Skip to content

نیرنگ جنوں

برائے عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 45
نیرنگ جنوں
شہناز رحمٰن، علی گڑھ، انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسب معمول وہ دونوں لائبریری میں الگ الگ سیٹوں پر بیٹھے کتابوں سے انصاف کرنے میں لگے ہوئے تھے مگر کتابوں کے اوراق ان کی نظر پریشان کو تھکانے سے باز نہیں آرہے تھے۔
” کھوسٹ بڈھا نہ جانے کیسی کتاب لکھ کے مرگیا ایک بھی کام کی چیز نہیں مل رہی اور ابھی لیب میں بھی حاضری دینی ہے، یار ستار! میرے بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہاں سے لکھوں تھوڑی دیر کے لئے میرے پاس آنا۔” مغیث نے کہا۔
“ہمارے پُرکھوں نے نہ جانے کون سا گنا ہ کیا تھا جس کی سزا ہمیں بھگتنی پڑ رہی ہے یہ پڑھائی جیسی بلا بنائی کس نے تھی؟ میں بھی اکثریہی سوچ کر (irritate) اریٹیٹ ہوتا ہوں اور دوسری طرف سینئر بھی ہم معصوموں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔”
ان کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے لمبے بالوں اور نیلی آنکھوں والا جوان آنکھیں پھاڑے کان اَٹیرے ان کی باتیں سننے لگا اور دل ہی دل میں کہا؛ ‘ What rubbish ‘
مغیث نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا؛ ’’ کچھ بھی کر لے بیٹے تجھے تو ہمارے ساتھ اب اسی کُنج قفس میں زندگی گزارنا ہے تو ظاہر ہے ہم ایسے ہی خالص اردو بکیں گے اور تو سنے گا ۔‘‘
“بہت معصوم لگ رہا ہے۔۔۔۔ یاشاید۔۔۔ہماری طرح ہی بیگانہ ہے۔” ستار نے کہا۔
“اپنے اور بیگانے تو درکنار مجھے یہاں سب ظالم نظر آ رہے ہیں۔۔۔۔۔ اپنے ہندوستان کی طرح کوئی جگہ نہیں خصوصاً لکھنؤ۔ اسی لیے تو اتنی اچھی اردو، عین، شین ،قاف کے ساتھ بول لیتا ہے۔” مغیثؔ نے اس کے بازو کو دباتے ہوئے کہا۔
“تیری بھی تو بری نہیں ٹھیک ٹھاک بول لیتا ہے۔ ویسے یہ تو دادا صاحب کا احسان ہے کہ ورثہ میں کلیات و دیوان وغیرہ چھوڑ گئے تھے تو امی جان کے شوق کا لحاظ رکھتے ہوئے ذرا سا پڑھنا لکھنا سیکھ لیا۔”
“ایکسکیوز می!” بھورے بالوں والے نے کہا۔ یس پلیز۔ ستار نے منہ بگاڑ کر کہا؛
“ڈونٹ ڈسٹرپ پلیز۔۔۔۔ چل یار اس کو چے میں گزارا نہیں، کینٹین چلتے ہیں پھر لیب جا کر دیدہ ریزی کریں گے۔ کل اسمبلی ہال میں سارے فریشرز کو جمع ہونا ہے نہ جانے کس انداز سے ضیافت ہو گی دل ناداں ابھی سے ہچکولے کھا رہا ہے۔”
اگلے روز نوٹس بورڈ پر دونوں کے نام جگمگا رہے تھے، مغیث نے کہا؛ ” ارے یار لگ رہا ہے بھورے نے رات میں لائبریری میں ہونے والی ہماری خوش گپیوں کی شکایت کردی۔ دربار اکبری میں کیوں مدعو کیا گیا ہے۔ یار اس کے ساتھ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ نہ کسی سے بو لتا ہے ،نہ ہنستا ہے۔ اس دن دیکھا تھا تو نے گراونڈ میں بیٹھا رو رہا تھا؟؟
ستار نے پوچھا۔ “ارے نہیں بھائی! میں نے اس کے روم میٹس سے پوچھا تھا ۔معلوم ہوا کہ اس کے ممی کی برسی تھی۔۔ اتنا کہہ کر مغیث کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ “اففففففف۔۔۔۔۔ تو کیوں جذباتی ہو رہا ہے؟؟”
