Skip to content

وبا

عالمی افسانہ میلہ “2021”
پہلی نشست
افسانہ نمبر”15″
“وبا”
افسانہ نگار” اسحاق جنجوعہ (راولپنڈی،پاکستان)

مولوی بختیار خلجی اپنی نشست پر تلاوت میں مصروف تھے، جب جلیل اپنی کتابیں سینے سے لگائے حجرے میں داخل ہوا اور حسب معمول ان کے پہلو میں بیٹھ کر سبق دہرانا شروع کر دیا ۔
جلیل کے آتے ہی ان کی طبیعت میں سنجیدہ سی خلش عود آئی اور ان کی مضطرب سماعت کا رخ نشست کے پاس والی کھڑکی پر متعین ہو گیا جہاں سے آتی تلاوت کی دھیمی دھیمی بازگشت ثانیہ بھر بعد رکی اور قرآن کو بوسہ دینے کی آواز بلند ہوئی۔
پھر کچھ دیر بعد کھڑکی کے عقب سے پردہ سرکا اور آنکھ بھر کے جھروکے سے ان کی بیٹی نسیم نے پوچھا، ابا جان چائے لا دوں؟

“ابھی نہیں، نماز کے بعد آتا ہوں”
مولوی صاحب نے مختصر جواب دیا۔
نسیم باپ کا جواب سن کر اندرون خانہ چلی گئی۔
اس کے لمس سے جھلارا لینے والا پردہ ابھی ہلکورے کھا رہا تھا کہ عصر کی اذان شروع ہوگی ، اذان مکمل ہوتے ہی جلیل نے سبق سنانا شروع کردیا، سبق سننے سے زیادہ مولوی صاحب کا دھیان اس بات پر پر اٹکا ہوا تھا کہ نسیم کو جلیل کی آمد کا پتہ چل کیسے جاتا ہے؟
گزشتہ دس دن میں دو بار اس کی آمد کے اوقات بدلے گئے تھے، پچھلے دو روز سے تو مولوی صاحب یہ بہانہ بناتے کہ اس کی آمد کے وقت قرآن کھول کر بیٹھ جاتے تاکہ وہ آداب تلاوت کے پیش نظر سلام کرسکے اور نہ ہی اس کی آواز نسیم کی سماعت کو آمد کی اطلاع دے سکے،
جلیل بنا سلام کے ہی بیٹھ جاتا اور سبق بھی بے آواز ہی دہراتا، مگر پھر بھی جانے کیسے نسیم کو پتہ چل جاتا، وہ تلاوت روک کر قرآن کو بوسہ دیتی اور کھڑکی کے پردے میں آنکھ بھر کا جھروکا بنا کر مولوی صاحب سے چائے یا کھانے کے بارے میں پوچھ لیا کرتی ۔

سبق سننے کے دوران ہی انہیں ایک اور بہانہ سوجھ چکا تھا۔
” دیکھو جلیل میاں، ہماری طبیعت کچھ ناساز رہنے لگی ہے تم کل سے یہ خوشبو لگا کر مت آنا، سر میں درد ہونے لگتا ہے”
سبق سنتے ہی انہوں نے حکم صادر کر دیا ۔

“جی بہتر، اللہ حافظ”

تابعدار جلیل، تعمیل کا اشارہ دے کر رخصت ہوگیا۔

بعد میں مولوی صاحب کو یہ سوچ کر بہت ہی سبکی محسوس ہوئی کہ یہ خوشبو تو انہوں نے خود جلیل کو بخاری شریف سے حدیث کا پچھلا باب مکمل ہونے پر تحفہ میں دی تھی اور آج خود بھی لباس پر مہکا رکھی تھی، محض ایک شک پر خوامخوا ہی اسے خوشبو جیسی پسندیدہ سنت سے روک دیا، اعتراض کی وضاحت بھی کوئی خاص نہیں تھی، بہرحال وضاحت والی بات کو انہوں نے استاد کا رعب سمجھ کر جھٹک دیا، مگر احتیاط کے پیش نظر تہیہ کرلیا کہ کل سے وہ خود بھی خوشبو نہیں لگائیں گے ۔
اگلے روز صبح سے بغیر خوشبو مہکائے مسند پر بیٹھے انہیں بار بار لگتا کہ جیسے کچھ کھو گیا ہے، ساری عمر مشک و عطر کا استعمال سنت سمجھ کر کرتے رہے، پھر خود سے ہی خیالی تکلم کرکے سمجھایا کہ میاں خوشبو اگر سنت ہے تو بیٹی کی حفاظت فرض ہے اور جب معاملہ سنت اور فرض کے تقدم کا ہو تو فرض ہی مقدم ٹھہرتا ہے ۔
بے گناہ ثابت ہونے کے احساس سے طبیعت میں عسرت محسوس ہوئی تو صبح آنے والے شاگردوں کے ساتھ روزمرہ معاملات میں مشغول ہوگئے۔

