Skip to content

ٹمٹماتے ہوئے دیے

عالمی افسانہ میلہ 2019
افسانہ نمبر 89
ٹمٹماتے ہوئے دیے
صادقہ نواب سحر، رامگڑھ، مہا راشٹر
یہ علاقہ شہر کی ہلچل سے کچھ دور واقع تھا ۔ اِس ڈِیمڈ یونیورسِٹی میں کئی فیکلٹیز تھیں ۔ کینٹین ایک طرف تھا، دوسری طرف ہاسٹل کی دو منزلہ عمارتیں ۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی ۔ اُسی کے بیچ کچی پگڈنڈیاں تھیں جو سبھی عمارتوں کو آپس میں جوڑتی تھیں ۔ پگڈنڈیوں کی لال مِٹّی پر سپرِنگ اسپرے سے ہر شام پانی کا چھڑکاوَ ہوتا تھا ۔
ماڈرن جھونپڑی کی شکل والے کینٹین کے کھپریل کی چھتوں پر امرود کے لدے ہوئے درخت جھُکے ہوئے تھے ۔ کینٹین کے باہر اینٹوں کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی دیواروں پر گول کِناروں والے بے ڈھب پتھر اچھے لگ رہے تھے ۔ کینٹین کے کونے میں پڑے ہوئے پتھر کے ایسے ٹیبلوں پر لڑکے لڑکیاں کہیں جوڑے بناتے ہوئے رازونیاز میں مشغول تھے اور کہیں گروپ مباحثے میں ۔ کینٹین کے اندر داخل ہوتے ہوئے سوپنالی اَگھن کو دیکھ کر خوش ہو گئی تھی ۔
’’ایک پرابلم ہے اَگَھن!‘‘
’’مجھے جلدی ہے ۔ پھر کبھی ۔ ‘‘ اِگھن نے کینٹین کے کاوَنٹر پر مِسّل پاوَ اور چائے کے تیس روپئے رکھے ، بولا، ’’کل کے پیسے ۔ ‘‘اور تیزی سے دروازے کی جانب بڑھ گیا ۔ دروازے تک پہنچتے پہنچتے اُسے سوپنالی کی فکرمند آواز نے پلٹنے پر مجبور کیا ۔

اَگھن نے پلٹ کر دیکھا، سوپنالی کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے ۔ اس کا دل ایک منٹ کو پگھلا لیکن وہ پلٹ کروہاں سے نکل گیا ۔

ہاسٹل کے اپنے چھوٹے سے کمرے میں وہ چائے کا کپ ہاتھوں میں لئے کچھ دیر بیٹھا رہا مگر دل نہ مانا ۔ اٹھا اور گیراج سے باءک نکال لی ۔ اگلے دس منٹوں میں وہ کینٹین میں تھا ۔

سوپنالی اب بھی وہیں بیٹھی تھی ۔ اگھن کو دیکھتے ہی نظریں چرانے لگی ۔ ساتھ بیٹھی لڑکیوں نے اسے اشارہ کیا پھر بھی کینٹین کی دیوارکے اسٹینڈ پر سجی سائیں بابا کی چھوٹی سی مورتی پر ٹمٹماتے ہوئے دئے کا اثر ڈالے ہوئے بلب کو دیکھتی رہی ۔

’’سوپنالی ذرا سننا تو!‘‘، اگھن نے آواز دی اور سائیں بابا والی دیوار کے نیچے خالی ٹیبل پر بیٹھ گیا ۔ سوپنالی نے ان سنی کر دی ۔ کچھ لمحوں بعداگھن اٹھ کر سوپنالی کے پاس آیا ۔ پوچھا، ’’کیا بات ہے!‘‘

’’کون سی بات۔۔۔‘‘سوپنالی نے سہیلی کی طرف دیکھ کر اگھن کو شاکی نظر سے دیکھا ۔

’’تم کچھ کہہ رہی تھیں۔۔۔ مجھے ضروری ڈرافٹ بنانا تھا ۔ ہاسٹل چلا گیا تھا ۔ ‘‘

’’اوکے ۔ کوئی بات نہیں ۔ ‘‘ وہ انجان بن کر پھر سے اپنے گروپ کا حصہ بن گئی ۔ اگھن لوٹ کر اپنے ٹیبل پر چلا آیا اور خاموشی سے جالی کی دیوارسے باہر سڑک پر جانے والی ٹرکوں کو گننے لگا ۔

