عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 48
وہ گلی
الطاف فیروز، واہ کينٹ، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیلی سڑک پر مڑتے ہی اُس کی نظر بلند و بالا رہاشی پلازوں کی دو رویہ قطار پر پڑی اور اس تبدیلی پر وہ چند لمحوں کے لیے ٹھٹھک کر روک گیا۔ بھاگتی دوڑتی گاڑیاں، چیختے چلاتے لوگ بے ہنگم وبلند آہنگ موسیقی غرض زندگی کی تمام حرکت ایک لمحے کے لیے رُک گئی مگر دوسرے ہی لمحے اُسے کسی راہ گیر کا کاندھا لگا اور یاد دَر یاد بٹا اُس کا حیران وجود یکدم خود میں سمٹ گیا۔ یہ احساس ہوتے ہی کہ بھرے بازار کے بیجوں بیج کسی ہونق کی طرح مُنہ اُٹھائے سربفلک عمارتوں کو گھور رہا ہے وہ ایک طرف سرک لیا۔
ہر طرف مرد ہی مرد رواں دواں تھے۔ ہر عمر اور ہر نسل کے مرد اور دوسری طرف فلیٹس کے روشن دریچوں سے راہگیروں کو لُبھانے کے لیے شوخی سے مُنہ چڑھاتیں آنچل لہلہاتیں اور عشوہ گری کرتیں نازنینوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ صرف پرانی درودیوار کو گرا کر نئے سرے سے کھڑا کیا گیا ہے ورنہ اس کُوچہ و بازار کے رسم و رواج وہی پرانے ہیں۔ ہر سو ہوٹلوں کے علاوہ پان سگریٹ کے کھوکھے اور کیسٹوں کے چھوٹے چھوٹے کیبن نظر آرہے تھے۔ جن سے بے ہنگم موسیقی نشر ہو رہی تھی۔ ہر آٹھ دس قدم پر ایک نا ایک دُوکان میں کیرم بورڈ یا بلیرڈ ٹیبل رکھا گیاتھا۔ بے فکرے نوجوان جن کے گردا گرد سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتے اور پان کی گلوریاں چباتے اپنے دوستوں کی داد پر مسکراتے تماشائیوں پر اپنی کھیل کی دھاک بٹھا رہے تھے۔ بازار میں بالی عمر کے لڑکے نرسل کی سوکھی ڈنڈیوں پر چمکیلی پَنِّی چڑھائے، موتیے کے گجرے لٹکائے پھر رہے تھے، جو ایک ہی وقت میں اس کوچہ و بازار کے قانون کے عین مطابق بھی تھا اور الٹ بھی، مطابق یوں کے یہاں ہر قسم کی باسی اور گھٹیا چیز کو بازاری رنگ و بو سے معطر کر کے بیچا جا رہا تھا اور اُلٹ اس طرح کہ جھوٹے جذبوں کی اس دنیا میں پیٹ کے ستائے ہوئے یہ پاگل لڑکے موتیے کے پھولوں کی اصل رنگ و بو کے ساتھ گجرے بنانے والے ہاتھوں کے لمس کی مہک بھی بیچ رہے تھے۔ بہت سے جوان آپس میں دھکا مکی اور ٹھٹھ مذاق کرتے چلمنوں سے جھانکتے، شہد میں چاندنی گوندھ کر بنے جسموں کو نظروں سے بھنبھوڑتے ہر طرف پان کی پچکاریوں سے نقش و نگار بناتے چلے جا رہے تھے، تھوڑی تھوڑی دیر میں کوئی چم چم کرتی نئے ماڈل کی عمدہ گاڑی آن کر رُکتی اور ایک، دو رنگ و بو میں نہائی ہوئی نازنینیں، مُشک و عنبر کے جام لُنڈاتیں کسی عمارت کی سڑھیوں میں گم ہو جاتیں، یہ دوہری زندگی بسر کرنے والی وہ ہستیاں تھیں جو عام لوگوں کی نظروں میں اِسی شہر کے کسی