پچھلے پہر جب جلیل یا تو نسیم کا معاملہ بھی معمول کے مطابق ہی تھا۔ مولوی صاحب بھونچکے رہ گئے ۔
اب تو باآواز بلند سلام بھی نہیں تھا ، کوئی طے شدہ وقت بھی نہیں تھا، خوشبو بھی نہیں تھی، پھر بھی جلیل کے آتے ہی تلاوت کی بازگشت تھمی، قرآن کو بوسے کی آواز آئی اور کھڑکی کے پردے میں آنکھ بھر کا جھروکا بناکر نسیم نے پوچھا،
“کچھ چاہیے اباجان. ؟ “
“نہیں، ضرورت ہوئی تو بلا لوں گا”
مولوی صاحب نے شدید کوفت پر بمشکل قابو پاتے ہوئے کہا ۔
ان کے سب بہانے ختم ہوچکے تھے، شک تھا کہ دن بدن بڑھتا جارہا تھا، وہ جلیل کو کھل کر منع بھی نہیں کر سکتے تھے، وہ ان کے عام شاگردوں سے مختلف تھا،. منیاری کی ایک دکان پر کام کرتا اور کاروبار کے فارغ اوقات میں مالک سے رخصت لے کر یہاں پڑھنے آ جایا کرتا تھا، وہ مختصر وقت کے لئے آتا، پرانا سبق سنا کر نیا سبق لے جاتا۔
چند دن پہلے تک مولوی صاحب اس کی آمد پر بہت خوش ہوا کرتے تھے، مگر اب اپنی بیٹی کا اس کی آمد پر معمول انہیں بہت کھٹک رہا تھا، وہ مسلسل کسی ایسے بہانے کی تلاش میں تھے جو جلیل کو یہاں آنے سے روک سکے مگر کسی بہانے کی حکمت کارگر ثابت نہ ہو رہی تھی،
جلیل تھا ابھی ایسا مثالی، فرمانبردار اور معتبر لڑکا کہ شکایت کا کوئی موقع بھی نہیں دیتا تھا ۔
آج جلیل کے رخصت ہونے کے بعد مولوی صاحب گھر کے اندرونی حصہ میں گئے تو نسیم انہیں دیکھتے ہی رسوئی میں چلی گئی ۔

“یہ بالغ ہورہی ہے، لڑکی کی آواز غیر محرم کے کان میں پڑے تو گناہ سارے گھر کو پہنچتا ہے، اسے ڈیوڑھی میں تلاوت کرنے اور کھڑکی کے پاس آکر بات کرنے سے منع کر دو” نسیم کے چائے بنانے کے دوران انہوں نے اپنی اہلیہ کو ہدایت جاری کی، تو انہوں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔

نسیم چائے رکھ کر پلٹی تو مولوی صاحب کی نظر اس کے گرد لپٹی چادر کے بل سے باہر لٹکتے پراندے کے سترنگی نگینوں سے سجے پھمن پر پڑی، یہ جھلک ان کے دل پر چرکا سا لگا گئی اور وہ اس لمحے کو کوسنے لگے جب نسیم کو اس کی پسند کا پراندا دلوانے جلیل کی دکان پر لے گئے تھے،
وہاں بظاہر تو کچھ خاص نہیں ہوا تھا.۔
بس مختلف اشیاء کو دیکھتے دیکھتے نسیم کے چہرے سے پل بھر کے لئے نقاب گر گیا تھا۔
سترنگی پراندا اس وقت موجود نہیں تھا، جلیل اسے کچھ روز بعد خود اپنے ہاتھ سے بنا کر لایا تھا، بس تب سے ہر روز یہی پراندا نسیم کی چٹیا میں گندھا ہوتا،
تب سے اس کے چہرے پر رونق بڑھ گئی تھی، آنکھوں میں عجیب سی چمک عود آئی تھی، اور لہجے میں میں جھنکار شامل ہوگئی تھی، اسے پتا نہیں کیسے جلیل کی آمد کا علم ہو جاتا، وہ ڈیوڑھی میں تلاوت کرتے قرآن کو غلاف میں لپیٹ کر بوسہ دیتی، اور حجرے کی کھڑکی کے پاس آکر مولوی صاحب سے سے چائے وغیرہ کا پوچھا کرتی۔
پہلے کچھ دن تو مولوی صاحب نے محسوس نہ کیا، مگر مسلسل ایک ہی معمول نے انہیں شک میں ڈال دیا۔
تلاوت تو نسیم پہلے بھی کیا کرتی تھی، کھڑکی کے پاس آکر کر چائے پانی کا پہلے بھی پوچھا کرتی تھی، مگر اب یہ معاملات عین اس وقت انجام پاتے جب جلیل مولوی صاحب کے حجرے میں پہنچتا ۔

بیٹی کے باپ کو تو اس کے قریب سے گذرنے والی ہوا کے جھونکے پر بھی شک ہو جاتا ہے۔جلیل تو جیتا جاگتا نسیم کا ہم عمر لڑکا تھا۔

مولوی صاحب کو جلیل پر اتنا ہی اعتبار تھا جتنا وہ نسیم پر کرسکتے تھے مگر اعتبار کے اس کانچ میں لکیر کچھ روز قبل اس وقت آئی جب نسیم کے چائے پوچھنے کے دوران مولوی صاحب کا دھیان جلیل کے کھڑکی کی سمت اٹھے ہوئے سر پر پڑ گیا ۔
تب سے انھوں نے غور کرنا شروع کیا تو خاموشیوں کی زبان میں چلتی کہانی میں جذبات کا مبینہ شور و غوغا مولوی صاحب کے دل و دماغ کو مضمحل کرنے لگا۔
مولوی صاحب اس بارے میں سوچتے تو ان کے دل سے فریاد نکلتی کہ یہ سب شک ہی ہو اور ان کا پردہ رہ جائے، وہ شک کے اس بیج سے یقین کی کونپلیں پھوٹنے کے خدشے سے ہی بری طرح گھبرا گئے تھے، اور شدت سے کسی ایسی راہ کی تلاش میں تھے جو اس معاملے کا یا اس معاملے کے شک کا پردہ شق کیے بغیر ہی نسیم اور جلیل کو دور دور کردے۔
بہانوں کی تلاش میں پیش رفت نہ ہوئی تو معاملہ ان کی دعاؤں تک پہنچ گیا، شاید ان کی دعا سنی گئی کہ چند روز بعد مسجد میں سرکاری ایما پر اہل قصبہ کی مشاورتی مجلس کا اجلاس بلا لیا گیا، اجلاس میں سرکاری نمائندوں نے خبردی کہ سمندر پار کے ملکوں سے پھوٹنے والی وبا اپنے وطن کے شہروں دیہاتوں کو متاثر کرتی ہوئی اس قصبے میں بھی سرایت کر چکی ہے، چھوت کی بیماری سے متاثر ہونے والے کھانس کھانس کر تڑپتے ہوئے تیز بخار اور سانس گھٹنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں، ابھی تک اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہو سکا، صرف احتیاط ہے جو اس بیماری سے بچا سکتی ہے ۔
ساتھ ہی قصبے والوں کو اپنی اور اردگرد کے ماحول کی مکمل صفائی اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی ہدایات بھی جاری کردی گئیں ۔
اجلاس برخواست ہونے پر لوگ مسجد سے نکلے تو ان کے چہروں پر کرب اور فکر مندی کے آثار نمایاں تھے، بس ایک مولوی صاحب ہی تھے، جن کا چہرہ مطمئن تھا لوگوں نے انہیں مطمئن دیکھ کر رائے پوچھی تو انہوں نے پرسکون لہجے میں جواب دیا،
” میاں، جس نے جان دی ہے، اسی نے آزمائش بھیجی ہے، اس کا مقابلہ دینی تعلیمات کی روشنی میں صبر، ثابت قدمی اور احتیاط کے ساتھ ہی کرنا ہی ہم سب کی مذہبی، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے” ۔
کچھ ہی دیر بعد مسجد سے اس وبا سے متعلق معلومات اور اس کے سدباب و احتیاط کے بارے میں مختلف اعلانات کیے گئے ۔
ان اعلانات پر عمل درآمد کے لئے لیے دوسری صبح سے ہی قصبے کے بازار، چوپال، دفاتر اور دیگر مجمعے والی جگہوں کے ساتھ ساتھ مولوی صاحب کا اپنا مدرسہ اور دفتر بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا، اور وہ بھی دیگر قصبے والوں کی طرح اپنے گھر میں بند ہو کر رہ گئے۔
سب نمازیں اور دیگر مذہبی معمولات گھر میں ہی سرانجام دینے لگے،
ہر نماز کے وقت جماعت کی رونق اور کیف یاد کر کے جی تڑپنے لگتا تو بیٹی کے معاملہ میں موجودہ صورتحال کی شکل میں خدائی مدد کا سوچ کر “الحمدللہ علی کل حال” کا ورد کرکے اپنا دل بہلا لیا کرتے ۔