’’بولو! ‘‘ تھوڑی دیر بعد سوپنالی اگھن کے ساتھ اس کے ٹیبل پر بیٹھی اس کی محویت کوتوڑ رہی تھی ۔

’’کیا کہہ رہی تھیں” اگھن خوش ہو گیا ۔

’’کچھ نہیں ۔ ‘‘

’’ارے رو کیوں رہی تھیں؟‘‘

’’تمہیں اس سے کیا؟‘‘

اگھن چپ ہو گیا ۔ سوپنالی کی آنکھیں پھر امڈ آئیں ۔

’’دیکھو بتا دو ۔ ‘‘

’’او کے ۔ ایک پرابلم ہے ۔ ‘‘نہ گلہ کیا نہ شِکوہ ،وہ سیدھے اپنی بات پر اتر آئی ۔

’’او کے ۔ بتاتی ہوں ۔ سنو!‘‘

’’یہاں داخلہ لینے سے پہلے میں ممبئی کے ایک لاء کالج میں تھی ۔ ‘‘

’’کئی بار سن چکا ہوں وکیل صاحبہ! ‘‘

’’دیکھو مذاق میں اُڑا رہے ہوآرکیٹیکٹ صاحب !‘‘ سوپنالی ہنس دی، ’’اب ذرا دھیان سے سنو نا! مسئلہ گمبھیر ہے ۔ ‘‘

’’نہیں ، اب کچھ نہیں بولوں گا ۔ میں بہت سیریس ہو گیا ہوں ۔ ‘‘اگَھن نے بیمار ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے آنکھیں اور کندھے ڈھیلے کر لیے لیکن اس کے رخسار اس کے اندر کی شوخی سے چمک رہے تھے ۔ سوپنالی نے اس کی اس ادا پرکوئی ردّ ِ عمل نہیں دیا ۔

’’پورے دھیان سے سنو ورنہ میری پرابلم کا حل ڈھونڈھنے میں کوئی مدد نہیں کر پاوَگے ۔ ‘‘

اَگَھن خاموش تھا ۔ اب وہ چست ہو کر بیٹھ گیاتھا ۔

’’جنتاجونےئر سے بارہویں کامرس پڑھنے کے بعد میں نے ممبئی کے لاء کالج میں داخلہ لے لیاتھا ۔ بارہویں کے بعد وکالت پانچ سالوں کا کورس ہوتا ہے ۔ میں نے اسکالر شپ فارم بھرا تھا اس لیے فیس برائے نام تھی مگرپہلے سال میں ہی لاجک اور لیگل لینگویج دوسبجیکٹس میں فیل ہو گئی ۔ مجھے اے ٹی کے ٹی لگ گیا ۔ اب راستہ یہی تھا کہ میں فرسٹ اےئر کے دو سبجیکٹس کو لے کر ہی لاء کے دوسرے سال میں داخلہ لے لوں ۔ ‘‘

’’او کے ۔ پھرلیا کیوں نہیں ! یہاں کے کامرس میں کیوں آ گئیں ‘‘ اَگھَن سے چپ نہ رہا گیا ۔

’’ میں نے سوچا، دوبارہ اے ٹی کے ٹی لگ گئی تو!۔۔۔اس طرح پانچ سالوں میں تونہ گریجویشن ہی پورا ہو گا اور نہ جاب ہی کر پاؤں گی۔۔۔دِل لاء سے ہٹ گیا ۔ بس فیصلہ کر لیا کہ تین سالوں میں بی کام کر لوں ۔ اس کے بعد ایل ایل بی جوائن کروں گی تو تین ہی سالوں کا کورس کرکے ایڈوکیٹ بن جاؤں گی ۔ ۔۔۔اور میں نے یہاں بی کام کے لیے ایڈمیشن فارم بھر لیا ۔ ‘‘