باوقار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں مگر خاصانِ شہر کی خاطر یہ شام ڈھلے اس کوچہء رنگ و بو میں آن اترتیں اور شب بسری کے بعد صبحِ دم اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتیں، دیکھتے ہی دیکھتے ہر سو عمدہ اور نایاب گاڑیوں کی لائنیں یوں لگ گئیں تھیں کہ یہ بازارِ حسن کی بجائے مُلکی وزراء کا میٹنگ ہال دکھائی پڑتا تھا، وہ حیرانگی سے یہ تمام تبدیلیاں تکتا آگے بڑھتا چلا گیا۔
وہ، اگرچہ، اس بازار میں کم و پیش اٹھائیس،انتیس سال بعد آیا تھا، مگر نجانے اُس کے وجود میں کونسی الہامی قوت کام کر رہی تھی کہ وہ کسی سے راستہ پوچھے بغیر ان چکا چوند روشنیوں میں نہائے ہوئے بازار کی پچھلی طرف مڑنے والی پتلی سی گلی کے دھانے پر آن کھڑا ہوا جو اُس کی دانِست میں شننو کے گھر کو جاتی تھی، اس پتلی گلی کو روشنیوں میں نہائے ہوئے بازار کی نسبت اگر تاریک کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، اُس نے آنکھیں چُندّھیا دینے والی روشنی کی پشت پر اندھیرے کو دیکھا تو سوچنے لگا کہ بس یہی تو زندگی کی کُل حقیقت ہے جو آنکھ چھپکتے ہی منظر بدل لیتی ہے، روشنی سے اندھیرا، جوانی سے بڑھاپا اور زندگی سے موت، دیر ہی کتنی لگتی ہے، بس روشن بازار سے تاریک گلی کی طرف ایک موڑ ہی تو موڑنا ہوتا ہے۔ یہیں کہیں اس اندھی گلی کے کسی تاریک کونے میں پان کی پچکاریوں، خالی ڈبوں، ٹوٹی بوتلوں، پلاسٹک کے رنگین ریپرز، گندے ٹشو پیپرز اور دوسری کئی غلاظتوں کے درمیان اُس کی جوانی بھی پڑی تھی۔
اٹھائیس، اُنتیس سال اُدھر کی بات ہے جب یہ پچھلا موڑ مڑتے ہی روشنیوں کی چکا چوند آنکھوں کو بالکل اسی طرح خیرہ کرتی تھی، جیسے آج اِس موڑ سے پرے کر رہی ہے، اس پورے محلے کی عمارتیں پرانی طرز کی تھیں، پارٹیشن سے بھی پہلے کی، اکثر عمارتیں دو منزلہ تھیں، عمارت کے صدر دروازے میں قدم رکھتے ہی ڈیوڑھی شروع ہو جاتی جس کی دائیں طرف والی دیوار کے ساتھ لکڑی کے تختوں کا بنا ایک زینہ لکڑی ہی کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ مڑتا اُوپر کو چلا جاتا، ڈیوڑھی عبور کرتے ہی انسان کھلے آسمان تلے آن کھڑا ہوتا یہ چاروں اوّر مربع شکل میں دو منزلہ کمروں کے بیچوں بیچ صحن تھا، پہلی منزل کی چھت کی کڑیوں کو دیوار سے باہر کی جانب بڑھا کر کمروں کے سامنے ہوا میں معلق لکڑی کی تین، ساڑھے تین فٹ چوڑی رَوِش بنا دی گئی تھی جس کو صحن والی سمت ریلنگ لگا کر بند کیا گیا تھا۔ اب بھی تمام عمارت کم و پیش اُسی حالت میں تھی البتہ زینہ اور ریلنگ زیادہ خستہ حال ہو چکے تھے، اپنے اچھے دنوں کو یاد کر کے آہ وبکا کرنے والے شخص کے گالوں پر بہتے آنسوں کی آڑھی ترچھی لکیر کی ماند دیواروں پر کھنچی گدلے پانی کی لکیروں کے نشان بتاتے تھے کہ بارشوں میں عمارت کی چھت خاصی رستی ہے، عمارت کا گمبھیر سناٹا کسی ایسے مکان کا سماں پیش کر رہا تھا جس میں کچھ ہی دن قبل جواں مرگ ہوئی ہو، کبھی یہ عمارتیں سانس لیتیں جیتی جاگتی معلوم ہوتی تھیں، سرِشام بانکے جوان کلف لگے کپڑے زیب تن کئے، ہاتھوں میں موتیے کے گجرے اور پانوں کی گلوریاں اُٹھائے دھیرے دھیرے کسی عمارت کی سیڑھیاں چڑھتے اور اس سوتے جاگتے ماحول میں رات بِتا کر صُبحِ دم عشوہ گروں کی اداؤں کے تیروں سے چھلنی سینے لیے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے اور دوسرے روز پھر شام پڑے ان بانکوں کے پروں کے پرے اس کوچہ میں یوں اُترنے لگتے گویا کسی صحرا میں واقع نخلستان پر مرغابیوں کے ڈار کی نظر پڑ گئی ہو۔
اس نیم تاریک، حُزن و ملال میں ڈوبی عمارت کو گھورتے ہوئے اُس نے سوچا کہ وہ بھی کیا دن تھے جب شننو کی پورے چاند کی چاندنی ایسی بھرپور جوانی کی بدولت اس عمارت کا گوشہ گوشہ بقعہء نور بن جاتا، شننو کے قہقہے اس وسیع عمارت کے سناٹے پر پتھروں کی طرح پڑتے اور خاموشی کو باہر گلی میں دھکیل دیتے، خود اُس کی نگاہیں تو ہر وقت اس کے سنگِ مرمر سے پیروں میں اُلجھی رہتیں، ان پیروں کی نرماہٹ چھوئے بغیر محسوس کی جا سکتی تھی، بارہا اُس کا دل چاہا کہ وہ بڑھ کر شننو کے پاوٗں چوم لے مگر نجانے کیسے اس مُنہ زور جذبےِ پر عقل غالب آ جاتی اور وہ یکدم روک جاتا،کیا مجھے واقعی شننو سے محبت تھی یا اُس کے اندازِ گفتگو، شوخ و شنگ جملوں اور جسم کی بندش نے مُجھے اس چوکھٹ سے باندھ چھوڑا تھا یا شاید وہ میری مُنہ زور جوانی کی ایک بُھول تھی، اُس نے خود کو سوال کے ترازو میں ڈالا اور جواب میں اس عمارت کی طرح خاموش لمحہ پا کر نیم تاریک عمارت کے دروازے میں گُم ہو گیا۔
سال خوردہ زینے پر قدم پڑتے ہی زینہ لمحہ بھر کے لیے اُس کے بوجھ تلے چرچرایا اور اُس نے ا ضطراری طور پر ہاتھ بڑھا کر ریلنگ کو تھام لیا، ریلنگ پر ہاتھ پڑتے ہی اُس کے کانوں میں شننو کے شوخ و شریر جملے اور قہقہے گونجنے لگے۔ ”عیدو، کیوں مرے جاتے ہو۔۔۔۔۔۔ نئیں گرتے بھئی ہٹو بھی۔۔۔۔۔ ڈرپوک کہیں کے، لو میرا ہاتھ تھام لو۔۔۔۔۔ اچھا چلو گودی میں آجاوٗ۔۔۔۔۔ چلو یوں کرتے ہیں، یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔۔۔”