سہ پہر کا وقت قرآن پاک کی تلاوت کے لئے مخصوص تھا، مولوی صاحب اپنے کمرے میں اور نسیم اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ بڑے کمرے میں تلاوت کے لئے بیٹھا کرتی، ہفتے بھر میں مولوی صاحب واضح محسوس کر چکے تھے کہ نسیم کے چہرے کی رونق، آنکھوں کی چمک، اور لہجے کی جھنکار کار مدھم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہ ایک روز نسیم کی ماں نے بتایا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں، بخار اور کھانسی ہے، آپ مناسب سمجھیں تو اسے ڈیوڑھی کی کھلی ہوا میں بیٹھ کر تلاوت کی اجازت دے دیں؟
مولوی صاحب نے اہلیہ کی فرمائش پر سر ہلا دیا، عصر کے وقت مولوی صاحب وضو خانے سے ہاتھ پونچھتے باہر نکلے تو نسیم ڈیوڑھی میں تلاوت کر رہی تھی، تلاوت کی بازگشت میں میں وقفے وقفے سے کھانسنے کی آواز بھی شامل تھی ، تلاوت کے بعد اس نے قرآن کو معمول سے مدھم بوسہ دیا تو مولوی صاحب کے لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی، مگر کچھ ہی دیر بعد یہ دھیمی سے مسکراہٹ شدت کے کرب میں بدل گئی، جب انہوں نے دیکھا کہ تلاوت کے بعد نسیم نے ان کے حجرے والے پردے کو کھسکایا اور وہاں کا ویران اور اندھیرا منظر دیکھ کر کر شدید اداسی اپنے چہرے پر سجائے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔
مولوی صاحب نے گھر میں رہتے ہوئے بھی بیٹی کو بہت دن بعد دیکھا تھا، اس کی زرد رنگت، نقاہت زدہ چال اور کھڑکی سے پلٹتے ہوئے اداسی کی پرچھائیاں دیکھ کر دل ایسا دہلا کہ “الحمد للہ علی کل حال” کے ورد سے بھی اطمینان نہ مل سکا ۔