’’نہ کرتیں تو مجھ سے کیسے ملتیں !‘‘اَگھن نے اپنی کالر سیدھی کی ۔

’’اس سب میں کچھ وقت لگا ۔ ‘‘، سوپنالی نے اگھن کی شرارت کی جانب دھیان ہی نہیں دیا، ’’جب میں لاء کالج چھوڑ کر اِس کالج پہنچی ۔ تو کامرس کے داخلے ختم ہو چکے تھے ۔ اس پر میرے بارہویں کامرس کے نمبر صرف پچاس فی صد ہی تھے ۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘

’’بی کام کا دروازہ بندتھا لیکن بی اے میں ابھی داخلے ہورہے تھے ۔ یہ دیکھ کر میں نے جلدی سے ذات کے سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی دے کربی اے کے پہلے سال میں داخلہ لے لیا ۔

کچھ دن بعد اسکالر شپ فارم نکلے ۔ میں سائبر کیفے میں فارم بھرنے گئی ۔

’’ کمپیوٹر ایرر دکھارہاہے ۔ اسے اپنے کالج میں دکھاکر پوچھ تاچھ کرلو ۔ ‘‘سائبر کیفے والی لڑکی نے مجھے اس ایرر کا ثبوت والا پیپر پکڑا دیا ۔

’’پھر!‘‘

’’ ایسے کیسے ایررآ سکتا ہے!‘‘ کالج کی کلرک میڈم نے مجھ سے ہی سوال کیا ۔

میں نے انھیں بتایا ۔

’’اپنے علاقے کے سماج کلیان کے علی باغ آفس جاوَ ۔ وہاں کے افسر سے جا کر ملو ۔ تمہارا کام ہو جائے گا ۔ ‘‘ کلرک میڈم نے مجھے آفس کا پتہ دیا ۔

سماج کلیان آفس میں گئی توافسر نے پوری بات سن کر کہا،’’تم اپنے پچھلے کالج جا کر، وہاں کے کلرک سے کہو کہ تمہارا اسکالرشپ لاک کرے تاکہ اِس کالج میں اسکالرشپ شروع ہوسکے ۔ ‘‘

’’ میں دوبارہ لاء کالج گئی ۔ کلرک میڈم نے اپنے ہاتھ کا کام چھوڑکر میرا کام میرے سامنے ہی کر دیا ۔ میں خوشی خوشی بی اے کے پہلے سال کا اسکالرشپ فارم بھرنے کے لیے دوبارہ سائبر کیفے پہنچی ۔

سائبر کیفے والی لڑکی نے چیک کرکے بتایا ۔

’’تمہارافارم تو بھرا ہوا ہے ۔ تم تو لاء کے سیکنڈ اےئر کا فارم بھر چکی ہو ۔ اب بی اے کے پہلے سال کا فارم کیسے بھر سکتی ہو!‘‘ میں نے گھبراکر فوراََ سماج کلیان آفس کے افسر کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ،’’ لاء کالج کی کلرک میڈم نے لاء کالج سے میرا نام کٹوانے کی بجائے میراسیکنڈ اےئر کا ایڈمیشن فارم بھر لیاہے ۔ ‘‘

’’ارے ! یہ تو بڑی گڑبڑ ہو گئی!ایسے کیسے ہوا؟‘‘وہ بولے ۔

’’شاید انھوں نے میری بات سمجھی ہی نہیں تھی ۔ ‘‘ میں نے انھیں جواب دیا ۔

’’تم نے اپنی بات ٹھیک سے نہیں کہی ہوگی!‘‘اَگھن جھنجھلا کر بولا ۔

’’اگھن ، میں سماج کلیان آفیسر کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی اور کہہ رہی تھی، ’’کچھ کیجئے نا سر!‘‘

انہوں نے مجھے سمجھایا،’’دیکھو، اب اگرکوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہی لاء کالج والے کر سکتے ہیں ۔ میں تمہاری پرابلم سمجھتا ہوں ۔ تم کئی بار یہاں اس کام کے لیے آئی ہو ۔ فون بھی کرتی ہو، لیکن ایک وقت میں دو جگہ کی اسکالرشپ نہیں مل سکتی نا! تم لاء کالج کی کلرک سے کہو کہ وہاں کا اسکالرشپ فارم کینسل کرڈالے ۔ ابھی تمہارے اسکالرشپ فارم پرنسپل کی کیبن میں ہی ہوں گے ۔ ابھی وہ یونیورسٹی نہیں گئے ہیں ۔ ابھی اُس کی ڈیٹ باقی ہے ۔ ‘‘

