عالمی افسانہ میلہ 2021ء
پہلی نشست
افسانہ نمبر 14
نیلے پاؤں
عظمیٰ جبیں
راولپنڈی۔ پاکستان
جنوری کا مہینہ تھا۔ مری اور شمالی علاقوں میں برفباری جاری تھی۔ اس کے زیر اثر جڑواں شہروں کو بھی بارش اور سردی کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ؛ جس سے معمولاتِ زندگی پر کافی اثر پڑا تھا۔ ۔۔ ۔۔ دن چڑھے، مما نے بہت پیار سے میرے بالوں کو سہلاتے ہوئے مجھے بیدار کیا۔ میں نے ان کی محبت بھری نظروں کا جواب مسکراہٹ سے دیا اور ہمت کر کے بستر سے نکل آیا ۔اس سے پہلے کہ میں ڈائننگ ٹیبل پر پہنچتا وہ میرے لیے ٹرے سجائے کمرے میں ہی آگئیں ۔ ناشتے کے ساتھ ان کے ہاتھ کی بنی مزیدار گرما گرم کافی پی کر میں تازہ دم ہو گیا۔ ایک خوشگوار دن کو خوش آمدید کہنے کے لیے میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا دیا ۔ لان میں دھلے دھلائے پودے ہوا کی بانہوں میں بانہیں دیے محو رقص تھے ۔ میں کچھ دیر بوندوں کی رم جھم سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ گو فلک سے اترتے اس سرگم نے دل کے تار چھیڑ دیے لیکن ٹھنڈ نے دوبارہ کمبل میں گھسنے پر مائل کر دیا۔ یوں ما بدولت پھر سے بستر بُرد ہو کر دوست سے چیٹنگ کرنے لگے۔
جب مما خستہ کرارے پکوڑے اور چٹنی لے کر آئیں تو مجھے احساس ہوا کہ کتنا وقت گذر چکا ہے ۔ تاہم گیارہ بجے تک موسم کے تیور وہی تھے ۔ گہرے سرمئی بادلوں نے پہلا پہر نگل لیا تھا اور یوں لگ رہا تھاگویا شام کے سائے سرک آئے ہوں۔
باہر دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ آج موسم کھلنے کےآثار نہیں ہیں ؛ یوں کمرے میں پڑے پڑےچھٹی کا دن گزارنے کی صورت میں کام کا بوجھ بڑھ جا تا۔ اس لیے میں تیاری کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ دراصل مجھے اپنی تصاویر کے لئے کچھ نئے موضوعات کی تلاش تھی۔ کیوں کہ فوٹو گرافی اور پینٹنگ شروع سے ہی میرے شوق رہے تھے ۔ این سی اے، سے تعلیم کے آغاز کے بعد منفرد موضوعات کی تلاش میری ناگزیر ضرورت بن گئی تھی۔ کورس کی ابتداء سے اب تک میں بہت سی تخلیقی فوٹو گرافس اور آئل پینٹنگز پر انعامات اور داد و تحسین پا چکا تھا۔ اس ستائش نے میرے شوق کو مہمیز کر کے میرے اندر کے فنکار کو جگا دیا تھا۔ اپنے کام سے جنون کی حد تک یہی لگاؤ آج مجھے گھر کے آرام دہ اور آسودہ ماحول سے ‘صدر’ لے آیا ؛ جہاں مجھے تصاویر کھینچنے کے لئے کچھ قدیم عمارتوں کا جائزہ لینا تھا۔۔۔