انہیں احساس ہونے لگا کہ فاصلے، یادیں مٹانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
رات نصف کے قریب ہوگی جب بچیوں کے کمرے سے آنے والی شدید کھانسی کی آواز سے ان کی آنکھ کھلی، اسی وقت ان کی اہلیہ بھی کمرے میں داخل ہو رہی تھیں جنہوں نے بتایا کہ نسیم کو کھانسی کا شدید غوطہ آیا ہے، ساتھ میں بخار بھی بہت سخت ہو چکا ہے ۔
مولوی صاحب کی ہدایت پر ہی نسیم کو جوشاندہ بنا کر دیا گیا اور شہد چٹایا گیا جس سے دورہ کی شدت میں کمی آئی اور وہ سو گئی۔
صبح ہوتے ہی مرض کی شدت پھر بڑھ گئی، مسجد سے سنے گئے اعلانات کے پیش نظر نسیم کی ماں اور بہنوں نے وبا کا خدشہ ظاہر کیا جسے مولوی صاحب نے لاحول پڑھتے ہوئے رد کر دیا اور وضاحت کی کہ “یہ کونسا گھر کے باہر قدم رکھتی ہے”۔
دن چڑھے تک نسیم کی سانس بری طرح اکھڑنے لگی تو مولوی صاحب کو بھی تشویش ہوئی اور وہ بھاگے بھاگے سرکاری مطب چلے گئے، مولوی صاحب طبی عملے کو لے کر گھر پہنچے تو اندر سے آتی رونے چلانے کی آوازوں نے انہیں برپا ہوجانے والے سانحے کی اطلاع دے دی ۔

قصبے اور اردگرد کے دیہات میں فوتگیوں کا تناسب بہت حد تک بڑھ چکا تھا، نسیم کی تدفین کے بعد ہفتے بھر تو کوئی ایسا دن نہ گزرا جب کسی نہ کسی گلی سے جنازہ نہ اٹھتا ہو۔
مولوی صاحب ہر جنازے کے ساتھ تدفین تک شامل رہنے کے قائل تھے، مگر طبی عملے نے احتیاطی تدابیر کے تحت انہیں منع کر رکھا تھا، وہ بس میت کے فاصلے سے ہی جنازہ پڑھاتے اور گھر لوٹ آتے، انہی حالات میں نصف ماہ تک تو ایسا ہی چلتا رہا پھر ایک دن ایسی فوتگی کی اطلاع ملی جس کی تدفین میں شرکت کے لیے مولوی صاحب نے بضد ہو کر سرکاری عملے کو قائل کر ہی لیا۔

یہ جنازہ جلیل کا تھا ۔

جلیل اور نسیم کا شک اپنی جگہ مگر جلیل انہیں بالکل اپنے بچپن میں ہی مر جانے والے اکلوتے سگے بیٹے جیسا عزیز تھا ۔
مولوی صاحب حفاظتی لباس پہنے ہوئے سرکاری عملے کے چند ارکان کے ساتھ تدفین میں شریک ہوئے، مٹی ڈالنے کے بعد دیر تک دعا کرتے رہے ۔

تدفین سے فارغ ہونے کے بعد کچھ صفوں کے فاصلے پر نسیم کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہوئے ان کی نظر وہاں ایک قطار میں لہلہاتے سات رنگ کے پھولوں پر پڑی تو جی کسمسا کر رہ گیا، دل میں بہت سے فقرے کاش کے سابقے کے ساتھ ابھرے، مگر اب سترنگے پراندے سے شروع ہو کر ست رنگے پھولوں تک پہنچ جانے والی کہانی کو دہرانے کا کوئی فائدہ تھا، نہ ہی ان پھولوں پر شک وہم کے دائرے سے آزاد تھا ۔
قریب موجود لوگ قبر پر کھلے پھولوں کو نسیم کے جنتی ہونے سے عبارت کر کے مولوی صاحب کو مبارک باد دیتے ہوئے مسرت کا اظہار کر رہے تھے، مگر مولوی صاحب کو سرجھکاکر سسکیاں لینے کے سوا کسی شے کا دھیان نہ تھا، شاید آسمان بھی ان کا ساتھ دینا چاہتا تھا کہ سیاہ بادل آناً فاناً ہی چھائے اور برکھابرس پڑی ۔

مون سون کا موسم رحمت بن کر آیا، وبا کی شدت کے ساتھ ساتھ جنازوں کی تعداد میں کمی آنے لگی،
کچھ روز بعد مولوی صاحب نے گھر میں ہی نسیم کے چہلم اور جلیل کے دسویں کی اجتماعی دعا کا اہتمام کیا، اس روز جمعرات تھی مولوی صاحب نیاز کی اشیا آگے رکھ کر دعا کر رہے تھے کہ موسلادھار جھڑی چھڑ گئی، عین آمین کے وقت بارش برسنا دعاوں کی قبولیت اور متوفین کے بہشتی ہونے کی دلیل تھی جس کے ظاہر ہونے پر انہوں نے اپنی اہلیہ اور بچیوں کے ساتھ شکرانے کے نوافل بھی پڑھے ۔
قصبے والوں کے عقیدے کے عین مطابق جمعرات کو چھڑنے والی جھڑی ہفتہ بھر جاری رہی، اس دوران گاؤں سے کوئی جنازہ نہیں اٹھا۔