’’او کے۔۔۔او کے‘‘اگھن نے کہا ۔

’’ میں پھر ایک بار لاء کالج کی کلرک کے سامنے کھڑی تھی ۔ ‘‘، سوپنالی نے بات آگے بڑھائی، ’’ مجھے دیکھتے ہی کلرک میڈم کے چہرے پر تناوَ چھپانے کی کوشش صاف دکھائی دےنے لگی تھی ۔ بولیں ،’ایک کام کرو، تم اسکالرشپ فارم ا بھی مت بھرو ۔ اگلے سال بھرو‘ ۔ ‘‘

’’میڈم پلیز!‘‘ میں نے ان سے درخواست کی ۔

’’سوپنالی،تم جانتی ہونا، ہمارے پرنسپل غصے والے ہیں ۔ تم جانتی ہو نا! یہاں ایک سال پڑھی ہو ناتم!‘‘

’’پلیز میڈم! سماج کلیان والے افسر بھی یہی کہہ رہے تھے کہ آپ ہی کو کینسل کرنا ہوگا ۔ فارم ابھی پرنسپل سر کی کیبن میں ہی ہیں نا؟‘‘

’’نہیں تو!‘‘ وہ صاف مُکر گئیں ۔

’’ذرا دیکھ لیجئے میڈم ۔ ‘‘ انہوں نے ’نہ‘ میں سر ہلایا ۔

’’مجھے پوری فیس بھرنی پڑے گی ۔ ۔۔۔‘‘ میں نے پھر بِنتی کی ۔

’’اب بھری ہے کہ نہیں ؟‘‘

’’ہاں رعایت والی فیس۔۔۔ساڑھے تین سو روپئے بھرے ہیں ۔ اوپن والوں کے لیے فیس ساڑھے پانچ ہزارہے ۔ نہیں ۔۔۔فارم نہیں بھرا تو۔۔۔لیکن ۔۔۔دو سال۔۔۔تین سال کے تو۔۔۔اتنے پیسے۔۔۔!‘‘

’’ میں بولتی ہوں ناتمہارے کالج میں ۔ ۔۔۔تم چِنتا کیوں کرتی ہو؟‘‘

’’ہاں میڈم، پلیز آپ ہمارے کالج آفس میں اس بارے میں بتایئے ۔ ‘‘

’’ہاں ہاں ۔۔۔اچھا ذرا سماج کلیان والے افسر کو فون تو لگانا ۔ پہلے اُن سے بات کر لوں ۔ ‘‘

میں نے فون لگایا تو وہ میرا موبائل لے کر اور مجھے ٹھہرنے کا اشارہ کرکے آفس کے کوریڈور میں چلی گئی ۔ پھرکچھ منٹوں میں لوٹ کر میری بات اُس افسر سے کروا دی ۔ ‘‘

’’تم اگلے سال سیکنڈ اےئر بی اے میں اسکالر شپ فارم بھر لینا ۔ ابھی مت بھرو ۔ ‘‘افسرمجھ سے بولے ۔

’’چل جائے گا؟‘‘

’’ہاں چل جائے گا ۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے سر ۔ ‘‘ میں نے بھی اِس معاملے کو یہیں چھوڑ دیا ۔ سوپنالی نے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اپنے ہونٹوں سے لگا لی اور غٹ غٹ خالی کر دی ۔

’’تواَگھن!اب اس سال میں بی اے کے سیکنڈاےئر میں پہنچ گئی ہوں نا!‘‘سوپنالی بیتی یادوں سے لوٹ آئی ۔ ’’اسکالرشپ فارم کی تاریخیں آ چکی ہیں ۔ فارم لینے اپنے کالج کے آفس گئی تھی ۔ ‘‘