قدم قدم زینہ چڑھتے وہ ماضی کا لمحہ لمحہ چُھو آیا، اُس نے دل سے پوچھا کہ اس چرچراتے زینے پر چڑھتے ہوئے وہ واقعی ڈرا کرتا تھا یا یہ سب وہ شننو کے شوخ و شریر جملے سُننے کے لیے کیا کرتا تھا مگر وقت کی دُھول نے دوسری کئی حقیقتوں کی طرح من میں چھپے سچ کو بھی کہیں نیچے دبا چھوڑا تھا مگر وہ شام اُسے آج بھی یوں یاد تھی جیسے کل کا واقعہ ہو، اُس شام اُسے دوست بمشکل راضی کر کے اس پُر پیچ گلی میں لائے تھے، وہ مُجرا سننے کے لیے اس کوچے میں داخل تو ہوا مگر واپسی کا راستہ بھول گیا، مُجرے کے دوران پردے کی اوٹ سے جھانکتی دو آنکھیں وہ کام کر گئیں جو سامنے تھرکتی ایک حسینہ نہ کر سکی، اُن آنکھوں نے اُسے ایسا جکڑا کہ بازارِ حسن کا نام سُن کر گھبرا جانے والا عدیل کُھلّم کُھلّا یہاں آنے جانے لگا اور یوں بعد کی ملاقاتوں میں شمیم کی دادی نے اُسے بتایا کہ شننو کی ماں اپنے کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی، اور پھر شننو کے والد کی وفات کے بعد اُنہوں نے اُسے پالا مگر وہ اپنی بوڑھی دادی پر جسے لوگ جہاں آرا بائی کرناٹک والی کے نام سے پہچانتے تھے ایک بوجھ کی حثیت رکھتی تھی کیونکہ وہ اس طرزِ زندگی کو پسند نہیں کرتی تھی اور کسی کی رَکھیل بننے کی بجائے اپنا گھر بسانا چاہتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اُن کے دل فاصلوں کو سمیٹتے قریب تر آ گئے وہاں ایک روز نجانے کیسے اُن کے جسموں کی سازش کامیاب ہو گئی پھر یونہی ایک دو مرتبہ ایک دوسرے سے بلکہ اپنے آپ سے بھی انجان بنتے ہوئے اُنہوں نے اپنے جسموں کے حکم کی تعمیل کی اور آخر کو یہ انجانے پن کا خول جو جذبوں کے بھرپور اظہار میں مانع تھا اُن کے جسموں کی باہمی ضرورت کے پیشِ نظر ختم ہو گیا اور وہ ایک دوسرے پر مزید کُھلتے چلے گے، شروع کے چند ماہ تو یوں گزرے کہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہی اُن پر نشہ طاری ہو جاتا، اس کھیل کو شروع ہوئے کُچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ شننو نے ایک خوفناک خبر سنا کر عیدو کا سارا نشہ ہرن کر دیا، اُس روز وہ شننو سے ملنے گیا تو اُسکا پژمردہ چہرہ دیکھ کر اُس نے تیمارداری کی غرض سے اُس کا حال پوچھا مگر جواب سنتے ہی اُسے یوں لگا جیسے کسی نے یک دم ساری زمین اُس کے قدموں تلے سے کھینچ لی ہو، بازارِحسن میں گو یہ ایک عام سا واقعہ تھا مگر بات جگہ کی نہیں جذبوں کی تھی، اُسے خود سے گھن آنے لگی، اُس نے سوچا کہ چند منٹ کی خواہش پر اگر وہ قابو پا لیتا تو آج اُسے یہ پریشانی نہ دیکھنی پڑتی۔ سوچوں کی اسی اُدھیڑ بُن میں اُس نے شننو کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ وہ جلد ہی اپنے باپ سے جا کر شادی کی بات کرے گا اور کوئی نازک مرحلہ ظاہر ہونے سے قبل ہی وہ قانونی بندھن میں بندھ جائیں گے، جوانی کے بپھرے سمندر میں جذبوں کی نازک کشتی لے کر اُترنے والی شننو نے یہ بھی نہ سوچا کہ اپنے اردگرد دیکھ لینے سے اُسے کتنی ہمشکل کہانیاں چلتی پھرتی نظر آ سکتی ہیں، عدیل کی ڈھارس میں ایک ماہ مزید گذرا تو بات خاضی بڑھ چکی تھی، بھوک