بازاروں میں زیادہ بھیڑ نہ تھی۔ سڑکیں اور فٹ پاتھ ،جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا ،آج نسبتاً خالی خالی تھے۔ میں نے ایک مناسب جگہ دیکھ کر اپنی گاڑی پارک کی۔ ایف ۔ایم پر بجتی موسیقی بند کی اور باہر نکلتے ہوئے احیتاط سے کیمرا گلے میں لٹکا لیا ۔ رین کوٹ پہن کر بٹن بند کر ہی رہا تھا کہ لگ بھگ دس برس کی بچی ہاتھ میں چھوٹا سا وائپر لئے گاڑی کے پاس آن کھڑی ہوئی۔ اس نے لمحہ بھر کو ونڈ سکرین پر پڑی کیچڑ کی چھینٹوں کو دیکھا اورپھر میری طرف، جیسے صفائی کی اجازت مانگ رہی ہو ۔ ۔۔ چند ثانیے کی خاموشی کے بعد شکستہ آواز میں بولی:
‘صاب ! شیشہ صاف کرائے گا۔’
میں نے اشارے سے منع کیا لیکن اُس کے ٹلنے کے آثار نظر نہ آئے ۔چناں چہ میں نے زرا سختی سے کہا۔ “اِس بارش میں شیشہ صاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جاؤ اپنی راہ لو بچے”۔
وہ یہ موقع ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھی اس لیے اس نے بھکاریوں کی طرح روانی سے رٹے رٹائے جملے بولنا شروع کر دیے۔
وہ مسلسل بولے جا رہی تھی۔۔۔ اُس سے پیچھا چھڑانے کے لئے میں نے قدم تیز کیے تو وہ بھاگتی ہوئی گاڑیوں کے پیچھے سے پھر میرے سامنے آ موجود ہوئی۔
“ام گریب۔۔۔تم کو دُعا دیں گے۔۔۔صاب کچھ تو دے دونا!
ام صبح سے بھوکا ہے”
میں نے ز چ ہوتے ہوئے کہا” توبہ ہے ! ناک میں دم کر دیا ہے ۔ آخر کہاں ہیں تمہارے اماں ابا؟ ہماری زندگی اجیرن کرنے کے لئے تم لوگوں کوسڑکوں پر کیوں پھینک جاتے ہیں ۔ جاؤ ۔۔ جا کراُن سے کھانا مانگو ‘۔
اُس نے بڑی بڑی نیلگوں آنکھوں سے مجھے دیکھا اور پھٹے ہوئے میلے کچیلے دوپٹے کا سِرا دانتوں میں چباتے ہوئے بولی۔
“بابا نسہ کرتا ہے۔ کچھ روز پہلے اُس نے ماں کو بہوت مارا تھا۔ وہ زخمی ہو گئی تھی۔ کام پر بھی نئیں جاتی تھی۔”
میں چونکا اور رُک کر اُس کی بات سننے لگا۔
اِس دوران بارش پھر سے شروع ہو گئی۔ وہ بھیگ رہی تھی۔ میں اپنی ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے دکانوں کے سامنے سائبان کے نیچے آ گیا۔ وہ ہرنی کے بچے کی طرح میرے پیچھے پیچھے آ گئی۔ اُس خوش شکل حالات کی ماری بچی نے آسمانی رنگ کا باریک نیٹ سے بنا فراک پہنا ہوا تھا۔ پنڈلی تک لمبے فراک کے نیچے ملگجا سا پاجامہ تھا، جو کبھی سفید ہوتا ہو گا ؛اب کیچڑ زدہ اور بارش سے بھیگ چکا تھا۔ پاؤں میں بوسیدہ سے بوٹ تھے ۔ انتہائی میلا باریک بُنتی کا چھوٹا سا سوئٹر جس کی ایک آستین اُدھڑ چکی تھی اُس کےوجود کو سردی سے بچانے کی ناکام سعی کر رہا تھا۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا۔ میں نے اُسے پچاس روپے کا نوٹ تھماتے ہوئے ہمدردی سے پوچھا۔
