے لگتی ہے۔ روکے نہیں رکتی۔ مارو چابکیں ۔۔۔ نہیں رکتی۔
ــــــــــــ
پرانا بیڈ جو رات بھر ‘چیں چیں ۔۔۔ ‘ کرتا رہتا تھا، اصغری کے بالکل ساتھ والے کمرے میں پڑا تھا۔ اصغری من کی پکی، صوم و صلوّات کی پابند اور پاکیزہ محبت پر یقین رکھنے والی جو محسن کو اپنے آس پاس بھنوروں کی طرح منڈلاتے دیکھ کر خوش تو ہوتی تھی لیکن چھونے نہیں دیتی تھی۔ جب وہ لہکتا ہوا گردن گرا کر منہ اس کے پاس لاتا تو اصغری “ہائے اللہ” کہہ کر پیچھے ہو جاتی؛
“بے شرم ہو تم تو۔۔۔ یوں گناہ ملتا ہے۔”
وہ کڑوا سا منہ لے کر ایک طرف ہو جاتا؛
“محبت میں چلتا ہے نا ۔۔۔”
“نہیں نا ۔۔۔ نہیں چلتا ایسا کچھ بھی۔ محبت تو پاکیزہ ہوتی ہے۔”
“پاکیزہ؟ میں کبھی نہیں دیکھا کہ جب دو پیار کرنے والے ملیں تو وہ ایک دوسرے پر درود پڑھ کر پھونکتے ہوں۔ پاکیزہ محبت ۔۔۔ ہونہہ!”
دیسی غذاؤں نے اصغری کے بدن کو کچھ ایسا گٹھ کر جوان کیا تھا کہ انگ انگ جوانی کا آئینہ تھا۔ رنگت ذرا سانولی سی تھی، موٹی آنکھیں اور تیکھی ناک کچھ ایسا غضب ڈھاتے کہ محسن مَرا جاتا۔
پرانے بیڈ کی جانب واپس آتے ہیں ۔۔۔ صائمہ اور حَسن نے جب لاہور میں آ کر اپنی نئی نئی زندگی کا آغاز کیا تو حَسن پہلے کہہ چکا تھا کہ ہمیں ایک کوڑی نہیں چاہیئے، جہیز لیں گے نہ کوئی پیسہ۔۔۔ دونوں کما کر خود بنائیں گے۔ کرائے پر دو کمروں کا گھر لے لیا جس میں ایک اسٹور بھی تھا۔ دونوں میاں بیوی نے سوچا کہ کسی پرانے فرنیچر کی دوکان سے ضرروت کی چیزیں اٹھا لاتے ہیں، سستا سامان مل جائے گا۔ صوفہ جو مناسب حالت میں ہی تھا گو کہ دیکھنے میں خوبصورت نہ تھا ۔۔۔ پر گزارہ جو کرنا تھا۔ چار کرسیاں ایک میز بھی ٹھیک ہی مل گئے۔
جب بیڈ کی باری آئی تو لگے دونوں لڑنے۔ حَسن کہتا تھا کہ بھئی سب تمہاری مان لی ۔۔۔ پر بیڈ میں اپنی مرضی سے لوں گا اس پر کوئی سمجھوتا نہ کروں گا۔ صائمہ کہتی تھی کہ سستا ہی صحیح رہے گا پھر پیسے جوڑ کر نیا لے لیں گے۔ دونوں میں تکرار جاری تھی کہ دوکان کا مالک پاس آیا ایک طرف منہ کر کے پان کی پچکاری ماری، قیمت بتائی تو حسن ٹھنڈا پڑگیا۔ آگے بڑھے تو وہ بھی پہنچ سے باہر ۔۔۔ دوکان دار نے ایک اور پچکاری مار کر کہا؛
“یہ لے جاؤ صاحب ۔۔۔ تمہاری پہنچ میں ہے اور ہے بھی چنگا بھلا۔”
