عالمی افسانہ میلہ 2018ء
افسانہ نمبر 1
ٹارچر سیل
امین صدرالدین بھایانی ۔ اٹلانٹا، امریکا
پروفیسر حسیب رضوانی نے اپنی نو مطبوعہ کتاب کا سرورق کچھ دیر بغور دیکھنے کے بعد ایک گہرا سانس لیتے ہوئے ہلکی مگر آسودہ سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا سر صوفے کی پُشت سے ٹکا دیا۔
کچھ ہی دیر قبل پبلشر کے دفتر سے پہلی کاپی موصول ہوئی تھی۔ یہ کتاب اُس کی گذشتہ دس برس کی محنت اور تحقیق کا ثمر تھا۔
ایک رات وہ ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک جاری پروگرام کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پُرشور اطلاعی موسیقی کے ساتھ بریکینگ نیوز نشر ہونا شروع ہو گئی۔
خبر کے مطابق مقامی پولیس نے شہر کے مضافات میں قائم گنجان آباد رہائشی علاقے کے ایک مکان پر چھاپا مار کر بدنام سیاسی جماعت کے بنائے گئے ٹارچر سیل سے مخالف جماعتوں کے شدید زخمی کارکنان سمیت اُن کی لاشیں بھی برآمد کرلیں جو بہیمانہ تشدد برداشت نہ کر سکنے کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔
تہہ خانے میں قائم عقوبت خانے اور وہاں موجود ازمنہِ قدیم سے لے کر عصرِ حاضر کی ڈرل مشینوں سمیت دیگر آلاتِ تشدد دیکھ کراُسے جھرجھری سی آ گئی۔ سوچنے لگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی بات منوانے کے لیے اپنے ہی جیسے دوسرے انسان پریوں وحشیانہ تشدد کرتا ہے کہ مخالف تڑپ تڑپ کر اپنی جان سے گُزر جاتا ہے؟ تشدد کرنے والا اپنے شکار کی تکلیف دیکھ اور اُس کی چیخ و پکار سُن کر یوں لطف اندوز ہوتا ہے جیسے وہ کسی جیتے جاگتے انسان کی درد بھری چیخیں نہ ہوں کوئی مدھر موہنا سا گیت ہو جسے سُن کر وجد آ جائے۔ شاید انسان ہی وہ واحد جاندار ہے جو مذموم عزائم کی تکمیل اور مطلوبہ نتائج کے حصول کی خاطر باقاعدہ منصوبہ بندی اور مکمل مرحلہ وار ازیتیں پہنچا کر اپنی ہی نسل کو نہ صرف زخمی کرتا ہے بلکہ اُس کی جان تک لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
سو اُس روز مقامی کالج میں سماجیات کے پروفیسر، حسیب رضوانی نے فیصلہ کیا کہ انسانی جبلت میں موجود تشدد کے عنصر اور تاریخِ انسانی میں موجود عقوبت خانوں کی صُورت میں اُن کے شواہد پر کماحقہ تحقیق کر کے ایک مکمل کتاب دنیا کے سامنے پیش کرے گا۔
اُس دن کے بعد اُس نے اپنا اوڑھنا بچھونا عقوبت خانوں سے متعلق تحقیق ہی کو بنا لیا۔ ملک سمیت دنیا بھر میں قائم صفِ اول کی لائبریریوں سے کُتب منگوا کر اور جہاں سے کتابیں منگوانا ممکن نہ ہوا، بذریعہ انٹرنیٹ بے شمار مواد اِکھٹا کیا۔
گذشتہ دس برس کی محنت و ریاضت کو کتابی صُورت میں دیکھ وہ بہت اطمینان و آسودگی محسوس کر رہا تھا۔ اُسے یقینِ کامل تھا کہ انسانی سرشت میں موجود تشدد اور عقوبت خانوں پر کی گئی اِس گہری تحقیق کو سراہا جائے گا اور کتاب کو ادبی، علمی اور سماجی طبقوں میں غیر معمولی پزیرائی حاصل ہوگی۔
اگلے چھے ماہ سے بھی زائد عرصہ ملک بھر کی ادبی، علمی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے پے در پے منعقدہ رونمائی و پزیرائی کی تقاریب میں شرکت تو کبھی قومی اخبارات اور جرائد میں یکے بعد دیگرے شائع ہونے والے تبصرے و تجزیے پڑھ کر خود اپنے آپ کو داد دیتا رہا۔