کی کمی اور متلیوں کی بہتات نے جہاں دیدہ، جہاں آرا بائی کو سب ان کہی سنا دی ، اگلے ہی روز عدیل کی پیشی دادی کی عدالت میں پڑی، زبان سے کچھ کہنے کی بجائے اُس نے سننے میں عا فیت جانی اور آخر میں اُنھیں یہ یقین دلا کرچل دیا کہ وہ دس بارہ یوم کے اندر اندر شننو کو بیاہ لے جائے گا اور پھر وہی ہوا جو اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی ہو جایا کرتا ہے، باپ کے فیصلے اور ایک دوسرے خوبرو جسم کی بِساوٹ نے اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی اور یوں اُس کے جذبے ایک مرتبہ پھر اُس کے جسم و نفس کی سازش کا شکار ہو گئے۔
دنوں نے مہینوں کا روپ لیا اور آج اٹھائیس، انتیس سا ل بعد جبکہ وہ نہ صرف یہ کہ چند بچوں کا باپ ہے بلکہ والد کی وفات کے بعد سارے کا سارا کاروبار سنبھالے ہوئے ہے، ایک کاروباری کام کے سلسلے میں اس شہر آیا تو نجانے کس شوق اور جذبے نے اُس کا رُخ اس گلی کی طرف موڑ دیا جس نے اُسے زندگی کے بہت سے اسرار و رموز سکھائے تھے، وہ گلی جس سے مُنہ موڑ کر جانے والا اگر پلٹ آئے تو پتھر کا بن جاتا ہے اور اب ان نئی بلند و بالا عمارتوں کو دیکھ کر اُس کی حالت بھی کُچھ ایسی ہی تھی اُس نے نیم تاریکی میں اُوپر کو جاتے زینے کو غور سے دیکھا تختوں کی کیلیں اپنی جگہ چھوڑ کر چند سوت اُوپر کو نکل آئیں تھیں اور پاوٗں پڑتے ہی لکڑی کا تختہ ایک ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ نیچے کو لپکتا اور اس سے قبل کے زینہ چڑھنے والے شخص کے مُنہ سے چیخ نکلے یک دم روک جاتا۔ عدیل ڈرتے ڈرتے قدم اُٹھاتا اُوپر کی منزل پر پہنچ گیا، سوچ رہا تھا کہ شننو اُسے پہچان پائے گی یا نہیں اور اگر پہچان گئی تو اُس کا کیا ردِعمل ہو گا دوسری منزل پر پہنچ کر اسکی نگاہ شننو کے کمرے کے سامنے لکڑی کی سال خوردہ ریلنگ پر پڑی اور اُس کی نگاہوں میں ریلنگ کے سہارے نیچے کو جھکی شننو گھوم گئی، جو گلی میں کسی سبزی یا منیاری والے کی آواز سُنتے ہی اُسے بُلانے کے لیے ریلنگ پر دُہری ہوتی تھی اور اُس کے جسم کا لوچ عدیل کے بدن کو جھنجھنا کر رکھ دیتا تھا، آواز سنتے ہی بلایا جانے والا ڈیوڑھی عبور کر کے نچلی منزل کے صحن میں آ جاتا تھا اور جو طلب کیا جاتا رسی سے بندھی ٹوکری میں ڈال دیتا تھا، شننو دھیرے دھیرے رسی کھینچنے لگتی ریلنگ پر زیادہ جھکنے پر عدیل چیخ و پکار کرتا تھا اور وہ اُس کی بُزدلی پر قہقہے لگاتے ہوئے ریلنگ پر مزید دُہری ہو جاتی تھی، ایسے میں اُس کا جسم فضا میں ایک قوس بناتا اورمخروطی دائرے اُس کے جاندار قہقہوں سے یوں تڑپتے جیسے فضا میں بکھرجانے کو بے تاب ہوں۔