“اب تمہاری ماں کیسی ہے؟”
وہ نوٹ کو ہاتھوں میں مروڑتے ہوئے بولی ” پتہ نئیں”۔
میں نے تعجب سے پوچھا۔ کیا مطلب؟
وہ بولی ”لا لئی کہتا ہے وہ زرگل ” بھگا لے گیا ہے اسے۔”
‘لالئی کون’؟ میں نے استفسار کیا۔
“امارے گھر کے پاس رہتا ہے۔۔۔ گلالئی ،باسم کا ماں”۔
اُس کے تاثرات سے عاری چہرے کو دیکھ کر مجھے لگا شاید اُسے اتنی بڑی بات کا چھوٹا سا مفہوم بھی معلوم نہیں ہے۔
میں نے ایک اور سوال کیا ‘زر گل کون ہے’؟
وہ پچاس روپے کے نوٹ کی پھوکنی بنا کر کان میں پھیرتے ہوئے بولی۔
‘وہ۔۔۔تم کیوں پوچھتا ہے’؟
میں نے کہا، “شاید میں تمہاری ماں کو زر گل سے چھین لاؤں ۔۔ اور وہ تمہارے لئے کھانا پکا دے”۔
وہ بے یقینی سے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔’تم زر گل کو کیسے ڈھونڈ سکتا ہے۔۔ صاب !تم نے تو اُس کو دیکھا بی نئیں ہے’۔
میں کھسیانا سا ہو کر بولا۔۔۔”مجھے اُس کا کوئی فوٹو دے دو ۔۔۔ڈھونڈ نکالوں گا”۔
” نئیں تم کچھ نئیں کر سکتا۔۔۔۔ وہ کئیں د۔و۔ر بھاگ گیا ہے”۔
پھر وہ بولی ” لالئی کہتا ہے زر گل ماں کو بابا کی طرا نئیں مارے گا”۔
اُس کے پاس گویا حالات سے سمجھوتا کرنے کا ایک بڑا جواز تھا۔
‘تم ماں کے بغیر رہ لو گی ‘ میں نے پوچھا۔
اس نے گہرا سانس لے کر کہا”ہاں ! ۔۔۔ہم کئی دن سے اُس کے بغیر ‘رہ رئے’ ہیں”۔اُس کے دل میں شاید ماں سے بچھڑنے کی کسک کی نسبت اُس کے نجات پا جانے کی طمانیت زیادہ تھی۔ میں حیران تھا۔
اس سے قبل کہ وہ وہاں سے چلی جاتی میں نے جلدی سے ایک اور سوال داغ دیا۔
“تمہارا بابا اب بھی کوئی کام نہیں کرتا؟ ”
”نئیں پڑا سوتا رہتا ہے یا لڑتا جھگڑتا باہر چلا جاتا ہے”۔ اُس نے مختصر سا جواب دیا اورادھر اُدھر جھانکنے لگی جیسے دیکھ رہی ہو کہ اب کس کا دامن لے۔
“تمہارے ساتھ اور کون کون ہے’؟میں نے پوچھا۔
چلتے چلتے اُس نے جواب دیا’ایک بین اور بائی۔
اب میں اُس کے عقب میں چل رہا تھا اور وہ آگے ۔ ‘تم سے بڑے ہیں یا چھوٹے ہیں’؟میں نے اُس سے دریافت کرنے کی کوشش کی۔
“چوٹے ” اُس کا مختصر سا جواب تھا۔
میں نے پوچھا ” اِس وقت کہاں ہیں”؟او۔۔۔دھر۔۔۔”اُس نے سڑک کی دوسری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اُس بچی کی روداد نے مُجھے اپنے اندر اس طرح جکڑ لیا تھا کہ میں پل بھر کو اپنا مقصد بھول کر اُس کی زندگی کھوجنے میں منہمک ہو گیا۔ جو۔ ۔ ۔ میری زندگی سے بہت مختلف تھی۔ سڑک کراس کر کے میں اُس کے ساتھ ایک شاندارشاپنگ مال کے سامنے تھا۔ شو کیسوں میں سجے نئے نئے پُر کشش ڈیزائنوں کے زرق برق ملبوسات طاقت ور بلبوں کی روشنی میں آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہے تھے ۔ اتنی تیز روشنیوں کو دیکھنے کے بعد بغلی گلی میں جاتے ہوئے لمحہ بھر کو مُجھے کچھ دِکھائی نہ دیا لیکن وہ لڑکی اُسی طرف گئی تھی۔۔۔کچھ دور کھڑے ایک چپس والے ٹھیلے سے اٹھتی اشتہاء انگیز خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان کے لئے کھانے کو کچھ لے آؤں ۔ لہٰذا میرے قدم اس طرف اُٹھ گئے ۔ میں نے چپس لیے اور اسی طرف لوٹ آیا ۔دفعتاً وہ وہیں سے بولی۔ ‘یہ میرا بین اور بائی ہے”۔ میں نےشفقت بھرے انداز میں سارے چپس اسے پکڑا دیے۔
اس جگہ تر پالوں سے ڈھکی ہوئی کچھ ریڑھیاں موجود تھیں ۔ غالباً یہیں وہ بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں قدرے جھکا تو دکان کے اس جانب بنے شو کیس سے چھِن کر آتی ہوئی روشنی کی مضبوط لکیر میں مجھے دو چھوٹے چھوٹے پاؤں نظر آئے ۔ ۔۔ ۔۔ گہرے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس گٹھڑی بنے بچے کے بے موزہ ۔۔ بے جوتا ۔ ۔ ۔ سردی سے ٹھٹھرے پاؤں ۔۔۔۔
میں ٹھٹھک سا گیا ۔۔ ۔ اگر وہ واقعی جیتا جاگتا بچہ تھا تو اس سمے ایسی جگہ کیسے لیٹا ہوا تھا ۔ اور اگر اسے بے جان گٹھڑی مان لیتا تو اُس کے ساتھ دو پاؤں کس طرح جُڑے ہوئے تھے؟ ۔ ۔ ۔اسی مخمصے میں میری نگاہ بچے کے قریب بیٹھی اس کی بہن پرپڑی ۔ جس کی بے نور آنکھوں میں گہری یاسیت تھی ۔ بارش کا پانی دکان کے شیڈ سے ٹکر ا ٹکرا کر اُن کے قدموں کے قریب ہی ٹپک رہاتھا۔ وہاں زمین مکمل طور پر گیلی اور سیمنٹ کا باڈر نم اور یخ بستہ سرد تھا ۔ اُس پر مستزاد تیز ہوا کے تھپیڑے بھی ۔ ۔ ۔ مجھے گرم کپڑوں کے باوجود اپنے بدن میں کپکپاہٹ سی محسوس ہوئی ۔
اس لڑکی نے بچوں کو غالباً اپنی آج کی کمائی دکھائی اور پھر چپس ان کی طرف بڑھا دیے۔ وہ ان سے کچھ بات کر رہی تھی جسے میں سمجھ نہ پایا ۔ بجلی کے کوندے کی طرح مجھے اپنے کیمرے کا خیال آیا۔ میں نےمختلف زاویوں سے اس بچے کے پاؤں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا ۔ مجھے لگا جیسے یہ دردناک نظارا کبھی کسی نے عکس بند نہیں کیا ہو گا۔ ۔ ۔ یقیناً یہ ایک اچھوتا سبجیکٹ تھا۔۔ ۔ کچھ بہت خاص۔۔۔۔۔۔ جو مجھے غیر معمولی اہمیت دلا سکتا تھا۔ ۔ ۔ لیکن اسی لمحے میں نے خود پر حاوی ہوتے ان خیالات کو جھٹک دیا۔ ۔ ۔ کیونکہ میرا دل ۔ ۔ میرا دل واقعی مضطرب تھا ۔ معصوم سے بچے کو اس سردی کے عالم میں یوں پڑا دیکھ کر میں روح تک کانپ گیا تھا۔ اس کے پاؤں برف کی مانند میری آنکھوں میں جم گئے تھے، اور میں سوچ رہا تھا کہ مجھے فوری طور پر کچھ کرنا چاہیے۔ ناگاہ میرے فون کی گھنٹی بجی اور میں اپنے دوست سے بات کرنے لگا۔