’’تم نے پچھلے سال بھی اسکالرشپ فارم نہیں بھرا تھا ۔ اب دوسرے سال میں کیسے بھروگی اور پھر اس سال سے طریقہ بدلا ہے ،یہ کہ اب پہلے سال ہی اسکالرشپ فارم بھرنا ہوگا ۔ وہی آخری سال تک چلے گا ۔ پچھلے سال تک کا طریقہ الگ تھا ۔ پہلے ہر سال فارم بھرنا ہوتا تھا ۔ ‘‘ اگھن نے اس کی بات اُچک لی ۔

’’ہاں ہاں ۔۔۔بالکل یہی کہاگیا آفس میں ۔ ‘‘وہ بولی ۔

’’اب اِس سال بھی ایسا ہی ہوگا ۔ فیس نہیں بھر پاوَگی ۔ اسکالرشپ فارم بھرنے کا آج آخری دن ہے ۔ کیا کروں ؟ وہ کہتے ہیں کہ پرانا اسکالرشپ کینسل نہیں کروایا اور یہاں فارم نہیں بھرا توگریجویشن کے پورے تین سالوں کی فیس بھرنی پڑے گی۔۔۔ہے نا!‘‘

’’ہاں اَگھن! میں اِتنی ساری فیس کیسے بھروں ؟وہ بھی اوپن کی!!‘‘ اس کی آنکھیں گنگا جمنا ہوگئیں ۔

’’ارے ایک سال سوتی رہی تھیں کیا؟مجھ سے اب کہہ رہی ہو!‘‘، اگھن بھونچکّا رہ گیا، ’’دیکھنا چاہئے تھا کہ کلرک کیا کر رہی ہے ۔ تمہاری غلطی ہے ۔ ‘‘

’’ہاں ہے تو ۔ ‘‘

’’تم اپنے ڈیڈی سے کہونایہ سب!‘‘

’’وہ ٹرک چلاتے ہیں ۔ ‘‘

اگَھن چپ چاپ سوچتا رہا ۔ پھر اٹھا اور کاوَنٹر سے اپنے من پسند مِسّل پاوَ کی پلیٹ لے کر لوٹا ۔

’’پہلے پیٹ پوجا ۔ پھر دماغ چلے گا ۔ ‘‘اس نے پلیٹ میں رکھے دو چمچوں میں سے ایک سوپنالی کو پکڑا دیا ۔

’’مجھے بھوک نہیں ہے اگھن ۔ سہیلیوں کے ساتھ کھا چکی ہوں ۔۔۔‘‘ اُس کے سپاٹ چہرے پر اجنبیت سی آ گئی تھی ۔ شاید وہ اپنے اندرون میں کچھ کھوج رہی تھی، ’’سنو اَگھن! کل میں اسٹیشن پر بنچ پربیٹھی ٹرین کا انتظار کر رہی تھی ۔

’’دسویں پاس ہونا ؟’‘بنچ پرپاس ہی ٹرین والے کاکاکب آ بیٹھے ، پتہ نہیں چلا ۔ پتہ تب چلا جب انھوں نے مجھ سے پوچھ لیا ۔ میں نے انھیں حیرت سے دیکھا ۔ وہ رکے،’’۔۔۔ایک سال کا ڈیزل میکینک کا کورس کرنا ہوگا ۔ ‘‘

’’ایسا کرو۔۔۔سائبر کیفے میں آئی ٹی آئی کا ڈیزل میکینک کا فارم ملتا ہے ۔ ایک سال کاکورس ہے ۔ وہ بھر دو ۔ لسٹ لگتی ہے ۔ اگرنمبر لگ جائے تو پنویل ، کرجت، لوَجی۔۔۔ میں سے کسی کالج میں ایڈمیشن لے لو ۔ ٹرین چلاوَ گی ٹرین! تمہیں ٹرین جاب ضرور ملے گا ۔ ‘‘

اور میں سوچ رہی تھی کہ اس بوڑھے شخص نے کیسے جان لیا کہ میں پریشان ہوں !اب میں بھی بی اے، ایم اے کرکے یہ وہ کورس کہاں کرتی پھروں گی! نوکری کہاں ملتی ہے! ‘‘