آج وہ اپنے شہر کے نام پر ہی قائم یونیورسٹی کے طلبا کی ادبی تنظیم کی جانب سے کتاب کی تقریبِ پزیرائی میں مدعو اسٹیج پر دیگر اہم شخصیات اور صدرِ محفل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے درمیان بطور مہمانِ خصوصی بڑے ہی طمطراق سے بیٹھا اپنی اور کتاب کی مداح سرائی میں کی جانے والی تقاریر سُن کر اُن تاریک راتوں کو یاد کر رہا تھا جن کی تنہائیوں میں کئی برس جاگ جاگ کر اُس نے کتاب کو پایۂ تکیمل تک پہنچایا۔
تقاریر کے بعد اُسے اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ تمام شُرکاء محفل، مقررین، معزز شخصیات اور ادبی تنطیم کے عہدراران کا شکریہ ادا کرتے کے بعد یہ بات خاص زور دے کر کہی کہ نوجوان چونکہ کسی بھی ملک کا سرمایہ اور شاندار مستقبل کی نوید ہوتے ہیں لہذا اُن پر اس کتاب کو بغور پڑھ کر اِنسانی تاریخ کے آغاز سے تاحال موجود تشدد جیسے اہم ترین مسئلے کے داخلی و خارجی عوامل کو سمجھ کر اُس کے حل کے لیے موثر اقدامات اُٹھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سار۱ ہال زوردار تالیوں سے گونج اُٹھا۔ وہ تمکنت کے ساتھ دھیرے دھیرے چلتا ہوا اپنی نشت پر آ کر پھر سے براجمان ہو گیا۔
آخر میں تنظیم کے جوانسال سکریڑی محسن علی خان کو سپاس نامہ پیش کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔ محفل پر ایک گہری نظر ڈال کر چند لمحے توقف کے بعد وہ گلہ کھنکھارتے ہوئے بولا۔
’’جنابِ صدر، مہمان خصوصی و مہمانان گرامی، معزز اساتذہِ کرام، ساتھی طلبا اور حاضرینِ محفل۔ رسمی سپاس نامہ پیش کرنے سے قبل، ابھی جو بات پروفیسر حسیب رضوانی صاحب نے نوجوانوں کے حوالے سے کہی، مختصراً کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
پروفیسر صاحب کی بات سو فیصدی بجا کہ نوجوان ملک کا سرمایہ اور مستقبل کی نوید ہیں اور آنے والے کل کی ذمہ داریاں اِنہی کے کاندھوں پر ہیں۔ لہٰذا نوجوانوں کا معاشرے میں پائے جانے والے تشدد کے عُنصر کے تاریخی شواہد سے سبق حاصل کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے قدم اُٹھانا ایک ناگزیر امر ہے۔
مگر سچ تو یہ ہے اب یہ تشدد یا عقوبت خانے محض تاریخ کے صفحات، شہر کی کسی گلی محلے کے مکان یا ویران قلعے کے تہہ خانے میں کسی خُفیہ ادار ے کی اذیت گاہوں تک ہی محدود نہیں رہ گئے۔
مجھے کہنے کی اجازت دیجئے کہ اس وقت ہمارا سارا معاشرہ اور سماج خود بہت بڑا ٹارچر سیل، ایک عقوبت خانہ بن گیا ہے۔ ہم سب اپنے اپنے مقام اور حیثیت میں کم و بیش وہی کچھ کر رہے ہیں جو ٹارچر سیل میں متعین گُرگا اپنے شکار کے ساتھ کرتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن وجوہات کو تلاش کیا جائے جس کے سبب ہمارا یہ معاشرہ ایک بہت بڑے عقوبت خانے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض عقوبت خانوں کی تاریخ بارے جان کر ہی ہم اِس مسلئے کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا پھر اُس کے لیے ہمیں کوئی خاص منصوبہ بندی کر کے کچھ عملی کام بھی کرنا ہوگا۔۔۔؟‘‘
ممکن ہے کہ سکریڑی نے اُس کے آگے بھی مزید بہت کچھ کہا ہو اورسپاس نامہ بھی پیش کیا ہو مگر پروفیسر حسیب رضوانی کے دل و دماغ میں تو صرف ایک ہی جملے کی بازگشت جاری تھی۔
’’ہمارا سارا معاشرہ اور سماج خود ایک ٹارچر سیل، ایک بہت بڑے عقوبت خانے کی شکل اخیتار کر گیا ہے۔۔۔!!!‘‘