“کیوںکہ اسی دن۔۔۔۔”
“کیا اسی دن ؟؟ یار مغیث بتا ۔۔کیا ہوا؟؟”
“کچھ نہیں بھائی۔۔۔۔بس یوں ہی۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار پانچ سالوں سے تہمینہ کو تواتر کے ساتھ سال میں ضرور چار چھ بار سمیع لاج میں اپنے بزنس کے سلسلے میں ٹھہرنا پڑتا تھا۔ اس عرصہ میں اس نے سمیع صاحب کو کبھی سچی خوشی کے ساتھ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا وہ اکثر یہاں قیام کے درمیان سوچتی بھی تھی کہ یہ کیسی پہیلی ہے؟؟ اس قدر امیر و کبیر ہونے کے باوجود یہ شخص خوش نہیں۔ اس مُردنی کی وجہ یہ تھی کہ گنتے گنتے چالیس سال ستاروں کی طرح اوجھل ہو گئے مگر چاند نے اپنا رخ بے حجاب نہیں دکھایا۔ ان کی اہلیہ محترمہ ٹکٹکی باندھے فلک کو دیکھتی رہیں شاید اس کی گردش ان کے خلاف پوری ہو چکی ہو ۔ مگر ان کی تمناؤں میں جھولنے والا کوئی نہیں آیا صرف تمنائیں ہی انھیں جھولا جھلاتی رہیں۔
’جاپان سے آنے والی فلائٹ کینسل ہو گئی۔ ایجنٹ کل شام کی فلائٹ سے دلی پہنچے گا اور مال پرسوں شام کو جا کر دلی ائیر پورٹ سے ریسیو کرنا ہوگا ۔‘ جب تہمینہ کو یہ میسج ملا تو بے چینی کے عالم میں لیپ ٹاپ کھول کر مزید انفارمیشن نیٹ پر سرچ کرنے لگی۔ اب کیا ہو گا پولیس کو سراغ مل چکا ہے کہ تہمینہ چودھری سمیع لاج میں ٹھہری ہیں۔ فلائٹ بھی کینسل ہو گئی، دو دن یہاں کیسے گزریں گے۔ اگر وہ یہاں رکتی ہے تو سمیع صاحب کے لئے خطرہ ہے اور وہ سیدھے سادھے نیک صفت سمیع صاحب کی جان جوکھوں میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ یہی کیا کم تھا کہ وہ اتنی بڑی اسمگلر کو اپنے یہاں پناہ دینے پر راضی ہو گئے تھے ورنہ کھٹمنڈو جیسی جگہ۔۔۔۔ ان پہاڑوں کے بیچ میں اس کے لئے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ جتنے بھی پاکستانی بنگلہ دیشی اور عربی کاروبار کے سلسلے میں آتے، سمیع صاحب کے یہاں ٹھہرتے تھے۔ اسی لیے وہاں کے دوسرے ہوٹل والے انہیں شک کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے۔
“یا خدا !!! آج سارے ویٹر وبا کا شکار ہو گئے کیا؟؟؟ انٹر کام کر کرکے تھک گئی ایک بھی Response نہیں ملا ‘‘ وہ بڑبڑاتی ہوئی سلیپنگ گاؤن پہنے سمیع صاحب کے بیڈروم تک چلی گئی اور زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ( بیل کو شاید اس نے بوجہ زینت سمجھ کر نہیں بجایا)
“کیا ہوا میڈم تہمینہ اتنی رات گئے آپ یہاں کیوں حاضر ہوئیں؟” سوال کرنے کا وقت نہیں بس کسی طرح اسی وقت مجھے یہاں سے نکلنا ہے آپ میری مدد کریے ورنہ آپ کو بھی بوریا بستر باندھنا پڑے گا۔ ”
“آپ کافی گھبرائی ہوئی ہیں۔۔۔ اندر آجائیے۔۔۔۔ سکون سے بیٹھ کر بات کرکے مسئلہ کو حل کرتے ہیں۔ جب معاملہ اتنا گمبھیر ہے تو آپ کا باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں باہر جا کر آپ پولیس کی گرفت سے محفوظ نہیں رہ سکتی ہیں۔” “لیکن اگر پولیس یہاں چھاپہ مارے گی تو آپ کے اوپر بہت بڑا الزام آئے گا۔”