سوپنالی نے چمچ بھر مِسّل اپنے منہ میں رکھ لیا ۔

اگھن حیرت میں غرق اپنی پسندیدہ ڈش کا مزہ لینا بھول گیا ۔ پلیٹ میں چمچ رکھا ۔ ایک لمحہ سوچا اور بولا:

’’تم ایک کام کروسوپنالی، پاٹل سر ابھی لیکچر میں ہیں ۔ دس منٹ میں باہر آئیں گے ۔ اُن سے مل لو ۔ علی باغ میں ان کا گھر ہے ۔ وہاں ان کے بیوی بچے رہتے ہیں ۔ ان کا رسوخ بھی ہے ۔ میرے آرکیٹکچر کے پروفیسرہیں ۔ تم نِراش تو نہیں ہونے لگیں بہادر لڑکی ؟چلو میں ہی تمہیں لے چلتا ہوں ۔ ‘‘اَگھن نے کہا ۔

’’نہیں ، پہلے میں جا کر بات کرتی ہوں ۔ ‘‘وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی ۔

’’تم ہفتہ بھر لیٹ ہو چکے ہو اَگھَن۔۔۔!‘‘پروجیکٹ دیکھ کر پروفیسر پاٹل نے کہا ۔

’ساری سر!آئندہ ایسا نہیں ہو گا ۔ ‘‘

’’چلو ٹھیک ہے،کیا کمال پروجیکٹ لائے ہو؟دیکھیں !!‘‘انہوں نے اُس پر احسان جتایا اور ٹیبل پر اگھن کے پھیلائے سفید شیِٹ کی ڈرائنگ پر نظر دوڑاتے ہوئے بولے، ’’پرےزینٹیشن شروع کرو ۔ ‘‘

’’کرجت کے پیچھے، پہاڑیوں میں ، آدیواسیوں کے کئی قبیلے روزی روٹی کے جُگاڑ میں لگے رہتے ہیں ، میں نے اُن پر پروجیکٹ بنایا ہے ۔ اُس علاقے کی نوآبادی ۔۔۔‘‘

’’تمہارا ان سے کوئی تعلق ہو تو بات کرو، ورنہ کوئی اور سبجیکٹ لو ۔ ‘‘، پروفیسرپاٹل نے اُس کی بات کاٹ دی، ’’ جھوٹے پروجیکٹوں کی بھرمار سے تنگ آ چکاہوں ۔ امتحان سر پر ہیں اور سرپھرے ، کام چور طلبا کسی کا پرانا پروجیکٹ ، کسی سے لکھوا کر سبمِٹ کر رہے ہیں ۔ ایماندار طلبا کم ہیں ۔ پرانے پروجیکٹوں سے ہی کام چل جاتا ہے ۔ ہے نا لیٹ جو ہو ہوجاتے ہیں ، کیوں؟”

’’ میں انہیں آدیواسیوں میں سے ایک ہوں ۔ ‘‘، پروفیسر کے طنز کو نظراندازکرتے ہوئے وہ بولا:

’’لگتے تو نہیں !‘‘ وہ چپ رہا ۔

’’او کے ۔ اب اپنا پریزینٹیشن شروع کرو ۔ ‘‘، پروفیسر نے اپنی خجالت اور حیرانی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:

’’ہمارے گاءوں میں بجلی نہیں ہے ۔ ‘‘، اگھن نے پریزینٹیشن دیتے ہوئے کہا ۔

’تمہاری ماں کیا کرتی ہیں ۔ ‘‘پروفیسر اس کی ذاتی زندگی میں دلچسپی دکھانے لگے تھے ۔

’’جنگل سے لکڑیاں کاٹ کرشہر میں بیچتی ہیں ۔ ‘‘

’’کہاں ؟‘‘

’’ہوٹلوں ، بھٹیارخانوں میں ۔۔۔اور بھی بہت سی جگہیں ہیں ۔۔۔جس دن یہاں نہ بکیں ، مارکیٹ میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ ‘‘

’’اور تمہارے بابا؟‘‘

’’کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں اور فصل کٹائی کے بعد کے مہینوں میں اینٹ بھٹی میں کام کرتے ہیں ۔ ‘‘

’’یعنی جس دن کام ملا ، اُس دن چولہا جلتا ہے‘‘

’’ہاں ۔ ‘‘، اس کی آواز میں کوئی درد نہیں تھا، جیسا کہ پروفیسر محسوس کر رہے تھے ۔ یہ تو اس کی روزانہ کی زندگی تھی!