تقریب سے فارغ ہونے کے بعد گھر جاتے ہوئے گو کہ اُس کی نگاہیں تو سڑک پرہی مرکوز تھیں مگر اب بھی دل و دماغ مسلسل اُسی جملے کی گہرائیوں میں ڈُوبا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ موڑ کاٹ کر اُس بڑی سڑک تک پہنچا جو شہر کے مرکزی علاقے میں واقع ہے اچانک گاڑی کو ایک زوردار بریک لگا کر روکنا پڑا۔ وہاں موجود غیر معمولی بھیٹر بھاڑ اور ٹریفک میں پھنسی بیشمار گاڑیوں کے سبب آگے جانے کے سارے راستے مسدود تھے۔ معلوم ہوا کہ کسی تحریک کے کارکنان کی جانب سے احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے۔
اچانک ایک طرف سے کچھ شور سا اُ ٹھا۔ ابھی پروفیسر حسیب سمجھ ہی نہ پایا تھا کہ معاملہ کیا ہے، چند نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے لیے نمودار ہوئے۔ وہ چپختے چلاتے، نعرہ بازی کرتے گاڑیوں کے شیشوں پر ڈنڈے برساتے چلے آ رہے ہیں۔ اُس سے پہلے کہ مزید کچھ سوچ پاتا، وہ نوجوان اب چیخ چیخ کرگالیاں دیتے ہوئے اُس کی گاڑی کے شیشوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے۔ اُس کے حواس مکمل طور پر خطا ہو گئے۔ اُس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ وہ فوری طور پر گاڑی سے باہر آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچ سمجھ پاتا ایک زوردار ڈنڈے کے سر پر پڑتے ہی اُس کے ہوش و حواس پر بھی سیاہ پردہ آن پڑا۔
آنکھ دوبارہ کُھلنے پر جو سب سے پہلا احساس تھا وہ درد کا تھا۔ بے اختیار اپنا ہاتھ سر پر پھیرا۔ وہاں لگی پٹیوں اور اِردگر کے ماحول سے اندازہ ہو گیا کہ وہ کسی ہسپتال میں ہے۔ اُسے کسمساتے دیکھ بستر کے عین سامنے رکھی کُرسی پر بیٹھا نوجوان تیزی سے اُٹھا۔ یہ دیکھ کر پروفیسر حیران رہ گیا کہ وہ نوجوان یونیورسٹی کی ادبی تنظیم کا سکریڑی محسن علی خان ہے۔ اُس نے بستر سے اُٹھنے کی کوشش کی۔ محسن نے آ گے بڑھ کر اُسے کاندھوں سے پکڑ کر دوبارہ لیٹا دیا۔ ’’ارے ارے پروفیسر صاحب۔۔۔، آپ کے سر پر چوٹ آئی ہے۔ آپ آرام کیجئے۔‘‘
فوراً ہی اُسے اپنی گاڑی کا خیال آیا اور ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچا؟
’’پروفیسر صاحب، آپ یہی سوچ رہے ہیں ناں کہ آپ یہاں تک کیسے پہنچے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’ تقریب کے اختتام پرچونکہ مجھے ایک جگہ پہنچنا تھا۔ آپ سمیت دیگر مہانوں کو رُخصت کرنے کے بعد میں بھی اپنے ساتھیوں سے اجازت لے کر روانہ ہوا۔ بس اسے اتفاق کہہ لیں۔ میں بھی اُسی سڑک پر رکشہ میں سواروہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ جب اُن میں سے ایک کا ڈنڈا آپ کے سر پر پڑا تو میں نے فوری طور پر رکشہ سے اُترا کر شور مچایا کہ یہ کالج کے پروفیسر ہیں تو انہوں نے مجھے آپ کو لے جانے کی اجازت دے دی۔ آپ کے سر سے خُون جاری تھا۔ میں نے رومال آپ کے سر سے باندھ دیا اوررکشے میں سوار کر کے مخالف سمت کسی ہسپتال لے جانے کو کہا۔‘‘
’’اور میری کار۔۔۔؟‘‘
’’بعد میں میڈیا کے توسط سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہاں موجود چند دیگر گاڑیوں سمیت آپ کی گاڑی کو بھی مظاہرین نے آگ لگا دی۔‘‘
پروفیسر پرتو جیسے بجلی گر پڑی۔ ابھی چند ماہ قبل ہی تو بنک سے لون لے کر گاڑی خریدی تھی۔ پھر تھکی تھکی آواز میں بولا۔’’میں کب سے یہاں ہوں۔ میرے گھر والوں کو کسی نے اطلاع بھی دی یا نہیں؟‘‘