“آپ مطمئن رہیں میں سب کچھ سنبھال لوں گا۔” مگر کیسے ؟ تھوڑا سا غور و فکر کرنے کے بعد انہوں نے کہا؛ “اس وقت یہاں ٹھہرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے پہاڑوں کے گرنے کا خطرہ رہتا ہے اور ٹورسٹ ذرا کم ہی آتے ہیں اس لئے اس وقت مشکل سے دس بارہ لوگ ہی ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی کل صبح تک چلے جائیں گے اور دو دن کے لئے میں لاج میں تالا لگوا دیتا ہوں اور ہم انڈر گراؤنڈ ہو جائیں گے۔”
اس قدر نوازش پر وہ ہکا بکا ہو کر رہ گئی۔ سمیع صاحب کو انسان تو سمجھتی تھی مگر اس قدر انسانیت نوازی پر مبہوت ہو کر رہ گئی۔ دوسرے دن نیوز پیپرمیں یہ خبر چھپ گئی۔
’’ سمیع لاج دو دن کے لئے بند۔‘‘ کچھ ہی گھنٹوں میں ان دونوں کے درمیان کافی بے تکلفی ہو گئی۔
“آپ کے بیوی بچے کہاں رہتے ہیں؟” تہمینہ نے پوچھا۔
“میری کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ اس وقت میری بیگم یہاں موجود نہیں ہیں وہ ماں کے ساتھ نظام الدین اولیاء کی درگاہ پر گئی ہوئی ہیں۔”
تہمینہ نے نہایت افسوس سے کہا۔ ’’ واقعی بنا اولاد کے تو ساری دولت بے سود ہے ۔‘‘ (بنا سوچے ہوئے وہ یہ جملہ کہہ گئی) ”
“صرف دولت ہی نہیں محترمہ بلکہ پوری زندگی ہی بے رنگ ہے۔ ان کے بنا گھر کے سناٹے خوفناک آوازیں نکالتے ہیں۔” ۔’’آپ ان پہاڑیوں کے بیچ کیسے آ گئے یہاں کے رہنے والے تو نہیں لگتے ہیں ‘‘
“بس خدا کی مرضی۔۔۔بزنس یہیں سیٹ ہو گیا تو ۔۔۔۔” ( مرزا سمیع صاحب ایک اجنبی عورت سے نہ جانے کیوں اتنی شناسائی برت رہے تھے )۔ ”
“کیا آپ نے اپنی اہلیہ کا علاج کسی اسپیشلسٹ سے نہیں کرایا۔” “کیوں نہیں؟ یہاں تک کہ مزاروں کی بھی خاک چھانی جب کہ ہم مزار وغیرہ کے قائل نہیں تھے مگر اولاد کے لئے کچھوچہ شریف ، براؤں شریف ، اجمیر شریف وغیرہ اور بھی بہت سے پیروں کی زیارت کی مگر ۔۔۔۔”
پھر تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ سمیع صاحب نے پہلو بدل کر کہا۔
“تہمینہ آپ ایسا پُرخطر پیشہ کیوں کرتی ہیں؟؟ کیا آپ کے شوہر آپ کی کفالت نہیں کرسکتے؟”
اس قدر تلخ سوال کرنے پر اس کے چہرے اور پیشانی پر بل آ گئے ۔ ”
“معاف کرئیے گا میں نے آپ کے نجی معاملے میں مداخلت کی۔
“اس خانہ خراب میں ہزاروں ایسے تشنہ لب سانس لے رہے ہیں جن پر ساقی کی نظر نہیں پڑتی اسی طرح اس پودے کو بھی سایہ دینے والا کوئی گھنا درخت نہیں تھا۔ میں خود ماں بہنوں کی ذمہ داری اٹھا رہی ہوں اگر یہ پیشہ چھوڑ دوں تو ہم سب فاقہ سے مرجائیں گے۔‘‘
“تو آپ کب تک ان کا سائبان بنی رہیں گی؟؟ ہمارے یہاں کے اوسط درجہ کے عمر کے مطابق تو آپ کی آدھی عمر کٹ چکی ہے اور مذہب اسلام میں عورت کو اس طرح تنہا زندگی گزارنے کی اجازت بھی نہیں ہے ۔ اگر آپ ازدواجی رشتہ کے بغیر پوری زندگی کاٹ دیں گی توخدا کے حکم کی نافرمانی ہوگی۔”