مسعود نے مجھے گھبراہٹ کے عالم میں شوزب صدیقی کے ایکسیڈنٹ کے بارے میں بتایا۔ وہ بیچارا والدہ کی دوائیں لینے گھر سے نکلا تھا کہ مال روڈ پر بائیک سلپ ہو جانے کی وجہ سے کار کی زد میں آگیا ۔ یہ اطلاع ملنے پر اس کی بہن نے پریشانی میں مسعود سے رابطہ کیا تھا۔ خوش قسمتی سے مسعود کو علم تھا کہ میں قریب ہی موجود ہوں۔ میں نے اسے تسلی دی اور فون جیب میں رکھتے ہوئے اپنے دوست کی خاطر گاڑی کی طرف بھاگا۔
حادثہ قریب ہی ہوا تھا ۔ شوزب کو گہری چوٹیں آ ئی تھیں اور ٹانگ کا فریکچر بھی ہوا تھا۔ لیکن شکر ہے کہ بروقت طبی امداد مل گئی اور اس کی جان بچ گئی۔ رات تک اس کے بھائی جان لاہور سے ہسپتال پہنچ چکے تھے ۔ اس وقت شوزب آپریشن کے بعد آئی سی یو میں تھا اور اس کی حالت خطرے سے باہر تھی ؛ کچھ اطمینان ہونے کے بعدمیں پھر آنے کا کہہ کر باہر نکل آیا۔
واپسی پر نجانے کیوں مجھے ان معصوم بچوں کا خیال آگیا اور میں نے گاڑی صدر کی طرف موڑ لی ۔ اسی شاپنگ مال کے پاس پہنچ کر میں نے انہیں تلاش کرنا چاہا ۔ وہاں کھڑے ایک سیکورٹی گارڈ سے پوچھ گچھ کے بعد میں بوجھل دل سےاس تنگ گلی کی طرف ہو لیا ۔۔۔
میرے وہاں جاتے ہی اس ریڑھی کے نیچے سے چھوٹا بچہ کھسک کر باہر نکل آ یا۔ بوسیدہ سی نیلی اور سیاہ رنگ کی ، زپ کھلی جیکٹ میں ملبوس سنہری بالوں والا ۔۔۔بھولا سا بچہ ۔۔ ایک ٹک مجھے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر مسکرایا اور بولا ” تم امارے واسطے آیا ہے یا فوٹو بنانے آیا ہے؟ لو بناؤ فوٹو”۔ ۔ ۔۔ اس کی اسرار بھری مسکراہٹ بتدریج قہقہے میں بدل گئی ۔وہ ہنستے ہوئے اچھلنے لگا۔ ۔ ۔گول گول چکر کاٹنے لگا۔ ۔ ۔ اس کے ننھے ننھے پاؤں ناہموار نم زمین پر تھرک رہے تھے ۔۔۔۔ اس کی آواز کسی گنبد میں گونجتی صدا کی طرح ہلکورے لیتی میری سماعت میں اترتی جا رہی تھی۔ وہ گھومتے گھومتے اک نور کے ہالے میں مقید ہو گیا۔۔۔ زمیں سے اوپر اٹھتے ہوئے مجھ سے دور ہونے لگا۔۔۔ دھیرے ۔ ۔ ۔ دھیرے اطراف میں پھیلے اندھیرے کے بے رحم جبڑوں نے اسے اپنے اندر اتار لیا۔۔۔ اب وہ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔ کیسے دکھائی دیتا ۔ ۔ ۔
میں گم سم ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا ۔۔۔۔ میرے مقابل اندھیرا تھا ۔ ۔ ۔ ریڑھی کے پاس ۔۔۔۔ ہاں ریڑھی کے پاس اب بھی دو نیلے پاؤں روشنی میں چمک رہے تھے ۔۔۔۔ مجھے یوں لگا جیسے میں نے تصویر نہیں کسی کے وجود میں گولی اتاری تھی ۔۔۔۔۔
Comments are closed.