’’جی کوئی چار گھنٹے ہونے کو آئے۔ آپ کے گھر فون کروا دیا گیا ہے۔ شہرکے دگرگوں حالات ،شدید ٹریفک جام، توڑپھوڑ اور آپ کی صُورتحال زیادہ تشویشناک نہ ہونے کے سبب میں نے اُن سے گھر ہی میں ٹھہرنے کی درخواست کی تھی۔‘‘
اگلے چند گھنٹوں بعد پروفیسر صاحب کو کچھ روز آرام اور تجویز کردہ اودیات لینے کی تاکید کے ساتھ ڈاکٹر نے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ محسن علی خان خود پروفیسر حسیب کو گھر چھوڑ آیا۔ پھرگاہے بہ گاہے پروفیسر کی طبیعت دریافت کرنے آتا رہا۔ اس دوران دنوں میں کافی بے تکلفی آ چکی تھی۔ ایک روز وہ دونوں کسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک پروفیسر کو تقریب میں محسن کے کہے فقرے یاد آ گئے۔
’’یہ بتاؤ اُس روز تم نے یہ کیوں اور کس بنیاد پر کہا کہ ہمارا سارا معاشرہ ایک ٹارچر سیل اور ہم سب ٹارچر سیل کے گماشتوں کی صُورت اختیار کر چکے ہیں۔‘‘
محسن کے چہرے پر ایسی مُسکراہٹ آ گئی جسے کوئی خاص معنی پہنانا بڑا مشکل تھا۔ کچھ دیر وہ مُسکراہٹ اُس کے چہرے پر رقصاں رہی۔ پھرگہری سانس لے کر بولا۔
’’یہ بات میں نے تجربے کے سبب کہی تھی اور اُس تجربے کی بنیاد میری اپنی کہانی ہے۔‘‘
’’ تمھاری کہانی۔۔۔؟ کیسی کہانی۔۔۔؟؟؟‘‘
’’جی پروفیسر صاحب۔۔۔!میری کہانی۔۔۔! اور اس کہانی کا عنوان ہے انصاف اور قانون۔۔۔!!!‘‘
’’انصاف اور قانون۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔؟؟؟‘‘
’’یہ کہانی صرف میری نہیں اس ملک کے ہر شہری کی ہے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارے ہی ملک کی کیا، تیسری دُنیا کے تمام تر ممالک کی ہے جہاں عام آدمی کو انصاف میسر نہیں۔ قانون کتابوں میں تو موجود ہے مگر اُن پر علمدرامد صرف کمزوروں ہی پر کیا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں قانون پر عمل اوربلا لحاظ نافذ نہ ہو وہاں معاشرہ دھیرے دھیرے ٹارچر سیل کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اُس معاشرے میں بسا ہر انسان دھیرے دھیرے اور غیر محسوس طور پر اُس ٹارچر سیل کا فعال گماشتہ بنتا چلا جاتا ہے۔ پھراُس گماشتے سے کرپٹ سسٹم کبھی مذہب کے نام پر، کبھی فرقوں کی تقسیم پر تو کبھی ذات، براداری اور زبان کی تفاوت ڈال کر من چاہا کردار ادا کرواتا ہے۔‘‘
’’کہنا کیا چاہتے ہو۔‘‘
’’چلیں اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ اُس روز مظاہرین نے آپ کو زخمی کرکے آپ کی گاڑی بھی نظرِآتش کردی۔ حالانکہ وہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ نہ تو آپ کی وجہ سے یہ صُورتحال ہے جس کے سبب دھرنا اور احتجاج ہو رہا ہے نہ ہی آپ کو زخمی کرنے، بے گناہ لوگوں کی ملکیتیں جلا کر اُنہیں اور اُن کے احتجاج کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کے باوجودبھی انہوں نے ایسا کیا۔ آپ جانتے ہیں کیوں؟‘‘
’’ تم بتاؤ۔‘‘
’’جب ایک عام آدمی دیکھتا ہے کہ اُس کی شنوائی کہیں نہیں۔ قانون تو ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں۔ جس کی جتنی طاقت و حیثیت ہے اُس کے مطابق قانون شکنی کرتا پھرتا ہے اور اُسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ تو اِسی اجتماعی ابترمعاشرتی صورتحال کے پسِ منظر میں جس کو جہاں موقعہ ملتا ہے تو کبھی کرپٹ سسٹم کے حواریوں کا آلہء کار بن کر یا پھرمعاشرے کے ہر اُس کونے، اُس حصے جہاں اُسے معمولی سا ہی اختیار کیوں نہ ہو، حتیٰ کہ اپنے گھر تک میں جو اُس کی لیپٹ میں آئے سوچے سمجھے اور یہ دیکھے بناء کہ وہ بے گناہ و بے قصور ہے اپنے خُود ساختہ ٹارچر سیل کا نشانہ بنا ڈالتا ہے جس کا شکار اُس روز آپ بن گئے۔‘‘
