عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 78
پاداش
فہیم زیدی ، جدہ، سعودی عرب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلثوم گھر کے صحن میں موڑھے پر بیٹھی تھال میں رکھی دال صاف کر رہی تھی کہ اس کا پندرہ سالہ بیٹا گل شیر اس کے گرد منہ سے غوں۔۔۔غوں ۔۔۔غوں ۔۔۔اس طرح کی آوازیں نکال کر چکر لگانے لگا کہ جیسے وہ کوئی گاڑی وغیرہ ڈرائیو کر رہا ہو ، کلثوم نے کام روک کر اسے تیز نظروں سے گھورا بھی تاہم گل شیر کلثوم کی نظروں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے عمل کو اسی طرح جاری رکھتے ہوئے مزید تیز تیز آوازیں منہ سے نکالنے لگا ۔
’’یہ کیا اُلٹی سیدھی حرکتیں کررہا ہے ، ہٹ میری صورت پر سے ،اور جا۔۔۔جا کر پانی لا باہر سے نکل مجھے یہ دال چڑھانی ہے‘‘ کلثوم نے اسے کام بتایا۔
گل شیر بات سنی ان سنی کرکے اپنے کام میں مگن رہا ۔’’جلدی جا۔۔۔ سنا نہیں تو نے کیا کہہ رہی ہوں میں تجھ سے ۔‘‘
کلثوم نے آنکھیں دکھائیں۔
’’نہیں ماں ، میں نہیں جا رہا ،تم دیکھ نہیں رہی ہو اس وقت میں گاڑی چلانا سیکھ رہا ہوں اور ویسے بھی جو ٹرک ابا چلاتاہے وہ بڑا ہو کر مجھے ہی تو چلانا ہے ‘‘ گل شیر نے بے تکا سا جواب دے کر عذر پیش کیا۔
’’اور کیا کرو گے تم ، پڑھنے سے تو رہے اپنے گنوار باپ کی طرح ٹرک ہی چلاؤ گے اور کیا کرو گے ۔۔۔ارے سبق سیکھ اپنی چھوٹی بہن سے اس سال وہ پرائمری پاس کر لے گی اور ایک تو ہے جو اب تک تین کلاسیں بھی نہ پا س کر سکا ۔‘‘ کلثوم نے جل کر کہا اور دوبارہ کام میں جُت گئی۔
’’سلام اماں !‘‘ نازو نے گھر میں داخل ہو کر کلثو م کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام ۔۔۔ کہو بیٹی نازو کیسا ہوا آج کا تمہارا پرچہ ؟‘‘ کلثوم نے مسکراتے ہوئے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔ ’’اماں پرچہ تو بہت اچھا ہوا ہے ، پورے سوال کئے ہیں میں نے ۔۔۔مگر!!‘‘ نازو نے جملہ درمیان میں ادھورا چھوڑ دیا ۔
’’مگر ؟۔۔۔مگر کیا بیٹی ؟‘‘ کلثوم نے نازو نے کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے متفکر انداز سے پوچھا۔
’’اماں، وہ بات دراصل یہ ہے کہ تمھیں تو پتہ ہے کہ آج میرا یہ آخری پرچہ تھا اور پرائمری کا آخری سال بھی اور وہ شبو ، کمو اور رجو ہے ناں؟۔۔۔ انہوں نے ساتھ والے قصبے کے ہائی سکول میں داخلے کا پروگرام بنایا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ میں بھی ان کے ساتھ پڑھ سکوں مگر ابا سے بہت ڈر لگتاہے۔‘‘ نازو نے اپنی پریشانی بتائی۔
’’ہاں بیٹی !۔۔۔یہ تو میری بھی شدید خواہش ہے کہ تم دونوں آگے تعلیم جاری رکھ سکو ۔۔۔پر تمہارا باپ مانے گا تو نہیں پھر بھی میں کوشش کروں گی کہ اسے راضی کر سکوں ‘‘ کلثو م نے نازو کو ڈھارس دی ۔ نازو یہ سن کر خوشی سے دیوانہ وار اپنی ماں کا منہ چومنے لگی اور جواب میں کلثوم بھی نازو کو پیار کرنے لگی۔ کلثو م کچی مٹی کے صحن میں جھاڑو کی مدد سے کچرا صاف کر رہی تھی کہ آہٹ پر پیچھے کی جانب دیکھا تو ہر کسی قسم تاثرات سے عاری اس کا شوہر گل ریز خان گھر میں داخل ہوا، کلثوم نے جھاڑو چھوڑ کر یک دم اس کے کاندھے پر لٹکا رومال ، واسکٹ اور ٹوپی اس سے لے لی اور دیوار گیر کھونٹی پر ٹانگ دیا۔
’’بچے نظر نہیں آ رہے، کہاں گئے ہوئے ہیں ؟‘‘ گلریز خان نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کلثوم سے دریافت کیا۔
’’نازو تو اندر کپڑے تبدیل کر رہی ہے، ابھی آئی ہے اسکول سے اور برخوردار باہر گھومنے پھرنے میں مست ہیں۔‘‘ کلثوم نے جواب دیا ۔