اگلے جمعے کی صبح بارش رکے کو گھنٹہ بھر ہوا ہوگا کہ مسجد سے وبا کے بہت حد تک قابو میں آ جانے اور اور حفاظتی اقدامات میں نرمی کا اعلان کیا جارہا تھا، عین اسی وقت کسی آدمی نے مولوی صاحب کا دروازہ کھٹکھٹا کرنسیم کی قبر بیٹھ جانے کی اطلاع دی۔
مولوی صاحب کچھ محلے داروں کے ساتھ جلد ہی قبرستان پہنچ گئے، اور نسیم کی قبر پر مٹی ڈال کر لیپائی کرا دی۔
قصبے کے لوگ بہت دنوں بعد عام میل جول میں شامل ہوئے تھے، تو ان کی فرمائش پر مولوی صاحب نے شہر خموشاں کے مکینوں کے لئے دعا شروع کردی، مولوی صاحب قبرستان کی صفوں میں چلتے جاتے اور بآواز بلند دعا کرتے جاتے تھے ۔

چلتے چلتے جب ان کی نظر جلیل کی قبر پر پڑی تو ان کی بلند آواز اور فصیح لہجہ یکدم ہی مدھم پڑگیا، لفظ اپنا گلا گھونٹ کر سسکیوں میں تبدیل ہو گئے۔
سسکیوں کا وقفہ لینے کے بعد انہوں نے جلیل کی قبر کے نزدیک ہی دعا مکمل کی اور آمین کہہ کر خاموشی سے سر جھکائے گھر کی جانب چلنے لگے۔

ساتھ چلنے والے مولوی صاحب کی کیفیت کے پیش نظر کچھ دیر تو خاموش رہے پھر وبا اور اس کی حالات پر اثر اندازی سے متعلق چہ مگوئیاں شروع کریں، چہ مگوئیوں کے دوران اگر کوئی ان سے مخاطب ہوتا تو وہ ہوں ہاں میں مختصر جواب دے کر واپس خاموش ہوجاتے ۔

آس پاس پھیلی وبا بے شک بہت خطرناک تھی مگر مولوی صاحب کے دل کو یہ غم گھیرے ہوئے تھا کہ دونوں بچے اس وبا سے نہیں مرے جو آس پاس پھیلی ہوئی ہے ۔
یہ دونوں تو اس وبا کی لپیٹ میں آئے جو ازل سے پھیلی ہوئی ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔

یہ خبر انہیں خود بھی کچھ ہی دیر پہلے جلیل کی قبر پر جوڑیوں کی صورت میں لہلہاتے سات رنگ کے چودہ پھول دیکھ کر ملی تھی ۔
مولوی صاحب کو سب باتیں، مناجاتیں اور دعائیں یکسر بھول گئے، وہ جانتے تھے کہ عشق اور خوشبو کی زندگی ایک لمحہ بھی ہو تو وہ چھپانے سے نہیں چھپ سکتے ۔
ان کے دل میں ایک ہی فریاد تھی کہ مالک ان کا پردہ رکھ لے ۔

چلو، کسی کو پتہ چلے یا نہ چلے، وہ خود کو ملنے والی اس خبر کا بوجھ لے کر جینے سے قاصر تھے۔
مولوی صاحب نیک آدمی تھے۔
ایک مستجاب جگہ پر کھڑے تھے ،برکت والا دن تھا اور پھر شاید گھڑی بھی قبولیت کی تھی کہ ان کی ایک بار پھر سنی گئی۔

انہیں کھانسی کا پہلا غوطہ قبرستان میں ہی پڑ گیا تھا۔..

Published inاسحاق جنجوعہعالمی افسانہ فورم

Comments are closed.