’’خدا ہی ہمارے ساتھ کیا انصاف کر رہا ہے کہ ہم سرخم کیے ہاتھ باندھے اس کی بندگی میں کھڑے رہیں؟؟ ‘‘
“خدا معاف کرے ایسی گمراہ کن باتیں نہ کیجیے۔”
اس طرح اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے میں تہمینہ کے دو دن گزر گئے اور تیسرے دن وہ اپنے سفر کے لیے روانہ ہو گئیں مگر مسٹر سمیع بیگ کی باتیں اسے پریشان کرتی رہیں۔ تین مہینے کے بعد جب پھر تہمینہ واپس آئی تو سمیع صاحب کی بیگم موجود نہیں تھیں وہ علاج کے لئے گئی ہوئی تھیں اس بار تہمینہ ساڑی کے بجائے شلوار سوٹ اور دوپٹہ میں ملبوس تھیں اور کافی مہذبانہ انداز میں رہ رہی تھیں جس سے سمیع صاحب کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے پھر تہمینہ سے اس کے پیشہ کے متعلق خدشہ ظاہر کیا۔ ”
“تہمینہ صاحبہ! آپ یہ پیشہ چھوڑ دیجئے آپ کے سارے مسائل کا حل مل سکتا ہے۔”
“وہ کیسے ؟ ویسے آپ سوال بہت کرتی ہیں ۔ ‘‘پھر مسکراتے ہوئے گویا ہوئے۔ ’’آپ اپنی بہنوں کی شادی کر دیجیے اور پھر خود اپنے لیے کوئی سائبان تلاش کرلیجئے۔‘‘
“اپنے لیے سائبان تلاش کرلیجئے؟؟ کہنا تو بہت آسان ہے مگر کوئی اندھا، لولا لنگڑا ہی ہوگا جو میرے لئے اس عمر میں Available ہو گا۔”
“ارے بوڑھا برگد ہی سہی!! کر تو لیجیے شریعت اسلامی کا حکم بھی پورا ہو جائے گا۔”
“اور ہنسنے پر مجبور مت کریے سمیع صاحب! غالب کی حیوان ظریفی آپ کے اندر بھی موجود ہے۔”
“غالب کے متعلق اتنی گہری واقفیت کیسے ہے ؟؟؟””محترم ! فیض آباد کے چال میں پیدا ہوئی، بچپن لکھنؤ میں گزرا ، جوانی میں وقتاً فوقتاً رامپور جاتی رہی۔35 کی ہو گئی تو پھرایک بار کانپور کے چال میں رہنا پڑا۔ پانچ سال وہاں گزار کر نیپال گنج آئی تو قسمت نے ذرا سہارا دیا اور تھوڑا بہت مال سرحد پار کرتی رہی۔ خدا کی شان میں متعدد پیشوں کے وظیفے کے ساتھ ساتھ دیوان غالب سے دو چار غزلوں کو حِفظ کر لیا۔ لکھنؤ میں جب تھی تو مُلا جی سے بہشتی زیور پڑھا۔ انہیں کے تھیلے سے ناول امراؤ جان ادا چرا کر لے آئی تھی۔ اسے بھی پڑھا، بڑا مز اآیا اور جب رام پور گئی تو نواب صاحب کے دیوان خانے سے یاد گار غالب چرا لیا تھا موقع بموقع پڑھ کر اسے ختم کیا۔ ملا جی کبھی کبھی ڈرامے وغیرہ بھی کرواتے رہتے تھے اس میں جاسوسوں اور ڈاکوؤں کا رول کرتی تھی۔ وہی تجربہ تھا کہ اب اتنی بڑی اسمگلر بنی گھوم رہی ہوں۔ بہت بہت احسان اس ماڈرن ملا جی کا کہ یہ پیشہ تو سکھا دیا ، تو پھر سمیع صاحب کیا اس آوارہ گرد کی غالب سے واقفیت کوئی حیرت انگیز بات ہے ؟؟”
تہمینہ کی باتیں سن کر وہ کافی سنجیدہ ہو گئے۔ تہمینہ نے زبان کے نیچے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کو گول کرکے سیٹی بجانے کی کوشش کرکے سنجیدگی دور کرنی چاہی اور کہا اررررے بھئی !!!اس وقت تو آپ پر تو میرؔ کی سنجیدگی اتر آئی۔ اس نے قصداً میرؔ کی کلیات دیکھ کر کہا جو الماری میں رکھی تھی۔