’’نازو کے ابا ایک بات کرنی تھی تم سے۔۔۔ وہ اپنی نازو ہے ناں ‘‘ کلثوم نے کچھ توقف کے بعد گلریز خان کے قریب بیٹھتے ہوئے بات شروع کی۔
’’ہاں ہے!۔۔۔کیا ہوا اسے ؟‘‘ گل ریز نے ایک دم فکر مند ہو کر پوچھا۔
’’ارے اسے کچھ نہیں ہوا ۔۔۔سنو تو سہی ۔۔۔ آج کا اس کا آخری پرچہ تھا وہ کہتی ہے اس کے سارے ہی پرچے بہت اچھے ہوئے ہیں ۔۔۔اور وہ اس کی سہلیاں ہیں ناں شبو، کمو اور رجو ،ساتھ والے قصبے کے ہائی اسکول میں اب وہ داخلہ لیں گی ۔۔۔ اور۔۔۔ اور میری خواہش ہے کہ ہماری نازو بھی ان کے ساتھ پڑھ سکے۔‘‘ کلثوم نے اٹکتے اٹکتے مطلب کی بات کی۔
’’نہیں نہیں!۔۔۔ اب کوئی ضرورت نہیں اسے پڑھانے کی۔۔۔ بس بہت پڑھ لیا اس نے۔ ‘‘ حسب توقع گلریز خان نے اس مخالفت کی۔
’’گلریز خان تم ذرا خود سوچو اگر ہمارے بچے تھوڑا پڑھ لیں تو اس سے ہمارا ہی نام روشن ہوگا ، ہماری ہی عزت ہو گی پورے گاؤں میں ‘‘ کلثوم نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’نہیں بس!۔۔۔کہہ دیا ناایک بار کہ کوئی ضرورت نہیں اسے پڑھانے کی۔‘‘ گلریز خان نے سختی سے منع کیا۔
’’دیکھو گلریز خان! ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ان کانام روشن کرے۔۔۔ بچوں کے تعلیم حاصل کر لینے سے ہمیں کوئی نقصان یا فائدہ تو نہیں ہوگا، البتہ تعلیم حاصل کر لینے سے ان کا اپنا ہی مستقبل سنور جائے گا ، تابناک ہو جائے گا ان کا مستقبل۔۔۔ کیا تم یہی چاہو کہ تمہارا بیٹا بڑا ہو کر تمہاری ہی طرح ٹرک ڈرائیور بنے۔‘‘ کلثوم نے دھیرے دھیرے انداز میں گلریز خان کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’مجھے بتا! کیا فائدہ ہے ان بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے؟۔۔۔ کیا ان کو نوکری مل جاوے گی؟ ہر گز نہیں ملے گی ، بس تعلیم کے نام پر ہم اپنے روپیہ پیسہ ضرور برباد کرتے رہیں گے۔‘‘ گلریز خان نے بحث کی۔
’’بے شک ان کو نوکری نہیں ملے گی، مگر تعلیم حاصل کرنے کے اور بھی بہت سے فائد ے ہوتے ہیں ، تعلیم انسان کو انسان بناتی ہے ، انسان پر سوچنے کے در وا ہوتے ہیں ، تعلیم سے انسان میں اچھے اور برے کی تمیز پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ تعلیم حمایت اور مخالفت کے معقول او ر مناسب طریقے بھی سمجھاتی ہے۔” کلثو م نے تعلیم کے فوائد پر روشنی ڈالی۔ ابھی یہ باتیں ہوہی رہیں تھی کہ نازو بھی کپڑے تبدیل کرکے کمرے سے باہر آ گئی اور بڑے غور اور دلچسپی سے اپنی ماں کی بات کو سننے لگی۔
’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ تو کیا اول فول بکے جارہی ہے۔‘‘ گلریز خان نے کلثوم کی باتیں نہ سمجھتے ہوئے کہا اسی اثناء میں گل شیر بھی اچھل کود کرتے ہوئے گھر میں داخل ہو گیا مگر باپ کو سامنے دیکھ کر یکلخت ایک کونے میں سیدھا کھڑا ہوگیا۔
’’کاش!۔۔۔ تمہارے عقل کے کورے اجداد نے اپنے ساتھ ساتھ تمھیں بھی تھوڑی سی تعلیم دلوائی ہوتی تو میری یہ باتیں آج تمہارے سر سے یوں نہ گزرتیں اور اس طرح تم نازو کے حصول تعلیم کی خواہش کو کبھی نہ رد کرتے۔‘‘ کلثوم نے اپنی قسمت پر پچھتاتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟؟۔۔۔تو نے مجھے اورمیرے والدین کو جاہل کہا؟۔۔۔ میں جاہل ہوں؟۔۔۔ میرے ماں باپ جاہل تھے؟۔۔۔ تو مجھے جاہل سمجھتی ہے رنڈی۔‘‘ گلریز ایک دم طیش میں آ کر کلثو م کی جانب بڑھا۔
’’ہاں ابا!۔۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے بھی اماں تم کو گنوار بول رہی تھی۔‘‘ گل شیر نے بھی درمیان میں آ کر باپ کو لقمہ دیا۔