دونوں نے ایک دوسرےکی جانب دیکھا، آخر حَسن نے منہ چڑھاتے بڑھاتے وہ پرانا بیڈ خرید ہی لیا۔ گھر لے آئے ۔۔۔ بچھایا ۔۔۔ رات ہوگئی ۔۔۔ لیٹے تو ہر معمولی حرکت پر ایک واہیات سی لمبی “چیں ۔۔۔۔”
حَسن جھنجھلا گیا؛
“لو۔۔۔ تم ہی کہتی تھی نا ۔۔۔ بھگتو اب۔۔۔”
“ارے میں کہتی تھی تو کیا ۔۔۔؟ اتنے پیسے کہاں رہے تھے کہ تمہاری مرضی کا لے لیتے۔”
“چلو تمہاری تو دل کی پوری ہوگئی نا ۔۔۔ ہو جاؤ خوش۔”
“اتنی تپ کیوں کھا رہے ہو؟ ۔۔۔ صبح چولوں میں تیل ڈالنا ٹھیک ہو جائے گا۔”
صبح ہوئی، چولوں میں تیل ڈالا ۔۔۔ پھر رات ہوئی تو وہی لمبی “چیں ۔۔۔”
“نہیں چلی تمہاری یہ سائنس بھی ۔۔۔ تیل ڈال لینا ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ ہونہہ!”
صائمہ مسکرائی؛
“تو مسئلہ کیا ہے ۔۔۔؟ اتنا پیارا سا بیک گراؤنڈ میوزک دے رہا ہے۔۔۔ ”
صائمہ کی مسکراہٹ حَسن کی تلخی کو ہَوا کر جاتی تھی۔ زندگی یوں ہی ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ، میٹھی میٹھی لڑائی اور محبت میں گزر رہی تھی۔
کچھ عرصہ گزرا تھا کہ صائمہ نے گھر کال کرکے کسی کام کاج والی کا پوچھا تو گھر والوں نے اصغری کا بندوبست کر کے بھیج دیا۔ ادھر تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ محسن بھی پڑھنے بھائی کے پاس آ گیا۔
اصغری سٹور میں سو رہتی اور محسن کو کمرہ دے دیا، یعنی ایک طرف حسن اور صائمہ دوسری طرف محسن، بیچ میں اصغری۔
جوں ہی رات ہوتی اس پرانے بیڈ کی “چیں۔۔۔ چیں۔۔۔” شروع ہو جاتی۔ حسن اور صائمہ تو دونوں عادی ہو گئے تھے، لیکن اصغری پوری رات کبھی ایک طرف کروٹ کبھی دوسری طرف ۔۔۔ یہ آواز اسے پریشان کیے رکھتی ۔۔۔ نجانے کیوں ۔۔۔ کبھی کم ہوتی کبھی زیادہ ۔۔۔ کبھی اونچی کبھی نیچی ۔۔۔ اور فجر کی اذان سے پہلے خاموشی چھا جاتی تو تب کہیں جا کر اصغری بھی سکون کے ساتھ سو سکتی۔ اگلا پورا دن رونق میں گزرتا ۔۔۔ محسن اس پر ڈورے ڈالتا رہتا۔ کن اَکھیوں سے دیکھتا، کبھی کوئی اشارہ کرتا اور کبھی ہلکا پھکلا ہاتھ لگا کر گز ر جاتا۔ اصغری نے شروع شروع میں تو ظاہر کیا کہ اس کو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا لیکن وہ سمجھ نہیں سکتی تھی کہ اچھا بھی کیوں لگتا ہے ۔۔۔ محبت کے احساس پر بھی خوفِ خدا تو جی میں ابھرتا پر پاکیزہ محبت کے فلسفے کی دیوار اس خوف کی تپش کو اپنی چھاؤں سے ٹھنڈا کر دیتی، وہی پاکیزہ محبت کا فلسفہ جو اس نے ٹی وی کے ڈراموں میں لاتعداد مرتبہ دیکھ اور سُن رکھا تھا۔