’’ سمیع صاحب آپ کا کمرہ تو پورا اردو اسٹاک لگ رہا ہے۔‘‘ کلیات میرؔ کے نیچے بوسیدہ دیوان فانیؔ اپنے حرماں نصیبی پر ماتم کر رہا تھا اور دوسری الماری میں کلیات اقبالؔ اپنے اوج ثریا ہونے پر فخر کر رہا تھا۔ بڑے ہی احتیاط سے اس پر چاندی کا ورق چڑھا ہوا تھا اور اس پر نام لکھا تھا۔ ’مرزا عبد الغنی بیگ‘
’’مرزا عبدالغنی بیگ! یہ کون ہیں؟ تہمینہ نے پوچھا۔ میرے والد محترم کا نام ہے۔ اردو کے بڑے عاشق تھے۔ مشاعروں میں شرکت نہ کرتے تو قدم بے چین، پیروں میں کھجلی ہوتی، میر دردؔ کے شیدائی، سراجؔ اورنگ آبادی کے مداح، ورڈسؔ ورتھ کی نظموں کی ورق گردانی کرتے تو رات ختم ہو جاتی اور تنقید کے میدان میں حالیؔ ہی کی طرح بالکل صادق مزاج۔۔۔” پھر قہقہہ لگا کر وہ زور سے ہنسنے لگے ۔” اور یہ کلیات و دیوان انہی کی وراثت ہیں ورنہ میں تو ولایتی مزاج رکھنے والا ہوں ان سب سے کہاں دلچسپی ہے۔”
تب ہی تہمنیہ کا موبائل بجنے لگا اور وہ اٹھ کر چلی گئی۔ اس طرح آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہا اور ایک دوسرے سے ہمدردی کا سلسلہ مزید سے مزید تر ہوتا چلا گیا۔
دھیرے دھیرے سمیع صاحب کی طبیعت تہمینہ کی طرف مائل ہونے لگی آخر کار گہری اندھیری رات کی تاریکیوں میں وہ بھٹک ہی گئے اور ان سے وہ فعل ممنو ع سرزد ہو گیا جس کی وجہ سے۔۔۔۔ نکاح کے بعد تہمینہ کو اپنا پیشہ چھوڑ کر ایک پردہ نشیں خاتون بننا پڑا۔ سمیع صاحب نے یہ عقد مسنون اپنی بیگم سعدیہ سے پوشیدہ رکھا کیوںکہ وہ بہت ہی وفادار اور حساس تھیں مگر خدا کو نہ جانے کیا منظور تھا کہ ان کو مسلسل آزما رہا تھا۔ یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ را ت کے بعد صبح، غم کے بعد خوشی، پت چھڑ کے بعد بہار آتی ہے اسی طرح سعدیہ بیگم کی کوکھ میں بھی ہریالی آ گئی۔ دوسری طرف تہمینہ نے بھی بیٹے کی ولادت کی خبر دی۔ خدا کی رحمت جو برسوں سے سوئی ہوئی تھی جوش میں آ گئی سمیع صاحب پھولے نہیں سمائے مگر اندر ہی اندر خوف بھی جنم لے رہا تھا کہ وفا کی دیوی کو کیا جواب دیں گے لیکن عشق بتاں میں پھنس چکے تھے تو رہِ مفر کہاں سے ملتی ؟؟؟؟ سمیع صاحب کی والدہ صفیہ بیگم نے سنا تو مصر ہو گئیں کہ بہو کو گھر لاؤ تاکہ نور نظر کا دیدار ہو آخر نوکر کو لے کر گورکھپور پہنچیں اور نئی نویلی بہو سے مل کر پوتے کا فوٹو بھی فریم کرا کے لے آئیں جب دلی واپس آئیں تو حکم جاری کیا کہ دونوں کا عقیقہ مسنوں ایک ساتھ کیا جائے۔ تہمینہ کا آنا تھا کہ گلستان سمیع صاحب پر بجلیوں کا قہر نازل ہو گیا سعدیہ بیگم کی دل خراش چیخیں پورے گھر کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگیں گھر کے تمام افراد تیر و کمان سنبھال کر نووارد مہمان کے جگر کو چھلنی کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ سعدیہ بیگم اپنی وفائیں یاد کرا کے دہائیاں دینے لگیں۔ ”