’’تم نے کبھی کھیت میں کام کیا ہے؟‘‘

’’ہاں ِکیا ہے، بلکہ کرتا ہوں ۔ گرمیوں میں اوراکتوبر کی چھٹیوں میں تو کرتا ہی ہوں ۔۔۔ کچھ پیسے آ جاتے ہیں ۔ کالج جاتا ہوں ۔۔۔ جوتوں ، کپڑوں ، موبائل وغیرہ کا خرچ انھیں پیسوں سے کرتا ہوں ۔ ‘‘

’’ماں باپ نہیں مانگتے؟‘‘

’’نہیں ۔ سمجھتے ہیں نا!کالج کی ضرورتیں ہوتی ہیں ۔ ‘‘

’’یعنی خوش ہوتے ہیں !‘‘

’’ہاں کبھی کبھی نہیں بھی ہوتے ۔ ‘‘

یہ تمہارا آخری سال ہے ۔ اُس کے بعد کیا کروگے۔۔۔میرا مطلب ہے اپنی برادری والوں کے لئے‘‘

’’یہاں تو نہیں رہوں گا ۔ ‘‘

پروفیسر اس کا منہ دیکھنے لگے ۔

’’کیوں تمہیں اپنی ذات برادری والوں کے لئے کچھ کرنا نہیں چاہئے!‘‘

’’جی سر!!‘‘ پروفیسر کی بات سُن کراَگھَن ہڑبڑا گیا تھا ۔ جلدی سے بات بدل کر بولا:

’’سر سوپنالی۔۔۔!‘‘

’’ہاں وہ میرے پاس آئی تھی۔۔۔تمہارا نام لے کر۔۔۔!‘‘پروفیسر عجیب سے معنی خیز انداز میں مسکرائے تھے ۔

’’سر وہ اوبی سی ہے۔۔۔بھٹکی جماعت۔۔۔‘‘

’’ہاں تو!!پروفیسر نے ناک بھوں چڑھائی، ’’جانتا ہوں کس طرف اِشارہ کر رہے ہو! ۔۔۔‘‘

’’وہ آپ ہی کی تو۔۔۔‘‘

اِگھَن اُن کا چہرہ دیکھنے لگاجس سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی اور اب کا چہرہ کرختگی اختیار کر رہا تھا ۔

’’ہاں تو!!۔۔۔ہم ٹیچر ہیں ۔۔۔ہمارا فرض سب کے لئے ہے ۔ ہم اپنے اپنے تو نہیں کر سکتے نا!‘‘

’’برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں سر!!‘‘

’’بے جھجک کہو ۔ ‘‘

’’ پڑھے لکھے آدیواسی کی حیثیت سے، مجھ سے یہ سوال کرنے والوں سے میں ہی پلٹ کرپوچھتا ہوں ، آپ بھی تو پڑھے لکھے ہیں ، آپ اپنی ذات برادری والوں کے لئے کیا کرتے ہیں کیا مجھ جیسے آدیواسی سے کچھ الگ کرتے ہیں نوکری ڈھونڈھ کر اپنی زندگی ہی بہتر بناتے ہیں نا! کہ پورے سماج کی!!‘‘

پر وفیسر اس کا منہ دیکھنے لگے ۔ ’پروجیکٹ سبمٹ کرنے والے طلبا تو خوب مکھن لگاتے ہیں ۔ یہ کیسا لڑکا ہے!‘ ان کی آنکھیں شرارے اگلنے لگیں ۔ اَگھن ان کی تاب نہ لا سکا ۔ نظریں جھکا کر بولا:

’’سر، سوپنالی نے کالج سے نام کٹوا لیا ۔ ‘‘

Published inڈاکٹر صادقہ نواب سحرعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply