عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 20
نیلی آنکهیں
سارہ خان، فیصل آباد، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب!بوٹ پالیش کروا لو..ایک دم نئے لگیں گے ۔۔۔۔ رکو تو صاحب ۔۔۔!
وہ اپنے چهوٹے چهوٹے ہاتهوں میں برش اور پالیش پکڑے فٹ پاتھ پہ بیٹها نئے اور پرانے جوتے پہنے ہوئے ہر آنے جانے والوں کی منتیں کر رہا تها۔
پهٹی ہوئی بنیان اور اُدهڑی جیب والی نیکر پہنے، اجڑے ہوئے بے ترتیب بال، قدرے گہرا رنگ جس پر گزرنے والی گاڑیوں کی اڑتی ہوئی دهول نمایاں تهی مگر معصوم اور بے رونق نیلی آنکهوں میں دوسروں کی جوتیاں چمکانے کی حسرت لئے اپنے پاوٗں جوتی سے بے نیاز ۔۔۔۔ شوکی صبح سے بیٹها آوازیں لگا رہا تها۔
آج تو نہ اسے اپنی قلفی لینے کی فکر تهی نہ بابو کے تندور سے روٹی کهانے کی تمنا اور نہ کونے والے کهوکهے سے سوڈا واٹر پینے کی خواہش اور نہ ہی بابا جی کے ٹهیلے سے آلو چنے کی چاٹ کهانے کی طلب۔ آج تو اسے صرف ایک ہی لگن تهی کہ کسی طرح اس کے پاس اتنے پیسے آ جائیں کہ وہ اپنی بیمار ماں کے لئے دوا خرید لے اور اس کے لئے دودھ اور رس لے جائے۔
صاحب! بہت اچهے بوٹ پالش کروں گا۔۔۔ ایک بار کراوٗ گے صاحب ۔۔۔ تو بار بار آوٗ گے ۔۔۔۔ آج اس کی آواز میں التجا تهی۔ آنکهوں میں آنے والی نمی کو وہ اپنے گرد آلودہ بازو سے بار بار صاف کرتا اور پهر دور سے آنے والے قدموں کا قریب آنے کا انتظار کرتا اور آواز گانا شروع کر دیتا مگر آنے والا سر جهکا کے اس معصوم کی طرف دیکهنا بهی گوارا نہ کرتا۔ دهوپ بہت تیز ہو گئی تهی۔ اس نے خشک ہونٹوں پہ زبان پهری ۔۔۔ برش، کالی اور براوٗن پالش ٹوٹے ہوئے بیگ میں رکهیں اور بازو سے پسینہ صاف کرتے ہوئے اپنے خیالوں میں گم چلنے لگا ۔۔۔۔ اے ۔۔۔۔ رُکو ۔۔۔۔ ایک دکان کے اندر سے باہر آتے ہوئے ایک آدمی کی آواز سن کر وہیں رُک گیا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکهنے لگا۔
“تم بوٹ پالش کرتے ہو؟”
بچے نے ہاں کے انداز میں ہلکی سی سر کو جنبش دی۔
” کتنا کما لیتے ہو؟ آج کتنے پیسے کمائے ہیں؟” آدمی نے قریب کرسی پہ بیٹهتے ہوئے پوچها۔
بچے نے اداسی کے ساته نفی میں سر ہلا دیا۔
“ہممم ۔۔۔۔ اچها کیا میں تمهاری تصویر بناوں؟ میں تصویر بناتا ہوں ۔۔۔ تصویر پنسل سے ۔۔۔” اس نے بچے کو پنسل دکهاتے ہوئے کہا۔ بچہ ہونقوں کی طرح اس کی طرف دیکهتا رہا۔
“اچها میں تمهیں تصویر بنوانے کے پیسے بهی دوں گا۔” آدمی نے ٹانگ پہ ٹانگ رکهتے ہوئے کہا۔ پیسوں کا نام سنتے ہی بچے کی آنکهوں یں چمک پیدا ہو گئی اور سوکهے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔
“ہاں ۔۔۔ ہاں پهر ٹهیک ہے۔” بچے نے جوش سے سر ہلاتے ہوئے اور ماتهے کے بال ٹهیک کرتے ہوئے کہا۔
“چلو آوٗ۔” آدمی بچے کو دکان کے اندر لے گیا۔
“یہ سامان ادهر کونے میں رکھ دو اور اس اسٹول پہ آرام سے بیٹھ جاوٗ۔
“صاحب ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔ یہ سامان یہاں ۔۔۔ ہاں ہاں رکھ دوں۔ “
“کوئی نہیں لے جاتا تمهارا یہ سامان۔” آدمی نے اپنی چیزیں ٹهیک کرتے ہوئے کہا۔
بچہ اسٹول پر آدمی کے بتائے ہوئے انداز میں بیٹھ گیا
“اے ادهر دیکهو۔ تهوڑا سا جہرہ اوپر ۔۔۔ ہاں بس ۔۔۔ اب بلکل نہ ہلنا۔ دیکهنا تمهاری تصویر کتنی خوبصورت بناوٗں گا۔۔۔”
دو گهنٹے ہو گئے۔ بچے کی ننهی کمر میں ٹیسیں اٹهنے لگیں تو وہ کراہتے ہوئے بولا۔
صاحب! میں تهک گیا ہوں۔ کمر میں ‘پیڑ’ ہونے لگی ہے۔”
“بس بس ہو گئی مکمل ۔۔۔۔ واہ کیا شہکار بنایا ہے میں نے ۔۔۔۔ یہ دیکهو۔” آدمی نے اسے اس کی تصویر دکهائی۔ بچے کی نظر اپنی تصویر پہ کم ، آدمی کی جیب پہ زیادہ تهی۔ وہ اس انتظار میں تها کب وہ جیب میں ہاتھ ڈالے گا اور اس کے ہاتھ پہ پیسے رکهے گا اور وہ ماں کی دوا لے کے گهر جائے گا۔
“صاحب ۔۔۔۔ وہ پیسے ۔۔۔” بچے نے آہستہ سے ہاتھ کهول کے کہا۔
“ہاں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ یہ لو ۔۔۔۔” اس نے بچے کو پچاس کا نوٹ دکھایا۔
“صرف پچاس روپے ۔۔۔۔ صاحب دو گهنٹے ہلے بغیر بیٹها رہا ہوں۔ اس کے صرف اتنے سے ۔۔۔۔”
“تو کیا تجهے ہزار دے دوں…ساری محنت تو میں نے کی ہے۔ تو، ۔۔۔۔ تو بیٹها رہا ہے آرام سے ۔۔۔ یہ لے پچاس اور ۔۔۔۔ چل اب بهاگ یہاں سے۔” آدمی نے باہر کی طرف اشارہ کر کے غصے سے کہا۔
بچے نے اپنا سامان اٹهایا۔ بهاگا بهاگا سٹور سے کهانسی کی دوا لی دودھ اور رس لے کر گهر گیا۔ ٹوٹے ہوئے دروازے سے گندا سا پردہ ہٹا کر دیکها تو ماں کهانس کهانس کر بے حال ہوکر بستر سے نیچے گری ہوئی تهی۔ اس نے گهبرا کے ماں کو آواز دی اور اپنے ننهے ہاتهوں سے سہارا دے کر لٹایا اور سیرپ پلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شہر کے بڑے آرٹ کونسل کی نمائش میں سب کی نظروں کا مرکز پهٹی ہوئی بنیان اور نیکر والے اس بچے کی تصویر تهی۔جس کی نیلی آنکهوں نے لاکهوں کی بولی لے کر اول پوزیشن حاصل کی جبکہ اسی آرٹ کونسل کے باہر ایک کونے میں وہی بچہ ماں کی تصویر سینے سے لگائے بهیک مانگ رہا تها۔