انہی خیالوں میں غلطاں و پیچاں عدیل پہلے کمرے کے دروازے تک پہنچا دروازے پر گرا ٹاٹ کا بوسیدہ سا پردہ اُٹھایا تو نیم تاریک کمرے میں اُسے ایک بوڑھا چارپائی پر گٹھڑی بنا دکھائی دیا، عدیل نے چند قدم آگے چل کر غور سے دیکھا تو اُس کی نگاہوں میں ناٹے سے قد کا اکّو چاچا گھوم گیا جو نچلی منزل سے اُوپر کی منزل تک کسی کِرمچ کی گیند کی طرح چکراتا پھرا کرتا تھا، عدیل نے آگے بڑھ کر اُس کا کاندھا ہلایا تو اکّو چاچا نے آہستگی سے آنکھیں کھولیں اور کراہ کر پہلو بدلنے کی کو شش میں اپنے فالج زدہ جسم کو مزید سکیڑا اور مشکل محسوس کرتے ہوئے اُسی حالت میں ڈھیلا چھوڑ دیا، عدیل نے اُس کے جسم کو سیدھا کیا تو اُس نے شکر گذار نظروں سے عدیل کی جانب دیکھتے ہوئے نحیف آواز میں پوچھا؛
“کون ہو بھائی۔۔؟”
“اکّو چاچا۔۔میں ہوں عدیل۔”
“کون عدیل؟۔۔۔ اکّو چاچا پلکیں چھپکاتے ہوئے بولا۔ ”
“چاچا ۔۔ میں۔۔۔ وہ شننو ۔۔۔۔۔ شننو کہاں ہے۔۔۔ میں ہوں۔۔۔۔۔ عیدو۔۔۔۔ شننو کا عیدو۔۔۔۔ وہ بہت سال پہلے۔۔۔”
“اچھا تو! تُو ہے۔۔۔ اپنا عیدو ہے۔۔۔۔” اکّو چاچا نے نحیف آواز میں عدیل کا جملہ درمیان ہی سے کاٹتے ہوئے کہا اور اُس کی آواز ڈوب گئی۔ چا چا۔۔۔۔ چاچا۔۔۔۔۔ وہ شننو کہاں ہے۔۔۔۔ عدیل نے اُس کا کاندھا جھنجوڑتے ہوئے پوچھا تو اسے اکّو چاچا کا جسم قدرے زیادہ گرم محسوس ہوا۔ ”
“وہ تو مدّت ہوئی مر گئی۔۔۔۔ پھر دادی بھی۔۔۔ تیرے جانے کے بعد بچّی ہوئی تھی اُس کے۔۔۔۔ تُو تو آیا نہیں۔۔۔۔۔” اکّو چاچا نے پل بھر کے لیے آنکھیں کھول کر چند جملے کہے اور عدیل کی زندگی میں ایک نیا طوفان اُٹھا کر پھر آنکھیں موند لیں۔ “چاچا۔۔۔۔ چاچا۔۔۔۔ وہ میری بچّی کہاں ہے۔۔؟” عدیل نے دوبارہ اُس کے کندھے جھنجھوڑے مگر وہ بے سدھ پڑا تھا۔ عدیل نے اس کا ماتھا چھوا تو اسے احساس ہوا کہ اکّو چاچا واقعی بُخار میں بھُن رہا تھا، نجانے کیوں اُسے یوں لگا جیسے اکّو چاچا ابھی دم دے جائے گا اور وہ چاہتا تھا کہ اُسے جلد از جلد اپنی بیٹی کے بارے میں پتہ چلے۔ عدیل نے پانی کی تلاش میں نگاہ دوڑائی تو اُسے کہیں بھی پانی کا برتن دکھائی نہ پڑا وہ جلدی سے باہر کو لپکا اور ساتھ والے کمرے کی طرف بڑھا مگر دروازے پر تالا پڑا تھا، عدیل تیز تیز قدم بڑھاتا تیسرے دروازے کاپردہ اُٹھا کر کمرے میں داخل ہوا کمرے میں ایک طرف چار،پانچ پرانے زنگ آلود کنستر جو یقیناً کبھی کھانے کی اشیاء رکھنے کے کام آتے ہوں گے اُوپر تلے اوندھے سیدھے پڑے تھے۔ سامنے کی دیوار کے ساتھ دائیں کونے میں تیل والا چولھا رکھا تھا، ایک طرف مٹی کے تین گھڑے رکھے تھے جن میں سے ایک پر سلور کا کٹورا دھرا تھا، عدیل نے کمرے کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے کٹورا گھڑے پر سے اُتارا گھڑے کے پیندے سے لگا پانی روشنی منعکس کرتا چمک کر اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ اُس نے گھڑے کو اوندھا کرنے کی حد تک پہلو کے بل لٹاتے ہوئے کٹورا بھرا اور اکُو چاچا کے کمرے کی طرف بھاگا۔ چند قدم کا فاصلہ اُسے میلوں دُوری کی تھکن دے گیا، کمرے میں پہنچ کر عدیل نے اکُو چاچا کو پانی پلانے کی غرض سے سیدھا کیا تو حیرانگی نے اُسے پتھر کا بنا ڈالا، بے حس پڑا اکُو چا چا زندگی کے آثار سے تہی دست اپنی سفید سفید اَدھ کھلی آنکھوں سے چھت کو گھور رہا تھا، کٹورا عدیل کے ہاتھ سے گرا اور میت کے سینے پر پانی بکھیرتا زمین پر جا رہا۔ دُکھ اتنا شدید تھا کہ عدیل ساکت و جامد کھڑا اُن بے نُور آنکھوں کو چند ثانیے تک یوں گھورتا رہا جیسے کسی جنگل میں پھنسے رستہ بھولے شخص کے لاکھ بھاگ دوڑ کرنے کے باوجود اُسے تلاش کرنے والے امدادی کارکنوں کا جہاز اُسے دیکھے بغیر سر پر سے گزر جائے اور وہ متوجہ نہ کر سکنے کے دُکھ سے اُسے دور جاتا دیکھ کر ہکا بکا اپنی جگہ کھڑے کا کھڑا رہ جائے، چند لمحے یونہی سا کت جامد کھڑا رہنے کے بعد وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا، سیڑھیاں اُترتے اُترتے اُس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی اور احساسِ ضیاع سے مغلوب آہ و بکا کرتا وہ اُس نیم تاریک حزن و ملال میں ڈوبی عمارت سے باہر نکل آیا۔
“وہ تو مدت ہوئی مر گئی۔۔۔۔۔۔ تیرے جانے کے بعد بچی ہوئی تھی اُس کے۔۔۔۔ تُو تو آیا نہیں” رہ رہ کر اُس کے دماغ میں اکُو چاچا کے الفاظ گونجنے لگے اور اُس کی آہیں، ہچکیوں اور آنسوں میں بدل گئیں، کندھا جھنجھوڑے جانے پر اُس کے حواس لوٹے تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ فٹ پاتھ کے بیچوں بیچ بیٹھا فریاد کُناں تھا، چاروں اُورکھڑے لوگوں پر نظر پڑتے ہی وہ یکدم خاموش ہو گیا اور یکے بعد دیگر آوازوں کے پتھر اس کی سماعت پر گرنے لگے۔
“دیوانہ ہے جی، دیوانہ ۔۔۔۔” ۔۔۔۔۔ “او ہو۔۔۔ لگتا ہے کسی نے کچھ پلا کر لوٹ لیا۔۔۔۔ اپنے ہوش میں نہیں بچارا” ۔۔۔۔ “او میاں! یہ کوئی رونے کی جگہ ہے؟ یہاں تو لوگ غم غلط کرنے، ہنسنے ہنسانے آتے ہیں” ۔۔۔۔ “عاشق ہے بھئی عاش۔۔۔۔ یار کی گلیوں کے کَھکھ رولتا ہے۔” ۔۔۔۔ “تنگ نہ کرو یار، دُکھی لگتا ہے بچارہ۔”
ہجوم کے آوازے کسنے پر وہ چپ چاپ اُٹھا اُس کے قدم بڑھاتے ہی مجمع کائی کی طرح پھٹ گیا اور لوگوں میں راستہ بناتا وہ دائرے سے باہر نکل آیا، اگلے ہی لمحے فٹ پاتھ یوں خالی ہو گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو سب لوگ اُسے بھلا کر دوبارہ اپنے اپنے مشاغل میں مگن ہو گئے اور وہ سر جھکائے، سوچوں کے طوفان میں گِھرا آنسووٗں سے بھری دھندلی آنکھوں سے راستہ ٹٹولتا لوگوں کی بھیڑ میں گُم ہو گیا۔
Be First to Comment