ایک دن صائمہ کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اصغری نے جب “ٹمپون” (Tampon) کا پیکٹ کھلا دیکھا تو سوچا کہ اب کچھ دن سکون سے سو سکے گی، بیڈ کی آوازوں سے جان چھوٹی ۔۔۔ مگر ایسا ہوا کہاں ۔۔۔ آوازیں تو اسی طرح کی اسی طرح تھیں ۔۔۔ کبھی کم کبھی زیادہ، کبھی اونچی کبھی نیچی ۔۔۔ اور وہی اذان سے پہلے ختم ہوئیں۔ اسے تو صائمہ اور حسن غلیظ نظر آنے لگے، بس چلے تو ان کے چھوئے برتن کو ہاتھ نہ لگائے ۔۔۔ پر وہ مالکن تو نہ تھی۔۔۔ نوکرانی تھی ۔۔۔ مالکن ہوتی تو دونوں کو اگلی صبح ہی گھر سے نکال باہر کرتی ۔۔۔ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی۔
وہ صائمہ کو شروع سے جانتی تھی، دونوں ایک ہی گاؤں سے تھیں اور عمروں میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا، کبھی سوچا تک نہ تھا کہ صائمہ اس قدر فحش بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اتنی کُھلی باتیں عام انداز میں کر جائے۔ یونہی سبزی کاٹتے کاٹتے کہیں ساتھ بیٹھی پڑوسن صائمہ سے کہہ بیٹھی؛
“مردوں کو تو صرف ایک ہی چیز چاہیئے۔”
صائمہ نے بہت طنزیہ انداز میں ہنس کر جواب دیا؛
“اچھا۔۔۔؟ اور عورتوں کو؟”
پڑوسن منہ تکتی رہ گئی۔ کچھ دیر کے بعد پھر پڑوسن کو کیا سوجھی کہ اس نے ایک اور فلسفہ سامنے رکھا؛
“خیر ۔۔۔ مردوں کے پیار کی اصلیت دیکھنی ہے تو ممنوعہ دنوں میں دیکھو ۔۔۔ کیسے آنکھیں پھیر کر دور دور رہتے ہیں۔”
اس پر بھی صائمہ نے بڑی بے باکی سے جواب دیا؛
“تو عورتوں کا موڈ بھی کہاں اچھا ہوتا ہے میڈم ۔۔۔؟ مگر ۔۔۔ ہمارا وہ معاملہ نہیں ہے ۔۔۔ ہم تو ایک دوسرے سے تب بھی محبت کرتے ہیں جب گناہ سمجھی جاتی ہے۔۔۔” یہ کہہ کر صائمہ نے قہقہہ لگایا۔
پڑوسن کا منہ کھل گیا۔ “ہائیں۔۔۔؟”
“تو اور کیا۔۔۔؟ بھئی پلاسٹک کا دور ہے اب گناہ کہاں گناہ رہا ہے۔۔۔”
اس دن سے تو اصغری کو کچھ ایسی کراہت آنے لگی کہ جی چاہتا اس سے دور ہی رہے۔ دراصل میاں بیوی دونوں ہی جانور دکھائی دینے لگے تھے۔ آتے جاتے اٹھتے بیٹھے یوں پکڑ کر منہ چوم لیا ۔۔۔ کولہے پر تھپکی لگا دی اور ایک دوسرے سے ایسی ایسی باتیں کہ اصغری شرم سے ڈوب ڈوب جاتی۔ گاؤں واپس بھی تو جا نہیں سکتی تھی، ایک تو نوکری دوسرا محسن ۔۔۔ اس کے دیکھتے ہی اندر کوئی ہلچل سی مچ جاتی۔ وہ پاس آتا تو دل دھڑکتا ہوا دوپٹے سے ظاہر ہوتا۔ دونوں کبھی گھر میں اکیلے رہ جاتے تو عجیب عجیب قسم کے خیالات اندر ہی اندر پَھڑپَھڑانے لگتے۔