“اجی مرزا صاحب میری محبت میں کیا کمی رہ گئی تھی میں نے کون سا گناہ گیا تھا آپ کے کس حکم کی نافرمانی کی تھی جو اس طرح مجھ پر ظلم کیا میری سوتن لا کر بٹھا دیا۔ قدرت کی آزمائشوں کا بدلہ مجھ سے کیوں لینے لگے۔ اس آزمائش میں بھی پوری اتری خدا نے میری گود بھر دی۔ ‘‘ بہت سمجھانے بجھانے پر وہ خاموش ہوئیں پھر یہ طے پایا کہ چھ مہینے سعدیہ بیگم مرزا سمیع کے ساتھ رہیں گی اور باقی چھ مہینے تہمینہ رہیں گی۔
اب تہمینہ کی بھی فریادیں شروع ہوئیں؛ “آپ نے مجھ سے شادی اسی کے لئے کی تھی کہ اپنے آپ سے الگ رکھیں اور مجھے ثانوی حیثیت ملے آپ کے ساتھ رہنے کا مجھے پورا حق ہے آپ سے جدائی میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتی۔ اتنا کہنا تھا کہ سعدیہ بیگم نے ایک طمانچہ رسید کیا۔ تہمینہ نے ہانک لگائی ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ چلاتی ہوئی باہر نکل آئیں۔ ایک سیر تو دوسری سوا سیر ٹہریں۔ محلے والے تماش بینی کرنے لگے۔
’’ارے مرزا صاحب کہاں سے جنگلی پکڑ لائے ہیں؟ اگر یہ رہ گئی تو ساری عزت مٹی میں ملادے گی۔‘‘ سمیع صاحب نے تہمینہ کو کھینچ پکڑ کر اندر کیا اور کسی طرح بھیجے میں یہ بات اتاری کہ صبر کریں انھیں ان کا پورا حق ملے گا۔ خیر وہ مان گئیں مگر ان کے رویوں کی وجہ سے دوسرے رشتہ داروں میں دراڑ پڑنے لگی اور وہ سب کٹنے لگے۔ دوسری طرف سعدیہ بیگم اتنی مخلص تھیں کہ پورے رشتہ دار ان کے دلدادہ تھے۔ اولاد سے محروم تو تھیں مگر پرورش کے سارے آداب سے واقف تھیں۔ جیٹھ اور دیوروں کے سارے بچوں کو پڑھایا لکھایا، باقاعدہ مہذب بنایا، ذہن اس قدر ادبی تھا کہ بچے ولایت میں پڑھنے کے باوجود ان کی ہی بدولت باغ و بہار، الف لیلہ، مجموعہ فیض، مجموعہ علی سردا جعفری، راتوں کو لحاف کے اندر ٹارچ جلا جلا کے پڑھتے۔ ان کی بحثیں اقبالؔ کے فلسفے سے شروع ہوتیں تو کارلؔ مارکس کی ترقی پسندی پر جا کے ختم ہوتیں۔ اور بچے بھی سعدیہ بیگم سے اتنا لگاؤ رکھتے کہ انہیں انگلش کے نام پر اے ،بی، سی، ڈی بھی نہیں آتی تھی مگر ان بچوں کے بدولت اس قدر ماہر ہو گئیں کہ انگلش فلمیں دیکھتیں ،کپڑے وغیرہ انٹرنیٹ پر دیکھ کر نئے فیشن کے مطابق ہی ڈیزائن کرواتیں۔ پرس وغیرہ لینا ہوتا تو ماڈلز کے لئے میگزین منگوا کر دیکھتیں ایک طرف مائیکل جیکسن کے ڈانس کی دیوانی تو دوسری طرف لتا کے گانوں کی عاشق لوک کتھاؤں اور ہندوستانی سنگیت کو بے حد پسند کرتیں برسات کے موسم میں خالص ہندوستانی عورت کی طرح ہری پیلی چوڑیوں سے کلائیاں بھری رکھتیں۔
چھ مہینے گزارنے کے بعد تہمینہ نے یہ نیک خواہش ظاہر کی کہ کمائی کا آدھا حصہ کی مالکن انہیں بنائیں مرزا صاحب نے تلخی سے کام لیا تو سارے پہاڑیوں کو فون کر کے جمع کر لیا اور وہ حمایتی بن کر مرزا صاحب کو برا بھلا کہنے لگے۔ تہمینہ پہاڑیوں کے رگ رگ سے پہلے سے واقف تھیں۔ پورے دس سالوں کا تجربہ تھا یہاں کے چپہ چپہ میں گھومی پھری تھیں۔ چنانچہ دوپہر کے کھانے کے بعد جب سب قیلولہ کے لئے لیٹتے تو محترمہ وادیوں کی سیر کرتیں اور مرزا صاحب کے خلاف لوگوں کی رائے کا جائزہ لیتیں۔ مرزا صاحب نے کئی بار سمجھایا کہ ایسی حر کت نہ کریں یہ ان کی شرافت پر بدنما داغ ہے مگر وہ تو اسی کی خواہاں تھیں۔ مشرق سے مغرب تک گھوم آئیں تھیں۔ کاشانہِ سمیع میں کیسے رہ پاتیں۔ آخر سمیع صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ پانی سر کے اوپر آ گیا مرزا صاحب نے ایک دن غصے میں آ کر اعلان کردیا کہ اب وہ ایک منٹ بھی نہیں برداشت کرسکتے۔ تہمینہ ہمیشہ کے لیے اس گھر سے نکل جائیں ۔
تہمینہ کا وقت پورا ہوا اور ان کی قضا آ گئی۔ بیٹے کو لے کر تن و تنہا نکل پڑیں۔ چھ سات سال کا عرصہ گزر گیا مگر مرزا صاحب نے کوئی خیر خیریت نہیں لی گھر والوں نے بہت سمجھایا کہ بیٹے کو لے آؤ ۔مگر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ ایک بار کسی عزیز کی شادی میں گورکھپورگئے۔ تہمینہ بیگم کو کسی طرح بھنک لگ گئی انہوں نے وہاں آنے کی زحمت فرمائی اور ساتھ میں کانگڑنوں کی ایک ٹیم بھی لے آئیں اور لہک لہک کر دہائیاں دینے لگیں جبکہ شادی میں انہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا لیکن پہلے سے بڑے اچھے مراسم تھے اس لئے صرف بیٹے کو اندر آنے دیا۔ تہمینہ بیگم کو سیکیورٹی نے باہر کر دیا۔
مرزا صاحب بھی اپنے بیٹے(ستار) کو ساتھ لے کر آئے تھے۔ اتفاق سے دونوں ساتھ ہی بیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔ “تمہارا نام کیا ہے؟؟” مغیث نے پوچھا۔ ”
“ستار بیگ،”
“کہاں سے اورکس کے ساتھ آئے ہو۔ ؟؟”
“قیصر باغ سے۔۔اپنے پاپا کے ساتھ۔”
“تم یہیں بیٹھو میں اپنے ابو سے تمہیں ملواتا ہوں۔”
سمیع بیگ نے مغیث کو دیکھا تو ساون کے بادلوں کی طرح ان کا دل امڈ آیا ۔ ”
“تم بھی اپنے پاپا سے ہمیں ملواوٗ۔”
“میرے پاپا باہر رہتے ہیں۔ میں نے تو خود انہیں کبھی نہیں دیکھا ہے۔” معصوم مغیث کی باتیں سن کر سمیع صاحب کی پلکیں بھیگ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈپارٹمنٹ میں نوٹس بورڈ پر دونوں نے اپنا آئی کارڈ دیکھا تو خوف کے ساتھ ساتھ حیرت میں بھی مبتلا تھے۔ مسٹر ڈونالڈ جینیفر نے کہا؛
’’تم دونوں کے Details میں بڑی گڑبڑی ہے کیا تم دونوں سگے بھائی ہو؟؟” وہ حیرت سے دونوں کو دیکھنے لگے ۔۔مغیث بت کی طرح ساکت کھڑا رہا تھوڑی دیر بعد جواب دیا۔۔۔”ہاں۔” مغیث کا جواب سن کر ستار بھی سکتے میں آگیا۔ شادی سے لوٹنے کے بعد ممی نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا کہ سمیع بیگ ہی میرے والد ہیں۔ گورکھپور کی شادی کے بعد ان کے روئے مبارک کا دیدار اب تک نہ ہو سکا۔ اب تو ماں کا سایہ بھی مجھ پر نہیں رہا۔ اپنے بزنس کے سلسلے میں جاپان گئی ہوئی تھیں۔۔ واپس نہیں آئیں۔ سال گزرتے گزرتے بھورے لڑکے سے مغیث اور ستار کی باقاعدہ دوستی ہو گئی لیکن وہ دونوں اس راز سے واقف نہ ہو سکے کہ وہ جاپان سے یہاں کیوں آیا؟؟#

Published inشہناز رحمانعالمی افسانہ فورم

Be First to Comment

Leave a Reply