پروفیسرحسیب کے چہرے پر شدید اصطراب کا عالم تھا۔ ’’مہذب معاشروں میں احتجاج یکارڈ کروانے کے بھی آداب ہوتے ہیں، مقام متعین ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جس کا جہاں جی چاہا سو پچاس لوگوں کے ہمراہ آ کھڑا ہوا اور دھرنے کے نام پر شہر کو مغوی بنا کر ٹریفک دھرم بھرم کرکے معصوم اور بیگناہ لوگوں کی املاک نذرِ آتش کر دیں۔‘‘
’’جی بالکل بجا ارشاد فرمایا آپ نے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ جب ٹریفک کی لال بتی ٹوڑنے والے ایک معمولی موٹرسائیکل سوار، بیچ سڑک راستہ رُوک کر شامیانے لگانے والوں، گھروں، سیاسی اور مذہبی اجتماعات کے اُوپر سے گزرتی تاروں پر کُنڈا لگا کر بجلی چُوری کرنے والوں، سیاسی و مذہبی جلوسوں کے زریعہ میلوں طویل ٹریفک جام کرنے والوں سے لے کر روزِروشن میں چوراہے پر متعین ٹریفک کانسٹبل کو اپنی پیجارو سے کچل کر ہلاک کردینے والے اقتدار، دولت اورتعلقات کے نشے میں غرق بدماغ اور سیاہ قلب سیاستدان سے لے کر عدالت سے سزائے موت پر وکٹری کا نشان بنانے والے وڈیروں کے سپوت، جنھیں علم ہے کہ اُن کا وڈیرا باپ اپنی دولت، بکے ہوئے قانون اور سیاستدانوں کو خرید کر اُنہیں ضرور بچا لے گا تک کو اپنے اپنے جرائم کی سزا فوری مل جائے۔ بصورتِ دیگر جس کی جو مرضی آئے گی وہ بقدرِ جُسہ قانون شکنی کر کے اپنے حصے کا ٹارچر سیل یونہی چلاتا رہے گا۔‘‘
وہ کچھ دیر کے لیے رُکا اور پھر پروفیسر کی جانب غور سے دیکھتا ہوا بولا۔ ’’گستاخی معاف پروفیسر صاحب۔۔۔! معاشروں سے تشدد ختم کرنے کے لیے عقوبت خانوں کی تاریخ پر ریسرچ کرنے اور ماضی کی لکیریں پیٹنے کی بجائے انصاف کی عدم فراہی اور قانون کی یکساں بالادستی کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہماری نئی اور آنے والی نسلیں اِسی ٹارچر سیل کلچر کا حصہ بن جائیں گی۔‘‘
’’اور وہ تمھاری کہانی ۔۔۔؟‘‘
’’وہ کہانی۔۔۔!‘‘ یکلخت اُس کی آنکھوں میں اداسی چھا گئی۔ کچھ توقف کے بعد کھوئے کھوئے لہجے میں بولنا شروع ہوا۔ ’’وہ کہانی خود میرے اپنے گھر کی ہے۔‘‘
’’تمھارے گھر کی۔۔۔؟‘‘
’’ہاں میرے گھر کی ۔۔۔! جو اس معاشرے کے بہت سے گھروں کی طرح خُود اپنے ہی مکینوں کے لیے ٹارچر سیل سے کسی طورپر کم نہ تھا۔۔۔!!!‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘
’’پروفیسر صاحب۔۔۔! میں نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی اور پلا بڑھا جہاں گھر کے سربراہ کی حیثیت کسی جابر سلطنت کے اُس متعلق العنان حکمران جیسی ہوتی ہے جس کے اشارہِ ابرو ہی کو حتمی حکم کی حیثیت حاصل ہو۔ ہم دو بھائی ہیں۔ میں چھوٹا اور احسان علی خان مجھ سے تین برس بڑا ہے۔ میں نے اپنے بچپن سے ہی گھر میں وہی کچھ ہوتے دیکھا جو ابا نے چاہا۔ ابا کا کہا امی سمیت ہم دونوں بھائیوں کے لیے حُکم کا درجہ رکھتا تھا۔ جہاں کسی نے حُکم عدولی کی وہاں ابا کے تھپڑوں کی زد میں آیا۔ اب وہ چاہے ہم دنوں بھائی ہوں یا امی۔ ابا سخت ڈسپلن کے قائل تھے۔ پڑھنے کا، کھانے کا، سونے کا، غرض ہر کام کا ایک وقت مقرر کر رکھا تھا۔ رات نو بجے ہمارے گھر کی بتی گل اور سب اپنے اپنے بستروں پر۔ جن دنوں احسان میڑک میں تھا، ایک بار اپنے دوستوں کے ہمراہ کہیں باہر گھومنے چلا گیا۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات کے دس بج گئے۔ دستک دیتا رہا مگر چونکہ ابا نے مجھے اور امی کو دروازہ نہ کھولنے کی تاکید کر رکھی تھی وہ بے چارہ ساری رات گھر کے دروازے پر سردی میں ٹھٹھرتا رہا اور صبح دروازہ کھلنے پر اُس کی تواضح تھپڑوں کے ناشتے سے ہوئی۔ احسان خاموشی سے سارے محلے والوں کے سامنے ابا کے تھپڑ کھاتا رہا۔ مجال ہے کہ اُس نے ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نکالا ہو۔ امی جب اُسے بچانے آگے بڑھیں تو ایک بھرپور طمانچہ اُن کا گال بھی سُرخ کر گیا۔‘‘ اتنا کہ کر محسن نے ایک گہری سانس لی اوراپنی نظروں کو جُھکا کر نہ جانے کن سوچوں میں ڈُوب گیا۔ شاید وہی منظر اُس کے ذہن کے پردے پراُبھر آیا تھا۔
’’اُف۔۔۔! یہ توسراسر ظلم ہے ۔۔۔!!!‘‘
پروفیسر کی بات سُن کراُس نے اپنی جُھکیں ہوئی نگاہیں اُٹھا کر خالی خالی نظروں سے خلا میں گھورنا شروع کردیا ۔ اُس کے چہرے پر ایک دھیمی سی اُداس کردینے والی مُسکراہٹ تھی۔
’’حالانکہ ہم دنوں بھائیوں کی تعلیمی کارکردگی محلے کے دیگر بچوں سے کافی بہتر بلکہ احسان تو ہمیشہ ہی اپنی جماعت میں پہلی تین میں سے ایک نہ ایک پوزیشن ضرور حاصل کرتا۔ محلے میں بھی ہم نیک اور شریف بچوں میں شمار کیے جاتے۔ مگر ابا کی زُبان پر ہر لمحہ شکایتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا۔ وہ ہمیشہ ہمارا تقابل محلے کے دیگر بچوں سے کرکے طعنے دیا کرتے۔ ہم دنوں بھائی ابا کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے اور کوشش کرتے کہ گھر کے کسی کونے کُھدرے میں ہی دُبکے رہیں۔ چند برسوں پہلے تک سب کچھ یونہی چل رہا تھا ۔ مگر ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔‘‘
محسن بولتے بولتے کچھ یوں رُک گیا جیسے اُس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مُشکل ہو رہا ہو کہ وہ بات کی ابتدا کہاں سے کرے۔ کچھ دیر آنکھیں سُکیڑے، ہونٹوں کو بھینچنے کے سبب پیشانی پر آئے بلوں کے ساتھ سوچتا رہا ۔ پھر ایک گہرا سانس لیتے ہوئے بھینچے ہوئے ہونٹ اور سُکڑیں ہوئی آنکھوں کو یوں وا کردیا کہ پیشانی پر پڑے بل غائب ہوگئے۔ پروفیسر کو یوں محسوس ہوا جیسے محسن کے ہاتھ بات کا سرا لگ گیا ہو۔
’’ احسان نے یونیورسٹی سے تازہ تازہ فسٹ ڈویژن کے ساتھ معاشیات میں ماسڑز کیا تھا۔ اُس روز بڑے پُرجوش لہجے میں امی کو بتا رہا تھا کہ ایک سرکاری محکمے میں اہم عہدے کے لیے رجحاناتی امتحان پاس کرنے کے بعد پینل انٹرویو بھی دے آیا ہے جو کہ بہت اچھا گیا تھا۔ اُس کے چند دیگر کلاس فیلوز نے بھی اُس کے ساتھ انڑویوز دیئے تھے۔ مگر اُسے پورا یقین تھا کہ وہ یہ ملازمت حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہے گا۔ مگر جب اُسے اِس بات کا پتہ چلا کہ وہ ملازمت اُس کی یونیورسٹی کے سب سے پھسڈی طالبعلم کو اپنے والد کے اثرورسوخ کے سبب مل گئی ہے اور اُسے ریجیکڈ کر دیا گیا تو اُس روز میں نے ایک نیا احسان دیکھا۔ اُس سے پہلے میں جس احسان کو جانتا تھا وہ صبر کرنے والا، سر جُھکا کر ابا اور زمانے کے پے در پے تھپڑ کھا کر بھی منہ سے آواز نہ نکالنے والا احسان تھا۔ مگر اُس روز جس احسان کو دیکھا وہ تو کوئی اور ہی شخص تھا۔ اُس کی آنکھیں غیض و غصب اور چہرا غصے سے سُرخ ہو رہا تھا۔ مجھ سے اُس کا چہرہ پہچانا نہ جا رہا تھا۔ مجھے آج بھی شُبہ ہوتا ہے کہ وہ احسان نہ تھا کوئی اور ہی شخص تھا۔ اُسی غصے کی حالت میں بڑبڑاتا ہوا گھر سے نکل پڑا اور پھر شام کو خبر آئی کہ اُسے پولیس نے گرفتار کر کے تھانے میں بند کررکھا ہے۔ میں اور ابا دوڑتے بھاگتے تھانے پہنچے تو معلوم ہوا کہ اُسے ارادہِ قتل، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ابا کئی دنوں تک کوشش کرتے رہے کہ کسی طور بھی احسان کو چُھڑوا لیں مگر کچھ بھی نہ ہو سکا۔ سرکاری ادار ے کے جن کرتا دھرتاؤں نے احسان کے خلاف پرچہ کروایا تھا اُن کی پہنچ بہت اُوپر تک تھی۔ وہ احسان سے اپنی بے عزتی کا بھرپور بدلہ لینا چاہتے تھے۔ا حسان نے نااہل کو نوکری دینے پر دفتر میں سب کے سامنے اُنہیں رشوت کا پیسہ کھانے والے حرام خور کہا تھا۔ وہاں ہونے والی ہلکی پھلکی ہاتھا پائی کو ارادہِ قتل اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ قرار دے کر اُس کے خلاف ایسی مضبوط ایف آئی آر لکھوائی گئی تھی کہ ابا کے لیے اُسے رہا کروانا نا ممکن ہو گیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ جیسے ہی محسن رُکا، پروفیسر نے بے تاب لہجے میں دریافت کیا۔
’’میں اور ابا تین چار روز مسلسل تھانے کے چکر لگاتے رہے۔ ایک روز جب ہم وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ احسان کی ضمانت ہوچکی ہے۔ ابا اور میں حیران رہ گئے کہ احسان کی ضمانت بھلا کیسے ہوگئی؟ معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں قائم ایک سیاسی جماعت کے طالبہ ونگ نے جوڑ توڑ اور اثرو رسوخ استعمال کر کے چُھڑا وا لیا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن احسان اُسی سیاسی جماعت کے عسکری ونگ کا نہایت ہی محترک کارکن بن کر اُسے جو حکم دیا جاتا ہے اُس کی تعمیل میں لگا رہتا ہے۔‘‘
’’اور تمھارے ابا۔۔۔؟‘‘
’’ابا۔۔۔!‘‘ اُس کے لہجے میں طنز کی کھنک تھی۔ ’’انہوں نے احسان سے اُسی روز سارے رشتے توڑ لیے تھے جب اُنہیں پتہ چلا کہ اُس نے کسی بدنامِ زمانہ سیاسی پارٹی کے عسکری ونگ سے ناطہ جوڑ لیا ہے۔ اُس کے گھر آنے پر پابندی عائد کردی اور خُود خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر لاتعلق سے ہو کر بیٹھ گئے۔ کہتے کچھ نہیں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اندر ہی اندر پچھتاوے کی آگ میں جل رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنے ہی احسان اپنے ہی گھروں میں بنے عقوبت خانوں میں دن رات ذہنی، جذباتی، نفسایاتی اور جسمانی تشدد کا شکار ہو کر اپنی باری پرایک نئے ٹارچر سیل کا آغازکرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
اچانک سامنے چلنے والے ٹی وی نیوز چینل پر بریکینگ نیوز کی دھماکہ خیز اطلاعی ٹیون نے اُنہیں اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
اینکر نے گھن گھرج بھرے لہجے میں بولنا شروع کیا۔
’’قصبہ چھوٹا نگر میں اغو اور ٰعصمت دری کے بعد قتل کر دی جانے والی دس سالہ بچی کا قاتل گرفتار۔‘‘
خبر سن کر پروفیسر نے ریموٹ سے ٹی وی کی آواز کم کی اور محسن کی جانب اُداس نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ محسن کے چہرے پر بھی گہری اُداسی چھائی تھی۔ کچھ دیریونہی خاموشی رہی۔ پھر محسن پروفیسر کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر بولا۔