ہر کام کا، ہر رنگ کا کوئی انوکھا ہی ڈھنگ تھا۔
ابلتے دودھ کو بہت دیر تک دیکھتی رہتی، برتن کے نزدیک چہرہ کرتی تو اس کی گرم بھاپ بھلی لگتی۔ بھاپ اور محسن کی شرٹ جو دھونے سے پہلے وہ اپنی ناک کے ساتھ لگاتی تو پسینے کی بُو آتی دونوں ایک طرح کا سرور لیے ہوئے تھے اور پھر اپنے جسم کے پسینے سے اٹھتی بُو بھی کچھ ایسی ہی راحت دیتی تھی، ان سب چیزوں میں کچھ مماثلت تو ضرورتھی ۔۔۔ وہ بار بار اپنی بغلیں سونگھتی ۔۔۔ اپنے گریبان کے اندر جھانکتی۔ دیر دیر تک دیکھتی رہتی۔ سانس الجھنے لگتیں اور تصورات میں محسن کا جسم بغیر شرٹ کے دکھائی دینے لگتا جو گردن سے نیچے اور کاندھوں سے بالکل گورا ہوتا ۔۔۔ یہ خاکے دن میں کئی مرتبہ بنتے، کئی مرتبہ ٹوٹتے ۔۔۔ لیٹے لیٹے اپنے پاؤں کے انگوٹھوں کو آپس میں رگڑتی ۔۔۔ ٹانگ کھجاتی ۔۔۔ جی چاہتا کہ کھجاتی جائے ۔۔۔ جسم تپنے لگتا۔
جیسے جیسے یہ کیفیت بڑھتی جا رہی تھی اس میں خوف کی آمیزش بھی اسی زور سے اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ وہ رات جو کچھ پل کے لیے سکون کی نیند دیتے تھے ان میں بھی آڑھے ترچھے خیالات کا دخل اب زیادہ ہونے لگا تھا، جیسے اس کے جسم کو کسی نے مضبوطی کے ساتھ اپنی گرفت میں لے لیا ہو، ریشے ریشے کو کھینچ رہا ہو، جھنجھوڑ رہا ہو، اُسے توڑ رہا ہو۔۔۔ اور پھر خوف کا پہرا الگ ۔۔۔ وہ خواب میں بھی سوچتی کہ یا خدا یہ خواب ہی ہو ۔۔۔ شدید گھٹن اس پر پوری طرح سے طاری رہتی جو اس کو انجانے سے احساس سے ملوا جاتی، وہ احساس نہ تکلیف کا ہوتا اور نہ ہی راحت کا ۔۔۔ جب اچانک آنکھ کھلتی تو سانسیں تیز، دل زور سے دھک دھک اور پورا بدن پسینے سے بھیگا ہوا ہوتا ۔۔۔ یہ جو خواب میں ہو رہا تھا اسی طرح کا کچھ اس نے آٹا گوندھتے ہوئے بھی محسوس کیا تھا۔۔۔ جب وہ سوکھے آٹے میں پانی ڈال کر ہاتھوں سے ہلانے لگتی تو سب ٹھیک ہوتا تھا لیکن جیسے ہی آٹا نرم سخت، گدگدا سا ہو جاتا تو اس کے گیلی مٹھیوں کو تسکین دینے لگتا تھا ۔۔۔ وہ کاندھوں کا زور اس پر دے کر پوری قوت سے دبانے لگتی، جسم جو آگےپیچھے حرکت کرتا تو ہلکی سی سنسنی آہستہ اہستہ پھیلنے لگتی ۔۔۔ اسے آٹا گوندھنا لطیف فعل لگنے لگا تھا۔۔۔ مگر اس وقت نہیں جب وہ پرات کو چولہے والی سلیب پر رکھ کر گوندھتی تھی، پیڑھی پر بیٹھ کر گوندھنے میں ہی لطف تھا۔
وہ سوچتی؛
عجیب بات ہے ۔۔۔ شاید شیطان اُکساتا ہے۔ سانسیں بھی رک رک کر چلتی ہیں۔ گھٹن سی محسوس ہوتی ہے اور جی کرتا ہے کہ سمٹ جاؤں، کہیں گم ہو جاؤں ۔۔۔ ململ بن کر چھوٹی سی ڈبی میں بند کر دی جاؤں۔ آخر یہ کیسا تانا بانا ہے ۔۔۔ ہر خیال کے کئی پیر ہیں اور سر ایک ہی ہے ۔۔۔ گھوم کر بات ایک بات پر رکتی ہے۔۔۔ ہر سوچ کسی ایک ہی کعبہ کا طواف کرتی ہے۔۔۔ ہر گلی ایک ہی گھر کو جاتی ہے۔
وہ سوچتی اور سوچتی ہی رہتی۔
دن کو ایسی سوچیں ۔۔۔ رات کو وہ پرانے بیڈ کی آوازیں ۔۔۔ اور پھر وہ اٹھتی کمرے کے سامنے سے آہستہ آہستہ گزرتی، کچن میں جا کر پانی کا گلاس بھرتی ۔۔۔ ایک گلاس دو ۔۔۔ تین ۔۔۔ ہر رات کبھی اٹھنا کبھی بیٹھنا۔ کچن میں جا کر گھڑی گھڑی پانی پینا ۔۔۔ پیٹ پھول کر باہر نکل آتا ۔۔۔ پیاس بالکل بھی نہ ہوتی مگر گلا یُوں خشک کہ جیسے گرمیوں کے روزوں میں ہوا کرتا ہے ۔۔۔ جب آہستہ آہستہ چلتی سٹور کی جانب جاتی تو قدم صائمہ کے دروازے کے آگے پہنچ کر رک سے جاتے ۔۔۔ جی چاہتا کہ کان لگا کر سُنے ۔۔۔ ایک دم سے دروازہ کھول دے یا کوئی ایسی دراڑ تو ہو گی جہاں سے اندر جھانکا جائے ۔۔۔ کوئی دراڑ بھی نہ تھی۔
پوری رات پریشانی میں گزرتی، اذان ہوتے ہی وضو کر کے گرم کانوں کو ٹھنڈا کرتی اور پھر نماز پڑھ کے کچھ سکون سا محسوس کرتی۔ لیکن یہ بے چینی طویل ہوتی گئی۔
اس رات وہ بھی کچن میں اس کے پیچھے ہی گھس گیا ۔۔۔ محسن کو دیکھ کر واپس کمرے کی طرف پلٹی تو اس نے کلائی پکڑ لی ۔۔۔ بس پہلے تو کیا دل دھڑکتا تھا اس بار تو جیسے حلق کو آ گیا ۔۔۔ قدموں پر اپنا ہی بوجھ نہیں سہارا جا رہا تھا ۔۔۔ وہ ڈگمگا سی گئی ۔۔۔ اور محسن نے ساتھ لگا لیا۔
پھر اصغری نے لاکھ چابکیں مار دیکھیں ۔۔۔ فطرت کی یہ گھوڑی نہ رکی۔
بغل والے کمرے میں سے پرانے بیڈ کی آواز کب کی تھم چکی تھی، مگر سٹور میں سے سانسیں اور آہیں ابل ابل کر باہر آرہی تھیں ۔۔۔ اتنے میں فجر کی اذان گونجی۔
اصغری کا ہچکولے کھاتا ہاتھ سرہانے کی جانب بڑھا ۔۔۔ تکیے پر سے دوپٹہ اٹھایا اور صرف۔۔۔ صرف۔۔۔ سر کو ڈھانپ لیا۔