’’نہیں نہیں گل ریز خان میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا، میں نے تم کو یا تمہارے والدین کو ان پڑھ اور گنوار اس نظریے سے نہیں کہا جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو۔‘‘ کلثوم نے درد کی شدت سے بال گلریز خان کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کی۔
’’کیا تُو نے میرے ماں باپ کو عقل کا کورا کہہ کر انہیں جاہل ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی؟۔۔۔ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں کا چِھنال۔۔۔ سمجھتی کیا ہے تو خود کو کُتیا۔۔۔ ماسٹرنی۔۔۔ حرام زادی میں تجھے آج زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ غصے سے گلریز خان کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اور کلثوم کو بری طرح مارنا شروع کردیا۔ نازو او ر گل شیر نے بھی ماں کو اپنے جنونی باپ کی زد سے بچانے کی کوشش کی مگر غصے سے آگ بگولہ گلریز خان نے ان دونوں کو بھی بری طرح دھن ڈالا، دونوں بچے سہم کر ایک کونے میں کھڑے ہو کر سسکیاں لینے لگے۔ مار پیٹ سے بھی جب گلریز خان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو وہ غصے میں بپھرا ہوا اندر کمرے سے کلہاڑی اٹھا لیا اور کلثوم پر پے درپے وار کرکے اس وحشی انسان نے اسے موت کی نیند سلا دیا اور خود غصے سے گھر سے باہر نکل گیا۔ گلریز خان کے باہر نکلتے ہی نازو اور گل شیر تیزی سے ماں کی طرف لپکے اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ماں کے مردہ وجود کو اُٹھانے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔ آہ و بکا سن کر گاؤں کے لوگ بھی ان کے گھر میں جمع ہونے شروع ہوگئے۔
’’ائے ہئے ۔۔۔کیسا ظالم مرد ہے اپنی عورت کو ہی مار ڈالا۔‘‘ گاؤں کی ایک عورت بولی۔ ’’بی بی صغراں !۔۔۔ یہ وحشی درندہ تو ہمیشہ ہی کلثوم سے لڑائی جھگڑا کئے رکھے تھا۔ ‘‘ دوسری عورت نے بھی نفرت سے کہا۔
’’ویسے بے چاری کلثوم باتیں ہمیشہ پڑھے لکھوں جیسی، سمجھداری کی کیا کرتی تھی ، اس کم بخت درندہ صفت منحوس نے اپنی لائق بیوی کی ذرا بھی قدر نہیں کی اور آخر کار آج ملعون نے اسے موت کے گھاٹ اُتار ہی دیا۔ ‘‘ایک اور عورت نے کلثوم کی موت پر رنج و ملال کا اظہار کیا۔ نازو گاؤں والوں کی باتیں سن کر ماں کی لاش سے اٹھ کر آہستہ آہستہ گاؤں والو ں کی طرف بڑھی اور غصے اور حقارت مخاطب ہوئی۔
’’کیا میری ماں کا جرم یہی تھا کہ وہ میرے باپ سے ہماری آئندہ تعلیم کے لئے مسلسل اصرار کر رہی تھی تعلیم کے مثبت او رجہالت کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔کیا یہ جرم اس قدر بڑا تھا کہ جہالت کے اندھیرے نے اس جرم کی ’پاداش‘ میں میری ماں کو موت کی سزا سنا دی ۔۔۔ کیا واقعی یہ اتنا بڑا گناہ تھا جس نے میری ماں کو ہم سے چھین لیا۔۔۔ میری ماں کی یہ لاش اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں، آپ لوگوں سے سوال کر رہی ہیں آپ لوگ بھی اپنے شوہروں کے ہاتھوں اس الم ناک موت کا شکار ہونا چاہو گی؟ خدارا! اگر آپ لوگ جینا چاہتی ہو تو تعلیم کے دیئے روشن کرو اپنے اپنے گھروں میں ورنہ ہر دوسرے گھر میں جہالت کا لبادہ اوڑھے میرے باپ کی طرح کوئی نہ کوئی گلریز خان یوں ہی موت تقسیم کرتا رہے گا۔ نازو جذباتی انداز میں تقریر کرتی رہی وہاں موجود سب کی زبانیں گنگ تھیں اور ماحول پر ایک دم سکتہ طاری ہو گیا تھا۔
Be First to Comment