’’دیکھ لیجیے۔۔۔! ٹارچرسیل معاشرے کی زندہ مثال۔۔۔! ایک وحشی کو موقعہ ملا تو اُس نے معصوم بچی کو اپنی ہوش کا نشانہ بنا کر مار ڈالا۔۔۔! سیاسی کارکنان کو موقعہ ملا، شہر کا شہر مغوی بنا کر بیگناہوں پر ڈنڈے برسا اُن کی ملکیتیں نذرآتش کر دیں۔۔۔! پولس کو موقعہ ملا، تو کبھی نہتے احتجاجی مظاہرین پر گولیاں چلا دیں تو کبھی بے گناہوں کو پولس مقابلے میں مار دیا۔۔۔!!!‘‘
کچھ دیر وہاں ایک بوجھل سی خاموشی چھائی رہی۔ دونوں ایک دوسرے سے نگاہیں چُرائے اِدھر اُدھر دیکھتے رہے۔ کچھ دیر بعد محسن کھنکھارتے ہوئے بولا۔ ’’چھوڑیں پروفیسر صاحب اس قصے کو۔ یہ بتائیں اب اگلی تحقیق کس موضوع پر ہے؟‘‘
محسن کا سوال سُن کر پروفیسر کا چہرہ اُداس یوں کھل اُٹھا جانو جیسے سُوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا ہو۔ نہایت ہی پُرجوش آواز کے ساتھ بول اُٹھا۔ ’’برصغیر کی تقسیم، ایک سازش۔۔۔!‘‘
کچھ دیر وہ داد طلب نگاہوں سے محسن کی طرف دیکھتا رہا۔ جب محسن نے کوئی جواب نہ دیا تو بولا۔ ’’تم دیکھ لینا میری یہ تحقیقاتی کتاب تقسیم کے حوالے سے ایسے ایسے سربستہ راز افشاں اور اُس سازش کے کرداروں اور کٹ پتلیوں کو بے پردہ کرے گی کہ لوگ حیران رہ جائیں گے۔۔۔!!!‘‘
محسن پہلے تو سپاٹ چہرہ لیے پروفیسر کی بات سنتا رہا۔ پھر اُس کے چہرے پر کچھ ایسی اندرونی کشمکش سے لبریز تاثرات نمودار ہوئے جیسے وہ کہنا تو بہت کچھ چاہ رہا ہو مگر کہنے کو اُس کا جی نہ چاہ رہا ہو۔ جب وہ کچھ نہ بولا تو پروفیسر سے رہا نہ گیا۔ ’’کیا بات ہے کچھ کہنا چاہ رہے ہو؟‘‘
’’جی پروفیسر صاحب سوچ رہا ہوں کہ آ پ کی بات کا کیا جواب دوں؟ یہاں آگ لگ چکی ہے اوراندیشہ ہے کہ خدانخواستہ یہ آگ ہم سب کو جلا کر خاکستر نہ کر دے اور ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم آگ کو بجھانے کی بجائے ماضی کے فرضی سانپ کی فرضی لکیروں کو پیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
’’کہنا کیا چاہتے ہو بھئی۔۔۔؟‘‘ پروفیسر کے لہجے میں تلخی تھی۔
’’تقسیم تو ہو چکی پروفیسر صاحب اوراُس کے بعد کئی نسلیں جوانی اور بڑھاپے کی سرحدیں پار کر کے دفنا بھی دی گئیں۔ اب آپ کی اٰس سوکالڈ تحقیق سے کچھ بدلنے والا ہے اور نہ ہی ملک و قوم کا ہی کچھ بھلا ہوتا نظر آتا ہے۔ پروفیسر صاحب اگر تحقیق کرنی ہی ہے تو اس معاشرے پر کیجئے جو ٹارچر سیل بن چکنے کے بعد اب خراماں خراماں’’بلیوویل‘‘ اور ’’ڈارک ویب‘‘ جیسے جدید ورچول عقوبت خانے کے سفر پر گامزن ہے جس کا شکار ہماری ہی اپنی نئی نسل ہے۔۔۔! بلکہ سچ پوچھیں تو شکاری بھی ہم ہی ہیں۔۔۔! اور شکار بھی ہم اپنی ہی نئی نسل کا کر رہے ہیں۔۔۔! احسان بھی تو نئی نسل ہی کا ایک نمائیندہ ہے۔ بظاہر تمام عمر ابا کی مار بناء کسی شکوہ شکایت کے سہتا رہا۔ وہ سارے تھپڑ خاموشی کے ساتھ اپنے اندر جمع کرتا رہا آج وہی تھپڑ وہ معاشرے کو لوٹا رہا ہے۔۔۔! ڈنڈوں کی صورت۔۔۔!!!‘‘
’’ڈنڈوں کی صورت۔۔۔! کیا مطلب؟۔۔۔!!!‘‘
پروفیسر کے لہجے میں شدید حیرت تھی۔
’’جی ہاں، ڈنڈوں کی صورت۔۔۔! اُس روز میں نے آپ کو شور مچا کر نہیں احسان کا بھائی ہونے کے سبب بچایا تھا۔۔۔! آپ کے سراور گاڑی پر پڑنے والے ڈنڈوں کو تھامنے والے لڑکوں کی ڈوریاں احسان ہی نے تو تھام رکھی تھیں۔۔۔!!!‘‘
Be First to Comment